سب اپنے اپنے نبی کی نبوت کا ثبوت دیں! | |
| | |
ایک عرصۂ دراز تک اہل کتاب کے ساتھ ہمارے جدال کی بنیاد یہ رہی تھی، جوکہ اپنی جگہ درست تھی اور ہے ، کہ ہم اپنے نصوصِ شریعت کے ساتھ ساتھ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی بشارتوں کے حوالوں سے نبوتِ محمد کا ثبوت دیں۔ اُس اپروچ کی رو سے ہمیں رسول اللہﷺ کی نبوت کے زیادہ سے زیادہ ’ثبوت‘ دینا ہوتے تھے جبکہ اُن کو اِس پر زیادہ سے زیادہ ’اعتراضات‘ کرنا ہوتے تھے۔ مزید برآں اُس اپروچ کی رو سے، ایک دیکھنے والا موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کو مسلَّم اور صرف محمدﷺ کی نبوت کو موضعِ نزاع دیکھتا تھا۔
اُس اپروچ کو اب بھی ترک نہیں کیا گیا، اور بلاشبہ وہ اپنی جگہ کارآمد ہے، البتہ مسلم داعیوں کے جدال کی اِس نئی اپروچ نے معاملے کو کچھ زیادہ مختصر بھی کردیا ہے اور آسان بھی: موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت تو ہم محض اس لئے مسلَّم جانتے ہیں کہ ہمیں یہ محمد ﷺ کی تعلیم ہے۔ لیکن اگر محمدﷺ ہی کی نبوت موضع نزاع ہے تو تب پھر ہم ان سے کہتے ہیں:
آئیے، ہم میں سے ہر کوئی ہی اپنے اپنے نبی کی نبوت کا ثبوت دے اور اس کیلئے ایک سے ’علمی‘ و’تحقیقی‘ معیار اختیار کئے جائیں! محمدﷺ کی نبوت کا ’ثبوت‘ چاہیے تو پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کا بھی ’ثبوت‘ چاہیے اور عین انہی معیاروں پر جن کو ’تحقیق‘ کی بنیاد بنا کر تم محمدﷺ کی نبوت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے رہے ہو!۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہیں ’دلیل‘ کس کے پاس ہے!!!!!؟ وہ اعتراضات جو تم محمدﷺ اور قرآن پر کرتے ہو، ’جدید انسان‘ کو ایسے ہی اعتراضات کرنے کا حق اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر بھی تو دو! تمہارے پاس تو کچھ بچے گا ہی نہیں!!! خود موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کے ثبوت بھی خدا کے فضل سے آج ہم رکھتے ہیں نہ کہ تم!!!
ہمارے پاس تو اللہ کے فضل سے ہر بات کا جواب موجود ہے مگر اُن کا حال یہاںفَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ والا ہوتا ہے! یہاں معاملے کی ساری ترتیب ہی الٹ جاتی ہے۔ کرۂ ارض پر بسنے والا ’آج کا انسان‘ جو اپنی لائبریریوں میں پائی جانی والی دستاویزات کیلئے جانچ اور پرکھ کے باقاعدہ اصول رکھتا ہے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو جاننے کیلئے آج محمدﷺ کا ضرورت مند ہے نہ کہ محمدﷺ کو جاننے کیلئے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کا!
اس اپروچ کی خاص ضرورت انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن کے دور میں آج اِس وجہ سے پڑ گئی ہے کہ دعوت کا خطاب اب زیادہ سے زیادہ گلوبل ہوگیا ہے اور دنیا کے سب براعظم ہی آج دعوت کے سامعین میں آتے ہیں۔ جبکہ ’جدید انسان‘، اگرچہ وہ مغرب سے کیوں نہ ہو، اُس ذہنی پس منظر سے نہیں آتا جو روایتی اہل کتاب معاشروں میں بڑی دیر سے چلتا آرہا تھا۔
ہماری اس تالیف، خصوصاً حصۂ دوم کی خاص بات یہی ہے کہ اس میں دعوتی خطاب کی اِس نئی جہت کو ہی زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