|
| ایک اسی نبی کا ہی انکار کیوں؟ | |
| جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں | |
نبی ﷺ کے ’موضوع بحث‘ آنے کی دیر تھی کہ عقیدہ کے کئی ایک مباحث خودبخود لوگوں کی توجہ لینے لگے ہیں
’انسان‘ کی بعض نادر ترین قابلیتوں کو زیر مطالعہ لانے کے لئے اگر کچھ علمی مراکز دنیاکے اندر مصروف عمل ہیں تو ’نبوت‘ کیوں توجہ کا نقطۂ ماسکہ نہیں بن سکتی ؟(1)
نبوت ایک آسمانی اشراق ہے اور قلب انسانی کا خدا اور اس کے فرشتوں کے ساتھ براہ راست اتصال۔ خرق عادت واقعات دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں نبوی اور ملکوتی ذرائع سے بھی اور شیطانی عمل کے ذریعے بھی۔ اس کے بعض شواہد آج بھی دنیا میں ناپید نہیں اور اِس ’مادی‘ دور میں بھی ’مابعد الطبیعیاتی ‘ مطالعہ موقوف نہیں ہوا۔
خدا سے انسانوں کے لئے اخبارِ غیب اور کتابِ ہدایت وصول کرنے والے اور اپنے لئے تمام تر مصائب جھیل کر انسانوں کو نیکی اورفضیلت اور راستی پر لے آنے والے سچائی کے پیکر خدا پرست انسانوں کا تذکرہ کسی نہ کسی صورت ہر قوم کے تاریخی ذخیروں کے اندر پایا جاتا ہے۔ دنیا میں انبیاءکے وجود کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے میں آخر کیا حرج ہے؟
کائنات کے خالق نے انسانی دنیا کے ساتھ رابطہ و اتصال کرنے کی اگر تو کبھی ضرورت نہیں جانی پھر تو بات الگ ہے لیکن اگر کوئی چیز زمین پہ ’نازل‘ ہوئی ہے تو پھر انبیاءکے سوا اور وہ کس کے ہاں ٹٹولی جاسکتی ہے؟ لہٰذا انبیاءکے مسئلہ کو توجہ دینے میں کیا مانع ہے؟
انبیاءکے ’وجود‘ پر تو تاریخ کے بے شمار دلائل پائے جاتے ہیں۔ مغرب سمیت دنیا کے بیشتر معاشرے انبیاءکے تذکرہ سے ناآشنا نہیں۔ مگر انبیاءکی ’تعلیم‘ کوتاریخ کے ملبے سے کیونکر برآمد کیا جائے، خصوصاً آج جب ہر چیز ’تحقیق‘ کے عمل سے گزرتی ہے؟ سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور کے انسان اور انبیاءکے قدیم صحیفوں کے مابین کچھ تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہبی پیشواؤں کی مرحلہ در مرحلہ تفسیرات و تاویلات بلکہ تحریفات حائل ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان مذہبی پیشواؤں کی ’خدائی‘ سے انسان کی جان کس مصیبت سے جاکر چھوٹی ہے اور اس کی جانب واپسی کی انسان کے پاس کوئی گنجائش نہیں۔
اس مخمصے میں پڑے انسان کو جب بھنک پڑتی ہے کہ قدیم انبیاءپر اب صرف ایک مجمل ایمان ضروری ہے البتہ انبیاءکی تعلیم تک مفصل اور مستند رسائی پیش نظر ہو تو وہ اس مصدر سے رجوع کرسکتا ہے جو آج بھی اپنی اصل شفاف حالت میں اور اپنی اصل زبان میں ہوبہو دستیاب ہے اور خودمغربی محققین کی ایک بڑی تعداد کی شہادت ہے کہ انسانی تحریف کا اس میں کوئی گزر تک نہیں، یعنی نبوتِ محمد ﷺ تو آسمانی اشراق کی تلاش و مطالعہ کا ایک نیا زینہ اس انسان کے سامنے آجاتا ہے۔
مگر اس ’زینے‘ تک پہنچنے کیلئے لوگوں کو چھوڑا کیونکر جاسکتا ہے؟!البتہ سمجھداروں کو اس سے روکا بھی کیونکر جاسکتاہے؟! بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے محمد کی جانب بڑھنے کی راہیں مسدود کردینے کیلئے چند گھسی پٹی باتوں سے بڑھ کر کیا کہہ سکتے ہیں؟ ’قتال‘؟ وہ تو بائبل میں مذکور بعض انبیاءکے ہاں بھی مذکور ہے۔ کیا پھر یہ موسیٰؑ اور سموئیل اور داودؑ کو بھی ’تلوار‘ کو ہاتھ لگ جانے کے باعث نبی ماننے سے انکار کردیں گے؟ سلیمانؑ کو نبی نہ مانیں مگر ’اَمثال‘ تو انکی بھی بائبل کا جزولاینفک ہیں۔ کیا ان سب نبیوں کو اور ان کے صحیفوں کو اور ان کے ذکر کو ’قتال‘ میں ملوث ہونے کے باعث بائبل کے عہدقدیم سے باہر کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ عہد جدید کے بھی وہ حصے جن میں ’تلوار‘ کا ذکر ہے.. کیا بائبل کے عہدِ جدید کی ان نصوص کی آسمانی نسبت بھی مشکوک ٹھہرا دی جائے گی؟ ایک سے زیادہ شادیاں کرلینے کے باعث محمدﷺکو بطور نبی نہیں دیکھا جاسکتا؟ تو پھر ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور داودؑ کو بطور نبی دیکھنے پر بھی کیا یہ مبلغین اپنے چرچ میں پابندی عائد کردیں گے؟ ان انبیاءکی کئی کئی شادیوں کا ذکر اسی بائبل میں ہی تو ہے جسکی تقسیم ِ عام پر صبح شام محنت ہورہی ہے! محمدﷺ نے عہدشکنی کے مرتکب بنو قریظہ کے سرقلم کروادئیے تھے! بنوقریظہ کے جنگی جرائم تو تاریخ کے ریکارڈ میں ہیں مگر موسیٰؑ اور داودؑ نے اپنے قابو آنے والے دشمنوں کے ساتھ جو خوفناک برتاؤ کیا، اپنی ’کتابِ مقدس‘ میں کیا انہوں نے وہ بھی دیکھا ہے؟(2) بائبل جو ’دکھی انسانیت کی فلاح کیلئے‘ افریقہ کے جنگلوں اور آسٹریلیاکے صحرؤں تک آج مفت پہنچائی جا رہی ہے،خود ہی ان سب سوالوں کا جواب ہے!
