سامنے کی بات ہے، انسانی فطرت اور انسانی عقل و شعور میں سب سے بڑھ کر اِسی دین کی پزیرائی ہے۔ ہر قسم کے تناقضات اور نقائص سے پاک ۔ خدا کے ہاں سے جو کچھ آیا ہے اُس کی مکمل تصدیق اور زمین پر جو کچھ خانہ سازی ہوئی اُس کا نہایت سخت رد اور ہر شخص کو اُس سے بیزار ہنے کی شدید تاکید۔ پوری انسانی زندگی کیلئے آسمانی وحی پر مشتمل مفصل ہدایت۔ کوئی شعبہ، ہدایت کے بغیر اِس میں چھُوٹا نہیں۔ کوئی نبی، کوئی کتاب، کوئی حکم ایسا نہیں جو خدا کی جانب سے آیا ہو اور اُس کو اِس دین کے پیروکار تسلیم نہ کرتے ہوں۔ یہ ہے ہی ”اسلام“ یعنی مان لینا اور تسلیم کرتے جان۔۔۔۔
’مانتے‘ اور ’تسلیم کرتے جانا‘ زمین پر خدا کے وفاداروں کا شیوہ رہا ہے۔ خدا کی جانب سے آئی ہر چیز کو ماننے کا یہ تاریخی کردار جوکہ زمین پر خدا کو باقاعدہ مطلوب ہے، اور ازل سے چلا آیا ہے، اور جس کے دم سے یہ دھرتی سلامت اور اِس کا حسن باقی ہے، اِس وقت امتِ محمدﷺ کے اندر محصور ہے!!!
اِس پر دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ خرد کی تسکین جتنی اِس دین کے اندر ہے کہیں اور نہیں۔ خدا بھی راضی، عقل بھی مطمئن، شعور بھی روشن، نظر بھی شاداب۔۔ یہاں بھر پور طور پر دنیا بھی ملتی ہے اور آخرت بھی، فرد بھی اور معاشرہ بھی، علم بھی اور عمل بھی، روح بھی اور مادہ بھی۔ نہ وحی، عقل کے آڑے آئے اور نہ عقل، وحی کے ساتھ دست و گریباں۔ نہ دنیا آخرت کی قیمت پر، اور نہ حصولِ آخرت ترکِ دنیا کی شرط پر۔ غرض ایک کامل شامل دین جس کے حق ہونے پر قلب بھی گواہی دے اور عقل بھی، تاریخ بھی اور آسمانی صحیفے بھی اور نوامیسِ کائنات بھی۔ نہ خدا کے ساتھ کوئی مسئلہ، نہ نبیوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا، نہ رسولوں میں سے کوئی ’محلِ نظر‘، نہ کتابوں میں سے کسی کا انکار، نہ کسی نص کو چھپانے کی کوئی ضرورت، نہ کسی آسمانی خبر کو ’گول‘ کر جانے کی کوئی نوبت، نہ تحریف اور نہ تاویل۔۔ خدائی تنزیل کا حرف حرف سلامت، اور انسانی عقل کی سرگرمی کیلئے نہایت وسیع میدان۔۔۔۔ کوئی ایک بھی تو کمی نہیں!!!
اِس کا مقابلہ اب ہو تو کیسے؟؟؟ سوائے یہ کہ وہی ابو جہل والا معاملہ ہو، جیسا کہ سیرت ابن اسحاق میں آتا ہے کہ اخنس بن شریق نے جب ابو جہل سے ’اندر کی بات‘ جاننے پر اصرار کیا کہ محمد کے ساتھ تم لوگوں کا معاملہ ہے کیا، تو اُس کا جواب تھا: چودھراہٹ لینے پر ہمارا اور بنو عبد مناف (نبیﷺ کا قبیلہ) کا پورا زور لگا۔ انہوں نے لنگر لگائے، ہم نے بھی لنگر کھول دیے۔ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دے دے کر روانہ کیا، ہم نے بھی سواریاں فراہم کر ڈالیں۔ انہوں نے لوگوں پر روپیہ نچھاور کیا، ہم نے بھی روپیہ نچھاور کر دیا۔ یہاں تک کہ جب معاملہ ریس کے گھوڑوں جیسا ہو گیا کہ جب دونوں سوار گھٹنوں کے بل ہو جاتے ہیں تو بنو عبد مناف بولے ’ہم میں تو ایک نبی ظاہر ہوگیا ہے‘، یہ بات اب ہم کہاں سے لے کر آئیں، بخدا ہم تو اس کو نہیں مانیں گے“(1)!
