| | کیا اللہ اور نبی سے بڑھ کر؟؟ |
| ممَّا سِوا هُما(1)۔ | |
دنیا کی سب قومیں ہی اپنے لئے ان قدروں کا تعین کرتی ہیں جو ان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ سمجھی جائیں
مغرب کے تنگ نظر مفکرین آخر یہ کیوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا اِن پر ختم ہو جاتی ہے اور یہ کہ جس نعمت سے اِن کے اپنے معاشرے محروم ہیں اُس کادنیا میں کہیں وجود تسلیم کیا ہی نہیں جاسکتا اور یہ کہ خدا کے نبیوں اور خدا کی کتابوں کی تعظیم و تقدیس سے یہ خود اگر تہی دامن ہیں تو کسی اور کو بھی اُس کی پھر کیا ضرورت ہوسکتی ہے!؟ چاہتے ہیں قومی سطح پر غیرت اور فخرکی کسی کے ہاں کوئی بنیاد ہوتو صرف وہ جسے یہ جانتے ہیں اور جو کہ لے دے کر گھسی پٹی وہی چند باتیں ہیں جو کسی بھی ملک کے قومی ترانے کے چند بولوں میں پوری ہو جاتی ہیں!
آسمان سے رشتہ منقطع کرلینے والے ان بے سمت معاشروں کو حقیقی مقدسات کا مفہوم کون سمجھائے؟
ایک محمد ﷺ ہی تو ہیں کہ خدا کے بعد جن پر ہم فخر کرتے ہیں
خدا اور اس کا رسول نہیں تو پھر دنیا میں یہاں فخر کے لئے رکھا کیا ہے؟ بطور ایک موحد مسلمان-- ملک وہ چیز نہیں جس پرمیں فخر کروں یا جس کے لئے میں کسی وقت آپے سے باہر ہونے لگوں ؛ ہر شخص کا ہی کوئی نہ کوئی ملک ہے جہاں زندگی کے کچھ سال اُسے رہنا ہے اور پھر مر کر ہمیشہ کے لئے دفن ہو جانا ہے، اس میں ’فضیلت‘ کی کیا بات؟؟؟ میں اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو اس کی عظمت کے گیت گاتا!!! ایسی ناپائیداربنیاد، اُس انسان کے لئے جو موت کے بعد بھی زندگی پانے پر یقین رکھتا ہو، کیا وجہ افتخار ہوسکتی ہے؟؟؟
قوم،نسل،رنگ،زبان -- کون سی چیز ہے جو اس جہانِ محدود سے پرے دیکھنے والے کسی انسان کی نگاہ میں ’تقدس‘ کا درجہ رکھ سکتی ہے؟ہر انسان ہی حیاتِ فانی کے اِس مرحلہ میں کوئی نہ کوئی قوم اور کوئی نہ کوئی وطن رکھے گا اور کوئی نہ کوئی زبان بولے گا!!!فخرکی بات ہوسکتی ہے تو وہ جو اِس ’کوئی نہ کوئی‘ سے بڑھ کر ہو۔ یہ ایک خدا کی ذات ہے جس کے سوا ہر’کوئی‘ باطل ہے اور ایک رسول کی ہستی ہے جس کے سوا ہر ’کوئی‘ ہدایت سے تہی دامن۔
اِس سوال پر آئیں تو اِس امت کے سوا کسی کے پاس کچھ کہنے تک کے لئے کیا رہ جاتا ہے؟کیا ہے کسی کے پاس جو وہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور محمد ﷺ کی رسالت کے بالمقابل پیش کرسکے؟ ہماری تو زندگی اِس میں ہے ؛اِس جہان کی زندگی ہی نہیں، اگلے جہان کی زندگی بھی ---- کوئی کب تک ہمیں ہماری حقیقی قدروں سے دور رکھ سکتا ہے؟؟؟ کوئی کب تک ہمیں بے معنی قدریں دے کر بہلا سکتا ہے؟؟؟
ظالم باربارپوچھتے ہیں کہ ایک ’شخص‘ جو چودہ صدیاں پیشتر سرزمین حجاز میں ہوگزرا ہے وہ آج کے سوا ارب زندہ انسانوں کے لئے ،حتی کہ اس امت کے گناہگار انسانوں تک کے لئے،اتنا اہم کیوں ہے کہ اُس کے معاملے میں ایک ’چھوٹی سی‘ بات ہو جانے پر یہ یوں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ----! بے شک یہ لوگ’معلومات‘ اور’تحقیقات‘ کا بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن ان کا یہ سوال واقعتا اگر ’تجسس‘ پر مبنی ہے تو واللہ یہ انتہائی قابل ترس لوگ ہیں!
