| | إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ |
| | |
ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ
”ن۔ قلم اور اُن کے لکھے کی قسم! اپنے رب کی عنایت سے، تم کوئی دیوانہ نہیں۔ اور ضرور تمہارے لئے وہ اجر ہے کہ ختم ہونے میں نہیں۔ اور یقینا تم ہی اخلاق کے نہایت بلند رتبہ پر ہو۔ پس دیکھ لو گے تم بھی اور دیکھ لیں گے یہ بھی، کہ تم میں سرپھرا کون تھا۔ تیرا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون راہ پر ہے۔ تو پھر مت مان اِن جھٹلانے والوں کی۔ اِن کی تو آرزو ہے، ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں۔ اور ہر ایسے کی بات مت سن جو پیر پیر پر قسم کھاتا ہے۔ نہایت نیچ ہے۔ طعنہ باز۔ لگائی بجھائی کیلئے ہرکارا۔ خیر کو آگے بڑھ کر روکنے والا۔ حد سے گزرا ہوا۔ پاپ کا رسیا۔ بد خصلت۔ اور اِس سب پر طرہ، کہ بد اَصل۔ محض اِس وجہ سے کہ مال اور اولاد رکھتا ہے؟! جب ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے: کہانیاں ہیں پرانے زمانوں کی! عنقریب ہم اِس کے سونڈ پر داغیں گے“۔
اِس کتاب کی بابت واضح ہو
قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے سوا مغرب کے ساتھ ہمارا جو کوئی بھی نزاع ہے، خواہ وہ کتنا ہی اہم اور کتنا ہی فیصلہ طلب ہے، وہ ہماری اِس پوری کتاب میں ذکر نہیں ہوا ہے۔۔
مغرب کی ہم پر زیادتیوں کی جتنی بھی طویل فہرست ہے۔۔ خواہ وہ دو سو سال سے ہماری اقوام کو غلام بنا رکھنا ہو، یا استعمار کے اِس مرحلۂ دوم میں پھر سے ہمارے ملک چھیننے لگنا۔۔ یا ہماری بستیوں پر ہزاروں ٹن بارود برسانا کہ جس کے نتیجہ میں روز ہمیں اپنے بچوں کے چیتھڑے دفن کرنا پڑ رہے ہیں۔۔ یا ہمارے سمندروں پر قابض بحری بیڑوں سے مسلسل ہمارا محاصرہ کر رکھنا۔۔ یا ہمارے ہر بڑے شہر کو اپنے ’ایٹمی‘ نوک بردار میزائلوں کے ’لمحاتی‘ نشانے پر رکھنا۔۔ یا ہمارے تہذیبی خدوخال مسخ کرنے کیلئے ہر سال اربوں کھربوں ڈالر کے تعلیمی، سماجی و ابلاغی منصوبے زیر عمل لانا، اور اِسی ایک مقصد کیلئے ہمارے چپے چپے پر ’این جی اوز‘ بیج دینا۔۔ یا ہمارے افلاس زدہ خطوں اور جنگ سے تباہ حال ہماری ’خیمہ بستیوں‘ میں ’روٹی‘ کے بدلے ’ایمان‘ کے سودے کرتے پھرنا اور ’انسانی مدد‘ کے نام پر جگہ جگہ یہ ’بیوپار‘ چلانا۔۔ یا ’پائپ‘ لگا کر ہمارے وسائل کھینچ جانا، ہمیں بٹورنے کے ہزاروں ’سمارٹ‘ طریقے اختیار کر رکھنا اور پھر ہماری ہی دولت لوٹ لوٹ کر ہمیں ’امدادوں‘ کی بھیک دینا اور اِس بھیک کیلئے بھی یہ شرط ہونا کہ ہم پر اُنہی کی مرضی کے لوگ اور اُنہی کی پسند کے نظام مسلط رہیں۔۔۔۔
یہ سب کچھ۔۔ گو اِس ’جدید دنیا‘ کا ایک ’سچا واقعہ‘ ہے۔۔۔۔ پھر بھی ہم پر روا رکھی جانے والی ایسی کوئی بھی زیادتی، جس کا تعلق ہم مسلمانوں کی ذات سے ہو، اِس کتاب کا موضوع نہیں۔
یہاں زیادتیوں کی اُس نوع کا ذکر ہوگا جو ہم سے خالصتاً ہمارے دین، ہماری کتاب اور ہمارے نبی کی حرمت و ناموس کے معاملہ میں روا رکھی جاتی ہے۔۔ یعنی زیادتی کی وہ قسم جسے ’بھلا دینے‘ یا ’معاف کردینے‘ کا ہمیں حق ہی حاصل نہیں!!!
