پیش لفظ
دین کے احیاءو تجدید کا عمل کئی ایک محور رکھتا ہے، اور یہ وقت تو ایسا ہے کہ عمل کے یہ سبھی محور ہم سے ایک شدید محنت اور ایک انتھک جدوجہد کا تقاضا کرنے لگے ہیں۔۔۔۔
ایک طویل رکود اور جمود کے بعد آج امت میں زندگی کی ایک زوردارلہر اٹھتی دیکھی جارہی ہے تو یہ بھی دراصل احیاءو تجدید ہی کا ایک زبردست مظہر ہے جس کے پیچھے بے شمار داعیوں، مفکروں، عالموں، طالبعلموں، مدرسوں، مسجدوں، انجمنوں، جماعتوں اور شہیدوں کی دو سو سالہ محنت صاف بول رہی ہے۔۔۔۔ اگرچہ خود انہی میں سے کئی ایک نیک طبقے، نادانستگی میں، دوسرے کے عمل اور منہج کو ’بے کار‘ کیوں نہ سمجھتے رہے ہوں اور کئی ایک تو، دوسرے کو ’زائد از ضرورت‘ جاننے کی اس روش پر اب بھی کیوں نہ قائم ہوں!
خاصی دیر کے بعد مشاہدۂ انسانی میں اس وضوح کے ساتھ یہ آنے لگا ہے کہ اس امت کے کسی ایک فرد کا عمل بھی، جوکہ اخلاصِ نیت کے ساتھ اور اصلاحِ احوال کی غرض سے انجام دیا گیا ہو، آخر کار اپنا اثر دکھائے بغیر نہیں رہتا۔۔۔۔ اور یہ کہ آخرت میں تو ان شاءاللہ وہ فائدہ مند ہوگا ہی دنیا کے اندر بھی ثمر لاتا ہے۔ پہلی نسل میں نہ سہی تو دوسری نسل میں، اپنی زندگی میں نہ سہی تو آنے والے کسی دور میں، ’نتیجہ‘ لازماً نکلتا ہے اور ’کھیتی‘ پھل لا کر رہتی ہے!
’اسلامی بیداری‘ __ صَحوَة اِسلَامِیَّة __ آج کرۂ ارض کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور مشرق تا مغرب انسانی دنیا کا سب سے بڑا موضوع بننے جارہی ہے۔ مسلمان تو مسلمان کفار بھی اسی جہانی واقعے کو اس وقت سب سے زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ ہر کوئی اس کو اپنے انداز اور اپنے زاویے سے دیکھ رہا ہے اور اسی بنیاد پر اپنی اپنی قیاس آرائی کرنے میں لگا ہے۔ اس لہلہاتی فصل کو، جو کہ اب خوب سر اٹھانے لگی ہے، دیکھ کر کسی کا دل باغ باغ ہوتا ہے اور ”موسمِ امید“ کی ہزاروں دل کش تصویریں اس کے پردۂ تخیل پر بننے لگتی ہیں، تو کوئی قدم قدم پر اس سے ہول کھاتا اور ہزاروںخطروں اور اندیشوں کو اس کے اندر سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا دیکھتا ہے:
يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ُ!!! (1)
اہلِ ایمان، اہلِ نفاق اور اہلِ کفر اپنی اپنی پہنچان کرانے کے لئے جہاں اور بہت سی نشانیوں سے مدد پاتے ہوں گے وہاں اپنی شناخت کے لئے، آج اس دور میں، اسلامی بیداری کے اس نوخیز واقعے کے اندر بھی ایک زبردست بنیاد پاتے ہیں۔ سبحان اللہ۔۔۔۔! قدرت اس ذات کی جو کسی ایک ہی واقعے کو کسی وقت خیر کی بے شمار جہتوں کا ایک منہ بولتا حوالہ بنا دیتی ہے!
