ہَل تَطلُبُونَ مِن المُختَارِ معجزۃ | یَکفِیہِ شَعب ٌ مِنَ الَجدَاثِ اَحیَاہُ! |
اِس برگزیدہ ہستی سے معجزہ مانگتے ہو! یہ کم تو نہیں کہ پوری کی پوری ایک قوم اُس نے قبروں سے اٹھا نکالی اور اُس کی رگوں میں زندگی دوڑا دی!
مَن وَحَّدَ العَرَبَ حَتّیٰ کَانَ وَاتِرُہُم | اِذَا رَ اَیٰ وَلَدَ المَوتُورِ آخَاہُ |
کیا یقین کرنے کی بات ہے کہ کسی نے ’عرب‘ کو شیروشکر کر ڈالا؟! یہاں تک کہ قاتل اور مقتول کی اولاد اپنا انتقام بھول کر بھائی بھائی بن گئے!
وَکَیفَ سَاسَ رُعَۃ ال اِبِلِ مَملَکَۃ | مَا سَاسَہَا قَیصِر ٌ مِن قَبلُ اَو شَاہُ |
صحرا کے شتربان کیونکر جہاں بانی کرنے لگے، اور جہانبانی ایسی جو کسی ’سیزر‘ کے بس میں رہی ہو اور نہ کسی ’شاہ‘ کے!
سَنّوا المُسَاوَۃ لا عَرَبَ وَلا عَجَمَ | مَا لِامرِیئٍ شَرَف ٌ اِلّا بِتَقوَاہُ |
شتر بانوں نے وہ مساوات قائم کر دکھائی کہ عرب عرب رہے اور نہ عجم عجم! آدمی کے پاس دکھانے کو کوئی رتبہ ہی باقی نہ رہا، سوائے یہ کہ وہ خدا سے کتنا ڈر کر رہتا ہے!
وَقرَرتُ مبدَ اَ الشوّریٰ حکومتہم | فَلَیسَ لِلمَرءِ ما تمناہُ |
اور بقیہ زمانے کیلئے اصول ٹھہرا دیا کہ ان کی حکومت کی اساس شوریٰ ہے، یہ نہیں کہ ہر شخص کی جو مرضی آئے وہ کرتا پھرے!
وَرَحَّبَ الَّناسُ بِال اِسلامِ حِینَ رَ اَوا | اَنَّ السَّلامَ وَ اَنَّ العَدلَ مَغزَاہُ |
اِس اسلام کو لوگ خوش آمدید نہ کہتے تو اور کیا کہتے!!!؟ کیا دیکھ نہیں رہے تھے کہ سلامتی اور عدل ہی تو اِس دین کا لب لباب ہے؟!
یَا مَن رَ اَیٰ عُمَراً تَکسُوہُ بُردَتَہُ | وَالزَّیتُ اَدُم ٌ لَہُ وَالکُوخُ مَ اَوَاہُ |
ارے اے مورخ جس نے پیوند پوش عمرؓ کو دیکھ رکھا ہے، وہ عمرؓ جس کا سالن روغن کے سوا کچھ نہیں اور جس کی آرام گاہ کٹیا سے زیادہ نہیں!
یَہتَزُّ کِسریٰ عَلیٰ کُرسِیّہ فَرقاً | مِن بَ اَسِہ مُلُوکُ الرُّومِ تَخشَاہُ (1) |
مگر یہی عمرؓ ہے جس کے ڈر سے کسریٰ اپنے تخت پہ بیٹھا تھر تھر کانپتا ہے اور جس کی شدتِ گرفت سے رومن شہنشاہوں پر لرزہ طاری ہے!
اے بادشاہ!
ہم کہ بت پوجتے، مردار کھاتے تھے!
”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک ایسی قوم تھے کہ سر تا سر جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بت پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ بدکاریاں کرتے تھے۔ ہمسایوں کو ستاتے تھے۔ بھائی بھائی پر ظلم کرتا۔ طاقتور کمزور کو کھا جاتا۔ دریں اثنا، ہم میں ایک شخص پیدا ہو، جس کی شرافت اور صدق ودیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے۔ اُس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی۔ اُس نے ہمیں سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں۔ خون ریزی ترک کر دیں۔ یتیموں کا مال نہ کھائیں۔ ہمسایوں کو آرام دیں۔ پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ لگانا چھوڑ دیں۔ نماز پڑھیں۔ روزہ رکھیں۔ زکوٰۃ دیں۔ ہم اس پر ایمان لائے۔ شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے دامن کش ہو گئے۔ اِس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں پھر واپس جائیں“
(مہاجرین حبشہ کا بیان، بہ لسانِ جعفر بن ابی طالبؓ، روبروئے نجاشی(2))
روشنی کا مینار، تہذیب کا نقش گر!
