وہ ایک شخص جسے زمین پر ایک ارب انسان روز سلام کرتے ہیں!!! |
| صَلُّو عَلَيهِ وآلِه | |
ایک عرب ادیب، احمد حسن الزیات لکھتے ہیں:
”دُنیا میں رسول اللہﷺمبعوث ہوئے تو وہ چیز جسے دُنیا آج ’آزادی‘ کے نام سے جانتی ہے، بڑی دیر سے سپرد خاک ہوئی پڑی تھی۔ ’آزادی‘ کو آپ نے اس کی قبر اکھاڑ کر نہ نکالا ہوتا تو اس پر اترانے والے آج اس کا چہرہ تک نہ دیکھ پاتے!
”دُنیا میں رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو عقلوں پر بہت بڑے بڑے تالے پڑے تھے۔ خدا کے اس فرستادہ نبی نے ہتھوڑے برسا برسا کر عقلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل توڑے اور لوگوں سے اس پر بہت کچھ سنا تاآنکہ جہالت اور خرافات کی یہ زنجیریں ٹوٹیں اور وہ عقل جس پر یہ دُنیا ناز کرتی ہے انسان کو واپس ملی اور وہ علم جس پر یہ اتراتی ہے اس کے دَر تک پہنچا!
”انسان کو یہ سکھانا کب آسان تھا کہ سبقت کا میدان نیکی اور فضیلت ہے اور تفوُّق پانے کی بنیاد خیر اور اچھائی! محمد ﷺکے دم سے انسان کو معلوم ہوا کہ تعاونِ باہمی کی بنیاد ’مقاصد‘ ہوا کرتے ہیں نہ کہ ’قوم‘ اور ’قبیلے‘ اور ’پیدائشی رشتے‘۔ یہ ایک بہت بڑی زقند تھی جو انسان کو تاریخ کے اِس عہد میں بھرنا نصیب ہوئی۔ تب یوں ہوتا ہے کہ ایک آدھی دُنیا کے اندر مختلف جنسوں اور رنگوں اور ملکوں کے لوگ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر نیکی اور تقوی کے ہزاروں اجتماعی منصوبے پروان چڑھانے میں لگ جاتے ہیں اور پھر جہان میں بے انتہا حسین قدروں کی تعمیر شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔
”رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو پہلی بار دنیا نے جانا کہ ’قلوب‘ کو ’مواخات‘ کے سہارے جوڑا جاتا ہے اور ’حقوق‘ کو ’مساوات‘ کے دم سے!
”تب معاشرے کا سب سے کمزور آدمی بجا طور پر سمجھنے لگا کہ خدا کی یہ سب فوج اسی کا جتھہ اور قبیلہ ہے۔۔
”معاشرے کے سب سے نادار شخص میں یہ اعتماد آیا گویا بیت المال اس کی ذاتی جاگیر ہے۔ دُنیا کا ایک بے سہارا و بے خانماں شخص دیکھنے لگا تھا کہ اہل ایمان کی صورت میں اس کو بے حدوحساب بھائی مل گئے ہیں!“
محمد ﷺانسانیت کیلئے ایک ایسی ہی خوبصورت جہت کا نام ہیں۔ دُنیا اور آخرت کی اتنی خیر ایک ہی جگہ کہیں پائی ہی نہیں جا سکتی۔
ایک ادیب لکھتا ہے:
”تاریخ کے کچھ واقعات خود تاریخ سے بڑے ہوتے ہیں۔ حراءکے اندر رونما ہونے والا واقعہ یعنی ”آسمان کے امین“ کا ”زمین کے امین“ سے ارتباط ہونا اور اس سے انسانی شعور کیلئے روشنی کی ایک نئی کرن پھوٹ پڑنا ۔۔۔۔ ایک کائناتی واقعہ ہے نہ کہ محض تاریخ انسانی کا ایک وقوعہ“