اللہ اور اس کا رسول نہیں تو اِس کے سوا اور ہے کیا جس پر کوئی شخص آخری حد تک چلا جانے پر تیار ہو؟ ہمارے لئے اس سے بھی بڑے تعجب کی بات ہے کہ وہ باتیں جن کے لئے تم عالمی جنگوں تک میں کود جانے اور دنیا کو جہنم میں بدل دینے کے لئے تیار ہو جاتے رہے ہو ان میں سے کون سی چیز ’مقدس‘ کہلانے کے لائق ہے اور تمہارے ایک دوسرے پرغراتے چلے جانے کے لئے وجہ جواز ہو سکتی ہے؟
اف خدایا!!! عجب دَور ہے کہ لوگ خدا کے ایک نبی کے لئے انسانوں کی جاں نثاری پر حیران ہیں!!! یہ دنیا جس میں لوگ گھٹیاگھٹیا مقاصد پر جان دے لیتے ہیں خدا کے ایک خاص فرستادہ نبی کے ساتھ اِس امت کی ایمانی و جذباتی وابستگی پر انگشت بدنداں ہیں! اس پر سوال کی ابھی باقاعدہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ آخر ہوا کیا ہے جو زمین کے کئی ایک براعظم مسلم غم و غصہ کے باعث یوں تھرانے لگے ہیں!
یہ تو اِن انسانوں کی خوش نصیبی ہے جو خدا کے رسول کی توقیر کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ورنہ اصل میں تو یہ خدا ہے جو بصیرت کے اندھوں کو دکھاتا ہے کہ اُس کو اپنے رسول کاکتنا پاس ہے اور یہ کہ اُس کا رسول زمین میں آج بھی کتنا معزز ہے! کہیے تو کوئی اور بھی شخص ہے جس کی ذات اور ناموس کے سوال پر زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک انسانوں کے سمندر یوں ٹھاٹھیں مارنے لگیں؟!
هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (الانفال : 62) ”(اے نبی)وہی تو ہے جس نے تیری مدد کی ،اپنی مدد سے ،اور مومنوں کے ذریعے“
خدا کے ایک نبی پر جاں نثار ہونا تو تعجب نہیں فخر ہی کی بات ہے البتہ تعجب کی کوئی بات ہے تو وہ یہ کہ فخر کرنے اور جاں نثار ہونے کے لئے ایک قوم کے پاس کوئی بنیاد نہ ہو اور اگر ہو تو وہ وہی جو ہر ایک کے پاس ہے!
فخر ہو تو اس بات پر جو کسی کے پاس نہ ہو!!! یہ البتہ وہ بات ہے جس کے باعث ان کے گھاگ لوگ امیوں کی اِس امت کے ساتھ بے پناہ حسد کرتے ہیں اور اس امت کو اپنی کتاب اور اپنے رسول سے یوں چمٹا دیکھ کر کوئلہ ہوتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جو ہمارے یہاں کے ان ’روشن خیالوں‘ سے اوجھل ہے جو فکرِ مغرب کے کوڑے میں اپنے لئے فخر اور تشخص کی بنیادیں تلاش کرتے ہیں۔
کچھ باتیں صرف ایمان سے ہی سمجھ آسکتی ہیں!