یہ ہے روشنی کا مینار، تہذیب کا نقش گر __ محمدﷺ __ جو روحِ انسانی کو جہالت کی بیڑیوں سے آزاد کرانے کیلئے آسمان سے ایک نسخہ ٔ کیمیا ساتھ لایا تھا اور جوکہ اُس نسخہ کا ایک ایک لفظ پورا کرا لینے کے بعد دنیا سے رخصت ہوا۔ یہ ہے وہ معلمِ اخلاق جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔ ظلم اور استحصال کی ایک نہیں ہزاروں صورتیں ختم کرائیں!!!
دین کا استحصال، اَخلاق کا استحصال، تہذیب کا استحصال، حق کا استحصال۔۔ ظلم اور جہالت کی کونسی صورت ہے جو اپنے عروج کو نہ پہنچ چکی تھی اور جسے خدا کے اِس آخری نبی نے نابود کئے بغیر چھوڑ دیا؟!!
سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو خدا کے نام پر بولا جائے۔ سب سے بڑا ظلم وہ ہے جو خدا کے نام پر روا رکھا جائے۔۔۔۔ انسان کی بدبختی یہاں تک نہ تھی کہ اُس کی روح، اُس کے فکر، اُس کی خرد اور اُس کے ضمیر پر منوں کے حساب سے ظلم اور جہالت کا انسانی ملبہ ڈال دیا گیا تھا، بلکہ بدبختی یہ ہو چکی تھی کہ یہ ظلم خدا کے نام پر ڈھایا جا رہا تھا!
مورخ آج ہمیں ہر امت ، ہر قوم اور ہر مذہب کے عبادت خانوں میں دیو داسیوں پر گزرنے والی ایسی ایسی کہانیاں سناتا ہے، جنہیں سن کر پوری نوعِ انسانی کا سر شرم سے جھک جائے۔ محمدﷺ نے تہذیب کو اس کا غصب شدہ لبادہ دلوایا تو دنیا نے دیکھا، ہر ہر مذہب اور ہر ہر دھرم ہی اپنا یہ ننگ چھپا لینے پر مجبور ہوگیا۔ کسی خرد مند کو آج اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعثتِ محمدی کے نتیجے میں دنیا کا ہر مذہب اور ہر مذہبی رویہ ہی ایک ارتقا سے گزر چکا ہے اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔۔۔۔
کہاں وہ دن کہ کعبہ میں ایک جانب بت پوجے جاتے ہیں تو دوسری جانب برہنہ طواف ہوتا ہے۔ خدا کا تقرب پانے کیلئے آئے ہوئے مرد ہی نہیں عورتیں عریاں ہوکر طواف کرتی ہیں، کہ جن کے وہ الفاظ جو وہ برہنہ بدن مطاف میں اترتے وقت کہا کرتی تھیں، آج تک حافظہ ٔ تاریخ نے محفوظ کر رکھے ہیں:
الیَومَ یَبدُو بَعضُہ اَو کُلُّہ فَمَا بَدَا مِنہُ فَمَا اَحِلُّہ(3)
”آج تو بدن کا کچھ حصہ کھلے یا پھر سارا ہی کھل جائے۔ خیال رکھو میرے بدن کا جو حصہ کھل جائے اس (سے لطف اٹھانے) کی میری طرف سے اجازت نہیں“!
اور کہاں وہ دن کہ مکہ فتح ہوتا ہے تو بیت اللہ میں پڑے بتوں پر تیشے چل جاتے ہیں اور پورا عرب دم بخود ہو کر دیکھتا ہے۔ تن تنہا کوئی شخص بھلا یوں بھی کامیاب ہوتا دیکھا گیا ہے؟!!! ’جزیرہ‘ آج اِس ”اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول“ کے ساتھ کھڑا ہے!!! پھر اگلے ہی حج پر مدینہ سے علی بن ابی طالبؓ کو سورہ ٔ توبہ کی آیات دے کر اور اِس اعلان نامے کے ساتھ مکہ دوڑایا جاتا ہے:
لا یحج بعد العام مشرک ولا یطوف بالبیت عریان (4)
”خبر دار! آئندہ کوئی مشرک حج کرنے آئے اور نہ کوئی برہنہ بیت اللہ کا طواف کرے“!!!
