|
| اُس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا جھڑ رہے ہیں؟ | |
| | |
نبیِ وقت کی دعوت کو دیکھنے اور جانچنے کا یہ معیار بھی تاریخ میں مغرب ہی کے ایک بڑے نے ان کو قائم کر کے دیا تھا کہ یہ دیکھیں آیا اس نبی کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا جھڑتے جا رہے ہیں او ر آیا اس کے دین کو اختیار کر لینے والے لوگ اس کے دین کا کوئی عیب دیکھ کر تو اس کو چھوڑ چھوڑ کر نہیں جا رہے۔۔۔۔؟
ان کا یہ بڑا، اِن کی تاریخ کا ایک عظیم ہیرو، اپنے وقت کا سب سے بڑا فاتح اور سب سے طاقتور حکمران رومن شہنشاہ ہریکولیس تھا، جوکہ حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی صحیفوں پر بھی نہایت گہری نظر رکھتا تھا۔۔۔۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبیﷺ نے کفارِ قریش سے کچھ فراغت پائی تو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ اِس رومن سیزر کو اپنے ایشیائی پایہ تخت دمشق میں آپ کا نامہ ٔ مبارک ملا تو اس نے عرب سے آئے ہوئے تاجروں کو اپنے دربار میں طلب کر لیا۔ اتفاق سے یہ آپ کا سب سے بڑا مخالف ابو سفیان نکلا جو صلح حدیبیہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت شام کے ایک تجارتی دورے پر تھا۔ بادشاہ نے، جو اس سے پہلے ایک نہایت اہم خواب دیکھ چکا تھا، آخری نبی کے ظہور کی بابت بہت سی علامات پر عرصہ سے سوچ بچار کرتا آ رہا تھا اور آپ کی بابت نہایت عظیم تجسس رکھنے لگا تھا، ابو سفیان سے آپ کے متعلق متعدد سوالات کئے۔ بخاری میں، عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت سے، روم کے دربارِ شاہی کی یہ ساری کارروائی بیان ہوئی ہے۔ ہریکولیس کے متعدد سوالات میں سے دو سوال یہ بھی تھے:
- اَیزیدون اَم ینقصون؟ (اس کے پیروکار) کیا مسلسل بڑھ رہے ہیں یا کم ہوتے جارہے ہیں؟
- فہل یرتد منہم اَحد، سخطۃ لدینہ، بعد اَن یدخل فیہ؟ کیا اس کے دین کو قبول کر لینے والوں میں سے کوئی اس کے دین کو چھوڑ کر تو نہیں جارہا، اس وجہ سے کہ اس کے دین سے اس کو شکایت پیدا ہوگئی ہے؟
اندازہ کر لیجئے، یہ دونوں شخص کون ہیں، جن میں سے ایک سوال کر رہا ہے اور دوسرا جواب دے رہا ہے! یہ ہے اس نبی کی شان! یہ مدینہ میں بوریا نشین ہے اور سلطنتِ روما کے ہاں اس کی شخصیت پر ’تحقیقات‘ ہو رہی ہیں! خدا کا کرنا، ایک طرف بت پرست مشرکین کا سردار ہے اور دوسری طرف اہل کتاب مشرکین کا سردار ہے؛ دونوں کو خدا نے اس نبی کی صداقت کی گواہی دینے پر لگا دیا ہے۔۔۔۔!
نبیﷺ کے سب سے بڑے دشمن کے منہ سے سچ نکلتا ہے: بل یزیدون۔ وہ تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں! ہرقل اس پر تبصرہ کرتا ہے: کذلک اَمر الایمان حتیٰ یتم۔ ایمان کا معاملہ تو اسی طرح ہوتا ہے جب تک وہ اپنی حد کو نہ پہنچ لے۔پھر وہ دوسرے سوال کا جواب دیتا ہے: نہیں، کوئی اس کے دین کو اس وجہ سے چھوڑ کر نہیں جاتا کہ اس سے اس کو شکایت پیدا ہوگئی ہو! شہنشاہِ روم اس پر تبصرہ کرتا ہے: کذلک الایمان اذا خالطت بشاشتہ القلوب ایمان یونہی ہوا کرتا ہے جب اس کی بشاشت دلوں کے اندر اترتی ہے!