چنانچہ ایسا دین تو آسمان ہی سے اترے تو اترے، اور جوکہ محمدﷺ پر اتر چکا ہے، زمین پر یہ پیدا ہو تو کہاں سے ہو؟! وہ بات جو اِس دین میں ہے، اُس کو یہ کہاں سے لے کر آئیں؟!۔۔۔۔ یہ اِسکو نہیں مانتے، کوئی بڑی بات نہیں مگر اِس سے ٹکر لینے کی حسرت بھی تو دل میں بے حد وحساب بیٹھی ہے، اُس کو بھلا کیسے پورا کریں؟!!!
مگر بات یہاں ختم کب ہوتی ہے؟ خدا نے ایسا بڑھیا دین نازل کیا تو وہ اسی لئے تو کیا کہ لیظہرہ علی الدین کلہ! ایسا اعلیٰ سچ اُس نے نازل کیا تو اسی لئے کہ زمین میں اُس کا ایک کردار ہو اور انسانی دنیا میں اِس کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں ہوں۔ یہ سچ اُس نے عقول اور قلوب ہی کیلئے نازل کیا اور اُن تک تو اِس کو بہرحال پہنچنا ہے۔
’انسانی دنیا‘ وہ کینوس ہے جس پر خدا کی آخری کتاب اور خدا کے آخری رسول کو ”انسانیت“ کی وہ تصویر بنانی ہے جو خدا کے ہاں قبولیت کی سند رکھتی ہو۔ دیکھنے میں آ رہا ہے ، آسمانی نقشے پر ’گلوبل ولیج‘ کی اِس ’صورت گری‘ کا عمل اب ایک خاص رفتار دھارنے لگا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد غیر مسلم اقوام میں سالانہ ہزاروں کے حساب سے لوگ مسلمان ہونے لگے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ ’ہزاروں‘ اب ’لاکھوں‘ میں بدلنے والے ہیں۔۔۔۔
ایک وقت تو بہرحال آنا ہے کہ پوری زمین شریعتِ محمد کی قلمرو بنے گی اور کرۂ ارض کے ہر گھر میں قرآن کا بول بالا ہوگا۔ یہ خبر ہمیں اُسی نبی نے دی ہے جس نے ہمیں روم و فارس کے مفتوح ہونے کی پیش گوئی کرکے دی تھی۔ تاریخ کے اِس حالیہ مرحلے میں۔۔ پس جوں جوں اس تصویر کے خدوخال نمایاں ہوتے جا رہے ہیں، جوں جوں قرآن اور محمدﷺ کی دعوت کے آگے براعظموں کی حدیں غیر مرئی ہونے لگی ہیں، جوں جوں انسان ساختہ نظریات اور نظام دیوالیہ ہوتے جارہے ہیں، جبکہ خرافات پر مبنی ادیان اِس سے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں اور ان کے عود کر آنے کابظاہر اب کوئی امکان نہیں۔۔ توں توں اُن عناصر کی بے چینی بڑھ رہی ہے جو اپنے آپ کو ملتِ اقوام کے ’امام‘ سمجھتے ہیں اور جن کو یہ علم ہے کہ ’امامتِ اقوام‘ کی اِس گدی سے ان کو کوئی بے دخل کرنے والا ہے تو وہ قرآن اور محمدﷺ کا دیا ہوا عقیدہ ہے۔
قرآن اور محمد ﷺ کے پرچم بردار جنہوں نے کسی وقت اِن لوگوں کی عظیم رومن ایمپائر کو جہان کے اہم ترین مراکز سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ایک ایک کرکے ایشیا وافریقہ کے سب مقبوضات سے اِن کو بے دخل کر کے یورپ کے نہایت چھوٹے اور تاریک براعظم کے اندر محصور کر دیا تھا، اور بلکہ یورپ ہی میں حق اور روشنی کے وہ مینار کھڑے کرنا شروع کر دیے تھے جن کی حرارت اور تابناکی ذرا دیر اور برقرار رہتی تو اُس سرد براعظم کی بہت سی برف پگھل چکی ہوتی۔۔ قرآن اور محمد ﷺ کے وہی پرچم بردار ایک وقتی تعطل کے بعد آج از سر نو صف آرا ہو رہے ہیں اور اب کے روشنی اور تاریکی کا یہ مقابلہ براعظموں کی حدیں پھلانگ جانے والا ہے! دین میں کوئی زبردستی نہیں اور دنیا کی زندگی زندگی یہاں ہر شخص اور ہر قوم کو ہی اپنے باپ دادا کے دین سے چمٹ رہنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے، کہ اِس کی جوابدہی اُس کو خدائے رب العالمین کے ہاں جا کر ہی کرنی ہے، مگر امامتِ اقوام کی گدی پر براجمان رہنے کا وقت باطل کے حق میں اب اغلباً ختم ہو جانے والا ہے۔ باطل کیلئے یہ اگر کوئی خطرہ ہے تو اِس ’خطرے‘ کا یقینی مصدر دو ایسے مبارک نام ہیں کہ جن سے بڑھ کر مسلمانوں کو دنیا میں کوئی چیز عزیز نہیں: ایک ”قرآن“ اور دوسرا ”محمدﷺ “!۔۔ دو مبارک ترین نام جن میں ایک امت کی زندگی پنہاں ہے تو ایک رعشہ زدہ نظامِ باطل کی موت پوشیدہ ہے!