کہاں وہ تہذیب جو دخترِ حوا کو جنسِ بازار کے طور پر جانتی ہے۔ چمڑی اور غازے کی کمائی جس کے ہاں ’ریونیو‘ کی ایک بڑی مد ٹھہرتی ہے۔ معاشرے کا ایک ’معزز‘ عبد اللہ بن اُبی جہاں کئی اور کاروبار کرتا ہے وہاں اس نے ’جنسِ لطیف‘ پر بھی ’انوسٹمنٹ‘ کر رکھی ہے؛ اِن عورتوں کو اپنے حسن و اَدا کی کمائی سے بستی کے ایک شملہ بردار کے حق میں ’ذریعہ ٔ آمدن‘ بن کر رہنا ہے! (وہی چیز جو ’حقوقِ نسواں‘ کے نام پر خدا کی اِس مخلوق کا استحصال کرنے والے آج بھی کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا ’شوبز‘ جو آج کی دنیا میں ساہوکاری کی ایک بدترین وکریہہ ترین وبے رحم ترین شکل ہے، پوری کی پوری انڈسٹری ’عورت‘ کی چمڑی پہ قائم ہے!)۔۔۔۔
جس یثرب میں یہ نبیِ پاک پیر دھرے، بھلا کیسے ہوسکتا ہے وہاں ’ابن اُبیوں‘ کے یہ سب نا پاک کاروبار جوں کے توں چلیں! اعلان ہو جاتا ہے:
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَۃ الدُّنْيَا (النور:33)
”اور اپنی لونڈیوں کو پیشے پر مجبور مت کرو، جبکہ وہ عصمت کی زندگی گزارنا چاہیں، اِس لئے کہ تم کو دنیا کی زندگی کا مفاد مطلوب ہے“
کہاں وہ تاریکی جسے مسلمان بچہ بچہ ’دورِ جاہلیت‘ کے نام سے جانتا ہے۔۔ اور کہاں اِس نبی پر اترنے والا یہ آسمانی شاہکار جس کے دم سے ’انسانیت‘ کا برہنہ سر پھر سے ڈھانپا جاتا ہے اور ’روئے تہذیب‘ کی پراگندگی پھر سے سنوار دی جاتی ہے۔۔ یہ سورت جس کو پڑھ کر عورت کا ’ماں‘، ’بیوی‘، ’بیٹی‘اور ’بہن‘ والا روپ پھر سے جہانِ انسانی کا مقبول ترین دستور ٹھہرتا ہے۔۔ آسمان کا یہ شاہکار ”نور“ کہلاتا ہے، یعنی ”روشنی“۔۔ ”آسمان کی روشنی“ جو چودہ سو سال سے اِس نبی کے ہر امتی کے گھر میں ”تلاوت“ ہوتی ہے، اور جس سے کہ ’تہذیب‘ کے نام پر ’تجارتِ زن‘ کا بازار گرم کر رکھنے والے ’ہول سیلروں‘ کی آج بھی جان جاتی ہے!
یہی ہے وہ نبی جس کی تعلیم آج بھی آدھا جہان عقیدت سے سنتا ہے اور اُس کی یہ تعلیم جب نفس کے رُویں رُویں میں اترتی ہے تو زمین پر بے مثال پاکیزگی کا دور دورہ ہونے لگتا ہے۔ خدایا! کیا نفس کی صفائی اور دھلائی یوں بھی ہوتی ہے اور کیا ”تہذیب“ کا دائرہ یہاں تک جاتا ہے؟! کیا رِفعت میں اِس نبی کے پیروکار یہاں تک جاتے ہیں، اور کیا ’میڈیا کے دور میں‘ آج بھی محمدﷺ سے یہ سبق لئے جاتے ہیں؟!۔۔:
”آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔ کانوں کی بدکاری سننا ہے۔ زبان کی بدکاری بولنا ہے۔ ہاتھ کی بدکاری پکڑنا ہے۔ پیر کی بدکاری چل کر جانا ہے۔ دل خواہش اور تمنا کرتا ہے۔اور شرمگاہ آخر اِس کی تصدیق کر دیتی ہے اور یا تکذیب“ (5)
کہاں وہ ’جسم‘ کی چمک، جو ’تہذیب‘ کے چولے میں سڑاند بن جاتی ہے اور کہاں یہ ’روح‘ کی تابناکی جو ضمیر کو مہکاتی ہے!
کیا کسی نے غور کیا، اِس نبی کے پیر دھرنے کی دیر ہے، وہ بستی جو کل تک ’یثرب‘ کے نام سے جانی جاتی تھی آج ’مدینہ‘ کہلانے لگتی ہے! ’مدینہ‘۔۔ کہ جس سے ’تمدن‘ مشتق ہو، یعنی۔۔۔۔ ’مدنیت‘ کی اساس طے کرنے کا سوال اٹھے تو نگاہِ انسانی کو جواب تلاش کرنے میں لمحہ بھر دشواری نہ ہو!