مغرب کے اِس بڑے نے اِن کو وقت کے نبی کی دعوت کو دیکھنے اور جانچنے کی جو ایک کسوٹی بنا کر دی تھی، وہ آج بھی ان کو کام دے سکتی ہے۔ ایمان تو خدا کی ایک خاص نعمت ہے اور وہ تو قسمت والے کو نصیب ہوتی ہے، اور یہ نعمت تو ہرقل کو بھی نصیب نہ ہوئی تھی باوجودیکہ اس نے ابو سفیان کے ساتھ گفتگو کر لینے کے بعد اپنے صحیفوں کی بیان کردہ پیشین گوئیوں کی رو سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ: فان کان ما تقول حقاً فسیملک موضع قَدَمَ ¸َّ ہاتین، وقد کنت اَعلم اَنہ خارج لم اَکن اَظن اَنہ منکم، فلو اَنی اَعلم اَنی اَخلص الیہ لتجشمت لقاءہ، ولو کنت عندہ لغسلت عن قدمہ (صحیح بخاری، کتاب بدءالوحی) اگر جو تم کہہ رہے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے پیر تلے کی اس زمین کا مالک بننے والا ہے، میں جان گیا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے مگر میرا خیال نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا!!! اگر میں یہ جانتا کہ میں اس تک رسائی پا سکوں گا تو میں پہنچ کر اس سے ملتا، اور اگر میں اس کے حضور میں ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔۔!!!
پس ’ایمان‘ تو ایک خاص نعمت ہے اور وہ تو قسمت والے کو نصیب ہوتی ہے، ’ہریکولیس کی قوم‘ دیکھنا چاہے تو البتہ آج بھی دیکھ سکتی ہے کہ اس نبی کے پیروکار مسلسل بڑھتے جارہے ہیں!!! گھٹ نہیں رہے، زیادہ ہو رہے ہیں۔۔۔۔!!! (1)
آخر کتنے ادارے ہیں جو آج اِن کیلئے اعداد وشمار اکٹھے کرنے میں لگے ہیں! کتنے ڈیپارٹمنٹ ہیں جو ’تقابل ادیان‘ سے متعلق ہر موضوع پر ’تحقیقات‘ اور ’رپورٹیں‘ سامنے لاتے ہیں! کیا یہ بات ان کے غور کیلئے کافی نہیں کہ کیوں ایک محمدﷺ کا دین ہی اقوام عالم میں اور خصوصاً ان کے اہل علم اور ان کے شرفاءمیں مسلسل پزیرائی پا رہا ہے؟! ہر ہر مذہب سے، ہر ہر قوم سے آ آ کر لوگ محمدﷺ کے امتی ہی آخر کیوں بن رہے ہیں؟! آج ہر مذہب سے لوگ جھڑ رہے ہیں۔ متبادل ابھی نہ بھی ملا ہو، اپنے اُس مذہب سے جوکہ دل میں نہیں سماتا بہرحال بیزار ہوئے ہوتے ہیں۔ جبکہ دینِ محمدﷺ کو قبول کرنے والوں میں آج دنیا بھر کے پروفیسر، دانشور، اپنے مذہب کے بڑے بڑے پادری اور پروہت، اعلیٰ درجے کے صحافی، سماجی خدمتگار، سماجی ماہرین، جذبوں سے اور ولولوں سے سرشار نوجوان، نہایت اعلیٰ یونیورسٹیوں کے طالبعلم، مرد، عورتیں، گورے، کالے، ہر جنس ہر رنگ کے لوگ آتے ہیں۔۔ اندازہ کیجئے آج اس دور میں بھی جب مسلمانوں کی اپنی صورتحال غیر مسلم معاشروں کیلئے کم ہی کوئی کشش رکھتی ہوگی!!!