ایک نومسلم محمد ﷺکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”عرب کے خاندانی تفاخر کو ذرا نظر میں رکھیے اور پھر خدا کے اس بندے کی خدا آشنائی دیکھئے۔ قرآن اس کا اپنا کلام ہوتا تو اس میں مسیح ؑکی ماں کیلئے ایک پوری سورت مخصوص کی جانے کی بجائے اس کی اپنی ماں کے نام کی کئی سورتیں ہوتیں! ’آل عمران‘ کی بجائے یہاں ’آل عبدالمطلب‘ کی تلاوت ہوتی اور عربوں کیلئے اس میں ذرا بھر تعجب کی بات نہ ہوتی۔ مگر اس شخص کی خدا پرستی دیکھئے کہ مسیح ؑکی ماں کا ذکر یہ تاریخ انسانی کی چار برگزیدہ ترین عورتوں میں کرتا ہے جبکہ اپنی ماں کی تربت پہ کھڑا روتا اور دوسروں کو رلاتا ہوا یہ کہہ رہا ہے: ”میں نے خدا سے درخواست کی کہ اپنی ماں کیلئے دُعائے مغفرت کر لوں پر خدا نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔ میں نے اس کی قبر کی زیارت کیلئے اجازت مانگی خدا نے مجھے اس بات کی البتہ اجازت دے دی(1)
إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ(2) ”میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے وحی کی جاتی ہے“۔
عرب کا وہ پسماندہ توہم پرست ماحول ذہن میں لائیے جہاں لوگ ہر سادھو اور ملنگ سے دبتے ہیں اور اس کے ’روحانی اختیارات‘ کی دھاک ان پر یوں بیٹھتی ہے گویا وہ جب چاہے انکو ’بھسم‘ کرکے رکھ دے ۔۔ معجزات پاس رکھتے ہوئے دیکھئے کس طرح خدا کا یہ نبی ان کو اپنی بندگی اور عاجزی کا یقین دلاتا اور ان کے توہمات دورکرتا ہے:
قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف:188)
”میں اپنی ذات کیلئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، سوائے وہی جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں“
دیانت اور خدا آشنائی کی عجیب عجیب مثالیں ہیں جو اس نبی کی سیرت پڑھنے والے کے سامنے آتی ہیں ۔۔
حدیبیہ گویا فتحِ مبین کا دیباچہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی فتوحات کا تانتا بندھتا ہے۔ عرب کا کوئی نہ کوئی قلعہ روز ہی آپ کی فوجوں کی دھمک سے گرتا ہے اور آپ کی قلمرو میں میلوں کے حساب سے ہر روز اضافہ ہوتا ہے۔ قیصر اور کسریٰ اور یمن اور مصر تک کے بادشاہوں کو نامے ارسال ہوتے ہیں۔ مصر سے تحفہ میں بھیجی گئی کنیز ماریہؓ آپ کے حرم میں داخل ہوتی ہیں اور آپ کیلئے ایک فرزند جنتی ہیں ۔۔۔۔ ابراہیم۔ ایسا شہزادہ بھی دُنیا نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ اقتدارِ نبوت کی اوج کا زمانہ ہے کہ ابراہیم فوت ہو جاتا ہے اور اتفاق یہ کہ سورج بھی اسی دن بے نور ہو جاتا ہے۔ دوبڑے واقعے ۔۔۔۔ لوگ خودبخود ان میں رشتہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر طرف یہ باتیں ہونے لگتی ہیں کہ آفتاب کا یہ گرہن کسی بہت بڑے انسان کی موت سے منسلک ہے اور یہ کہ ابراہیم بن رسول اللہ کی موت سے بڑھ کر اس کی کیامناسبت ہوسکتی ہے۔ توہّم پرست معاشروں کے اندر کتنے فرعونوں اور شاہی خاندانوں نے اپنے شجرۂ نسب سورج اور ستاروں اورزہرہ ومریخ سے آخر نہیں جوڑے اور آج تو یہ سورج آپ سے آپ بے نور ہے اور آپ تو خدا کے نبی ہیں۔ ذرا اگر خاموش رہ لیں تو مفت میں پورے عرب پر ایک عجیب دھاک بیٹھتی ہے اور غم کے وقت تو انسان اپنے لئے کیا کیا تسلیاں نہیں دیکھتا۔ مگر یہ صادق ؑاور امین ؑہیں جن کو خدا کی جانب سے انسانی فکر وشعور کی ساخت اور تربیت کی امانت سونپی گئی ہے۔ یہاں خدا کے سوا کوئی بڑا نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو اکٹھا ہونے کیلئے منادی کی جاتی ہے۔ مجمع میں آپ خطبہ دینے کھڑے ہو جاتے ہیں:
ان الشمس والقمر اَیتان من آیات اﷲ لا یخسفان لِمَوتِ اَحد ولا لحیاتہ، ف اِذا ر اَیتم ذلک فاذکرو اﷲ (البخاری عن عبداللہ بن عباس 3692)
”یہ سورج اور یہ چاند خدا کی نشانیوں میں سے بس دو نشانیاں ہیں۔ یہ نہ کسی کی موت کے باعث گرہن زدہ ہوتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کے سبب۔ پس جب تم ایسا ہوتا دیکھو تو خدا کا ہی ذکر کرنے لگو“
کسی مصنف کا قول ہے:
”عظیم ہونا کسی ایک میدان میں بھی انسان کیلئے آسان نہیں۔ آدمی کا بے پناہ زور لگتا ہے اور تب جا کر وہ کسی شمار قطار میں آنے لگتا ہے۔ مگر یہاں اس باب میں ایک عجیب بات دیکھی گئی ہے اور اس کا مشاہدہ آپ اکثر کریں گے۔ کسی ایک میدان میں کوئی انسان اگر ’بڑا‘ اور ’قابل ذکر‘ ہو جائے تو یہ اس کے بہت سے میدانوں میں ’چھوٹا‘ اور ’ناقابل ذکر‘ ہونے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ بہت سے انسان دیکھے گئے جو اگر کسی ایک بات میں ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی پر ہوں گے تو کسی دوسرے پہلو سے بحرۂ مردار سے بھی نیچے گرے ہوئے ہوں گے“۔
یہ بات بے انتہا سچ ہے ۔۔۔۔
اکثر مشہور فاتح نجی زندگی میں نہایت بدخصلت دیکھے گئے۔
اکثر فلسفی اور مفکر عمل کے میدان میں صفر بھی نہیں ہوتے۔
جن شاعروں کی غزلیں اور ’محبت‘ کے گیت قریہ قریہ گائے جاتے ہیں اور جن ادیبوں کے تخلیقی شہ پاروں سے لوگ زبان کا ذوق پاتے ہیں ان کی ذاتی زندگی میں اکثر اُلو بولتے سنے گئے اور وہ اپنے قریب کے لوگوں پر بے انتہا بھاری دیکھے گئے۔۔ لوگ ان سے صرف مشاعروں اور کتابوں کے اندر رہ کر ہی محظوظ ہوتے ہیں۔
اکثر سیاستدان میدانِ جنگ کے شہسوار نہیں ہوتے۔
میدانِ کارزار کے جری بہادر، فکر وفلسفہ اور علم ودانش کے مردِ میدان نہیں ہوتے۔
