ہَجَو´تَ مُحَمَّداً تو نے محمد کی تنقیص کی ہے؟ |
| فَاَجَبتُ عَنہُ سنو، اِس کا جواب میں دیتا ہوں!۔ | |
رسول اللہ ﷺ کے حق میں بولنا آدمی کے لئے ایک غیرمعمولی شرف ہے۔حسان بن ثابت کے لئے آپ کی موجودگی میں بلکہ آپ کی فرمائش پر منبردھرا جاتا ہے جس پر چڑھ کر وہ نبی ﷺ کی مدح کرتے ہیں اور آپ کی ہجو کرنے والوں کی ہجو۔
ایک نبی کا نام ونمود سے کیا کام۔ وہ تو سب سے بڑھ کر خدا آگاہ شخص ہوتاہے اور خدا کی عظمت کا منہ بولتا سبق۔ مگر کسی انسان کو جو مرتبہ دینا خدا کے پیش منشا ہو، بلکہ کسی ہستی کا جو مقام زمین کے اندر طے کر دینا خدا کا فیصلہ ہو، اُس سے لوگوں کو آگاہ کرانا بھی نبی ہی کا کام ہے۔ یہ ہے وہ وجہ جس کے باعث، اپنا وہ مقام اور احترام جو خدا نے رہتی دنیا تک کے انسانوں پر آپ کی شان میں فرض ٹھہرا دیا ہے، امت کو بتانے اور سکھانے کا فریضہ آپنے کمال دیانت اور بے ساختگی کے ساتھ سرانجام دیا۔
بے شک مکے کی حالت ضعیفی میں نبی آخرالزمانﷺ کے ساتھ جہالت و بدتمیزی سے پیش آنے والوں کے ساتھ اعراض کا اسلوب اپنایا گیا اور ”وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا “ کو ایک مثال بنایا گیا۔ گو وہاں پر بھی جہاں کسی بااثر صحابی کا بس چلا یا جہاں صورت حال نے کوئی ایسا موقعہ دیا وہاں ترکی بہ ترکی جواب دینے میں بلکہ جواب سے بھی ’آگے‘ چلے جانے میں ہرگز کوئی تردد نہ کیا گیا، مگر جیسے جیسے آپ کے موحد جانثاروں کا وجود کسی قبیلے یا علاقے کے اندر معتبر اور محسوس واقعہ بنا ویسے ویسے ہی نبی کی بابت زبان درازی کو آخری حد تک ناقابل برداشت ٹھہرایا جانے لگا۔۔
تو پھر اب جب یہ امت دنیا کے تین متصل براعظموں کے اندر تاحد نگاہ پھیلی ہوئی ہے اور اذان میں اشہد ان لا الہ الا اﷲ اور اشہد ان محمداً رسول اﷲ کی صدا زمین پرسورج کے ساتھ ساتھ چلتی ہےآج جب اس نبی کے نام لیواؤں کی تعداد کل انسانی دنیا کی ایک چوتھائی ہے آج کی اس مسلمان بھری دنیا میں جہاں انسانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بھی معمولی معمولی بات پر بگڑ کر دکھانا اپنا ’انسانی حق‘ جانتے ہیں اور جہاں کوئی گئی گزری قوم بھی اپنے نام اور اپنے مقدسات کی تضحیک ہو جانے نہیں دیتی وہاں آج مغرب میں جپے جانے والے کچھ بے معنی الفاظ اور دہرے معیار کے حامل کچھ کھوکھلے شعارات کے احترام میں یہ امت کیا اپنے نبی کی تضحیک برداشت کرلے جسے خدا نے اس کے شرک اور گمراہی سے نکل آنے کا ذریعہ بنایا ہے اور جس کی وساطت اسے اپنی موحدانہ بندگی کا سلیقہ بخشا ہے اور جس پر دن میں پانچ پانچ بار اہتمام کے ساتھ درود بھیجنا فرداً فرداًاس کے ہر شخص پر فرض کررکھا ہے؟!
