وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنّ(1)۔ |
| اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے کچھ آدمی اور کچھ جن | |
آج کے اِس ’گلوبل ولیج‘ میں ’پر امن بقائے باہمی‘ کی ایک پرانی بھلی رِیت قوموں اور امتوں کے مابین اب بھی برقرار رکھی جائے تو کیسے۔۔۔۔؟
یہ ایک بے حد اہم سوال ہے اور جہاں آج یہ عقلائے عالم کو سب سے بڑھ کر پریشان کئے ہوئے ہے، بلکہ اِس ایک سوال نے بقائے عالم کیلئے پریشان طبقوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، وہاں اِس سوال کا جواب دینے کو دنیا کے کچھ طاقتور ترین forums پر پائے جانے والے انتہائی با اثر شیطانوں کا ایک ٹولہ آج ہمارے سامنے ہے جس کو اپنی تاریخی کدورتیں پالنے اور اپنے گھناؤنے اَہداف پورے کرانے کے سوا کسی چیز سے غرض نہیں، چاہے اِس کی اِس ابلیسی تسکین کے نتیجے میں امنِ عالم تہس نہس اور پوری دنیا جہنم کیوں نہ بن جائے۔۔۔۔
نہایت خرانٹ اور ڈھیروں ہنر پاس رکھنے والے کچھ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک شیاطین کا یہ ٹولہ۔۔ آج نہ صرف انسانی دنیا پر اثر انداز ہونے کے معاملہ میں بہت کچھ ہاتھ میں کر چکا ہے اور بڑی دور دور تک رسائی پا چکا ہے بلکہ اِن کی اپنی اقوام میں اگر کوئی ایسا خردمند عنصر پایا جاتا ہے جو اِن کی اِس روش کے ممکنہ انجام سے آگاہ ہے اور جو اپنی اقوام کو بھی اپنے شرپسندوں کی اِس روش کے تباہ کن مضمرات سے خبردار کرنے میں مخلص نظر آتا ہے، تو یہ ٹولہ اپنی قوم کے اُن ہمدردوں اور خردمندوں کو اپنے یہاں بے اثر کر دینے پر بھی کمال کی قدرت رکھتا ہے۔
یہ عالمی شر پسند ٹولہ جو آج نہ صرف اپنی اقوام کی نبض اپنے ہاتھ میں کر چکا ہے بلکہ عالمی لہجوں کی تشکیل پر بھی کمال کی دست رس رکھتا ہے۔۔ یوں تو ہزار رنگ میں اپنا خبثِ باطن آشکارا کرتا ہے، اور حق سے عداوت کو ہزارہا صورت میں اور پوری جان مار کر نبھاتا ہے ، مگر اِس کی ایک خاص ابلیسی رگ اُس وقت پھڑکتی ہے اور اِس کا خبث ہر ہر حد پار کرجانے کیلئے اُس وقت بے چین نظر آتا ہے بلکہ اِس کی برداشت ہی سرے سے جواب دے جاتی ہے جب یہ اہلِ اسلام کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر فدا ہوتا دیکھے اور جب یہ آدھے جہان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا سنے۔۔۔۔ جس قدر تکلیف شیاطینِ عالم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی سے ہے، کسی چیز سے نہیں۔
دوسری جانب ’میرِ حجاز‘ کی ٹھاٹھیں مارتی عقیدت سے سرشار عالم اسلام ہے، کہ:
؎ اِس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا!!!
ایک ہی نام ہے __ محمد صلی اللہ علیہ وسلم __ کہ جس سے ایک فریق حد سے بڑھ کر خار کھاتا ہے، اور یہ وہ ٹولہ ہے جس کا کل مفاد اِس بات سے وابستہ ہے کہ تمام کی تمام انسانیت اب اُس نجاست ہی کے دریا میں غرق ہو جائے اور اُس باطل ہی کا دور دورہ ہو جائے جس کو جہانِ نو کے اندر پزیرائی دلانے میں شیاطینِ عالم اِن آخری صدیوں کے دوران کچھ غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔۔ اور یہ ٹولہ اسمِ محمد سے بڑھ کر دنیا میں کسی چیز سے وحشت نہیں کھاتا ۔۔۔۔ تو دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں، پاکیزگی پسندوں اور حق پرستوں کے کلیجے پر ٹھنڈک ڈالنے والا اِس سے بڑھ کر کوئی انسانی نام نہیں۔۔۔۔!!!