اب اِس دین میں کوئی ایسی بات ہے جو عقول اور قلوب میں نہایت خوب جگہ پاتی ہے اور جس پر باطل کو دسترس نہیں بلکہ اِس کے مقابلے پر کھڑا ہونے کا ہی یارا نہیں۔۔ خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب دنیا پڑھ لکھ گئی ہے۔۔ تو یہ اِس دین کی ایک خدا داد خوبی ہے نہ کہ اِس کا کوئی قصور۔۔۔۔!!! کسی کو بزورِ شمشیر اِسے قبول کر لینے پر نہ کبھی مجبور کیا گیا ہے اور نہ کیا جارہا ہے البتہ کسی کو اِس سے اگر یہ شکایت ہے کہ یہ اُن خوبیوں سے ہی کیوں مالامال ہے جو انسانی قلب وذہن میں اِس کو سب سے بڑھ کر جگہ لے کر دے سکتی ہیں اور یہ کہ انسانی فطرت صرف اور صرف اِسی ایک دین کو ہی پہچان کر کیوں دیتی ہے اور وہ سب اَدیان کے ساتھ ’برابر کا سلوک‘ کیوں نہیں کرتی؟!۔۔۔۔ ہاں کسی کو اِس دین سے اگر یہ شکایت ہے۔۔ کسی کو محمدﷺ کے نامِ نامی سے البتہ اگر یہی بیر ہے تو وہ جس دیوار سے چاہے جا کر اپنا سر پھوڑے ، اِس پر کوئی بھلا ان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟!!! البتہ یہ واضح کر دینا ہر مسلمان اپنے حق میں قابل فخر جانے گا کہ دنیا میں جو کوئی ہمارے دین سے اور ہمارے نبی سے بیر رکھ کر سامنے آئے گا اُس کے ساتھ بیر نبھانا ہمارے دین اور ہمارے نبی کا ہم پر وہ کم سے کم حق ہے جس کے بغیر ”مومن“ کی تعریف بھی ہم پر صادق نہیں آتی:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءهُمْ أَوْ أَبْنَاءهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلۃ: 22)
’جو لوگ اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے خواہ وہ ان کے باپ بیٹے یا بھائی یا خاندان کے ہی لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) نقش کر دیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش یہی گروہ اللہ کا لشکر ہے (اور) سن رکھو کہ اللہ ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے“ (2)
٭٭٭٭٭
اِس کے علاوہ بھی ’دہر میں اسمِ محمد ‘ سے ان کو کئی ایک شکایتیں ہیں۔۔۔۔
بیشتر اَدیان اِس وقت ’ری فارمیشن‘ کی عالمی نظریاتی تحریک کے آگے پوری طرح سپر ڈال چکے ہیں، سوائے ”اسلام“ کے جوکہ نہ صرف ’ری فارمیشن‘ کے قابو نہیں آرہا بلکہ اِس کے آگے __ پورے عالم اسلام میں __ الٹا ’ری فارمیشن‘ ایسے زورآور ایجنڈے کی حامل تحریک کو ہی سپر ڈالنا پڑ رہی ہے!!!