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون : ۸)
”عزت اللہ کے لئے ہے،اس کے رسول کے لئے ہے اور مومنوں کے لئے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں“
*******
کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں ، جیسا کہ ہمارے کچھ دانشور ہمیں توجہ دلاتے ہیں، کہ مغرب کے اخبارنویسوں اور میڈیا سازوں کو ہمارے عقائد اور ہماری قدروں کا کیا اندازہ۔ تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے پس ان کے ساتھ توضیح و تفسیر کا ہی انداز اپنایا جانا چاہیے تھا۔
باوجود اس کے کہ ڈنمارک میں ہونے والی اس اخباری شرارت کے پیچھے شیاطینِ ارض کا ایک خرانٹ باخبر طبقہ ہے اور جس کا سرغنہ امریکہ کا ڈینیل پائپس ہے اور یہ صبح شام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنا کینہ اگلنے میں مصروف ہے پھر بھی کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ ان کو اس بات کی وضاحت ہی کر کے دی جانی چاہیے تھی کہ مسلمانوں کے لئے نبی ﷺ کی ذات کس قدر تعظیم اور حرمت کے لائق ہے
مگر کیا یہ وضاحت ان کو کر کے نہیں دی گئی؟ ڈنمارک کے مسلمانوں نے اور پھر مصر کے مسلم علماءنے کیا متعدد بار ان کو آگاہ نہیں کیا کہ نبی اسلام کی حرمت امت مسلمہ کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل مسئلہ ہے اور اس پر یہ امت کہاں تک جاسکتی ہے؟
اور پھر کچھ باتوں کی وضاحت تو ہو ہی اس وقت سکتی ہے جب لہجے کی شدت زبان کا ساتھ دے رہی ہو۔ اس انداز کی شدت پر ہمارے ’داعیانِ مصلحت‘ کو تعجب کیوں ہوتا ہے؟
کوئی بجلی کے ننگے تار کو ہاتھ لگا لینے کے قریب ہو اس کو آپ کس انداز میں ٹوکتے ہیں؟ کسی پستول میں گولی بھری ہو اس کی طرف ہاتھ بڑھانے والے نادان کو آپ کس انداز میں ’وضاحت‘ کرکے دیتے ہیں؟ کوئی آپ پر گاڑی چڑھا دینے کے قریب ہو آپ اس کو کتنے ’آرام اور سکون‘ کے ساتھ اس بات سے ’مطلع‘ کرتے ہیں؟ ایک بم پر کسی پاگل کا ہاتھ جاپڑنے والا ہو اس پر آپ کیا ’اسلوب‘ اختیار کرتے ہیں؟
کچھ باتوں کی محض ’اطلاع‘ کردینے کیلئے بھی آپ کو ’شدت‘ اور ’تاثرات‘ کی ایک خاص حد تک جانا ہوتا ہے۔ اسکے بغیروہ ’اطلاع‘ ہی نامکمل رہتی ہے اور’سننے‘ والے کو اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ ’معاملہ‘ کس نوعیت کا ہے،جو کہ بلاشبہ ابلاغ کا نقص ہے۔
قوموں اور تہذیبوں کے مابین ’اطلاعات‘ کے اس پہلو کا ضروری ہونا بھی بعض مواقع پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے یہ اصحاب خاطر جمع رکھیں۔تہذیبوں کو اپنا مدعا سنانے کے لئے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے خصوصاً جب کسی ایک طرف سے سن کر ہی نہ دیا جائے۔ سنانے کے لئے آواز ’اونچی‘ کردینا ابلاغ کے منافی نہیں۔ چند بے قاعدگیوں کو مستثنیٰ کردیا جائے تو امت اسلام کی جانب سے کوئی بات ’بلاضرورت‘ نہیں ہوئی۔
(1) یعنی ”کیا اللہ اور رسول سے بڑھ کر بھی کوئی ہمیں عزیز ہو؟!!۔۔ اشارہ ہے ”مما سواہما“ کے ان الفاظ کی طرف جو اِس حدیث میں آئے ہیں: ثلاث من کن فیہ ذاق بہن حلاوة الاِیمان: ان یکون اللہ ورسولہ اَحب اِلیہ مما سواہما، و ان یحب رجلا لا یحبہ الا للہ، و ان یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یقذف فی النار (البخاری)
”تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ ان کے دم سے ایمان کی مٹھاس چکھ لیتا ہے: یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کو اپنے ماسوا ہر چیز سے عزیز ہوں، اور یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اور صرف اللہ ہی کیلئے محبت کرے، اور یہ کہ وہ کفر میں پلٹ کر چلا جانے اتنا ہی بھاگے جتنا وہ آگ میں پھینک دیا جانے سے بھاگے گا“۔