کوئی کیا جانے ’مدینۃ النبی‘ کیا ہے؟۔۔۔۔ آسمان کے نقشے پر وجود میں آنے والا زندہ انسانی معاشرہ، جو چند ہی سالوں میں پوری دنیا کی رائج ترین تہذیب کا حوالہ بن جانے والا ہے؛ جہانِ انسانی کا ایک ایسا نقشہ کہ آسمان سے ایک آیت اترتی ہے تو لمحوں میں ’سماج‘ کے اندر رچ بس جاتی ہے اور ’سماج‘ اِس سے وہ روئیدگی لاتا ہے کہ ’فلسفیانِ اَخلاق‘ اِس پر بس رشک ہی کریں:
قالت عائشۃ: اِنی واللہ ما ر اَیت اَفضل من نساءالاَنصار اَشد تصدیقا بکتاب اللہ، ولا اِیمانا بالتنزیل۔ لقد اَنزلت سورۃ النور: ”ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن۔۔“، انقلب اِلیہم رجالہن یتلون علیہم ما اَنزل اللہ اِلیہم فیہا، ویتلو الرجل علی امر اَتہ وابنتہ و اَختہ، وعلی کل ذی قرابۃ، فما منہن امر ۃ اِلا قامت اِلی مرطہا المُرَحَّل فاعتجرت بہ، تصدیقاً و اِیماناً بما اَنزل اللہ من کتابہ، فاَصبحن وراءرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصبح معتجرات، کاَن علیٰ رؤوسہن الغربان۔ (6)
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
”بخدا، کتاب اللہ کی تصدیق کرنے اور تنزیلِ خدواندی پہ ایمان رکھنے میں میں نے انصارِ مدینہ کی عورتوں سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔ سورہ ٔ نور اس آیت کے ساتھ اتری: ”پس چاہیے یہ اپنے سروں کی چادروں سے اپنے سینے ڈھانپ لیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ ہونے دیں“، اِن کے آدمی خدا کی اِس وحی کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹے۔ ایک ایک آدمی اپنی بیوی، اپنی بیٹی، اپنی بہن اور اپنی ہر رشتہ دار کو خدا کا حکم سنا رہا تھا۔ تب کوئی عورت نہ رہی جس نے اپنی چادر نہ اٹھا لی ہو اور اُس میں لپٹ سمٹ نہ گئی ہو، خدا کے حکم کی تصدیق اور اس پر مکمل اظہارِ ایمان کرتے ہوئے۔ تب یہ حال تھا کہ اگلی صبح نماز میں، یہ سب کی سب، چادروں میں لپٹی رسول اللہﷺ کے پیچھے کھڑی تھیں، گویا ان کے سروں پر کوّوں کے غول ہیں“!
٭٭٭٭٭
کیا کوئی یقین کر سکتا تھا، ’عرب‘ ہوں اور ’بادہ نوشی‘ کے بغیر ان کا کوئی پل گزر جائے! کیا کوئی زبان دنیا میں پائی جاسکتی ہے کہ جس میں شراب کے ڈھائی سو نام ہوں!؟ علامہ فیروزآبادی نے عربی میں پائے جانے والے اِن ناموں کے بیان پر پوری ایک کتاب لکھی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں جب اِس نبی کے تیار کردہ معاشرے پر آسمان سے ایک آیت اتر آتی ہے، اور مدینہ کی گلیوں میں اِس کی منادی کرادی جاتی ہے: ’لوگو! شراب حرام کر دی گئی‘، تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جام پھر لبوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ صراحیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ مٹکے پھینک دیے جاتے ہیں۔ صدیوں کی منہ کو لگی ہوئی، ایک دن میں چھڑا دی جانا کوئی مذاق نہیں۔ یہ اللہ کا نبی ہے جو صداقت اور پاکیزگی کی وہ محیر العقول مثالیں قائم کرانے آیا ہے جو زمین نے اِس سے پہلے کبھی دیکھی ہوں اور نہ اِس کے بعد۔ بخاری کے الفاظ ہیں:
فَجَرَت فِی سِکَکِ المَدِینَۃ(7)
”تب مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی“!
آخر وہ کتنی ہو گی جو گلیوں میں بہتی پھرتی تھی؟! ’مدینہ‘ دارِ تہذیب ہی کا تو دوسرا نام ہے!!!
جس نے ریگزاروں میں پھول کھلائے!
جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8) ”یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
کون ہے جو اِس منظر پر قربان نہ ہوجائے!!! عرب کا وہ ریگزار اور اُس کے وسط میں ایسا مہکتا پھول!!!
