یہ ایک ’دَور‘ ہے ’واقعہ‘ نہیں!!!۔ | |
تین سال پیشتر ڈنمارک کے کچھ بدبختوں نے جب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کئے، کہ جن میں رحمت للعالمین کو __معاذ اللہ__ بارود اور تباہی کی رمز بنا کر پیش کیا گیا تھا۔۔ اور یہ روسیاہی اُن چند اخباری اداروں اور ٹی وی چینلوں تک محدود نہ رہی جو اِن خاکوں کو باربارشائع کرکے اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرتے رہے تھے، بلکہ مغرب کے اوباشوں کی ایک بڑی تعداد دیر تک اس پر تالیاں بھی پیٹتی رہی۔۔ تو جواب میں امت اسلام بھی شرق تا غرب اٹھ کھڑی ہوئی اور مغرب اور عالم اسلام کی عرصہ سے جاری اس کشمکش کو کچھ نئی جہتیں دے دینے میں کامیاب رہی، کہ جن کا جاری رہنا ہم سمجھتے ہیں آج بھی ضروری ہے۔۔۔۔
اِس ’میڈیا کے زمانے‘ میں ہمارے شعائرِ دین اور ہمارے اساسیاتِ ایمان کے ساتھ چھیڑخانی کے یہ واقعات آئے روز پیش آنے لگے ہیں، خصوصاً ہماری کتاب اور ہمارا نبی تو اُن کی اِس ہرزہ سرائی کا ایک بڑا ہدف ہے، جس میں ان کے سیاست دانوں سے لے کر پوپ اور پادریوں تک اور ان کے صحافیوں اور ٹی وی چینلوں سے لے کر ادیبوں اور دانشوروں تک سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اور تو اور ’ہالی وڈ‘ اِس اظہارِ دشمنی کے مقابلہ میں کسی سے پیچھے نہیں اور اسی کے نقش قدم پر ان کا سارا ’شوبز‘۔۔ اور اب یہ سلسلہ آگے سے آگے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔
ابھی تھوڑا عرصہ پہلے، ہالینڈ کے ایک ’ممتاز‘ رکن پارلیمنٹ نے مغربی مفکروں، مستشرقوں، میڈیا ماہرین اور سیاستدانوں کی مدد سے ’فتنہ‘ نام کی فلم بنا دی۔ ’فتنہ‘ کا لفظ ظاہر ہے مغربی زبانوں میں مستعمل نہیں، مگر اِس کا یہی عربی نام چلایا جارہا ہے اور ہر جگہ ’ترجمہ‘ کر کے بتایا جارہا ہے کہ ’فتنہ‘ کا مطلب کیا ہے۔ یہ بدبخت ’فتنہ‘ کسے کہہ رہا ہے، خاکم بدہن، ہر شخص جانتا ہے۔ ایسے ہی اور واقعات ہیں جو آئے روز پیش آ رہے ہیں، جن کی تفصیل ہماری اِس مختصر کتاب میں سمانے کی نہیں۔
مسلم تحریکوں کے پیش نظر یہ ہونا چاہیے، اور ہے، کہ ایک تو اِس پورے ابلیسی سیناریو کی بابت ہی عالم اسلام کا وہ لہجہ بنائیں جو اِس آئے روز کی شیطنت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ضروری ہے۔ دوسرا، اُس جذبے کو زندہ رکھیں جو تاحال دیکھنے میں آیا ہے کہ ’واقعہ‘ ہونے پر ہی جاگتا ہے اور اُس کی بازگشت ہلکی پڑتے ہی، یا پھر ان چیزوں کو ’معمول کی بات‘ دیکھ کر، سرگرمی کھونے لگتا ہے۔
حالانکہ ہمیں ایک ’واقعہ‘ سے نہیں بلکہ ایک ’دَور‘ سے معاملہ درپیش ہے ۔ امت کو اِس کے ساتھ ویسے ہی پیش آنا ہو گا جس طرح کسی متعین دور اور زمانے کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے، نہ کہ ڈنمارک یا اٹلی یا ہالینڈ سے آنے والی کسی ’خبر‘ کے ساتھ۔
