رمضان کا نام آتے ہی کچھ خاص کیفیات ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں۔ مانوس قسم کے محسوسات اور معمولات ۔۔۔۔ ایک خاص ذہنی اور شعوری فضا ۔۔۔۔ اور ایک خاص قلبی و روحانی کیف۔
یہ خاص ذہنی کیفیت، یہ محسوسات، یہ معمولات اور یہ خاص ذہنی اور شعوری فضا جو رمضان کے نام سے ذہن میں آتی ہے البتہ ہر شخص کیلئے اپنا ایک الگ مفہوم رکھتی ہے۔ کچھ لوگوں کیلئے یہ ایک روٹین کانام ہے۔ کچھ کیلئے رمضان افطاریوں اور دعوتوں اورملاقاتوں اور پروگراموں کا نام ہے۔ کچھ کیلئے ایک لگے بندھے افعال کا مجموعہ ہے۔ ہر بار آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ کچھ کیلئے البتہ یہ قلب اور شعور کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ غرض آپ کہہ سکتے ہیں ہر شخص اپنے ’رمضان‘ کا مفہوم آپ ہی متعین کرتا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ہر شخص کا اپنا ’رمضان‘ ہے اور اس بات کا انحصار دراصل اس بات پر ہے کہ کوئی شخص رمضان میں خود کو کیا پاتا ہے۔
بہرحال ہر کوئی ’اپنے‘ رمضان کا منتظر ہے اور رمضان اب دنوں میں آیا چاہتا ہے۔ ہر کسی کو یہ بہت مختصر لگے گا اور اس کے گزر جانے کا پتہ تک نہ چلے گا۔ البتہ اصل سوال یہی رہے گا کہ رمضان کسی کو کیا دے کر گیا؟
جب ایسا ہے تو پھر ان ’گنتی کے چند دنوں‘ کی بابت اپنا مفہوم اور اپنی توقعات درست کر لینا اور اگر پہلے سے درست ہیں تو انکو ایک بار ازسرنو متعین کرلیناایک بہت ضروری عمل بن جاتا ہے۔ آپ رمضان سے کیا پاتے ہیں، اس کا انحصار اگر اُس کے دینے پرنہیں بلکہ آپ کے لینے پر ہے تو پھر آپ کو اپنی طلب کا تعین کرنے پر ضرور کچھ محنت کرلینی چاہیے۔
یوں بھی اس دُنیا میں کیا نہیں ملتا۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ کو یہاں سے کیا چاہیے؟ بہت سے لوگ بس اسی سوال کا تعین نہیں کرپاتے اور بس اس سبب سے ان کیلئے زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔ تب وہ اس زندگی سے اُس چیز کی امید لگا لیتے ہیں جس کا دے دینا اِس زندگی کے بس کی بات نہیں۔ ’آنکھ‘ کھلتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے!
ذوقِ طلب کا پیدا ہو جانا اس لحاظ سے انسانوں کا ایک بہت ہی بنیادی اور حقیقی مسئلہ ہے!
کسی عمل میں نیت اور قصد کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آپ کا یہ تعین نہ کر سکنا کہ آپ کو ایک عمل سے کیا برآمد کرنا ہے، آپ کی پہلی ناکامی ہے بے شک ’عمل‘ کر لینے میں آپ کامیاب ہو بھی جائیں۔ ایک ’ناکام‘ عمل کرنے میں کامیاب ہونا اصل ناکامی ہے۔ کامیاب عمل وہ ہے جو آپ کا وہ مقصد پورا کرے جو اس عمل سے آپ کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ’ آپ‘ کی ناکامی ہے۔ اس کا الزام ’عمل‘ کو نہیں جاتا۔
انما ال اَعمال بالنیات وانما لکل امریٔ مانوی
عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کے حصہ میں وہی کچھ آئے گا جو (عمل سے) دراصل اس کی منشا ومراد تھی
بھائیو اور بہنو! آئیے رمضان شروع ہونے سے پہلے اپنے مقصود او رمطلوب کا تعین کرلیں۔ یہ بھی احضارِ نیت ہی کا دراصل ایک پہلو ہے۔
شعبان 1422 ھ