خدایا! کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
٭٭٭٭٭
یہ تین ہستیاں جو مسجد نبوی کی زینت ہیں، ابھی چند سال پہلے عرب کی بے کس ترین مخلوق تھیں، بلکہ مخلوق بھی نہ سمجھی جاتی تھیں! اِدھر ابو سفیانؓ ہے جس سے بڑا سردار برسوں سے مکہ میں نہ پایا گیا ہوگا بلکہ شاید عرب میں نہ سمجھا جاتا ہوگا۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس پر رکے بغیر آگے بڑھا ہی نہیں جا سکتا!
کتبِ سیرت ہمیں بتاتی ہیں، سردارِ قریش نے آخر اسلام کے آگے سپر ڈال ہی دی۔ یہ منظر جو ہم دیکھنے جا رہے ہیں، اُسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب اسلامی قدریں سماج پر راج کرنے لگی تھیں۔۔۔۔ یہ تین بے کس ’غیر عرب‘ جو اَب مدینہ کے معتبر مانے جاتے ہیں، سلمان فارسیؓ، بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ ہیں! ’عرب‘ میں ’قبیلے‘ کے بغیر، ”معتبر“!!!!!
قبیلہ ’کمزور‘ نہیں بلکہ ناپید ہے۔ ’غیر ملک‘ میں ’غلام‘!!!
بے شک قریش کے رئیس نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن ابھی اُسے سیکھنا ہے کہ ’مدینہ‘ میں بزرگی کا معیار کیا ہے! ابو سفیانؓ اپنے کچھ اصحاب سمیت ان تین ’بے کسوں‘ کے پاس آتا ہے تو یہ کہتے ہیں: ”بخدا، ایک دشمنِ خدا کی گردن پر خدا کی شمشیروں کو صحیح حق ادا کر دینے کا موقعہ نہ ملا“! خدایا! بلالؓ اور صہیبؓ سے ابو سفیانؓ ڈانٹ کھائے!!! ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے اِن تینوں ساتھیوں کو ٹوکتے ہیں: ’کیا قریش کے سردار کو اِس طرح کہتے ہو‘؟ اور پھر رسول اللہﷺ کو بتانے چلے جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: اے ابو بکرؓ! شاید تو نے ان (تینوں) کو ناراض کر لیا ہے۔ بخدا اگر تو نے اِن کو ناراض کر لیا تو یقینا تو نے اپنے پروردگار کو ناراض کر لیا۔ تب ابو بکرؓ ان تینوں کے پاس جاتے ہیں اور معذرت کیلئے گویا ہوتے ہیں: اے میرے عزیز بھائیو! کیا میں آپ کو ناراض کر بیٹھا ہوں؟ یہ جواب دیتے ہیں: نہیں، ہمارے بھائی! اللہ آپ کو معاف فرمائے! (9)
٭٭٭٭٭
وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں درگور کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں! جنہیں پڑھتے ہوئے عربوں کی ہچکی بندھ جایا کرتی تھی!؟ سننے والے سہم جاتے تھے!؟ یہ دو مختصر آیتیں جو اِس گناہ میں ملوث رہ چکے لوگوں کے گرد حصار باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ ضمیر کی قید بن جاتیں بلکہ تو پھندا نظر آتیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَة سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 9-8)
”اور جس دن زندہ درگور کر دی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی“؟
٭٭٭٭٭
ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7)
”مردوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ عورتوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ ترکہ چاہے تھوڑا ہے چاہے زیادہ۔ حصہ مقرر ہے“
کہاں وہ خود ’ترکہ‘ تھی، کہاں اب وہ ’ترکہ‘ میں حصہ بٹاتی ہے، کیونکہ اِس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے! سورہ ٔ نساءکی تفسیر کرنے والا کوئی مؤلف نہ ہوگا جس نے یہ ذکر نہ کیا ہو کہ باپ مر جاتا تو بیٹے صرف اپنی سگی ماں کو چھوڑنے کے روادار ہوتے اور، باپ کے مرتے ہی، اُس کی باقی بیوگان کے گلے میں پٹکے ڈال دینے کیلئے بھاگتے کہ ’یہ میری ہوئی‘۔۔ اور اِس جہالت کے مدمقابل یہ نبی جو خدا کے حق کے سوا کبھی کسی بات پر غضب ناک ہوتا نہ دیکھا گیا، خدائی دستور یوں جاری کراتا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَة وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً (النور:22)
”اور ان عورتوں سے زوجیت نہ کرو جن سے تمہارے باپ کی زوجیت رہی، سوائے وہی جو بس پہلے ہو لیا، یہ بے حیائی ہے اور گھناؤناپن، اور برے انجام کو پہنچانے والا ہے“
اور اِس خدائی دستور پر سختی ایسی کہ براءبن عازبؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے چچا کو سرکاری جھنڈا لہرائے جاتا دیکھا۔ پوچھا، تو کہنے لگے: ”رسول اللہﷺ نے روانہ فرمایا ہے کہ ایک شخص جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا ہے، اُس کا مال ضبط اور اُس کو سزائے موت دے کر آؤں“۔ یہ حدیث چاروں سنن میں آئی ہے، جبکہ ترمذی میں الفاظ ہیں: ”اُس آدمی کی طرف، جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو گھر میں ڈال رکھا ہے، کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اُس کا سر لا کر پیش کروں“ (10)
٭٭٭٭٭
عرب کا وہ ماحول ذرا ذہن میں لائیے جہاں چند دھیلوں کیلئے آدمی کا خون کر دینے سے دریغ نہیں ہوتا۔ لُوٹنے کیلئے راستوں میں گھات لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ دوسرے کی کسی چیز کی حرمت ہو، اِس کا تو سوال ہی نہیں۔ مال، نہ جان، نہ آبرو، کسی چیز کی عصمت نہیں۔ خود آدمی کو بیچ کھایا جاتا ہے۔ جو جس کے ہاتھ چڑھا وہ اُس کا!ایک دوسرے کا حق دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، بلکہ اِس پر فخریہ کارنامے سنائے جاتے ہیں!