لازم ہے کہ اِس پر ہمارے باقاعدہ ادارے صبح شام سرگرم عمل ہوں۔ کوئی ’واقعہ‘ ہوجائے، جوکہ ہوتا ہی رہتا ہے، تو اِن کے پاس اتنا کچھ تیار ہو کہ لمحوں میں مطلوبہ رد عمل سامنے لے آئے جائیں اور مسلم اقوام کو موبلائز کرنے میں بھر پور کامیابی حاصل ہو۔ مگر ایسی فوری اور ہنگامی صورتحال نہ بھی در پیش ہو تو بھی یہ ادارے ناموسِ رسالت پر مسلم معاشروں کو بلکہ پوری دنیا کو بہت کچھ دے رہے ہوں، تاکہ یہ بازگشت مسلسل بلند ہو۔
بلاشبہ یہ ایک ’مستقل ضرورت‘ ہے۔ اِس کو ایک باقاعدہ محاذ سمجھ کر خاص اِس مقصد کیلئے وجود میں آنے والی تنظیمیں، انجمنیں، ادارے اور پروگرام ہر ہر ملک میں اگر سامنے آتے ہیں تو یہ ایک نہایت بروقت کام ہوگا۔ اِن کے مابین تنسیق co-ordination ہونا بھی یقینا مفید ہوگا۔ بہت سا تحریری و علمی مواد، بہت سا آڈیو اور ویڈیو مواد ایسا ہوسکتا ہے جو محض ایک زبان سے دوسری میں ڈھال دینے سے ’نصرتِ مصطفی ‘ کی یہ تحریک عالمی سطح پر کہیں زیادہ موثر اور مفید ہوسکتی ہے اور امت کو اِس محاذ پر متحرک اور یک جہت کر دینے کا باعث بھی۔
جو صورت آج ہم امتِ اسلام کو درپیش ہے، اور جس کی جانب حرفِ آغاز میں اشارہ ہوا ہے، وہ تاریخ کا بے حد خاص نقطہ ہے۔ اِس لمحہ، یہ خاص ضروری ہو گیا ہے کہ ہم سب اپنے نبی کی حرمت وناموس کے گرد جاں نثار بن کر حلقہ زن اور متحد و یک جہت ہو کر صف آرا ہوں اور آپ کے مرتبہ ومقام کیلئے اپنی فدائیت پورے جہان کے اندر نمایاں ترین کر دیں۔ آج اِس جہت میں اگر ہم زیادہ سے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں تو عنقریب ہم دیکھیں گے کہ ”احترامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم “آج کی عالمی قدروں میں ایک نمایاں ترین قدر ہے، ان شاءاللہ۔
یہ اگر ہو جاتا ہے، تو یہیں اِسی نقطہ سے، پھر آپ دیکھیں گے کہ اِس امت کے عروج کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔
یوں بھی دنیا کے سمٹ کر ایک بستی بن جانے کے اِس تاریخی مرحلہ پر اِس ’عالمی دیہہ‘ global villageکی یہ ایک طبعی ضرورت ہے۔ جہاں بھی کوئی نئی آبادی ہونے لگے وہاں کچھ trends ابتدا ہی کے اندر سیٹ کر دیے جانا ضروری ہوتے ہیں۔۔ ایسا ہے تو پھر اب اِس پہلو سے بھی امتِ اسلام پر اپنے نبی کا ایک خاص حق واجب الاداء ہے۔
سب سے پہلے۔۔ ہمیں اپنے معاشروں کے اندر اِس دعوت کو ایک کلائمکس تک لے جانا اور اِس آہنگ کو نہایت زوردار بنانا ہوگا۔ خود اِسی کے نتیجے میں ان شاءاللہ ایک عالمی لہجہ تشکیل پا جائے گا۔اِس کو عالمی سطح پر لیجانے کے کیا انتظامات عمل میں آئیں، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اِس پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ حالیہ تحریر اِس بات کی کوشش ہے کہ اِس لہجہ کی تشکیل کے کچھ بنیادی ترین عناصر کو ہی نمایاں ترین کر دیا جائے۔