ہر خطے کے اندر، ’انسانی پیڑ‘ پر پایا جانے والا کوئی صالح ترین پھل ٹوٹتا ہے تو آج بھی محمدﷺ کی جھولی میں گرتا ہے! دنیا کے معقول ترین مہذب ترین انسان آج بھی، جب وہ حق کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے ہیں، آخر محمدﷺ کے در پر آتے ہیں۔ اور پھر جب وہ یہاں آتے ہیں تو کہیں جانے کا نام نہیں لیتے! کون بدبخت ہے جو اس در سے اٹھ کر کہیں جانے کا نام لے گا؟!!کوئی اس لمحہ ان کو ذرا دیکھے تو، جب وہ تلاشِ ادیان میں دھکے کھاتے کھاتے آخر اپنے نبی کو پہچان لیتے ہیں!أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ! کبھی اسلامک سنٹروں کے مناظر دیکھئے ، ایک کھوئے ہوئے بچے پر اپنی ماں کو پاتے وقت وہ حال نہ گزرتا ہوگا جو ان پر اس وقت گزرتا ہے جب ان کے لبوں پر ”محمدٌ رَّسولُ اللہ“ کی شہادت ہوتی ہے!
یہ واقعات پورے ایک تسلسل کے ساتھ آج ان کے اپنے سامنے ہی تو ہو رہے ہیں۔ آخر یہ ’تاریخ کی کتابوں میں‘ ذکر ہونے والے واقعات تو نہیں! ہم ان کو محض ’زمانہ ٔ سیرت‘ کے قصے تو نہیں سنا رہے! ان کا کونسا شہر آج ایسا ہے جس کے کسی نہ کسی علاقے میں پائے جانے والے اسلامک سنٹر کے اندر، آئے روز یہ مناظر دیکھنے میں نہیں آتے؟! وہ ان کے اپنے بچے، ان کے اپنے احباب اور اعزا ہی تو ہیں جو ان کے مذہب کو چھوڑ کر محمدﷺکے پیروکاروں میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر محمدﷺکی محبت اور عقیدت میں دنیا ومافیہا کو تج دینا اپنے حق میں باعث سعادت جانتے ہیں!
دمشق میں بیٹھے ہرقل کو تو واقعی مکہ کے ابو سفیان کی شہادت درکار تھی کہ وہ اس سے پوچھے ’کیا محمدﷺکے پیروکار بڑھتے جارہے ہیں یا جھڑتے جا رہے ہیں؟‘اور وہ اسے بتائے کہ ’نہیں، وہ تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں‘ اور پھر وہ اس سے پوچھے کہ ’کیا جب کوئی ایک بار اس کے دین کو قبول کر لے تو پھر اس کے دین کو چھوڑ کر بھی کہیں جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہو کہ اسے اس دین سے ہی شکایت ہونے لگی ہو؟‘ اور وہ اسے بتائے کہ ’نہیں، محمدﷺکے پیروکاروں میں ایسا نہیں ہوتا!‘۔۔ مگر آج ’میڈیا‘ کے دور میں، بلکہ خود اپنے گلی محلوں میں، محمدﷺکے پیروکار بڑھتے دیکھ کر اور دنیا کے سمجھداروں کو محمدﷺکا حلقہ بگوش ہوتا دیکھ کر ، ان کو کونسی ’اطلاع‘ درکار ہے؟ کونسی بات مانع ہے کہ یہ اپنے وقت کے نبی کو پہچاننا چاہیں تو بڑی آسانی کے ساتھ نہ پہچان لیں؟!
ہرقل کتنا دقیق تھا: ’کیا کوئی شخص جو ایک بار محمدﷺ کے دین کو قبول کرلیتا ہے، پھر اس کو چھوڑ بھی دیتا ہے جس کی وجہ یہ ہو کہ وہ اس دین سے ہی غیر مطمئن ہوگیا ہو‘؟ تلاش حق میں بہت سے مرحلے آتے ہیں۔ مغرب کے لوگ خدا کی تلاش میں کلیسا سے بھاگتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے کبھی بدھ مت کو دیکھتے ہیں، کبھی ہندومت کو تو کبھی کسی اور دھرم کو۔ لیکن وہ کونسا دین ہے جس میں داخل ہو جانے کے بعد پھر کوئی دین، کوئی فلسفہ اور کوئی دھر م قابل غور نہیں رہتا؟ اس کا جواب مفروضات میں نہیں اعداد وشمار میں دیکھئے!