اِدھر سورہ ٔ نور کی ایک آیت ہے۔۔۔۔ جب تک آپ اِس کا سادہ مفہوم پڑھتے ہیں اور تفسیر میں بیان کئے گئے اِس کے سیاق و سباق میں نہیں جاتے تو حیران ہونے لگتے ہیں کہ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی جس کو تفصیلاً بتا دینے کیلئے آیات اتریں:
”اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ کھا لیا کرو تم اپنے گھر سے، یا اپنے باپ کے گھر سے، یا اپنی ماں کے گھر سے، یا اپنے بھائی کے گھر سے، یا اپنی بہن کے گھر سے، یا اپنے چچا کے گھر سے، یا اپنی پھوپھی کے گھر سے، یا اپنے ماموں کے گھر سے، یا اپنی خالہ کے گھر سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، یا اپنے دوست کے گھر سے۔۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ کھا لیا کرو تم سب مل کر یا الگ الگ۔۔۔۔“ (النور: 61)
آخر وہ کونسا ’حرج‘ ہے جس کو آیت میں اِس تاکید کے ساتھ رفع کیا جا رہا ہے؟ اور یہ کونسی خاص بات ہے کہ آدمی اپنے اِن تعلق داروں کے ہاں کسی وقت کھا لیا کرے؟؟؟ مگر اِس کا شانِ نزول پڑھئے، آپ دنگ رہ جائیں گے: خدایا! نبیﷺ نے اپنے تیار کردہ اِس معاشرے کو عفت کے کس آسمان پر پہنچا دیا ہے!!!
سیاقِ نزول سے یہ کھلتا ہے کہ:
لوگ غزوا ت پر نکلتے ہیں تو گھروں کی دیکھ بھال کیلئے اپنے اُن عزیزوں اور دوستوں کو کنجیاں دے جاتے ہیں یا ویسے تاکید کر جاتے ہیں جو معذور ہونے کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہیں گے۔ کوئی نابینا ہے، کوئی لنگڑا تو کوئی کسی عارضے میں گرفتار۔ کسی کا سسرال ہے تو کسی کا ننھیال تو کسی کا ددھیال تو کسی کی یاری دوستی ، صاحبِ خانہ کی غیر موجودگی میں اہل خانہ کی خبر رکھنی ہے یا ویسے ہی گھر خالی ہے اور اُس میں شب بسری کی حامی بھر رکھی ہے۔ یہاں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو آدمی کو خوف لاحق ہے کہ مردِ خانہ کی غیر موجودگی میں، جبکہ اُس کی جانب سے اجازت کی صراحت نہیں ہوئی، کیونکر اُس کے گھر سے دو لقمے کھا لئے جائیں، بے شک وہ کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہیں، چونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ مومن کا مال اُس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں! یہاں ہدایت کی جاتی ہے کہ اِس میں وہ حرج محسوس نہ کریں، ’اِن‘ گھروں سے کھا لینے میں مضائقہ نہیں، گھر والے ہوں تو اُن کے ساتھ، اور نہ ہوں تو اُن کے بغیر، اور پوچھے بنا۔ اتنی اتنی بات پر دوستوں رشتہ داروں کے مابین ’اجازت‘ درکار نہیں اور اِن حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک بے تکلفی بھی اہل ایمان کے مابین ضروری ہے!
