ہماری قدریں عالمی طور پر ’ریکگنائز‘ کیوں نہیں ہوسکتیں؟ |
| تمہارا یہ آزادیِ اظہار | |
یہی وہ بند ذہنی اور تنگ نظری ہے جو بار بار اُدھر سے ہمیں اپنی ہی قدروں کے راگ سنائے جاتے ہیں اور اُنہی کی عظمت و سپاس کے واسطے دیئے جاتے ہیں۔
خدا کے نبی کی توہین سے کسی ’آزاد شہری‘ کو روک دینا تمہارے یہاں ’تہذیب‘ کے منافی ہے! مگر یہودی ہولوکاسٹ کا ’استہزاء‘ کرلینے پر تم فرانس میں چند سال پیشتر اسلام قبول کرلینے والے فلسفی روجیہ جارودی Roger Garaudyکو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرلیتے ہو(1)۔ اِس لئے کہ تمہارا قانون یہودیوں کے ’قومی جذبات مجروح‘ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔تمہارے اس آوارہ چلن ’آزادیِ اظہار‘ کو آخر ایک ’یہود‘ سے ہی کیوں پردہ ہے؟
مسئلہ اصل قدروں کا ہے۔ ہولو کاسٹ کا تقدس بھی چونکہ تمہارے ہاں پائی جانے والی ایک ’قدر‘ ہے لہٰذا یہاں ’آزادیِ اظہار‘ پر قدغن عائد ہونا عین ’تہذیب‘ ہی کا تقاضا ہے!!!۔۔۔۔ اِس ’آزادیِ اظہار‘ کی دہائی تب مچے گی جب ہم مسلمان اپنے نبی کی ناموس کی بات اٹھائیں گے!!! ’آزادیِ اظہار‘ کے حق میں تمہاری حمیتِ جاہلیت ’یہود‘ کے سامنے جھینپ کر رہتی ہے مگر اسلام کا تقدس مجروح کرنے کیلئے بے قابو ہو ہو جاتی ہے!
دنیا میں تمہارے علاوہ گویا کوئی اور رہتا ہے اور نہ کوئی اپنی مستقل بالذات قدریں رکھتا ہے۔ تمہاری نگاہ میں سب سے زیادہ کوئی اس وقت کھٹکتا ہے جب وہ آپ اپنی قدروں کا تعین کرنے لگے۔فاشزم اس کے علاوہ کیا ہے؟ ’دوسرے‘ کا وجود برداشت نہ کرنے کا الزام پھر بھی مسلمانوں پر !!؟
’دوسرے‘ کا وجود اِن کو پوری طرح تسلیم ہے اگر ’دوسرا‘ اپنے وجود اور اپنی پہچان کے معاملہ میں اِنہی سے حوالے لینا قبول کرے! ’دوسرے‘ کا وجود اِن کی نگاہ میں ہرگز قابل اعتراض نہیں اگر ’دوسرا‘ اپنی وابستگی خصوصاً اپنی فدائیت کے محل کا تعین کرنے کے معاملہ میں اِنہی کے فلک میں گھومے اور فکر وتہذیب کے باب میں اِنہی کے مدار کے اندر گردش پر آمادہ ہو! یہ سادہ لوحی کی انتہا ہے یا مکاری کی؟ یہ تو ’دوسرے‘ کا وجود نہیں ’اپنا‘ ہی وجود تسلیم کرنا ہے!
کیا واقعتا اِن دہرے معیاروں اور اِن یک طرفہ بنیادوں پر یہ دنیا امن و چین سے سرفراز ہو سکتی ہے جس کو آج ایک جُڑی ہوئی بستی کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے اور جس کے اندر آسمانی قدوںپر ایمان رکھنے والی امت قریب قریب زمین کی ایک چوتھائی ہے ؟!