دینی احیاءکی اس امید افزا تصویر کو دیکھنے اور دکھانے کے دوران۔۔۔۔ البتہ یہ درست نہیں کہ اس احیاء(2) کے وہ محور جن پر پوری محنت سے کام ہونا ابھی باقی ہے ہماری نگاہوں سے اوجھل رہ جانے لگیں اور یوں۔۔۔۔ ’جو ہو چکا‘ ہم اسی پر قناعت کرنے لگیں اور ’جو ہونے سے رہ گیا ہے‘ اس کی جانب سے صرفِ نظر ہی کر جائیں!
بنا بریں، اپنے یہاں پچھلی دو صدی سے جو اصلاحی عمل جاری ہے اس کی ستائش کرنا اور اس میں جانیں کھپادینے والی معروف شخصیتوں اور غیر معروف روحوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کے ثواب و اجر کے لئے دعا گو رہنا اس بات کو لازم نہیں کہ۔۔۔۔ اس عمل میں اگر کوئی کمی پائی گئی ہو تو اس کی نشاندہی سے ہی پرہیز کر رکھا جائے۔ اور یہ کہ اس میں جو کوئی نقص رہ گیاہو اور اس کے جو پہلو سنجیدگی کے ساتھ اصلاح کا تقاضا کررہے ہوں، ان کی درستی عمل میں لانے سے ہی اجتناب برتا جائے۔۔۔۔
ایک عمل کو قابل قدر جاننے کا یہ مطلب بہرحال نہیں کہ اس میں بہتری اور اصلاح لانے کی کوشش ہی غیر ضروری ہو اور ’تصحیح اغلاط‘ تو ایک جسارت مانی جائے!
بعینہ جس طرح اپنے موجودہ و گزشتہ داعیانِ دین کی محنت کو یا ان کے منہجِ عمل کو کسی پہلو سے قابلِ اصلاح جاننا اس بات کو لازم نہیں کہ اخلاص سے انجام دیے گئے ان کے اس نیک کام کو بے وقعت جانا جائے!
افراط اور تفریط کے مابین نقطۂ وسط ملنا خدا کی ایک خاص رحمت ہے اور ہم اپنے لئے اور اپنے سب داعیانِ دین کے لئے خدا سے اسی رحمت کے سوالی ہیں۔
اللہم اَلہمنا رشدنا و اَعذنا من شر اَنفسنا
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
٭٭٭٭٭
دین کو پھر سے ان معاشروں کی سب سے بڑی اور سب سے بھاری حقیقت بنا دینے کا یہ جو عمل ہے، اور جس کو کہ ’تجدید‘ اور ’احیاء‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس عمل کے محور متعدد ہیں اور سبھی اپنی اپنی جگہ حد درجہ اہم۔ انہی چیزوں کو ہم ’تبدیلی‘ کے موضوعات کا بھی نام دیتے ہیں۔ انہی موضوعات میں کا ایک اہم موضوع ’فرد‘ کی بابت اپنے داعیوں، مربیوں اور تحریکی حلقوں کے یہاں پائے جانے والے ’تصور‘ کو بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر تر بنانا ہے۔ زیرِ نظر کتابچہ اسی اہم موضوع سے بحث کرتا ہے، یعنی:
وہ مسلم ہستی جسے ہمارے ایک فرد میں بولنا ہے اور پھر ایسے ہی افراد سے مل کر یہاں ایک معاشرہ وجود میں لایا جانا ہے، اس کے وہ اہم اہم اجزائے ترکیبی سامنے لائے جائیں جو کسی حد تک ارتکازِ توجہ سے محروم ہیں؟
اپنے دینی حلقوں کے یہاں پائی جانے والی ’افراد سازی‘ کی صنعت __ جوکہ ہماری خواہش ہے آنے والے دنوں میں حد درجہ فروغ پائے، کہ پوری دنیا ہی اس کی مصنوعات پہ نظریں لگائے بیٹھی ہے بلکہ حق تو یہ ہے دنیا کے بہت سے عظیم کام اور کچھ نہایت برگزیدہ مطالب اسی کی مصنوعات کے انتظار میں موقوف پڑے ہیں اور آج کا یہ تیزی سے پھیلتا اور حد سے پیچیدہ ہوتا جانے والا جہان بے تاب ہے کہ مسلم دنیا کے یہاں سے وہی ’حقیقتِ منتظر‘ اسے نظارہ کرنے کو پھر ملے جس کے ظہور میں، ایک بڑی سطح پر، کچھ صدیوں کا تعطل آیا رہا ہے۔۔۔۔ اور یہ کہ عالمِ انسان میں اسی جنسِ نایاب کی فراہمی بحال ہو تو ’گلشن کا کاروبار‘ چلے! __ اپنے یہاں کی اس صنعت کے کام اور کارکردگی میں، ہماری یہ ناچیز سی محنت کسی بھی پہلو سے ذرہ بھر فائدہ مند ہو۔۔۔۔ تو ہمارے حق میں یہ ایک ناقابل یقین سعادت ہوگی!!!