ہم مسلمانوں کی بابت معلوم ہو
کرۂ ارض پر بسنے والا ہر انسان ہمارے لئے قابل قدر ہے۔ آدم علیہ السلام کی صلب سے پیدا ہونے والا ہر ذی نفس ہمارا شریکِ نسب ہے اور نسب کا رشتہ ہمیں __اسلام کے رشتہ کے بعد __ سب سے بڑھ کر عزیز ہے۔ مغرب سمیت کسی بھی قوم کے ساتھ ہمیں کوئی دشمنی ہے اور نہ کسی بھی براعظم میں سکونت پزیر کسی بھی ابن آدم کے ساتھ ہمیں کوئی پرخاش۔
انسانی رشتوں کا بندھن مضبوط سے مضبوط کرنا ہمیں حکمِ خداوندی ہے۔ خدا ترسی، وفاشعاری، انصاف پسندی اور انسان دوستی ہمارا تاریخی شیوہ ہے۔ ’انسانی بھائی چارہ‘ ہمارے دین کی تعلیم ہے۔ جس کتاب پر ہم ایمان رکھتے ہیں خود اُسی کی رو سے، اِس دنیا میں ہر کسی کو اپنی مرضی کے دین پر رہنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ اور اِس اختلافِ ادیان کے باوجود انسانی بہتری و بھلائی کے ہزاروں منصوبے ہمارے اور اُن کے تعاون سے یقینا پروان چڑھ سکتے ہیں۔
پس واضح ہو
ہمارے نہ صرف اِس مضمون بلکہ کسی بھی تحریر میں مغرب کا ذکر اگر کسی ’مخاصمت‘ یا ’تصادم‘ کے سیاق میں ہوا ہے یا ہمارے اہل علم بھی جب کبھی یہ اسلوب اختیار کرتے ہیں تو وہ صرف وہاں کے اُن طبقوں کے حوالے سے ہوگا جو اپنے معاشروں میں بلکہ پوری دنیا کے اندر ہمارے دین، ہماری کتاب، ہمارے نبی اور ہمارے مقدسات کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کا ذریعہ بن رہے ہیں اور جو ہماری امت کے خلاف برسر جنگ ہیں۔۔۔۔ اور جوکہ مغرب میں پائے جانے والے بیشتر سماجی وابلاغی رجحانات پر آج پوری طرح حاوی ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں ہرگز کوئی مانع نہیں کہ
مغرب کے اندر سنجیدہ و مثبت سوچ کا حامل ایک بہت بڑا طبقہ یقینا ایسا ہے جو اسلام کے خلاف دشمنی پالنے والی صنف میں نہیں آتا اور جس میں انصاف پسندی کا عنصر بھی ایک بڑی مقدار کے اندر موجود ہے۔
مغرب کے اِس طبقے کوہم بھی قدر ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُسکے ساتھ تبادلۂ خیال بلکہ تبادلۂ خیر، بلکہ انسانی امن وسلامتی اور بشری فلاح وبہبود کے سانجھے منصوبوں میں اس کے ساتھ شریکِ کار ہونے کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن جانتے ہیں۔۔ اور بلکہ وقت کی ایک ضرورت۔ گو یہ ایک واقعہ ہے کہ یہ انصاف پسند طبقہ مغرب کی عالم اسلام کی بابت پالیسیوں پر اثر انداز ہونے میں اِس وقت قریب قریب غیر متعلقہ ہے۔
پس نہایت واضح ہو
ہماری یہ گفتگو مغرب کے اُن طبقوں کی بابت ہے جو اسلام کے خلاف حالیہ ہیجان خیزی کے ذمہ دار اور وہاں کی اُن پالیسیوں کو جنم دینے کے پیچھے اصل کردار ہیں جن کو اسلام دشمنی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 9،8)
”اللہ نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں بے گھر نہیں کیا۔ انصاف پسند تو یقینا اللہ کو محبوب ہیں۔ اللہ توتمہیں اُن لوگوں کے ساتھ دوستی سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ کی، تمہیں بے گھر کیا، اور تمہیں بے گھر کرنے والوں کو پیچھے سے مدد دیتے رہے۔ ہاں جو ان سے دوستی کریں گے وہ صریح ظالم ہیں“۔