یعنی جو ایک ڈرامہ بڑی حد تک رچایا ہی اس لئے جا رہا تھا کہ اسلام کو ’ری فارم‘ کر دیا جائے، تاکہ اُن کی مرضی کے ایک ’جہانِ نو‘ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو، جس کے نتیجے میں پورے روئے زمین کے ثقافتی عمل کو ایک خاص ایجنڈے کے حق میں ’مونو پو لائز‘ کر لیا جائے (جس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا جا رہا ہے کہ ’اخلاق‘ کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے عملاً پوری دنیا کا ایک ہی مذہب ہوگا جس کے ذریعے لوگوں کا ’مابعد الطبیعبیا تی‘ شوق پورا کرادیا جایا کرے گا، جبکہ اَدیان میں پائے جانے والے ’فرق‘ کو ایک نہایت رمزی، واجبی اور ثانوی سی چیز بنا کر رکھا جائے گا جس کی حیثیت ’سالن‘ میں جوکہ ’ایک‘ ہی ہوگا ’حسبِ ذائقہ نمک مسالے‘ کی ہوگی اور اسی سے ایک ’تنوع‘ کا کام بھی لیا جاتا رہے گا!)۔۔۔۔ چنانچہ ایک ڈرامہ جو بڑی حد تک رچایا ہی ”اسلام“ کو قابو کرنے کیلئے جا رہا تھا وہ ہر جگہ کام دے رہا ہے البتہ اِسی ”اسلام“ ہی کے محاذ پر ناکام جا رہا ہے!
توراتی و انجیلی صحیفوں کی نصوص چاہے کچھ بھی کہیں اور کچھ بھی مفہوم رکھیں اور کچھ ’ناقابل توجہ‘ ٹولے ان نصوص کا جو بھی مطلب بیان کرتے پھریں، یہ انتظام بہرحال کر لیا گیا ہے کہ ایک بڑی سطح پر ان توراتی و انجیلی نصوص کا وہی اور اتنا ہی مفہوم سامنے لایا جائے جو آج کی ’ماڈرن حقیقتوں‘ کے ساتھ کمال ہم آہنگی رکھے! اِس بات کا بھی انتظام ہو گیا ہے کہ بائبل کی وہی نصوص جو مثال کے طور پر پوپ اربن دوئم کو کوئی خاص مفہوم دیتی رہی تھیں وہ اب پوپ جان پال دوئم اور پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم کو اس سے یکسر مختلف ایک مفہوم دے دیں جبکہ جان پال اور بینڈکٹ کے بعد جو پوپ آئے گا اُس پر کسی دن اس سے بھی مختلف معانی القاءکر دیں! غرض اپنے ’دور‘ اور ’موقعہ ومناسبت‘ کی رعایت سے اور اپنی ’پسند‘ کی عالمی صورتحال کو وجود میں لانے یا باقی رکھنے کیلئے جس وقت بائبل سے تلوار نکلنا ضروری ہو اُس وقت تلوار نکل آئے اور جس وقت زیتون کی ٹہنیاں چونچوں میں دبائے فاختائیں ہی ہر طرف اڑتی نظر آنا ضروری ہو اس وقت فاختاؤں کے غول ہی برآمد ہوں(3)۔۔۔۔! مختصر یہ کہ عالمی قیادتیں، یعنی شاہانِ وقت، اپنی رموز میں جو فرمائش کر دیں، ’خدا‘ اور ’مذہب‘ کے نام پر وہی حاضر ہو!
وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدۃ: 44)
”اور مت بیچو میری آیتوں کو تھوڑے مفاد کے عوض۔ اور جو لوگ فیصلے نہ کریں اس کے مطابق جو خدا نے نازل فرمایا، تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں“
پس اِس نبی کا کوئی ایک معجزہ تھوڑی ہے۔۔۔۔! خدا نے محمدﷺ کو زمین میں ایک شان دی ہے تو کسی کے جز بز ہونے یا کسی کے زور لگانے سے بھلا وہ کیونکر چھن سکتی ہے؟!