خود آپ کی زندگی کے اندر آپ کی شان سے فروتر بات کرنے والے کو جواب آپ کی طرف سے نہیں بلکہ کسی امتی کی طرف سے ملتا تھا اور نہایت خوب مناسب جواب ملتا تھا۔ پھر آج تو یہ حق ہے ہی امت پر کہ وہ اپنے نبی کے اس مقام اور ناموس کا تحفظ کرے کہ کوئی بدزبان اس کو پہنچنے کی جسارت نہ کرے۔
’امتی‘ آخر ہیں کس لئے؟؟؟
یہ حسانؓ بن ثابت ہیں جو ابو سفیان کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک امتی ہے جو اپنے نبی کے حق میں بولنے کے لئے اٹھا ہے اور اس کا صلہ صرف اور صرف خدا کے ہاں پانے کا امیدوار ہے:
وَعِندَ اللّٰہِ فِی ذَاکَ الجَزَاء | ھَجَوتَ مُحَمَّداً فَاجَبتُ عَنہُ |
”تم نے محمد ﷺ کی تنقیص کی۔سنو اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ اس پر میرا صلہ کسی کے دینے کا ہے تو وہ خدائے رب العالمین کی ذات ہے“
شاعر صلے اور داد کی طلب سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔یہ شاعر بھی ’صلے‘ سے بے فکر نہیں۔مگر ممدوح کی عظمت کا تقاضا ہے کہ داد پانے کے لئے خدائے رب العالمین سے کم کہیں نگاہ نہ ٹکے!
فَشَرّکُمَا لِخَیرِکُمَا الفِدَاء | اتَھجُوہُ وَلَستَ لَہ بِکُفءٍ |
”تم محمد ﷺ کے منہ آتے ہو۔ کیا تم ان کے برابر کوئی چیز ہو سہی؟ تم اور وہ، جو کمتر ہے وہی بہتر پر وارا جائے گا“
چاند پر تھوکنے والے کو ہمیشہ آئینہ دیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اپنی یہ تصویر دیکھنا اس کا حق ہے:اتھجوہ ولست لہ بکفءٍ!!!
تم میں اور ان میں کوئی نسبت بھی تو ہو۔۔۔۔!
اُس شخص کے بارے میں جو ڈیڑھ ہزار سال سے ایک آدھی دنیا کو خدائے وحدہ لاشریک کے آگے پوری بصیرت کے ساتھ سجدہ ریز کرانے کا ذریعہ بنا آیا ہے اور تہذیب انسانی پر جس کے نشاناتِ انگشت سب سے نمایاں ہیں اور مشرق تا مغرب ہر محقق کو اُس کی عظمت کے نئے سے نئے پہلو تلاش کرنے کی بابت تجسس دلاتے ہیں اس برگزیدہ ہستی کی بابت تم جو ہرزہ سرائی کرنے جارہے ہو تمہاری ان کے سامنے کوئی اوقات بھی تو ہو!
ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر جہاں خاندانی قدریں تباہ ہوچکی ہیں اور آدھی قوم اپنے والد سے شرفِ تعارف کا ذریعہ نہیں پاتی اور جہاں شجرۂ نسب ’ہسپتال‘ سے آگے نہیں بڑھتے اور جہاں خون کے رشتے ’ڈی این اے‘ میں تلاش کرنا پڑتے ہیں اور جہاں اکثر پائے جانے والے انسان ’غلطی‘ یا ’چوک‘ کا نتیجہ باور ہوتے ہیں اور یا پھر کسی ’حادثے‘ کا۔۔ اور جہاں سے دنیا کو انارکی و برہنگی کے علاوہ عالمی جنگوں اور تباہ کن بارودوں کے تحفے مل چکے ہیں۔۔۔۔ ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر تم خدا کے نبیوں کو تہذیب اور امن کا طعنہ دینے چلے ہو!؟
بخدا، آج ہمیں ان شاعروں اور ادیبوں کی ضرورت ہے جو صرف ’نعت‘ کہنا نہیں بلکہ وقت کے زندیقوں کو اپنے نبی کی جانب سے ’جواب‘ بھی دینا جانتے ہوں اور جواپنے ادب کے اس رجزومعرکہ پرصلہ محض خدا سے پانے کے متمنی ہوں۔
خدایا! ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو ”ایمان“ کا لحن دے!