اکثر سماجی کارکن گھریلو زندگی میں ایک کامیاب مثال نہیں دیکھے گئے۔
اکثر لیڈروں کے اہل خانہ، دوست احباب اور عزیزوں کیلئے، ان لیڈروں کے پاس ’وقت‘ نہ ہونے کے گلے کرتے سنے گئے ہیں۔
اکثراخلاق کے داعی جو باعمل بھی ہوں حکمرانی میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ اخلاق کا اصل امتحان ہوتا ہی تب ہے جب اختیارات کا تاج سر پر رکھا ہو۔
اکثر عبادت گزار معاشرے کے گھمسان سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں، کجا یہ کہ وہ سرکش معاشروں کی ’ننگی پیٹھ‘ پر چڑھ بیٹھیں اور ان کو سدھا لینے کا برتہ رکھیں۔
تجارت کے دھنی، دلیری میں نام پیدا کرتے کبھی کم ہی سنے گئے ہوں گے۔
سفارت اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سرگرم لوگ یتیموں، بیواؤں اور بے سہاراؤں کیلئے پریشان پھرتے اور دولتمندوں کو ان کی خدمت کیلئے مسخر کرتے کبھی کم ہی دیکھے گئے ہوں گے۔
امور قانون کے ماہرین تزکیہ وتربیت اور امور شخصیت سازی میں مستند مرجع کم ہی کبھی مانے گئے ہوں گے۔
حکمائے نفس کیا کبھی اقتصادیات میں بھی منفرد ترین اسکول آف تھاٹ ہوئے ہیں؟
عمرانیات کے استاد ’علم قلوب‘ میں نام پیدا کرتے کہاں سنے گئے ہیں؟
فوجوں اور خزانوں کے مالک زہد اور درویشی میں بھی مثال ہوں حتی کہ دُنیا کے بڑے بڑے زاہد اُنہی کے زہد کی مثال دیں اور اُنہی سے زہد کے اسباق لیں، ایسا کبھی ہوا ہے؟
پس اصل عظمت تو یہ ہے کہ آدمی ہر پہلو سے بڑا ہو۔ پر یہ کہاں سب کیلئے میسر ہے۔ یہاں دیکھئے، کسی ایک میدان میں عظمتدیکھنی ہو تو اس کی انتہا نہیں۔ پھر یہ سب انتہائیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہوں اور عظمت کے اتنے لاتعداد پہلو کسی ایک ہی انسان میں اس بے ساختگی کے ساتھ مجتمع ہوں! تاریخ انسانی کے اتنے بڑے بڑے اعزاز ایک ہی شخصیت میں سما جائیں اور وہ تب بھی ہلکا پھلکا لاپرواہی سے یہاں صرف ”الرفیق ال اَعلیٰ“ کا سوال کرے ۔۔۔۔ دِن کے اتنے کارنامے راتیں سجدہ وقیام میں خدا کے ساتھ بسر ہونے میں مانع نہ ہو پائیں اور وہ خدا سے مانگے تو صرف آخرت ۔۔۔۔ گھر میں دو دو تین تین ماہ چولہا جلنے کی نوبت نہ آئے اور کھجور کی سخت چٹائی سوتے ہوئے نرم جلد میں پیوست ہو جایا کرے اور اسے اس بات کی پرواہ تک نہ ہو ۔۔۔۔ یہ ہیں محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول!!!
جیسے جیسے کسی انسان کا ستارۂ قسمت بلند ہو ویسے ویسے ہی خدا کی کبریائی کے آگے اس کا سر نگوں ہو اور ویسے ویسے ہی اس کی زبان پر خدا کی تعریف وتسبیح اور اپنے قصور پر استغفار کا ورد سنا جانے لگے ۔۔۔۔ بندگی کی ایسی خوبصورت تصویر محمد ﷺسے بڑھ کر آپ کو کہاں ملے گی!!!