یاتو یہ کہہ دیں کہ خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے آج تک کوئی نبی بھیجا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کتاب اتاری ہے۔ پھر اس صورت میں بائبل کی ترسیل کے دیوہیکل منصوبے بھی لپیٹ کر رکھ دیں اور عہد قدیم کے انبیاءکی بھی اسی طرح ڈٹ کر مخالفت کریں جس طرح یہ محمدﷺ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں .. بلکہ ’یسوع مسیح ‘ کو اور اس کے کلام کو بھی اسی صف میں کھڑا کریں اور سب پر ایمان کے لئے ایک سا ’علمی معیار‘ بنائیں .... اور اگر ان کے لئے ایسا ممکن نہیں تو پھر محمدﷺ کی طرف جانے والے عقل اور دلیل کے ان سب راستوں میں یہ کیونکر اور کب تک جم کر بیٹھ سکتے ہیں؟
انبیاءکا آنا اگر سچ ہے تو پھر ایک اسی نبی کا ہی انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں اور جس کی زندگی کے حالات اور جس کی تعلیمات مستند ترین صورت میں آج کے انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے وافر اور سب سے روشن صورت دستیاب ہیں اور جس کا انسانی زندگی پر کسی بھی انسان سے بڑھ کر اثر انداز ہونا تاریخ کا ایک واضح معلوم محسوس واقعہ ہے؟؟؟
کسی مستشرق نے کیا سچ کہا ہے کہ محمد ہی ایک وہ نبی ہے جو تاریخ کے نصف النہار میں پیدا ہوا اور سورج کی روشنی میں دیکھا گیا! پچھلے نبیوں کے تو حالات ہی مستند طور پرآج دستیاب نہیں۔
سبحان اللہ۔ یہ اس لئے کہ محمد ﷺ ہی وقت کے رسول ہیں حتی کہ پچھلے رسولوں پر ایمان کے لئے مستندذریعہ بھی آج محمد ﷺ ہیں اور آپ تک پہنچنے والی صحیح اور ثابت اَسناد!
(1)خاص حقائق کے کسی قلب میں سمانے کیلئے ایک خاص قلبی استعداد پائی جانا ضروری ہے۔ اُس استعداد کے بغیر وہ حقائق اس پر القاءہو ہی نہیں سکتے۔ اِس کی مثال علماءیوں دیتے ہیں کہ ایک ’جانور‘ ضرور کچھ محدود اشیاءکا ادراک کر سکتا ہے مگر اُن اشیاءکا نہیں جو ”انسان“ کے ادراک میں آسکتی ہیں۔ جانور کو کبھی زبان ملے تو ضرور کہے کہ ”انسان“ کو اتنی دور دور کی باتیں بھلا کہاں سے معلوم ہو جاتی ہیں اور کیونکر ”انسان“ ایسے ایسے نتائج اخذ کر لیتا ہے جو اِس کے بس کی بات ہی نہیں!؟ چنانچہ وہ ”انسان“ کے علم کو ’اپنے معیاروں‘ پر پرکھ ہی نہیں سکتا........ یعنی ”حقائق“ سامنے ہوں بھی، یا ان کا ”القاء“ بھی ہوسکتا ہو، تب بھی ان کا ”ادراک“ یا ان کا ”وصول“ ہونا ایک خدا داد استعداد پر منحصر ہے۔
خدا اپنے کسی نبی کو ایک خاص قلب دیتا ہے جسکی بدولت وہ فرشتوں سے وحی لے سکتا ہے، غیب کے پردے سے ہونے والا الہام اور وحی وصول کر سکتا ہے اور کچھ ایسے حقائق کو اپنے اندر جاگزیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ نبی خدا کے دیے ہوئے علم کی بدولت اُن دور کی باتوں کا ادراک کر لیتا ہے جن کی بابت عام انسان متعجب ہو کہ اسے کیسے معلوم ہوئیں! ایک نبی کو اسی وجہ سے انسانوں کا ’چرواہا‘ ہونے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بائبل میں، مسیح علیہ السلام نے اسی وجہ سے یہ جملہ بولا ہوگا کہ انکو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو راہ دکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کیونکہ ایک نبی اور عام انسانوں کے مابین وہی نسبت ہے جو ایک چرواہے کو ریوڑ کے ساتھ، کہ جس کی سب خیریت اور عافیت اسی میں ہے کہ چرواہے کے کہنے میں رہے نہ کہ ’اپنی مرضی‘ کرنے میں۔
(2) اس کی کچھ تفصیل ایک علیحدہ فصل ’محمدﷺ کی تلوار‘ کے تحت آگے آرہی ہے۔