ایک ہی نام ہے __ محمد صلی اللہ علیہ وسلم __ جو ایک فریق کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہے۔۔ تو دوسری طرف، ایک فریق کے لئے اِس نام سے بڑھ کر کوئی راحتِ جاں نہیں۔۔۔۔!!! محمدٌ فرقٌ بین الناس!!! کوئی اِس نام میں آج اپنے لئے موت کے پیغام پڑھ رہا ہے۔۔ اور کوئی اپنے حق میں اِس کو آبِ حیات سے بھی بڑھ کے دیکھتاہے!
جہاں یہ نصیب نصیب کی بات ہے وہاں اب یہ اِس ’گلوبل ولیج‘ کا ایک چیختا چنگھاڑتا سوال ہے، کہ: اِس عالمی بستی کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے دل میں بسنے والی ایک شخصیت __ محمد صلی اللہ علیہ وسلم __ کے تذکرہ کے لئے، کہ جس کی ناموس پر اپنا آپ نچھاور کر دینا اور اپنی قیمتی سے قیمتی متاع قربان کر دینا یہ ڈیڑھ ارب انسان اپنی زندگی کا ماحصل جانتے ہیں۔۔ آیا اِس شخصیت کے تذکرہ کے لئے آج کی اِس جہانی بستی میں باقاعدہ حدود اور قیود رکھے جائیں، یا یہ __ معاذ اللہ __ کسی بھی نام جیسا ایک نام ہو؛ کوئی اِس کی حرمت کا پاس کرنا چاہے تو اُس کی خوشی، نہ کرنا چاہے تو اُس کی مرضی!!!؟؟؟ آیا اِس ذات والا صفات کی حرمت کی بابت اِس بستی میں رہنے والے ہر شخص کو کچھ ایسے ’سرخ خطوط‘ red lines سے خبردار کر رکھا جائے جن کو پھلانگ کر گزر جانا یہاں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو روند کر گزر جانے کے مترادف ہو بلکہ تو اِن ڈیڑھ ارب انسانوں کی نگاہ میں یہ اِس سے بھی کہیں بڑھ کر سنگین اور چیلنج کن۔۔۔۔؟؟؟
ایک ایسی شخصیت جس کی بابت توہین کا ایک کلمہ تو کیا آنکھ کے غلط اشارے کو بھی اِس عالمی بستی کے ڈیڑھ ارب باشندے اپنے خلاف بدترین اعلانِ جنگ باور کریں اور اس کی ناموس کو محفوظ بنانے کے سوال پر وہ ہر ہر حد تک چلے جانے کو اپنا جزوِ ایمان جانیں۔۔ اُس ذاتِ عالی صفات پر بات ہونا آیا کچھ حدوں کے تابع رکھا جائے۔۔؟ یا پھر ان حدوں سے تجاہل برت کر بھی یہاں ’پر امن بقائے باہمی‘ کے راگ الاپنے کی کوئی افادیت بلکہ کوئی گنجائش مانی جائے؟؟؟ بلکہ جہاں اِن حدوں کو پہچان کر نہ دیا جارہا ہو وہاں ’پر امن بقائے باہمی‘ کے راگ ہی کیوں اعلانِ جنگ باور نہ ہوں؟؟؟
اُن کے بیان کردہ ’گلوبل ولیج‘ کا مطلب ہم یہ لیتے ہیں کہ اب یہ وہ زمانہ نہیں کہ لندن، پیرس، نیویارک، برلن، روم، ویٹی کن، سٹاک ہوم اور کوپن ہیگن کے گلی محلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخانہ لفظ بولا جائے اور وہ مکہ، قاہرہ، دمشق، لاہور، دلی، جکارتہ، قسطنطنیہ، سرائیوو اور فرغانہ کے نمازیوں کے کان میں نہ پڑے، یا جسے مدینہ، رباط، خرطوم، ٹمبکٹو، بغداد، تاشقند، ہرات اور حیدرآباد کے نمازی اپنے ’شہر‘ میں ہونے والا ایک چیلنج کن اور غیرت آزما واقعہ نہ سمجھیں!!!