واقعتا ہرقل بے حد دقیق تھا۔ کسی نے محمدﷺکا دین چھوڑا ہو مگر شرط یہ ہے کہ اس کو محمدﷺکے ”دین“ میں ہی کوئی خرابی نظر آئی ہو؟ اس آخری نقطے پر ذرا غور فرمائیے:
بے شک مشنری لوگ بھی پسماندہ آبادیوں کو عیسائی بناتے ہیں۔ مگر ان میں کتنے ہیں، خاص طور پر مسلم ممالک میں، جو معاشرے کے باشعور، پڑھے لکھے، اور کسی ’تحقیق‘ کے عمل سے گزر کر عیسائیت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں؟ کیا مشنریوں کے سب حملے دور دراز کے جاہل و پسماندہ علاقوں میں نہیں ہوتے جہاں یہ ’روٹی‘ کے بدلے میں اور مغربی ممالک کے ’ویزوں‘ کے جھانسے دے کر لوگوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں؟
یہ مشنری لوگ عالم اسلام کی کتنی جانی پہچانی شخصیات کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے کسی ’تحقیق‘ کے نتیجے میں، اور آمنے سامنے کے مناظرہ میں، اور دلیل کے زور پر، عیسائیت قبول کی ہو؟! جن کو اسلام کے اندر کوئی ’خرابی‘ نظر آئی ہو اور پھر وہ ’خرابی‘ ان کیلئے کلیسا نے دور کر دی ہو؟!
کیا انکے نہایت با خبر ادارے، عالم اسلام میں ایسے تعلیم یافتہ اور باشعور قسم کے ’حق کے متلاشیوں‘ کی کوئی لسٹ جاری کر سکتے ہیں جن کو ’حق‘ بالآخر محمدﷺکے دین کی بجائے کلیسا کے دین میں جاکر ملا ہو؟ ہاں ہم انکو مغرب کے اُن پڑھے لکھوں کی، جتنی طویل یہ چاہیں اتنی طویل فہرست دے سکتے ہیں، جن کو حق محمدﷺکے سوا کہیں کسی کے پاس نظر نہیں آیا اور جنکا اسلام میں آنا نہ تو ’بھوک‘ کی وجہ سے تھا، نہ ’بیماری‘ کی وجہ سے، نہ ’دوائی کیلئے پیسے پاس نہ ہونے‘ کے باعث، نہ کسی ’سفارت خانے کے ہاں ویزہ سہولت پانے‘ کی غرض سے، اور نہ کسی اور دنیوی ضرورت، نہ کسی غرض اور نہ کسی لالچ کے باعث۔
لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر۔۔ محمدﷺکا قصدکرنے والے، زمانے بھر میں آج بھی وہی ہیں جو اللہ اور یوم آخر کی تلاش میں پھرتے ہیں، نہ کہ روٹی، سواری اور ’ویزہ‘ کے ضرورت مند!
ہاں البتہ یہ ہیں جو اپنے مفاد کیلئے پہلے ’تیسری دنیا‘ کو وجود میں لے کر آئے۔ اِس کو بھوکا مار کر اپنی قوموں کو عیش کروائی اور اب یہ سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ پہلے یہ ان ملکوں پر بھوک اور قحط اور جنگیں مسلط کرتے ہیں اور پھر اِن کی بائبل بردار این جی اوز ’انسانی ہمدری‘ میں ان اقوام کیلئے روٹی اور دوائی لاتی ہیں اور under the table اس ’روٹی‘ کے بدلے ’ایمان‘ کے سودے کرتی ہیں۔ تبھی ان کی دجالی سعیِ عمل دنیا کی ساری روٹی ہی آج اپنے قبضے میں کرلینے پر مرکوز ہے۔ مگر یہ سب کچھ کر لینے کے بعد بھی، کس قسم کے طبقے اور وہ بھی کیسی کیسی مجبوریوں اور لاچاریوں کے مارے ہوئے ہمارے یہاں سے ’عیسائیوں‘ کے قابو آتے ہیں اور دوسری جانب کس اعلیٰ پائے کے لوگ مغربی ممالک میں ’اسلام کی دعوت‘ قبول کرتے ہیں؟ تصویر اتنی واضح ہے کہ خود بولتی ہے، ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں!
