محمدﷺ نہیں تو پھر کون ہے؟ | |
| جسکی نبوت پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے؟ | |
’ایمان‘ کے لئے کسی دور میں انسانوں پر خدا اتنے ہی دلائل آشکارا کرتا ہے جتنے کسی سچائی کے متلاشی کے لئے معقول حد تک ضروری ہوں۔ خواہ یہ خدا کی ذات پر ایمان کا معاملہ ہو، خواہ اس کی کتابوں پر، خواہ اس کے نبیوں پر اور خواہ یوم آخرت پر۔
اس’بحث‘ کی لوگ اگر دنیا میں اپنے لئے گنجائش پاتے ہیں کہ خدا ہے یا نہیں تو یہ اس لئے نہیں کہ خدا کے وجودکے جتنے دلائل یہاں پائے جاتے ہیں اس سے زیادہ دلائل اور شواہد معاذاللہ مہیا نہیں کئے جاسکتے تھے!
خدا کو اپنے سامنے دیکھ لینے کا مطالبہ بھی کچھ بدبختوں نے کیا مگر ایسی کسی ’فرمائش‘ کا پورا ہونا خدا کے منصوبے کا حصہ نہیں رہا۔ کیونکہ ”خشیت“ کا وہ امتحان جو ”ایمان بالغیب“ کے لئے مطلوب ہے اس صورت میں بے معنی ہو جاتا ہے۔
منکروں نے کیا کیا مطالبے نہیں کئے اور کیا کیا اعتراضات نہیں جڑے؟! خدا کے فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کا تقاضا کیا۔آخرت پر ایمان کے لئے قبروں سے مردوں کے زندہ اٹھ کھڑا ہونے کی شرط لگائی۔ ’ہتھیلی پہ سرسوں جما دینے‘ کے مطالبے نبیوں سے تو ہزارہا انداز میں کئے جاتے رہے۔۔۔۔ مگر ہم جانتے ہیں خدا کا انسانوں سے ”ایمان بالغیب“ کا مطالبہ خدا کی اپنی شروط پر ہی برقرار ہا۔ ایک بڑی خلقت ”دستیاب دلائل“ سے مدد لے کر ایمان لائی۔ اس کے لئے روشنی کی اتنی مقدار جو خدا نے زمین پر اشیاءکے نظر آنے کیلئے متعین کر دی تھی، خدا اور اس کے نبیوں تک پہنچ پانے کیلئے کافی ہوئی۔ جبکہ ایک بڑی خلقت پر عذاب کی بات سچ ثابت ہوئی اور وہ ’زیادہ واضح‘ دلیل کا تقاضا کرتے کرتے جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے جا پہنچی!!!
پس غیبیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کوئی اگر ”ایمان“ لانے پر آمادہ نہیں وہ تو پھر ’انتظار‘ ہی کرے۔ کیونکہ ایسا کوئی منصوبہ جس میں ایسے انسان کی یہ شرط پوری کر دی گئی ہو، یہاں خدا کے اس جہان میں پایا ہی سرے سے نہیں جاتا۔ ایسا شخص ’ایمان‘ کے بغیر ہی یہاں سے سدھار جانے پر اگر بضد ہے یا پھر وہ ’ایمان‘ لانے کیلئے اگلے جہان کے برپا ہونے کا ہی منتظر ہے تو زندگی زندگی اسے اس بات کا اختیار ہے۔ چاہے تو بخوشی ’خطرہ‘ مول لے۔۔۔۔
لیکن بات اگر ”دستیاب دلائل“ کے ذریعے ایمان لانے کی ہے۔۔ یعنی کوئی شخص اپنی شروط کی بجائے خدا کی شروط پر ایمان لانے میں مخلص ہے ۔۔ تو یہاں البتہ اسلام کا کھلا چیلنج ہے: کسی انسان کی نبوت کو جانچنے کیلئے کوئی بھی معقول معیار ٹھہرا لیجئے پھر اس پر اگلے پچھلے سب انسانوں کو جن کا دعوائے نبوت ہم تک پہنچا ہے ایک معروضی Objective انداز میں پرکھیے۔ محمدﷺ کی نبوت اور آپ کی نبوت کے دلائل اور آپ کی چھوڑی ہوئی تعلیم ایسے ہر معیار پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر پورا اترے گی۔ بلکہ آج کے اس دور میں صرف ایک محمدﷺ کی نبوت ہی اپنے دلائل اور شواہد اور ثبوت کے لحاظ سے اس پر پورا اترے گی۔ دُنیا کا کوئی انصاف پسند آپ سے پہلے نبیوں پر ایمان لائے گا تو صرف اور صرف محمد ﷺ کی وساطت سے اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم پڑھ کر۔