ہم بھی تو ’آزادیِ اظہار‘ کا دائرہ وہیں تک تجویزکرتے ہیں جہاں یہ قدروں کی پامالی کا باعث نہ ہو۔ اختلاف اور اعتراض پھر ہے کہاں پر ؟ یہ کہ اِس امت کی قدریں بھی ایک عالمی حوالے کے طور پرجانی پہچانی جائیں اور جو کہ اپنی فطرت میں دنیا کی سب قدروں سے منفرد اور متمیز ہیں۔ مگر یہ کہ اِن کے سوا ’کوئی دوسرا‘ بھی معتبر ہو اور اسلامی شرعی قدریں آج کسی بھی سطح پر وقت کا ایک معتبر حوالہ ٹھہریں، یہ بات کب آسانی سے تسلیم ہو سکتی ہے؟
************
واقعتا کئی ایک ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ مغرب میں آزادیِ اظہار کی جب ایک ریت پائی جاتی ہے اور اُن کا اپنا ایک طرزِ زندگی ہے تو آخر کیسے اُن کو ہم ’اپنے‘ طرزِ حیات کا پابند کر دیں اور ان سے کہیں کہ تمہیں اپنے لوگوں کو وہ بات کہنے یا لکھنے سے روک کر رکھنا ہوگا جسے ہمارے یہاں ”توہینِ رسالت“ باور کیا جاتا ہے اور جوکہ ہم مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل برداشت فعل ہے؟ آخر وہ مسلمان تو نہیں کہ ہم انہیں ناموسِ رسالت کا پابند کریں، خصوصاً جبکہ ’آزادیِ اظہار‘ اُن کی تہذیب اور اُن کے طرزِ حیات کے اندر ایک نہایت مرکزی حیثیت کا حامل اصول ہے۔ اپنے اِس اصول سے وہ ’ہمارے‘ کسی عقیدہ کے لحاظ میں بھلا کیسے دستبردار ہو جائیں!
یہی نہیں، کئی ایک کے ہاں تو یہ تاثر بیٹھا ہوا ہے کہ ’صاحب! مغرب میں تو آدمی چاہے جس چیز پر بھی بات کر لے، جس انداز سے کر لے، جب تک معاملہ ’زبان‘ یا ’قلم‘ تک محدود ہے اور نوبت کسی ’عملی زیادتی‘ physical assault تک نہیں پہنچ رہی تو اِس پر بھلا وہاں کیا قدغن ہوسکتی ہے؟ کوئی کتنی بھی غلط سے غلط بات کرے، اُس کا اپنا منہ ہے جو مرضی بولے، مغرب کا یہی تو فرق ہے کہ وہاں لوگوں کی زبانیں پکڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی‘!
’ہولوکاسٹ کے گستاخ‘ کی توبہ بھی قبول نہیں!
تو پھر آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں ’کسی کی زبان پکڑنے‘ کا دستور واقعی پایا جاتا ہے یا نہیں۔۔ اور آیا مغرب میں کسی قوم کے ہاں ’نازک‘ مانے جانے والے الفاظ وتعبیرات پر قدغن ہے یا صرف ہمارے ہی مقدسات پر بھونکنے کی آزادی ہے۔۔۔۔ آئیے اِس کے لئے ایک ’عدالتی واقعہ‘ ملاحظہ کرتے ہیں:
واقعہ کسی بہت پرانے زمانے کا نہیں، اور پرانے زمانے کا ہو بھی نہیں سکتا ورنہ تو شاید شیکسپیر اور چارلس ڈکنز کو بھی ’سام دشمنی‘ Anti-Semitism پر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر لیا جاتا! واقعہ اِسی زمانے کا ہے اور صرف تین سال پرانا ہے۔ یوں بھی مغرب کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر شخص کہے گا کہ یہ واقعہ ہمارے اِسی دور کا ہو سکتا ہے۔ واقعہ کسی ’تنگ نظر‘ ایشیائی یا افریقی معاشرے کا بھی نہیں کہ جس کی آسانی سے ’مذمت‘ ہو جائے، بلکہ قلبِ یورپ کا ہے:
تین سال پیشتر جب یہ واقعہ پیش آیا تو تمام ذرائع ابلاغ میں نشر ہوا۔ پیر، 20 فروری 2006ء کی یہ رپورٹ بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر آج (21 فروری 2009ء) کی تاریخ تک موجود ہے اور اگر آپ یہاں کلک کریں تو شاید آج بھی آپ کو ویسے کی ویسے ملے۔ رپورٹ کے چند پیرے ہم آپ کے ملاحظہ کیلئے انگریزی نص بمع ترجمہ پیش کرتے ہیں:
عنوان ہے:
Holocaust denier Irving is jailed
ہولوکوسٹ کے انکار کے مرتکب اِروِنگ کو سزائے قید
پھر ذیلی عنوان ہے:
British historian David Irving has been found guilty in Vienna of denying the Holocaust of European Jewry and sentenced to three years in prison۔
یورپی یہودیوں (پر گزرنے والی) ہولوکاسٹ کے انکار کا مرتکب پائے جانے والے برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ اِرونگ کو ویانا میں تین سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اور اب خبر کے کچھ پیرے:
He had pleaded guilty to the charge, based on a speech and interview he gave in Austria in 1989۔
اُس نے اپنے اوپر عائد الزام کی بابت اعتراف جرم کیا، جس کی بنیاد اُس کی ایک تقریر اور ایک انٹرویو بنا جو اُس نے 1989ءمیں آسٹریا میں دیا تھا۔
"I made a mistake when I said there were no gas chambers at Auschwitz," he told the court in the Austrian capital۔
آسٹریا کے دار الحکومت میں اُس نے عدالت کو بیان دیتے ہوئے کہا ”مجھ سے غلطی ہوئی جب میں نے یہ کہا کہ آسچوٹس میں (عقوبت کے) کوئی گیس چیمبرز نہیں تھے“۔
Irving appeared stunned by the sentence, and told reporters: "I'm very shocked and I'm going to appeal۔"
اِروِنگ سزا کا سن کر ہکا بکا نظر آیا۔ رپورٹروں سے باتیں کرتے اُس نے کہا: ”مجھے شدید حیرانی ہوئی ہے اور میں اپیل دائر کروں گا“(2)
An unidentified onlooker told him: "Stay strong!"
Irving's lawyer said he considered the verdict "a little too stringent"۔
"I would say it's a bit of a message trial", said Elmar Kresbach۔
ایک تماشائی نے، جس کی شناخت نہ ہوسکی، اس موقعہ پر اس کی ہمت بندھاتے ہوئے اُسے مخاطب کیا: ’حوصلہ رکھو‘!
اِروِنگ کے وکیل ایلمر کریس بیچ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں فیصلہ ذرا سا زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے کہا: میں یہ کہوں گا کہ یہ مقدمہ دراصل ایک ’پیغام‘ تھا۔
Irving, 67, arrived in the court room handcuffed, wearing a blue suit, and carrying a copy of Hitler's War, one of many books he has written on the Nazis, and which challenges the extent of the Holocaust۔
67 سالہ اِروِنگ کمرۂ عدالت میں حاضر ہوا تو اُس کو ہتھکڑیاں پہنائی ہوئی تھیں۔ وہ نیلے کوٹ پینٹ میں ملبوس، اپنی کتاب ’ہٹلر کی جنگ‘ اٹھائے ہوئے تھا، جوکہ نازیوں پر لکھی گئی اس کی متعدد کتب میں سے ایک ہے اور جس میں ہولوکاسٹ کی (مبینہ) شدت کو مشکوک ٹھہرایا گیا ہے۔
Irving was arrested in Austria in November, on a warrant dating back to 1989, when he gave a speech and interview denying the existence of gas chambers at Auschwitz۔
اِروِنگ کو نومبر میں آسٹریا میں گرفتار کیا گیا تھا، اس کے وارنٹ پرانی تاریخ 1989ءتک پیچھے جاتے ہیں، جب اور ایک انٹرویو کے اندر اُس نے آسچ وٹس میں (عقوبت کیلئے برتے جانے والے) گیس چیمبرز کے وجود کا انکار کیا تھا۔