نو مسلم دانشور آئے روز کتابیں لکھتے ہیں کہ انہیں ہدایت کیونکر نصیب ہوئی۔ نئے نئے مراکز کھول رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر آتے ہیں۔ اپنے معاشروں کے مختلف فورموں پر اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں، ان میں سے کئی ایک، آج ہمارے عالم اسلام کے مسلم نوجوانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ رکھنے والے مشنری بھی کیا مسلم دانشوروں کے ’عیسائی‘ بن جانے کی ایسی مثالیں دکھا سکتے ہیں؟
اسلام کی اس اصل فاتحانہ قوت کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ظالم اپنا وہی استشراقی مقولہ دہراتے ہیں کہ ’اسلام تو دراصل تلوار کے زور پر پھیلا لیا گیا تھا‘! ہمارے اسلاف کا وہ دور تو تھا ہی عالیشان اور دلوں کو فتح کرنے والا، یعنی اسلام اس وقت عملاً قائم تھا۔۔ آج مسلمانوں کی اس حالتِ زار کے باوجود اسلام کس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور وہ بھی ’مغربی فاتحین‘ کے اپنے ملکوں میں؟ یہ بتائیں کہ اسلام کے پاس آج کونسی تلوار ہے؟؟؟ آنکھیں تو دیکھتی ہیں مگر دل اندھے ہوجاتے ہیں!
(1) اس امر کا اندازہ CNN کی 1997ءکی اسی رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی 1200 سے زائد مساجد میں سے 80 فیصد مساجد صرف پچھلے 12 سال کے اندر اندر تعمیر ہوئیں! دیکھئے:
http://www.cnn.com/WORLD/9704/14/egypt.islam/
اور اب تو یہ حال ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی مسجد، کسی نہ کسی اسلامک سنٹر کا افتتاح ہو رہا ہوتا ہے! ٹوکیو سے نیو یارک تک آج پانچ وقتہ اذان کی صدا بلند ہورہی ہے۔ اس رپورٹ کو بھی کئی برس گزر گئے ہیں کہ صرف نیویارک شہر میں ہی ایک سو مسجدیں اذان کی صدا بلند کرتی ہیں، جبکہ امریکہ کے طول و عرض میں مساجد کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ برطانیہ میں 1000 مساجد، جبکہ فرانس کے آسمان میں 1554مینار سر نکالے کھڑے ہیں اور مسجدوں کی یہ تعداد فرانس کے مسلمانوں کو ہرگز کفایت نہیں کررہی۔ جرمنی میں مساجد اور مصلیٰ جات کا تخمینہ 2200 بیلجئم میں 300، ہالینڈ میں 400، اٹلی میں 130 اور آسٹریا میں 76 ہے۔
http://www.islamweb.net/ver2/archive/readArt.php?lang=A&id=136055
حال ہی میں سوٹزرلینڈ میں مساجد کے مینار بنانے پر پابندی لگوانے کیلئے شور اٹھنے لگا ہے کیونکہ شدت پسند عیسائیوں اور یورپی قوم پرستوں کو وہاں مساجد کے مینار دیکھ کر ہول آتا ہے! کئی دیگر ملکوں میں بھی تعمیر مسجد کیلئے لائسنس ملنا دشوار ہو رہا ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں: 1900ءمیں مسلمان دنیا کی کل آبادی کا٪12.4 تھے جبکہ عیسائی ٪26.9، یعنی مسلمان عیسائیوں کی نسبت آدھے سے بھی کہیں کم تھے۔ 2000ءمیں مسلمان دنیا کا ٪19.2 ہوگئے اور عیسائی ٪29.9۔ جبکہ آخری عشروں میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی کے ساتھ بڑھنے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹنے لگی ہے اس کی رو سے حساب لگایا گیا ہے کہ 2025ءتک مسلمان، دنیا کی کل آبادی کا ٪30 ہوں گے جبکہ عیسائی، دنیا کی کل آبادی کا ٪25۔ یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ دنیا کی آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح ٪2.3 ہے جبکہ مسلم آبادی میں اضافہ کی شرح ٪2.9 ہے۔ یعنی مسلم آبادی کے بڑھنے کی رفتار کل دنیا کی شرح افزائش سے زیادہ تیز ہے! دیکھئے:
http://muslim-canada.org/muslimstats.html