یہ حکمِ شرعی جو اِس آیت میں بیان ہوا اپنی جگہ، مگر وہ فضا جس میں یہ حکم نازل ہوا اور وہ معاشرہ جس میں یہ ’وضاحت‘ کر دینے کی ”ضرورت“ پڑی۔۔۔۔ خودوہ فضا اور وہ معاشرہ کیا خدا کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی نہیں!!!؟؟ امانت اور خداخوفی میں ایک پورا ’سماج‘ کیا یہاں تک جاسکتا ہے، اور بھلا دیر کتنی ہوئی ہے؟!! خدایا! کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو چند سال پیشتر بلادِ عرب میں پایا جاتا تھا!!!!!!
کون یہ معجزے کر رہا ہے؟؟! اور کب ایسے معجزے دنیا میں کہیں دیکھے گئے؟؟! چند اشخاص نہیں، پورا معاشرہ ہی تو بدل کر رہ گیا ہے!!!
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعۃ:2)
”وہی تو ہے جس نے امیوں کے مابین ایک رسول کھڑا کیا، خود انہی میں سے، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، اور انکو دھوتا مانجھتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا وہ اِس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں ہی تو تھے“
٭٭٭٭٭
یہ عدیؓ بن حاتم طائی ہیں، جو تاج دارِ مدینہ کی کٹیا میں آپ کو دم بخود ہو کر سن رہے ہیں۔۔ کیا واقعتا دنیا سر تا پیر بدل جانے والی ہے اور یہ جن چور اچکوں سے بھری ہوئی ہے وہ کیسے ولی بن جائیں گے؟!
مگر حیران کیوں ہوں، اِس ہستی کے ساتھ عالمِ بالا کا اتصال ہونے پر آسمانوں میں پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں تو زمین پر اِس کی راہ میں تبدیلیاں رونما ہوجانا کیا بڑی بات ہے!
قبیلہ ٔ طئے کے رہزن، عرب میں ضرب المثال مانے جاتے ہیں۔ حِیرہ سے حضرموت تک انہی کی مار ہے۔ اِسی ’طئے‘ کے یہ ایک سردار ہیں جو اپنی بہن کے ترغیب دلانے پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عدیؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی سے مجھے (بطور اعزازِ خاص) اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ راستے میں ایک بے حال بڑھیا آپ کو روک کر کھڑی ہو گئی۔ بڑی دیر تک آپ اُسکی بات سنتے اور اُسکا مسئلہ حل کرتے رہے۔ میں نے دل میں کہا: یہ بادشاہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا! گھر میں ایک ہی تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہے، آپ مجھے دے دیتے ہیں کہ اُس پر بیٹھوں اور میرے انکار کے باوجود مجھے ہی اس پر بٹھا دیتے ہیں اور خود میرے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے پھر دل میں کہا: یہ شخص بادشاہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا!تب آپ مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں:
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں‘؟۔۔۔۔ تو کیا تجھے کوئی نظر آتا ہے جو پوجا کے لائق ہو؟
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ سب سے بڑا ہے‘؟۔۔۔۔ تو کیا کوئی ہے جو اللہ سے بڑا ہو؟
عدی! کیا تجھے یہ چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو دیکھ رہا ہے آج ہمارے ہاں تنگ دستی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دنیا ہماری مخالفت میں تلی بیٹھی ہے؟ عدی! کیا تو نے حِیرہ دیکھ رکھا ہے؟ میں نے عرض کی، حِیرہ میرا دیکھا ہوا تو نہیں مگر جانتا ہوں کہاں واقع ہے۔ فرمایا: تو پھر اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھ لے گا، حیرہ سے ایک عورت ذات کجاوے میں بیٹھی تن تنہا بیت اللہ کا طواف کر کے جاتی ہے پورا راستہ سوائے اللہ کے اُسے کسی کا ڈر نہیں، نہ کسی کی پناہ میں آتی ہے اور نہ کسی کی ضمانت میں۔ (اور میں جی ہی جی میں سوچ رہا تھا: تو ’طئے‘ کے غنڈے اُس دن بھلا کہاں چلے جائیں گے!) پھر فرمایا: عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہو کر آتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا فرمایا: کسریٰ بن ہرمز؟؟؟! فرمانے لگے: ہاں کسریٰ بن ہرمز!!! عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ ایک آدمی سونے یا چاندی سے مٹھی بھر کر نکلتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ کوئی یہ صدقہ وصول کر لے، مگر اُسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا!