بنیادی طور پر، یہ کسی خاص ’جماعت‘ کا منشور نہیں۔۔۔۔ اس کا انتساب ’سب جماعتوں کے نام‘ سمجھئے۔ یہاں پر جاری فکری وتربیتی عمل کو بہتر بنانا اس کتابچہ کا اصل مقصد ہے اور اس حوالے سے، یہاں کے تحریکی حلقوں سے یہ اگر ذرا بھی توجہ پاتا ہے تو ہم سمجھیں گے ہماری یہ تحریری جہد بار آور ہوئی۔ گو اللہ کے ہاں اجر پانے کیلئے جو شرط ہے وہ ایسی کسی بھی قید سے آزاد ہے اور اس کا تعلق محض اور محض آدمی کی اپنی ہی نیت اور صوابِ عمل سے ہے، جوکہ اللہ سے مانگنے کی اصل چیز ہے اور یہ خیر ظاہر ہے ہمیں صرف اسی سے مانگنا ہے۔۔۔۔ گو یہ بات اس سے متعارض نہیں کہ خدا کے در سے صواب اور توفیق کی خیر پانے کے لئے اس کے نیک بندوں سے بھی آدمی دعا کا خواستگار رہے۔
ہم ملتمس ہیں اپنے ہر معزز قاری سے کہ اخلاصِ نیت اور صوابِ عمل کے لئے دعا کریں تو یہ نعمت خدا سے ہمارے لئے بھی ضرور مانگیں۔ کیا بعید کوئی ایک ہی شخص، کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہو اور وہ اللہ سے، دعا کرے اور ہمارے لئے نجات کے راستے کھل جائیں۔
٭٭٭٭٭
یہ کتاب چونکہ اس چیز سے بحث کرتی ہے کہ وہ مطلوبہ شخصیت جو دین کو پھر سے اس معاشرے کی ایک زندہ حقیقت بنا دینے کے لئے یہاں مطلوب ہے اور جس کا کہ اپنے مطلوبہ تربیتی عمل میں ہمارے پیش رہنا ضروری ہے، کیونکر سامنے لائی جاسکتی ہے۔۔۔۔ تو اس لئے ’شخصیت‘ کے حوالے سے بعض ایسے اسکیچ بھی کہیں کہیں سامنے آجاتے ہیں جن کا بدلا یا بنایا جانا یہاں کی تحریکی دنیا کے اندر ہمارے خیال میں مطلوب ہے۔ اس کے بغیر ظاہر ہے کلام کی وہ غایت بیان نہیں ہوسکتی جو ایک مطلوب ومقصود ”شخصیت“ ہی کے حوالے سے بیان کی جانا بولنے والے کے پیش نظر ہو۔موضوع کا یہ تقاضا نہ ہوتا تو ہم دینی ’شخصیت‘ کے بعض ایسے نمونوں کو زیر بحث ہی نہ لاتے جو ہماری رائے میں تبدیل replace ہونے کے ضرورت مند ہیں۔ پس اس حد تک ’صریح‘ ہوئے بغیر ہمارا خیال ہے کوئی چارہ نہ تھا۔ ہمیں احساس ہے کہ ایسے مقامات کسی کے لئے ناگواری کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ مگر ’تبدیلی‘ کے یہ موضوعات جو ہم یہاں چھیڑنا چاہتے ہیں اور اس تبدیلی کی ایک تصویر جو اپنے باصلاحیت حوصلہ مند نوجوانوں کو بنا کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔ ”تبدیلی“ کے یہ موضوعات، اس حد تک واضح ہوئے بغیر، نبھائے بھی نہیں جاسکتے تھے۔ پھر بھی اگر یہ بات ہمارے کسی معزز قاری کو ناپسند ہو تو ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔
ہر مسلمان ہم پر یہ حق رکھتا ہے، اور اس معاملہ میں اللہ کے ہاں جواب دہی پر ہمارا ایمان ہے، کہ ہم دل سے اس کی تکریم کریں اور قول اور عمل سے اس کا احترام۔ تحریکی مباحث کے دوران بعض اشیاءکا زیر بحث آجانا، کہ جس سے نقد اور تصحیح کا کوئی پہلو جھلکتا ہو، الگ بات ہے ورنہ اکرامِ مسلم ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس فرض پر پورا اترنا اللہ کا شکر ہے ہمارے پیش نظر رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ادارہ ایقاظ کے پیش نظر تربیت اور تحریک سے متعلق کچھ بہت ہی بنیادی مضامین پر مشتمل، مفید مواد اپنے برسر عمل نوجوان طبقوں کی ضرورت کیلئے سامنے لانا ہے۔ اس حوالہ سے، محمد قطب کی کتاب کا اردو استفادہ بہ عنوان ’دعوت کا منہج کیا ہو؟‘ اشاعت کے مراحل طے کر چکا ہے۔ ہمارے خیال میں،یہ کتاب ہمارے تحریکی حلقوں کی راہ کی کئی ایک گتھیاں سلجھانے کے لئے نہایت عمدہ بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ ’موحد تحریک‘ اور ’سلسلہ شرح رسائلِ توحید‘ بھی ہم انہی بنیادوں کی مزید توضیح کیلئے قیدِ تحریر میں لے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد ایک سلسلہ ’آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟‘ کے اصدار سے شروع کیا گیا۔ کتابچہ ھٰذا اس سلسلے کی ہی دوسری کڑی بنتا ہے، جبکہ اس کے کچھ مزید حصوں کا آنا ابھی باقی ہے۔ ’ایمان کا سبق‘ ایک اور سلسلہ ہے جس کا پہلا حصہ طباعت کے مراحل میں جانے کو ہے۔ سب کچھ اسی ضرورت کی مختلف جہتوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے جو یہاں کے تحریکی مطالب کی تکمیل اور تحقیق کی راہ میں ہمارے نزدیک ناگزیر ہے اور ایک ’بنیادی جمعیت‘ کو وجود میں لے آنے کیلئے حد درجہ مطلوب۔
ان تصانیف سے نکالی گئی اہم اہم موضوعات کی حامل منتخب تحریریں مختصر پمفلٹوں کی شکل میں بھی سامنے لائی جارہی ہیں، جوکہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔
اس پیغام کو عام کرنا بھی ویسے تو ضروری ہے اور ہم امید کریں گے کہ وہ حضرات جو ایسے لٹریچر کی کمی محسوس کریں وہ اس کو پھیلانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں، خاص طور پر اس لئے کہ ایقاظ گنتی کے کچھ ’بے وسائل‘ افراد پر مشتمل ناقابل ذکر سا ایک ادارہ ہے نہ کہ کوئی ’جماعت‘ جو ان موضوعات کو لوگوں سے باقاعدہ توجہ لے کر دے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایقاظ اپنے اس پیغام کو صرف ’تحریروں‘ تک محدود رکھنے کا خواہشمند نہیں۔ بعض تعلیمی، تربیتی اور سماجی نوعیت کے پروگرام جو ’اسلامی تبدیلی‘ کی بعض عملی جہتیں عمل کے میدان میں ہی نمایاں کرسکتے ہیں۔۔۔۔ ایسے بعض عملی منصوبے بھی یقینا ہمارے زیر غور ہیں، جوکہ ظاہر ہے ہم فکر متعاونین کے بغیر انجام نہیں پاسکتے بلکہ شروع ہی نہیں کئے جاسکتے۔