پس اگر کوئی چیز پچھلے انبیاءکو بھی (معاذ اللہ) دیومالائی کردار بنا کر پیش کرنے کے بجائے (جیسا کہ اہل کتاب کے ہاں پائی جانے والی تعلیمات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے) تاریخ کا ایک حقیقی یقینی واقعہ اور ایک نارمل طبعی وقوعہ ثابت کر سکتی ہے تو وہ سب سے پہلے محمد ﷺ پر ایمان ہے۔
محمد ﷺ پر ایمان کے بغیر انبیاءکی پوری تاریخ ہی دھندلی ہو جاتی ہے۔ انسانیت اتنے بڑے خسارے کی بھلا کب متحمل ہے؟؟؟
شام کے ایک مصنف نے حال ہی میں مغرب کے کچھ اہم اہم نومسلم مفکروں کے قبول اسلام کے تجربات و محسوسات ایک کتاب میں قلم بند کئے ہیں جس کا عنوان بہت خوبصورت رکھا ہے:
ربحتُ محمداً (ﷺ) ولم اخسر المسیحؑ یعنی”میں نے محمد ﷺ کو پایا مگر مسیحؑ کو بھی نہ کھویا“
یہ بات بے انتہا سچ ہے۔ یہ نبی پچھلی نبوتوں کی توثیق کرنے آیا ہے اور پہلے سے پائی جانے والی اعلیٰ قدروں اور بلند رویوں کی تکمیل۔ یہاں ’کھونے‘ کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔سب کچھ البتہ ’پایا‘ جاسکتا ہے۔ ایک خیرِ وافر ہے۔ حتی کہ وہ حق جو ان کے ہاں پایا جاتا ہے مگر اس پر یقین اور وثوق کے شواہد اب ان کے پاس ناپید ہیں محمد ﷺ پہ آکر ان کو وہ بھی مل جاتا ہے۔ خود ان کے گھروں کی روشنی اب محمد ﷺ کی مرہون منت ہے۔ روشنی کا منبع جہان میں ایک ہی تو رہ گیا ہے اس کو چھوڑ کر یہ کہاں جائیں گے؟
فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ لِمَن شَاء مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ(التکویر:29۔26)
”پھر تم کہاں جارہے ہو۔سب جہانوں کے لئے یہ نصیحت نامہ تو ہے۔ ہر شخص کے لئے ہے جو سیدھی راہ پالیناچاہے۔ اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے“
بعثت انبیاءکا واقعہ دنیا میں واقعی اگر کبھی ہوا ہے اور محمد ﷺ کا ان انبیاءمیں سے ایک ہونا کسی ’علمی معیار‘ کی رو سے (معاذاللہ) اگر ’پایۂ ثبوت‘ کو نہیں پہنچتا تو کون ہے جس کی نبوت پھر ’پایۂ ثبوت‘ کوپہنچتی ہے؟؟؟ کسی ایک نام کی پھر’نشان دہی‘ تو ہو!!! یہ نہیں پھر تو گھپ اندھیرا ہے! اور یہ تو خدا کے ساتھ ہی بدگمانی ہے:
وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُكُمْ قُلِ اللّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ يُحَافِظُونَ يُحَافِظُونَ (الانعام: 92-91)
”اور ان لوگوں نے خدا کی کوئی قدر ہی نہ لگائی، جیسی اس کی قدر کرنا واجب تھی، جب یہ کہنے لگے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ان سے پوچھو: ’پھر وہ کتاب جسے موسیٰ لایا تھا اور جو انسانوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کرکے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپاتے ہو اور جس کے ذریعے سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو‘ آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا؟ بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں کیلئے چھوڑ دو (اُسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے ہی نازل کیا ہے۔ بابرکت ہے۔ اس چیز کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے (نازل) ہوئی۔ (اس لئے کہ) تم بستیوں کی ماں کے مرکز (یعنی کعبہ) کو خبردار کرو اور اس کے اطراف واکناف کو بھی۔ آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگ اس کے مرکز (یعنی مکہ) پر ایمان لاتے ہیں جبکہ وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوں“
اب تو اگر روشنی ہوگی تو وہ صرف محمد ﷺ کے دم سے ہوگی۔ اس کے سوا کوئی روشنی بالفعل یہاں آج زمین پر دستیاب نہیں۔