'I've changed'
’میرا موقف بدل چکا ہے‘
He admitted that in 1989 he had denied that Nazi Germany had killed millions of Jews۔ He said this is what he believed, until he later saw the personal files of Adolf Eichmann, the chief organiser of the Holocaust۔
اُس نے اعتراف کیا کہ 1989 ءمیں واقعی اُس نے نازی جرمنوں کے ہاتھوں کئی ملین یہودیوں کے قتل ہونے کا انکار کیا تھا۔ اُس نے کہا کہ تب اُس کا یہی خیال تھا، جب تک کہ بعد ازاں اُس نے ہولوکاسٹ کے ناظمِ اعلیٰ ایڈولف ایچ مین کی ذاتی فائلیں خود نہ دیکھ لیں۔
"I said that then based on my knowledge at the time, but by 1991 when I came across the Eichmann papers, I wasn't saying that anymore and I wouldn't say that now," Irving told the court۔
"The Nazis did murder millions of Jews۔"
”یہ میں نے تب اپنے اُس وقت تک کے علم کی بنیاد پر کہا تھا، مگر 1991ءمیں جب مجھے ایچ مین کے وثائق دیکھنے کو ملے تب سے میں نے یہ کہنا موقوف کر دیا تھا، اور اب میں یہ بات نہیں کہتا ہوں“، اِروِنگ نے عدالت کے سامنے (اپنے حالیہ موقف کی بابت) بیان دیتے ہوئے کہا۔ ”یقینا نازیوں نے کئی ملین یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا“
In the past, he had claimed that Adolf Hitler knew little, if anything, about the Holocaust, and that the gas chambers were a hoax۔
The judge in his 2000 libel trial declared him "an active Holocaust denier۔۔۔ anti-Semitic and racist"۔
ماضی میں اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ اڈولف ہٹلر کو ہولوکاسٹ (کے عقوبت خانوں) کا اگر علم تھا بھی تو کچھ زیادہ علم نہ تھا اور یہ کہ ’گیس چیمبرز‘ محض ایک ڈھکوسلہ رہا ہے۔
2000ءمیں (برطانیہ کے اندر چلنے والے بہتان کے) مقدمہ میں جج نے اُس کو ’ہولوکاسٹ کا سرگرم انکاری، سام دشمن اور نسل پرست‘ قرار دیا تھا۔
On Monday, before the trial began, he told reporters: "I'm not a Holocaust denier۔ Obviously, I've changed my views۔
"History is a constantly growing tree - the more you know, the more documents become available, the more you learn, and I have learned a lot since 1989۔"
پیر کو، عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے اس نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا: میں ہولوکاسٹ کا انکاری نہیں ہوں۔ یہ ایک واضح بات ہے کہ میں اپنے نظریات تبدیل کر چکا ہوں۔ ’تاریخ‘ ایک ایسا درخت ہے جس کی نمو جاری رہتی ہے۔ جتنا آپ معلومات میں آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی آپ کو زیادہ وثائق اور دستاویزات میسر آتی ہیں اور اتنا ہی آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ، اور 1989ءسے لے کر اب تک میں بہت کچھ نیا جان چکا ہوں۔
Of his guilty plea, he told reporters: "I have no choice۔"