٭٭٭٭٭
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺاس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:
الاَرواح جنود مجندۃ (صحیح مسلم: 4773)
یہ بات بہت اُمید افزا ہے تو بے انتہا خوفناک بھی۔ اس دل کو کس سے راہ ہے؟ یہ قریب قریب اس بات کا جواب ہوگا کہ آخرت میں آدمی کا ٹھکانہ کہاں ہونے والا ہے۔ اس دل کے کیا کہنے جسے رسول اللہ ﷺکے ساتھ میلان ہو اور اس میں آپ کیلئے محبت موجزن ہو۔ محبت کی پچاس تفسیریں آپ کرنے کو کر سکتے ہیں مگر محبت ایک طبعی چیز ہے اور بیان میں اس کا آنا بے انتہا مشکل۔ کسی کو خدا سے اور اس کے نبیوں سے اور جنتی روحوں سے محبت ہوتی ہے تو کسی کو بدکاروں اور بدبختوں سے۔ یہ قسمت قسمت کی بات ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا یہ بڑی حد تک اس بات کا جواب ہے کہ آخرت میں ایک آدمی کہاں پایا جانے والا ہے۔ اسیلئے آپ فرماتے ہیں: المرء مع من اَحب ”آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔
رسول اللہ ﷺسے محبت ہونا انسان کے نیک بخت ہونے کی دلیل ہے۔ آپ کی جانب میلان کے حوالے سے ہر نفس اپنے ظرف اور اپنی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺسے محبت کا دور محض صحابہ کا زمانہ نہ تھا۔ یہ خیر قیامت تک کیلئے باقی ہے:
عن ابی ھریرۃؓ ااَن رسول اﷲ قال:”مِناَشداَمتی لی حباً ناسً یکونون بعدی یودّاَحدھم لو رآنی باَھلِہ وما لِہ(صحیح مسلم 5060)
ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”میری اُمت میں سے میرے ساتھ سب سے بڑھ کرمحبت کرنے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ تمنا کرے گا کہ وہ اپنی سب دولت ہاتھ سے دے کر اور اپنا گھر بار لٹا کر مجھے ایک نظر دیکھ سکے تو دیکھ لے“
سید التابعین ابو مسلم خولانیؓ کو ایک بار صحابہ پر بہت رشک آیا۔ کہنے لگے: اصحاب محمد سمجھتے ہیں کہ وہ ساری کی ساری فضیلت لے گئے۔ بخدا ہم کو بھی اگر موقع ملا ہوتا تو لوگ دیکھتے ہم کیونکر آپ کی جانب کسی کو اپنے سے آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ اصحاب محمد جان لیں کہ ان کے بعد بھی اِس اُمت میں مرد پائے جاتے ہیں“۔
جبیر بن نفیلؒ (تابعی) کہتے ہیں: ہم صحابی رسول مقداد بن الاسودؓ کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ وہاں سے ایک اور تابعی گزرے اور مقدادؓ کو دیکھ کر کہنے لگے: ان آنکھوں کے کیا کہنے جو اللہ کے رسول کو جی بھر کر دیکھتی رہیں۔ کاش کہ ہم بھی وہ کچھ دیکھ پاتے جس کو یہ آنکھیں دیکھتی رہیں اور ان فضاؤں کا نظارہ کرتے جن کا یہ آنکھیں نظارہ کر چکی ہیں۔
ثابت بنانیؒ (تابعی) جب بھی انسؓ بن مالک کو دیکھتے تو ان کی جانب لپک کر بڑھتے اور ان کا ہاتھ چومتے اور کہتے: اس ہاتھ نے رسول اللہ ﷺکے ہاتھ کا لمس پا رکھا ہے۔
یحی بن الحارثؒ (تابعی) واثلہ بن الاسقعؓ (صحابی) کے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور کہتے: اس ہاتھ نے رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پہ بیعت کر رکھی ہے۔ صحابیِ رسول سلمہؓ بن الاکوع کے ہاتھ کو بعض تابعین کا اسی انداز میں بوسہ دینا بھی مذکور ہوا ہے۔