یہ صرف دینِ محمد ہے جس کا ایک ایک لفظ عین اُسی معنیٰ پر محمول ہوتا ہے جس معنیٰ میں وہ ایک بار کہہ دیا گیا تھا، اور قیامت تک اُسی پر محمول ہو گا! اِس کے اپنے ہی ناسخ و منسوخ کا معاملہ ہو تو الگ بات ہے، جوکہ دورِ تنزیل ہی میں مکمل ہو جانے والا ایک واقعہ ہے اور نہایت مستند بنیادوں پر ضبط میں لایا جا چکا ہے، البتہ اِس کی شریعت میں جو چیز ایک بار آ چکی اس کا لفظ بھی اپنی جگہ پر رہتا ہے، اُس کا معنیٰ بھی ویسے کا ویسا رہتا ہے اور اُس کا حکم بھی پتھر پر لکیر۔ ساری دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے اِس کی ایک چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلتی۔ یہ شریعت زمانوں کو بدلے مگر زمانے اِس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے! وہ شریعت ہی کیا جو زمانے کے تھپیڑے کھا کر ’تشکیل‘ ہو جایا کرے!!! (4)
محمدﷺ اپنے پیچھے بلا شبہ ایسی ہی ایک چیز چھوڑ گئے ہیں جسے آپ کے ماننے والے آسمان کی آخری اَمانت جانتے ہیں اور اس میں تصرف کا حق آج تک اِنہوں نے کبھی کسی سلطان کو دیا ہے اور نہ کسی ولی کو۔ غیر عالم کو اِس میں حق ہی نہیں کہ وہ تفسیر کے کام کو ہاتھ تک لگائے۔ رہے اہل علم و ولایت تو وہ اس کی صرف تفسیر کرسکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اِس کے ایک ایک لفظ تو کیا ایک ایک اشارے کے پابند رہتے ہیں اور یہاں ان کو بار بار خدا خوفی کی تاکید ہوتی ہے۔ جس قدر جہنم کے ڈراوے شریعت کی تفسیر اور تعبیر کے معاملہ میں ملتے ہیں دین کے کسی معاملہ میں نہیں ملتے۔ دین کی تفسیر اور تعبیر میں ڈنڈی مارنے والوں کیلئے محمدﷺ کے امتیوں کے ہاں باقاعدہ کچھ نام پائے جاتے ہیں، مثل ’علمائے سوء‘ اور ’فقیہانِ دین فروش‘ جس سے بڑھ کر کوئی گالی اِن کی قاموس میں پائی ہی نہیں جاتی! ’فتویٰ فروشی‘ سے بڑھ کر کوئی چیز اِس امت کے ہاں قابل نفرین نہیں!
خدا نے جو اَمانت محمدﷺ کو دی، محمدﷺ نے وہ اَمانت رہتی دنیا تک کیلئے اِس امت کو سونپ دی ہے۔۔۔۔ اور اِس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ قیامت تک آنے والے انسان کو یہ من وعن پہنچے اور محمدﷺ کی اِس امانت میں کسی زیر زبر کا فرق تک نہ آنے پائے اور اس کو کوئی ایک بھی معنیٰ ’نیا‘ نہ پہنا دیا جائے۔۔ اِس ایک بات کو یقینی بنانے کیلئے ہزارہا بار ایسا ہوا کہ اِس امت کے مفسرین ومحدثین و فقہاء اپنی جان پر کھیل جاتے رہے اور وہ آج بھی اِس کیلئے خدا کے فضل سے پوری طرح تیار ہیں!
اِس اَمانت کا لفظی و معنوی تحفظ کرنے کے جو عظیم الشان فضائل اِس امت کے ہاں بیان ہوتے ہیں انہیں سن کر لوگ پھانسی کے پھندے تک چوم لیتے ہیں! کیونکہ یہ ایک ایسا کام ہے جو انبیاءکی جانشینی ہے۔ کسی کو کیا اندازہ یہ کیسی فضیلت ہے!؟ یعنی انبیاءکی خلافت!!! ایک ایسی گدی سے یہ امت بھلا کیسے دستبردار ہو؟ اِس سے دستبردار ہو کر کیسے یہ ان قوموں کی صف میں جا کھڑی ہو جن سے ہدایت کا سرا چھوٹ گیا ہے؟ یہی تو وجہ ہے اِس امت کے اہل سنت کو ”اَبدال“ کا نام دیا گیا کیونکہ اہل زمین کیلئے تاقیامت انبیاءکا بدل اب یہی ہیں! اِس شرف کے عوض تو ان کو پوری دنیا دے دینی پڑے تو یہ دے ڈالیں!!! پس وہ چیز جو اِس امت کا اخص الخاص امتیاز ہے اور جوکہ اِسے اپنے نبی کے خاتم النبیین ہونے کے ناطے آسمان سے ملا ہے۔۔ اپنے اِس اخص الخاص امتیاز کو یہ امت کیا ’ری فارمیشن‘ کے کسی جھانسے میں آ کر قربان کر دے؟؟؟!
چنانچہ یہ بھی جہانِ نو کے اِن نقشہ گروں کیلئے ایک بھاری ’زک‘ ہوئی جو ”محمدﷺ کے دین“ کے ہاتھوں اِن کو مسلسل اٹھانا پڑ رہی ہے، یعنی یہ دین اِن لوگوں کی ’ری فارمیشن‘ کے قابو آکر نہیں دے رہا!!!