’گلوبل ولیج‘ اگر اِنہی کی دی ہوئی ایک اصطلاح ہے، اور اِنہی کا کہنا ہے کہ اِس بستی کی سب دیواریں اب سانجھی ہو چکی ہیں۔۔ اور یہاں کا ہر واقعہ اگر ایک ہی شہر کا واقعہ ہے، تو کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ وہ لاہور، دلی، قاہرہ، دمشق، صنعاءیا پشاور میں کھڑا ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے اپنی کھال سمیت گھر واپس جا سکتا ہے؟؟؟
تو پھر کیا یہ حق نہیں کہ جوں جوں یہ جہان ’ایک بستی‘بنے توں توں اِس عالمی بستی کے ہر شخص کو آگاہ کرایا جائے کہ ایک نام نامی یہاں ایسا ہے جو وقت کا رسول ہے اور جس پر ایمان لانے یا نہ لانے کا تو زندگی زندگی اُسکو پورا اختیار ہے مگر اُسکی شان میں گستاخی ایک ایسی حرکت ہے جسے یہاں پائے جانے والے اُسکے ڈیڑھ ارب جاں نثار اپنے خلاف آخری درجے کا اعلانِ جنگ باور کرتے ہیں اور یہ ڈیڑھ ارب انسان کچھ بھی معاف کر سکتے ہیں مگر اپنے نبی کی شان میں کسی کی گستاخی معاف کردینے کا اِنکو سرے سے حق نہیں؟ یعنی ایک ایسا حق جو اِن پر واجب الاداءہے اور جسکو ساقط کر دینا اِنکے اپنے حق میں گناہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا تمہاری اپنی مرضی، اور اِس پر کوئی زبردستی نہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تمہارا زبان سنبھال کر بات کرنا اِس دنیا میں ہمارے جینے کی شرط ہے اور اپنے جینے کی شرط پوری کرنا اِس دھرتی پر پائی جانے والی ہر مخلوق کا حق۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ صرف انسان ہی کا معاملہ نہیں، جس مخلوق کے لئے بھی یہاں جینے کی شرط پوری ہونا آپ دوبھر کر دیں گے وہ اپنے سے پہلے آپ کا جینا لایعنی و بے وقعت جانے گی!
یہ ایک نہایت سادہ اور صریح پیغام ہے جسے اِس ’بستی‘ کے کچھ نہایت با اثر و با خبر کان آج ’سن کر‘ نہیں دے رہے اور جسے ہماری جانب سے بار بار سنائے جانے کے باوجود وہ بدستور ’اَنجان‘ بنے نظر آتے ہیں بلکہ اِس ’تجاہل‘ سے کام لے کر وہ ہمیں ’امن‘ اور ’بقائے باہمی‘ کے ہی کچھ ایسے سُر سنانے پر بضد ہیں جو اِس جہان میں صرف آتش فشانوں ہی کو جنم دیں گے۔
یہاں، حصۂ اول میں، اِس ’پیغام‘ ہی کی کچھ جہتیں بیان کی گئی ہیں، جو کہ ہم سمجھتے ہیں آج ہر مسلمان ہی کو ازبر ہونی چاہئیں بلکہ تو غیر مسلم کان اِن سے مانوس ہونے چاہئیں۔ ’سنانے‘ کیلئے اگر ’اونچا بولنا‘ ضروری ہو گیا ہے تو آئیے اپنی کتاب اور اپنے نبی کی حرمت پر آواز میں آواز ملا کر ’اونچا‘ بولیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر خاموش رہنا درست ہے اور نہ آہنگ ہلکا کرنا۔۔ جب تک کہ دوسری جانب سے ’سن کر‘ نہ دے دیا جائے!
(1) سورۃ الانعام: آیت 112۔ ترجمہ اشرف علی تھانوی