بنابریں، ایقاظ صرف ’نشر و تالیف‘ کا ایک ادارہ نہیں بلکہ یہاں کے تحریکی حلقوں کی فکری وعملی ضروریات ایک معیاری انداز میں پوری کرانے کے جو کئی ایک منصوبے رو بہ عمل آسکتے ہیں یا آنے چاہئیں، ایقاظ ان پر مقدور بھر کام کرنے یا شریک ہونے کا بھی نہ صرف خواہشمند ہے بلکہ اس کے لئے حسب استطاعت کوشاں بھی ہے۔ اس پر بلاشبہہ ہمیں بہت سا تعاون درکار بھی ہے اور خود ہمارا تعاون پیش خدمت بھی۔
ہمارے خیال میں بہت لوگ تو یقینا پہلے سے یہاں پائے جاتے ہوں گے جو کم وبیش انہی خطوط پر، جو مطبوعات ایقاظ میں ’عمل‘ اور ’تحریک‘ کی بابت ہم واضح کررہے ہیں، کئی ایک کاموں اور پروگراموں کو معاشرے کے اندر عملی طور پر آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھنے والے ہوں۔ جبکہ کچھ لوگ ہماری ان تحریروں کو پڑھ کر بھی شاید ایسے منصوبوں کی ضرورت محسوس کرنے لگیں۔۔۔۔ یہ سب خواتین و حضرات اپنے کسی تعلیمی، دعوتی، تربیتی یا سماجی منصوبے میں اگر ہم سے کوئی تعاون چاہیں اور ان کا خیال ہو کہ ان کے ایسے کسی پروگرام کو آگے بڑھانے میں ہم کسی بھی حیثیت میں یا کسی بھی پہلو سے ممد ہوسکتے ہیں، تو وہ یقیناً ہمیں ہمارے ناچیز امکانات سمیت حاضر خدمت پائیں گے۔
البتہ خود ہم اس وقت جس مرحلے کو زیادہ سے زیادہ رفتار کے ساتھ طے کرلینے کی کوشش میں ہیں وہ یہ کہ یہاں مطلوب ”تحریکی عمل“ کا ایک علمی خاکہ سامنے لانے کیلئے مطلوب لٹریچر کم از کم حد تک مہیا کرلیا جائے۔ آپ کے خیال میں یہ اگر اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے تو پھر اس کی تیاری یا کم از کم اس کو پھیلانے میں آپکا حصہ لینا انشاءاللہ ضرور ایک کار خیر ہوگا۔
اور یہ تو واضح ہے کہ تعارف و رابطہ کا بڑھایا جانا تعاونِ باہمی کی راہ میں اولین پیش رفت کا درجہ رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ہماری جملہ تحریروں کے متعلق واضح رہے۔۔۔۔ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے یہاں انہی جوانب کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے جن کو اپنے تحریکی حلقوں میں، ہمارا خیال ہوتا ہے، زیادہ توجہ دلوانے کی ضرورت ہے۔
بنا بریں۔۔۔۔ ایک تو، وہ سب کچھ جو کسی ایک موضوع پر پورے شرح و بسط کے ساتھ پایا جانا چاہیے، ہوسکتا ہے وہ آپ کو ہمارے ہاں ویسی بندشِ مضمون کے ساتھ نہ ملے۔ اس کے برعکس، ایک تصویر کے وہ حصے ہی آپ کو ہمارے ہاں کچھ زیادہ نمایاں ملیں جو عام طور پر یہاں مبہم پائے گئے اور جن کو قاری سے زیادہ توجہ لے کر دینا ہماری نظر میں ضروری تر ہوا۔۔۔۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہم ایک تصویر کو مکمل کرنے اور اس کے کچھ اوجھل حصوں کو نمایاں تر کرنے جا رہے ہیں نہ کہ ایک ’جامع مانع‘ انداز میں بالکل ابتدا سے ایک تصویر بنانے۔