یہ شان کرۂ ارض پر ایک ہی ہستی کو حاصل ہے ۔۔ یعنی محمدﷺ!!!۔۔۔۔ ایک ایسی ہستی جس کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ آج بھی روئے زمین پر ڈیڑھ ارب انسان کے ہاں ”پتھر پر لکیر“ مانا جاتا ہے جبکہ وہ ”لفظ“ اپنے معانی و مضمرات میں اِس قدر واضح، صریح اور وقیع ہیں کہ زمینی سیارچے کیلئے باقاعدہ ایک سمت طے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے پریشان شیاطین اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ آج اِسی نام نامی کو جانتے ہیں۔
نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سب سے بڑا معرکہ امتِ محمد کو شاید اسی محاذ پر درپیش ہوگا۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ اِس امت کو اپنے مسلمات سے پھیر دینے کیلئے کچھ پہاڑوں سے بھاری منصوبے عنقریب سامنے آنے والے ہیں اور کفر کو اپنا کل زور اِسی بات پر لگا دینا ہے کہ ”اصلی اسلام“ اِس امت کے ہاں ’پرانا‘ اور ’متروک‘ ٹھہرا دیا جائے۔ آنے والے دن شاید اپنی کوکھ میں اِس امت کے عالموں اور داعیوں کیلئے کچھ غیر معمولی آزمائشیں لے کر آرہے ہیں؛ اُن اداروں کی محنت کے کچھ نتائج ’ نکلنے ‘ والے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھ سے ’چودہ صدیاں پرانا اسلام‘ چھڑوا کر ایک ’روشن خیال اسلام‘ تھمانے کیلئے کئی دہائیوں سے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں اور اِس مقصد کیلئے عالم اسلام میں ان کو ہزاروں چینل دستیاب ہو چکے ہیں۔
جیسا کانٹا یہ اپنی راہ میں اِس ”دینِ محمدﷺ“ کو آج سمجھتے ہیں ویسی ’تکلیف دہ‘ کسی چیز سے اِن کو گویا تاریخ میں کبھی پالا نہ پڑا ہوگا! اِن کے ہاں آج جو کچھ لکھا جا رہا ہے ایک نظر اُسے پڑھ کر یا ان کی ویب سائٹوں پہ جا کر دیکھئے، یہ اِس کو آج اپنی بقا کی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ وہ ’اسلام‘ جس میں کتاب اور سنت کی نصوص کو من وعن لیا جاتا ہے اُس ’اسلام‘ کو یہ اپنے مجوزہ ’عالم نو‘ کے حق میں ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُس سے ہر قیمت پر اور آج ہی نمٹ لینے کو ’اب یا کبھی نہیں‘ کا سوال بنا رہے ہیں۔
وہ اسلام جو ”دین محمد “ کے ایک ایک لفظ کو من وعن لیتا ہے اس کا ہمارے ہاتھ سے چھڑوا دیا جانا آج اگر وہ اپنی بقا کا مسئلہ بنا چکے ہیں تو اُس کو ہاتھ سے جانے نہ دینا ہمارے لئے تو ہمیشہ سے ہی بقا کا مسئلہ ہے!
ہم بھی اور وہ بھی جس طرح صدیوں سے زمین پر بستے آئے ہیں، ’بقائے باہمی‘ کا وہی پرانا طریقہ ہم نے تو آج بھی رد نہیں کیا ہے۔ اس میں کسی ترمیم کا ہماری جانب سے تو مطالبہ نہیں ہوا ہے۔ یہ مطالبہ تو __ اپنی مرضی کا ایک جہان تشکیل دینے کیلئے __ آج اُن کی جانب سے آرہا ہے کہ ہم اور ہمارے بچے کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں، کیا اعتقاد رکھیں اور کیا اعتقاد نہ رکھیں، یہاں تک کہ محمدﷺ اور آپ کے فرمائے ہوئے کے ساتھ ہمارا رشتہ اور ہماری وابستگی کس نوعیت کی ہو اور کس نوعیت کی نہ ہو۔۔ ہمارا یہ سب کچھ عین ان کی مرضی کا ہو، یہ مطالبہ آج اگر ان کی جانب سے ہو رہا ہے اور ان کے اِس مطالبہ کو ہر قیمت پر مان لیا جانا ان کے خیال میں ان کی ’بقا کا مسئلہ‘ ہے، جبکہ شرعِ محمدﷺ کو لفظ بلفظ مان کر رہنا ہمارے لئے تو ہے ہی ہماری بقا کا مسئلہ۔۔ تو پھر کیا شک رہ جاتا ہے کہ دو امتوں میں سے کسی ایک کی بقا کا مسئلہ آج خود اُنہی کی جانب سے کھڑا کر دیا گیا ہے۔