He said it was "ridiculous" that he was being tried for expressing an opinion۔
اپنے اعترافِ جرم کی بابت استفسار پر اُس نے کہا: میرے پاس کوئی چارۂ کار نہ تھا۔
اُس نے کہا یہ ایک بے ہودہ بات ہے کہ اُس کو اپنی رائے کا اظہار کرنے پر عدالت میں کھینچ لایا گیا۔
یوں تو مغرب کے ہاں مانے جانے والے ’فکری جرائم‘ 'thought crimes' کے مرتکب افراد کی ایک طویل فہرست آپ کو فراہم کی جاسکتی ہے(3)،اور جس سے کہ ’آزادیِ اظہار‘ کی حدود بھی آپ پر بخوبی واضح ہو جائیں گی۔۔ مگر اِن میں سے ڈیوڈ اِروِنگ کی دلچسپ مثال ہم نے خاص اِس لئے منتخب کی ہے کہ اِروِنگ عدالت میں کھڑا ہو کر صاف کہہ رہا ہے کہ میں اپنے اُس پرانے قول سے رجوع کر چکا ہوں، اب میں ویسے ہی اُس بات کا قائل نہیں رہ گیا ہوں، اور نہ اب میں وہ بات کبھی کہوں گا، اور یہ کہ یہ میری معلومات کا نقص تھا اور مجھے اپنی غلطی تسلیم ہے۔۔ اِس کے باوجود ڈیوڈ اِروِنگ کو تین سال قید کی سزا ملتی ہے! اول تو محض ایک اعتقاد رکھنے پر قدغن، کہاں ہے آزادیِ فکر؟ پھر محض اُس کا ایک انٹرویو اور ایک تقریر میں آجانا قابلِ مواخذہ جرم، جس پر (1989ءتا 2006ء) سترہ سال گزرنے کے باوجود اُس کو عدالت کے کٹہرے میں لے آیا جاتا ہے، کہاں ہے آزادیِ اظہار؟ اور پھر ایک شخص کو ’تائب‘ ہو جانے کے بعد اور عدالت میں بار بار اِس ’توبہ‘ کا تذکرہ ہونے کے باوجود اُس کو ہتھکڑیاں ڈال کر سرِ محضر لایا جاتا ہے اور ’سزا‘ سنادی جاتی ہے، آخر ایک اعتقاد، ایک نظریہ اور ایک قول ہی تو تھا جس سے اب اُس نے رجوع کر لیا ہے۔ ’ہولوکاسٹ کے گستاخ‘ کی تو ’توبہ‘ تک قبول نہیں ہے!!!
تو کیا واقعتا مغرب کا یہ نام نہاد ’آزادیِ اظہار‘ ہرگز کسی ’قید‘ سے واقف نہیں؟
کیا واقعتا ہر آدمی وہاں آزاد ہے کہ وہ جو مرضی کہے اور جو مرضی لکھے، چاہے کسی قوم یا کسی طبقے کے جذبات ہی اُس کے اِس ’کہے‘ سے مجروح کیوں نہ ہوتے ہوں؟
کیا واقعتا یہ ایک ’عجیب وغریب‘ اور ’انہونی‘ بات ہوگی کہ ڈیڑھ ارب مسلمان آج مغرب سے یہ تقاضا کریں کہ جس طرح ’سامی‘ جذبات کے احترام میں یا اِسی طرح کے کچھ ’نازک مقامات‘ پر اُن کے یہاں ’زبان سنبھال رکھنے‘ کی پابندی ہے اور جس طرح یہودیوں کے ’ہولوکاسٹ‘ کی حرمت کے بالمقابل اُن کے یہاں ’آزادیِ اظہار‘ کی حدود ختم ہوجاتی ہیں، اور یہ کہ جس طرح زبان وقلم پر ایسی کسی پابندی کے عائد ہونے سے اُن کے ’تہذیبی خدوخال‘ پر کوئی قیامت نہیں آ جاتی۔۔ اُسی طرح ہمارے مقدسات کے بالمقابل اور ہمارے نبی کی حرمت وناموس کے آگے وہ اگر زبانوں کو لگام دے رکھنے کے پابند رہتے ہیں تو بھی اُن کے ’آزادیِ اظہار‘ پر کوئی قیامت نہیں آ جائے گی؟؟؟
خود مغرب ہی کی منطق کی رو سے ہمارے اِس مطالبے میں آخر کونسی انہونی بات ہے؟؟؟؟؟
ہمارے ’روشن خیال‘ متعجب نہ ہوں، معاشروں میں کچھ چیزوں کی حرمت قائم کر دیے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ”حرمت“ ہمارے یہاں تاج دارِ مدینہ کے مقام کو اور اُس سے پہلے اُسے مبعوث کرنے والی ہستی کو اور اُس کی نازل کردہ کتاب اور اُس کے دین کے شعائر کو حاصل ہے۔۔ کسی نہ کسی چیز کی حرمت تو ہر معاشرے کی ہی ضرورت ہوا کرتی ہے!