دوسرا۔۔۔۔ کئی ایک ایسے امور کی جانب ہم محض اشارہ ہی کریں اور یا پھر ان کو سرے سے مختصر کرجائیں جو، ہمارے خیال میں، تحریکی موضوعات کے ایک قاری کے مطالعہ میں پہلے ہی سے آتے رہے ہوں گے، یا جن کا پس منظر یہاں کی تحریکی دنیا میں بکثرت ہوتی رہنے والی بحثوں کے حوالے سے قاری کے ذہن میں پہلے سے واضح ہوگا۔۔۔۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہمارے قاری عموما وہ ہوتے ہیں جو تحریکی مباحث کے پڑھنے پڑھانے میں ایک وقت گزار آئے ہیں لہٰذا ہم اگر ان کا وقت اور توجہ لیں تو کسی موضوع کے صرف ان جوانب کیلئے لیں جو یہاں پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے میں کم آتے رہے۔
ہاں ان پہلوؤں پر، جو ہماری نگاہ میں یہاں کے تحریکی مباحث کے اندر کم توجہ پا کر رہے، ہوسکتا ہے آپ ہمارے بیان میں ایک حد تک تکرار بھی پائیں۔ وجہ یہ کہ ہم یہاں کی تحریکی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں۔ علمی اور فنی معنوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف البتہ ہمارے پیشِ نظر ہوتی ہے اور نہ فی الواقع ہم اس کے اہل۔
حامد کمال الدین
(1) سورۃ الفتح: 29 ”وہ (کھیتی) باغبانوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ جلیں بھنیں ان سے کفار“
(2) ”تجدید“ سے متعلق احادیث پر ہم کسی اور وقت بات کریں گے، گو ایقاظ میں اس پر بعض مضمون دیے بھی گئے ہیں، البتہ یہاں ہم یہ واضح کردینا چاہیں گے کہ علماء کی ایک بڑی تعداد اس فہم سے اتفاق نہیں کرتی کہ ہر پورے سو سال کے اندر بس ایک ہی شخص امت کے اندر فرضِ تجدید کو انجام دے گا۔ بنا بریں،یہ ضروری نہیں کہ ہم پوری صدی کے اندر بس ایک ہی ’مجدد‘ کو ڈھونڈنے اور اس کے ’تعین‘ کی بابت بحث ومباحثہ کرنے پر اپنا وقت اور محنت صرف کریں۔ حدیث کے لفظ مَن ´ یُجَدِّدُ لَہُم دِینَہُم ´ میں لغت کے اعتبار سے اس بات کی پوری گنجائش موجود ہے کہ اس سے مراد ایک پورا مجموعہ (طائفہ) بھی ہو، اور یہ کہ کسی دور کی متعدد سر بر آوردہ شخصیات اور اہلسنت کے مختلف طبقے اپنی اجتماعی جدوجہد سے، تجدیدی عمل کے اندر بیک وقت اپنا حصہ ڈالنے والے ہوں۔