تو پھر پوری دنیا گواہ ہو، جھگڑا اِس وقت یہ نہیں کہ وہ اپنے گھر میں کیسی تاریکی رکھنا چاہتے ہیں، جھگڑا یہ ہے کہ اُن کو ہمارے گھر کی روشنی پر اعتراض ہے۔ ہمیں یہ روشنی خدا نے محمدﷺ کی راہ سے دی ہے، ورنہ اِس سے پہلے تو ہم اُن اقوام سے بھی کہیں بڑھ کر تاریکی میں تھے (وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ) یہ روشنی تو بہرحال قیامت تک نہیں بجھنے کی، ہاں اِس کو پھونکیں مارنے والے آسمان کے ساتھ ماتھا ضرور لگا لیں گے:
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبۃ: 33-32)
”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نُور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں، اگرچہ کافروں کو بُرا ہی لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دین پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں“
(1) سیرت ابن اسحاق جلد اول، باب من عذب فی اللہ بمکۃ من المؤمنین
(2) ترجمہ: فتح محمد جالندھری
(3) اہل بائبل کی اِس بات کو فقہ اسلامی کی اس بات پر قیاس کرنا درست نہ ہوگا کہ فقہائے اسلام بھی کسی خاص صورتحال میں ’قتال‘ کے احکام کا اطلاق کریں گے تو کسی اور صورتحال میں ’امن‘ سے متعلق شرعی نصوص کا۔
واقعہ یہ ہے کہ فقہائے اسلام جس وقت ’قتال‘ کا حکم دیں گے اس وقت ’امن‘ سے متعلق نصوص کی تحریف یا تاویل نہیں کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح جب ’امن‘ کو کسی صورتحال میں شریعت کا اقتضاءسمجھیں گے تب ’قتال‘ کو کتابِ شریعت میں چھپانے یا گول کر جانے کی ضرورت نہ جانیں گے۔ پس شریعت اسلامی یا فقہ اسلامی ایک مربوط اکائی ہے؛ جس میں ہر قسم کی صورتحال کیلئے ایک خاص حکم ہے اور اس ’خاص حکم‘ کا تعین کرنے کیلئے کسی صورتحال کے سامنے آجانے پر وقت کے علمائے اسلام کو اجتہاد کرنا ہوتا ہے۔ البتہ کوئی چیز بھی یہاںایسی نہیں جس پر ’شرمندہ‘ ہوا جائے یا جس پر ’مٹی ڈالنے‘ کی ضرورت جانی جائے، یا جس کی نہایت منطقی توجیہ اور عادلانہ تطبیق نہ ہوسکتی ہو۔
البتہ اہل بائبل اپنی ان نصوص (جن پر عمل پیرا ہونا ’کسی وقت‘ یہ غلط قرار دے رہے ہوں گے) کی بابت: کسی وقت کہیں گے کہ ان نصوص کو حقیقت پر ہی محمول نہ کیا جائے، اور کسی وقت کہیں گے کہ ان کا وقت گزر گیا ہے (مگر ضرورت پڑنے پر ’تلوار‘ پھر بھی نکل آئے گی، کلیسا نے اپنے باغیوں اور دشمنوں ہر دو کو تاریخ کی طویل صدیاں جس طرح تلوار کی دھار پر رکھا ہے وہ کوئی اکا دکا واقعہ نہیں بلکہ دو میلینیم پر حاوی تاریخ ہے، آج اِن لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ اسے own نہیں کرتے اتنی ’سادہ‘ بات نہیں جتنی ان کی جانب سے ظاہر کی جارہی ہے)۔ چنانچہ جس وقت یہ لوگ ’امن‘ کے راگ سنا رہے ہوں گے اُس وقت یہ اُس ’قتال‘ پر اظہارِ افسوس تک کرلیں گے جسے صرف ان کے بادشاہ نہیں بلکہ ان کا کلیسا باقاعدہ مذہبی بنیادوں پر کرواتا رہا تھا۔ حتیٰ کہ یہ کلیسا کے اس قتال پر ’معافی‘ تک مانگ لیں گے۔ البتہ جس وقت کلیسا کے سر پر خون سوار ہوگا اس وقت مسیح ؑ کے اس حکم پر عمل کا یا تو وقت نہیں ہوگا کہ ’جو کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے اس کے آگے اپنا بایاں گال بھی کردو‘ اور یا پھر اس کا ’مطلب‘ کچھ اور ہوگا! غرض ’قتال‘ اور ’امن‘ کی بابت ان کے ہاں کوئی ایسی ’فقہ‘ نہیں جو سب کے ’دیکھنے‘ کی ہو اور جس میں مختلف احوال میں پیش آنے والے سب احکام مذکور ہوں اور ان کی جانب رجوع کیا جانا سب ادوار پر لازم ہو۔