یہ تو قسمت قسمت کی بات ہے، ’حرمت و ناموس‘ کے حوالے سے ہمارے نصیب میں کیا آیا اور اُن کے نصیب میں کی۔۔۔۔!!!
نبی ﷺ نے حنین کے موقعہ پر انصار رضی اللہ عنہم کو اپنی محبت جتانے کے لئے کہا تھا کہ ”کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ اونٹوں اور بھیڑوں بکریوں کے غنائم لئے اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو لئے اپنے گھروں کو لوٹو!“
تو پھر کیا ہمیں یہ پسند نہیں کہ روزِ قیامت جہاں کسی کے پاس پیش کرنے کو ’ہولوکاسٹ‘ یا ’وطن‘ کا پورٹریٹ یا اسی جیسے کچھ کھوکھلے ’شعائر‘ کی حرمت ہو اور وہ اِس پر یوں نازاں ہوں گویا آسمانِ تہذیب کو تھگلی لگا چکے،وہاں ہمارے پاس پیش کرنے کیلئے اللہ کی تعظیم اور ’صاحبِ مقامِ محمود‘ کی محبت ہو اور ’صاحبِ شفاعت‘ کی حرمت وناموس کے ساتھ ہماری ایک غیر متزلزل وابستگی اور ایک مر مٹنے والی فدائیت۔۔۔۔؟!!!!
اللہم احشرنا مع نبیک المصطفیٰ وباعد بیننا وبین القوم الظالمین!!!
(1)فرانسیسی فلسفی روجیہ جارودی، جس نے اپنا اسلامی نام ’رجاءجارودی‘ رکھا، کو عدالت کے کٹہرے میں لے آنے والا ایک ’آزدیِ اظہار‘ بنا، یعنی اس کی ایک تصنیف جس کا فرنچ میں عنوان تھا: Les Mythes Fondateurs de la politique israelienne اور انگلش میں: The Founding Myths of Israeli Politics یعنی: ”اسرائیلی سیاست کی اساسی خرافات‘، (ہم اگر اپنے الفاظ میں اِس کا ترجمہ کریں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں: ’جدید سیاست کی اسرائیلیات‘!) تب 84 سال کے اِس عمر رسیدہ مفکر کو پیرس کی ایک عدالت میں کھینچ لایا گیا۔ یہ 27 فروری 1998ءکا واقعہ ہے۔جرمانہ و ہرجانہ ملا کر، کل دو لاکھ چالیس ہزار فرانک دے کر اِس بوڑھے نومسلم کی جان چھوٹی، جس پر اِسی ’آزادیِ اظہار‘ کا جرم سرزد ہوجانے پر کل پانچ مقدمے قائم ہوئے تھے۔ جارودی نے اِس کتاب میں کسی کو گالی نہ دی تھی، محض کچھ مزعومہ حقائق کو تاریخی بنیادوں پر چیلنج کیا تھا، مگر علاوہ دیگر الزامات، جارودی پر یہ فرد جرم بھی عائد ہوئی کہ وہ provoking racial hatred یعنی ’نسلی منافرت کو ہوا دینے‘ کا مرتکب ہوا ہے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ جارودی کو Journal officiel de la Republique Francaise میں اظہارِ افسوس کا بیان بھی دینا ہوگا۔ تھاٹ کرائمز آرکائیو نے اس رپورٹ کیلئے رائٹرز 27 فروری 1998ءاور لندن ٹیلی گراف 28 فروری 1998ءکا حوالہ دیا ہے۔ دیکھئے:
http://www.codoh.com/thoughtcrimes/9802rg.html
(2) بعد ازاں، اسی سال اگست کے مہینے میں آسٹریا کی سپریم کورٹ نے اِروِنگ کی یہ اپیل بھی خارج کر دی!
(3) اِس کیلئے اگر آپ صرف یہ سائٹ دیکھ لیں تو ’فکری جرائم‘ میں سزا پانے والے مغرب کے بیسیوں نام آپ کے سامنے آجائیں گے:
http://www.codoh.com/thoughtcrimes/thoughtcrimes.html