حسن بصریؒ جب بھی مسجد نبوی کے اس چوبی ستون کا واقعہ بیان کرتے جس کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺنے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا تو اس ستون سے اس اونٹنی کے سے انداز میں بلبلانے کی آواز سنی گئی جس سے اس کا بچہ دور کردیا گیا ہو، یہاں تک کہ آپ نے جا کر اس پر اپنا دست مبارک دھرا تو اس سے وہ آواز آنا رکی ۔۔ حسن بصری جب بھی یہ واقعہ بیان کرتے تو آواز بھرا جاتی اور کہتے: خدا کے بندو یہ لکڑی کا ایک بے جان ستودہ ہے جو رسول اللہ ﷺکیلئے بے قرار ہوتا ہے۔ تم پر تو آپ کا حق اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
امام احمدؒ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺکی جو حدیث بھی لکھی اس پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ جب میں اس حدیث سے گزرا کہ رسول اللہ ﷺنے ابوطیبہ سے احتجام(3) کروایا اور اجرت میں اس کو سونے کی ایک پوری اشرفی دے ڈالی تو میں بھی حجام کو اس پر سونے کی ایک اشرفی دے کر آیا۔ فرمایا کرتے تھے اگر تم ایسا کر سکو کہ سنت سے دلیل کے بغیر بدن کا ایک بال بھی مت کھجلاؤ تو ضرور ایسا کرو۔
٭٭٭٭٭
رسول اللہ ﷺکی برگزیدگی کا ہی کچھ تقاضا ہے کہ ہم آپ کی تعظیم اور توقیر کی صحیح وجوہات سے آشنا ہوں۔۔
اس دُنیا میں ہر قوم ہی اپنے بڑوں کیلئے جوش میں آتی ہے۔ ہر اُمت کیلئے کچھ چیزیں سمجھوتے سے ماورا ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ہمارے لئے اللہ اور اس کا رسول اور اس کی کتاب اور اُس کا دِین وہ مقام رکھتے ہیں کہ اِن کی تعظیم کے معاملے میں ہم ہر حد تک جا سکتے ہیں اور بلاشبہ یہ اعزاز آج اِس بھری دُنیا میں ایک ہمیں کو حاصل ہے۔ مگر یہ ایک منفرد اعزاز ہے۔ اس کی انفرادیت ہم سے روپوش ہو جائے تو یہ اعزاز اپنی تمام تر عظمت کے باوجود ہمارے ہاتھ سے بڑی حد تک چلا جاتا ہے۔
ایسا ہے تو ہم میں سے کتنے ہیں جو خدا کی صفات سے آگہی پانے پر اپنی زندگی کا کچھ عرصہ صرف کر چکے ہیں؟
ہم میں سے کتنے ہیں جن کا رسول اللہ ﷺسے لگاؤ کسی علم اور آگاہی کا نتیجہ ہے اور جو کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ ذہنی قربت اور آپ سے ایک علمی اور شعوری صحبت پانے پر کچھ محنت کر چکے ہیں؟ نبی کا ”عظیم ہونا“ جن کیلئے کوئی ’سنی سنائی‘ بات نہیں بلکہ ”بصیرت“ پر مبنی ایک حقیقت ہو؟
محض ایک ’گروہی وابستگی‘ اس نبی کے مقام سے فروتر ہے۔ یہ نبی جو اس جہان میں علم کی قندیلیں جلانے اور شعور کا اُجالا کرنے آیا ہے اور جو ضمیر اور کردار کے اندھیرے مٹانے اور معاشروں کی کایا پلٹنے اور انسانی زندگی کے ہر معاملے میں حَکَم بننے آیا ہے ۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر، خدا کی تعظیم اور بندگی کی صحیح مثال اور خدا کی توحید اور کبریائی کی مسلسل یاد دہانی بننے آیا ہے، اس سے کہیں بلند ہے کہ محض تقریروں اور جلوسوں اور نعتوں سے ہی اس کا حق ادا ہو جانے لگے۔ اس سے تو جب تک شعور اور کردار کی دُنیا میں ہی روشنی نہ کروائی جائے ۔۔ اس کو تو جب تک ’علم‘ اور ’توجہ‘ کا موضوع نہ بنایا جائے۔۔ اس سے وابستگی ایک بے معنی عمل رہتی ہے۔
رسول اللہ ﷺکا مقام بیان کرنے کا ایک پہلو تو وہ ہے جس سے ہم غیر مسلموں کو متعارف کراتے ہیں اور یہ بھی بلاشبہ ضروری ہے۔ البتہ رسول اللہ ﷺکا مقام بیان کرنے کے کئی پہلو وہ ہیں جن سے ہم مسلمانوں کو متعارف ہونا ہے ۔۔۔۔ اور بلاشبہ یہ بھی بے انتہا ضروری ہیں۔
”انفرادیت“ اِس اُمت کا عجب خوبصورت وصف ہے ۔ اس کا اپنے عُظَمَاءسے محبت کرنا بھی پس ایک خاص رنگ اور ایک سلیقہ چاہتا ہے!
’خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی‘!
(1) صحیح مسلم عن ابی ھریرہ 2۔261
(2) یونس : 51
(3) احتجام یا حجامت: ایک طریقۂ علاج، یعنی سینگیاں لگوانا۔