اس حدیث کے حوالے سے (جوکہ سنن ابی داود کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ، مستدرک حاکم کتاب الفتن والملاحم، البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ 599 پر اسے صحیح کہا ہے) شارح بخاری امام ابن حجر عسقلانی طائفۂ منصورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اسی توضیح سے ملتا جلتا وہ مفہوم ہے جس پر بعض ائمہ نے یہ حدیث محمول کی ہے: ان اللہ یبعث لہذہ ال اَمة علی ر اَس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا، کہ لازم نہیں (اس سے مراد) ہر صدی کے سرے پر ایک ہی شخص ہوبلکہ اس کا معاملہ بھی وہی ہو جو کہ ’طائفہ‘ کے معاملہ میں ہے۔ یہ توجیہ بنتی بھی ہے کیونکہ وہ سب کی سب صفات جو پوری امت کی تجدید کردینے کے لئے مطلوب ہیں خیر کی متعدد انواع میں سے کسی خاص ایک ہی نوع میں محصور نہیں۔ اور یہ لازم نہیں کہ خیر کے سب کے سب شعبے ایک ہی شخص میں مجتمع ہوں، سوائے یہ کہ اس بات کا دعویٰ عمر بن عبد العزیزؒ کی بابت کر لیا جائے، ہاں وہ ضرور ایسے شخص ہیں جو پہلی صدی کے سرے پر اس امر کو قائم کر پائے جبکہ وہ خیر کی سب صفات سے متصف تھے اور ان میں ہر کسی پر فوقیت رکھتے تھے۔ یہیں سے امام احمد کا یہ اطلاق آتا ہے کہ وہ (سلف) لوگ اس حدیث کو عمر بن عبد العزیزؒ پر محمول کرتے تھے۔ رہے وہ جو عمرؒ کے بعد آئے تو وہ شافعی (ذکر کئے جاتے ہیں) جواگرچہ (ان سب) نیک صفات سے متصف تھے مگر وہ جہاد اور عدل کی حکمرانی کے معاملہ کو قائم نہیں کر پائے ۔ اس بنا پر ہر وہ شخص جو صدی کے سرے پر ان صفات میں سے کسی بھی صفت سے متصف ہوگا وہی اس (حدیث) سے مراد ہوگا، چاہے وہ متعدد لوگ ہوں یا نہ“ (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 13 صفحہ 296، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب تعلیم النبی ﷺ اَمتہ من الرجال والنساء) ابن حجر کے اسی قول کی تحسین صاجب عون المعبود اور صاحب مرعاۃ بھی کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شخص اور ہر گروہ کی تجدیدی محنت ہر قسم کی غلطی اور لاعلمی سے پاک ہو اور لازماً ایک ’مثالی عمل‘ کہلانے کے ہی لائق ہو....
پھر، ضروری نہیں ہر دور کا تجدیدی عمل اپنی صحت اور معیار کے معاملہ میں ایک سی سطح کا ہو۔ شرعی نصوص کے اندر اس بات میں کوئی مانع نہیں کہ کسی ایک دور یا کسی ایک خطے میں پایا جانے والا تجدیدی عمل کسی دوسرے دور یا کسی دوسرے خطے میں انجام دیے گئے تجدیدی عمل کی نسبت اعلیٰ اور بلند پایہ ہو اور یہ کہ کہیں پر تجدیدی عمل کا گراف، بوجوہ، بہت اوپر چلا گیا ہو تو کہیں بہت زیادہ اوپر نہ جاسکا ہو۔ حتی کہ ایک ہی دور کے اندر کسی ایک شخص یا گروہ کی کارکردگی __ احیاءے دین کے معاملہ میں__دوسرے کی نسبت کامل تر یا ناقص تر ہو۔ جبکہ مختلف صدیوں میں ہونے والے کام کا موازنہ کریں تو واقعہ بھی اسی بات کی شہادت دیتا ہے۔