اِن کے احبار ورہبان کو تحلیل و تحریم کا جو بے تحاشا حق حاصل ہے، اور جس کی بنا پر قرآن نے ان پر ”شرک“ کی فردجرم عائد کی ہے (دیکھئے سورہ توبہ: آیت 31)، احبار و رہبان کے اسی ’حق‘ کی تو یہ کارگزاری ہے کہ یہ لوگ جس وقت جو چاہیں اسی کو اپنا ’سرکاری‘ موقف قرار دے لیں اور جیسے چاہیں خود اپنے معاشروں اور پوری دنیا کو ’مذہب‘ کے نام پر بے وقوف بنائیں۔ آج ان کے ہاں ادوارِ ماضی کے بہت سے کلیسائی مواقف سے اظہارِ براءت کیا جا رہا ہے تو اس کیلئے بھی وہی تحلیل و تحریم کا حق ہی استعمال کیا جارہا ہے جوکہ پہلے بھی برقرار تھا اور آج بھی برقرار ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گا۔ پس سوال تو یہ ہے کہ اِس بات کی آخر کیا ضمانت کہ کل جو پوپ آئے گا وہ اِن کے آج کے مواقف کو متروک نہیں ٹھہرا دے گا؟؟؟ ’شریعت‘ اگر کوئی موم کی ناک ہے تو اس کو تو جدھر کو چاہیں پھیر لیں!!! اس کو ’ری فارم‘ کرنے پر بھلا کیا لگتا ہے؟!!!
ظاہری بات ہے اِس تحریکِ ’ری فارمیشن‘ کی اصل مڈ بھیڑ تو اُس دین کے ساتھ ہوگی جس کی ”شریعت“ دائمی ہے اور جس میں سر مو تبدیلی روا نہیں رکھی جاتی، بلکہ کسی کو حق ہی نہیں کہ وہ اس کے کسی ایک بھی مفہوم میں ترمیم کرے چاہے عالم اسلام میں اس کا کوئی بھی منصب ہو!!! تو پھر دیکھ لیجئے، اسلام آج بھی اُس مضبوط چٹان کی طرح سر اٹھائے کھڑا ہے جس کے ساتھ ’تبدیلی‘ اور ’ارتقاء‘ کی ہزاروں بے قابو امواج مسلسل اپنا سر پھوڑ رہی ہیں.. استشراق کے دیے ہوئے خطوط پر آج کے سینکڑوں ’انتہائی ترقی یافتہ ادارے‘ جنہوں نے نہایت منظم اور ’سائنٹیفک ورک‘ میں ہرگز کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، دینِ اسلام کو اس کی پٹری سے سرکانے کیلئے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں، ان میں سے کسی کا محاذِ جنگ ’اسلامی عقیدہ‘ ہے تو کسی کا محاذ ’اسلامی شریعت‘، مگر نہ اسلامی عقیدہ اپنی جگہ سے ہل کر دے رہا ہے اور نہ اسلامی شریعت، بلکہ ہر دو کی پیش رفت اِس وقت بھی اللہ کے فضل سے دیدنی ہے.. یہ ”دینِ محمد “ کا ایک معجزہ ہے جسے دیکھنے کیلئے صرف ان دیو ہیکل منصوبوں پر نظر ہونا ضروری ہے جو اِس وقت اَدیان اور اَفکار کو ’مونوپلائز‘ کرنے اور ’گلوبلائزیشن‘ کے حوالے سے اپنے دیرینہ خواب پورے کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہیں!
(4) قریب قریب ہر مذہب کے پلیٹ فارم سے آج فخریہ کہا جا رہا ہے کہ پچھلے کچھ عشروں میں وہ ایک ارتقاءسے گزرا ہے۔ اِس میں شک بھی نہیں کہ انسان ساختہ اشیاءکی یہی خوبی جانی جائے گی کہ وہ ’ارتقاء‘ کو قبول کرے! اِس حوالے سے کچھ گفتگو پچھلی فصول میں ہو چکی ہے۔ اس سلسلہ میں پوپ کی وہ پوری تقریر ویٹی کن کے ویب سائٹ سے دیکھ لینا بھی مفید ہوگا جس کا حوالہ پہلے یہاں گزر چکا ہے۔