| | اِس پر خاموشی کیسی؟ |
| ذاتِ مصطفی کی نصرت ہر اُمتی کا فرض | |
وہ سب مواقع، جب ہم یہاں ’ملکوں‘ اور ’قوموں‘ اور رنگ برنگ ’پرچموں‘ کے بجائے ”امت“ کو برسرِ کار دیکھیں(بے شک کسی وقت اس پیکار میں کچھ بے اعتدالیاں کیوں نہ پائی گئی ہوں) ہمارے لئے بابرکت لمحات کا درجہ رکھتے ہیں۔۔
’جذباتیت‘ عمل کی اصل بنیاد نہیں مگر عمل کیلئے کچھ بہت نامساعد بھی نہیں۔ اندریں حالات یہ بہت زیادہ غیر مطلوب بھی نہیں!
ضروری نہیں ”علم“ اور ”فہم“ اور ”عقیدہ“ کی اہمیت اجاگر کرنے والی دعوتیں اپنے حالات اور گردوپیش سے لاتعلق رہ کر ہی دکھائیں۔ ’دین‘ کی یہ کوئی اچھی ترجمانی ہے اور نہ ’دانش‘ کی کوئی مناسب تصویر۔
”اللہ“ اور اس کا ”رسول“ اور اس کا ”دین“ اور اس کی ”حدیں“۔۔ جہاں یہ علم اور بصیرت اور ایمان کے بنیادی موضوعات ہیں وہاں یہ ایک صاحبِ ایمان کی وفاداری اور وابستگی کے جوش میں آجانے کے سنجیدہ ”مقامات“ بھی ہیں۔ ”ایمان“ کیلئے دونوں کا بیک وقت پایا جانا ضروری ہے۔
’فہم‘ اور ’جذبہ‘ میں پس ضروری نہیں ایک تعارض کا رشتہ ہی تلاش کیا جائے۔ ’علم‘ اور ’حمیت‘ کے مابین تضاد کا رشتہ ڈھونڈ نکالنے والی دعوتیں ہرگز قابلِ تقلید نہیں۔ ایسا تعارض ’فکر و دانش‘ کے نام پر پایا جائے یا ’عمل و تحریک‘ کے نام پر، ہر حال میں قابلِ ازالہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اس امت کے ہر فرد، ہر عورت اور مرد پر فرض ہے۔ کوئی نیک اور متبعِ سنت اس فرض سے مستثنیٰ ہے اور نہ کوئی فاسق اور مبتدع۔ رسول اللہ کے حق میں سب کو بولنا ہے اور ایک مشترک بنیاد پہ آکر سب کو ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کسی وقت جہان کا موضوعِ سخن ٹھہرے، چاہے اس کا کچھ بھی پس منظر ہو ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کے اظہار کا دنیا میں کسی وقت سوال اٹھ کھڑا ہو ۔۔ تب کون ہے جس کے پاس پھر خاموشی کی گنجائش رہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے خود بخود اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے نئے نئے افق طلوع کرانے کا ذریعہ بنتے دیکھے گئے۔ اس مسئلہ کے اٹھ کھڑا ہونے کی دیر تھی، بیشتر غیر مسلم ملکوں میں سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرکتب دھڑا دھڑ فروخت ہوئیں اور وہاں کے اسلامی مراکز میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعارف پانے کیلئے منعقد نشستوں میں شریک لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ خود اہلِ اسلام کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی وعملی پہلوؤں کی جانب توجہ کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر محسوس ہوئی!
عین یہ موقعہ تھا جب سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اس دور کے مناسب حال تصنیفات کی شدید کمی محسوس کی گئی اور اس پر کام کرنے والوں کو عمل کی ایک نئی مہمیز ملی!
عین یہ موقعہ تھا جب ’نبوت‘ اور ’آسمانی صحیفے‘ اور ’ادیان‘ ایسے عنوان دنیا کے پڑھے لکھوں کے مابین پھر سے موضوعِ بحث بننے لگے، جس سے بعید نہیں خود بہت سے مسلمانوں نے اپنے نبی سے تعارف کا ایک از سر نو موقعہ پایا ہو۔ اس جدل کا، جو اب بہت دلچسپ ہوتی جارہی ہے، ہم بھی کچھ تذکرہ کریں گے۔
سڑکوں پر برآمد ہونے والا یہ انسانی سیلاب جہاں امت کے اہل علم و دانش کو سرگرمی کے بہت سے کام دے گیا وہاں جہادی قوتوں کو بہت سی پزیرائی دلانے میں مؤثر رہا۔
کچھ شقی دلوں پر خدا کی حجت قائم ہوتی نظر آئی۔
کیا کافر کیا مسلم، دنیا کا کوئی شخص ایسا نہ رہا ہوگا جس نے ذرائع ابلاغ کے اندر لڑی جانے والی اس جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ہر روز کئی بار نہ سنا ہو۔ کچھ تو ہوں گے جو یہ پوچھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہیں کون؟ کچھ تو ہوں گے __جو آپ کے بارے میں دریافت کرنے کیلئے__ آپ کا ٹھٹھہ کرنے والے شرپسندوں کی بجائے آپ پر ایمان رکھنے والے مصادر سے رجوع کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و وابستگی کی ایک تجدید نو اس موقعہ پر ہر صاحب ایمان کے حصہ میں آئی۔
دشمن نے اس امت کی رگوں میں زندگی کی وہ رمق دیکھی جس کا وہ اپنی مریل قوموں میں تصور تک نہ کرسکے۔
امت کے ایک بڑے طبقے نے ”اللہ و رسول کیلئے دوستی اور اللہ و رسول کیلئے دشمنی“ کے عملی اسباق لئے۔ خود شناسی اور خودداری کی ایک نئی جہت برآمد ہوئی۔ خود کفیلی کی جانب اس امت کا طویل المیعاد سفر، جو ملٹی نیشنلز کے چاکلیٹوں اور سافٹ ڈرنکس کیلئے پائے جانے والے ’نخرے‘ اور ’منہ کے مزے‘ کے باعث ذہنوں کی دنیا تک میں معطل پڑا تھا، ایک نئی کروٹ لے کر شروع ہو۔۔ اور خدا کرے کہ اب یہ سفر آگے سے آگے بڑھے، جب تک کہ یہ امت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو جاتی!
۔۔۔۔ بحران بھی آئیں تو اس امت کیلئے خیر ہی لاتے ہیں !