بخاری کے الفاظ ہیں(11):
عدیؓ نے (راوی کے ساتھ گفتگو میں) کہا: (اکیلی)عورت کجاوے میں حیرہ سے طوافِ بیت اللہ کیلئے روانہ ہوتی میں خود دیکھ چکا ہوں جسے (راستے میں) خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ کسریٰ بن ہرمز کے خزائن جس لشکر نے لئے میں خود اُس میں شامل تھا۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی رہی تو (تیسری چیز بھی) تم دیکھ لوگے۔
٭٭٭٭٭
جاہلیت کے سب دستور
آج میرے پیر کے نیچے!
اور آج یہ ہستی میدانِ عرفات میں کھڑی ہے۔ حدِ نگاہ تک اِس کا تربیت یافتہ ’جزیرۃ العرب‘ اِس کا ایک ایک لفظ سننے کیلئے مجسم شوق ہوا بیٹھا ہے۔ تاریخ یہاں تھم گئی ہے۔ ابھی چند ہی سال پہلے اِسی مکہ سے جان بچا کر حبشہ میں پناہ گزیں اِس کے پیروکاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنی قوم کی حالت یوں بیان کر کے ہٹی ہے:
اَیہا الملک! کنا قوماً اَہلَ جاہلیۃ (12)
”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہلیت میں گرفتار قوم تھے۔۔
اور آج یہیں سے ’ورلڈ ڈیکلیریشن‘ جاری ہوتا ہے:
اَلا و اِن کل شیئٍ من اَمر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمَیَّ ہاتین(13)
سن لو! جاہلیت کا پورا دستور میرے اِن دونوں پیروں کے نیچے ہے!
٭٭٭٭٭
حکومتیں تو بہت لوگ کر گئے، محمدﷺ کے سوا مگر کون ہے جس کی راہ میں تاریخ یوں بچھ گئی ہو؟ محمدﷺ کے علاوہ کون ہے جس نے سرکش زمانے کو یوں سدھا لیا ہو؟ کون ہے جس نے صالح مقاصد کیلئے کرہ ٔ ارض کے اندر اِس کامیابی کے ساتھ تصرف کیا ہو؟ کون ہے جس نے اِس قدر ہمہ جہت انقلاب اِس دھرتی پر اِس سے پہلے یا اِس کے بعد برپا کیا ہو اور خیر کا ایک ایسا ریلا یہاں بہا دینے میں کامیاب ہوا جو پوری زمین کو اپنے زیرِ آب لے آنے کی صلاحیت رکھے؟
(1) مصر کے شاعر محمود غنیم کے مشہور قصیدہ ”رُعاۃُ الاِبل“ سے چند اشعار
(2) حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کے خطبہ کا ایک حصہ جو نجاشی کے دربار میں دیا گیا، (مسند احمد رقم: 21460) ۔ یہ خطبہ سیرت ابن اسحاق سمیت سب کتب سیرت میں بھی پایا جاتا ہے۔
(3) مسلم، کتاب: التفسیر، باب: فی قولہ تعالی”خذوا زینتکم عند کل مسجد“
(4) البخاری: کتاب التفسیر باب: قولہ: وا اَذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الا اَکبر
(5) صحیح مسلم: کتاب القدر، باب: کتب علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ۔
(6) دیکھئے تفسیر ابن کثیر، در بابت سورۃ نور، آیت: 31
(7) صحیح البخاری: کتاب التفسیر، باب: لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا
(8) دیکھئے سیر اعلام النبلاء، مؤلفہ امام ذہبی، قصہ بلال بن رباحؓ۔
(9) صحیح مسلم، کتاب: فضائل الصحابۃ، باب: من فضائل سلمان وبلال وصہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
(10) سنن النسائی: کتاب النکاح: باب: نکاح ما نکح الآباء
سنن ابن ماجۃ: کتاب: الحدود، باب: من تزوج امراَۃ اَبیہ من بعدہ
سنن اَبی داود: کتاب الحدود، باب: فی الرجل یزنی بحریمہ
سنن الترمذی: کتاب ال اَحکام، باب: فیمن تزوج امراَۃ اَبیہ
(11) یہ واقعہ ہم نے، اختصار کے ساتھ، متعدد مصادر سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح البخاری، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوۃ فی ال اِسلام
سنن الترمذی، کتاب: التفسیر، باب: ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب
مسند اَحمد، اَول مسند الکوفیین، حدیث عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ
(12) مسند اَحمد، 1649، مسند اَہل البیت، حدیث جعفر بن اَبی طالب رضی اللہ عنہ
(13) سنن ابن ماجۃ 3065، کتاب: المناسک، باب: حجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، تقریبا یہی لفظ دارمی میں آتے ہیں (رقم: 1778، کتاب:
المناسک، باب: فی سنۃ الحج)