کوئی چیز |
کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ ﷺ |
کا متبادل نہیں |
”فہمِ سلف“ جتنا بھی قیمتی اور ضروری ہے ”کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ“ کا قائم مقام بننے کیلئے نہیں ہے۔ ”قرآن“ کو علم اور ایمان اور تحریک کا موضوع بنانا اور ”سنت“ کو اُمت کی اس نئی اٹھان کی بنیاد بنانا بہرحال اپنی جگہ فرض ہے اور اُمت کی ایک بڑی ضرورت۔ ”فہمِ سلف“ اس عمل کیلئے ایک اوزار tool کا کام دے گا مگر خود اس عمل __ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر شبانہ روز محنت __ کی اہمیت اپنی جگہ باقی رہے گی۔
اس بنا پر وہ سکہ بند جامد رحجانات جو کہ اپنے منہجِ تربیت اور اپنے منہجِ تحریک میں اصل انحصار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر نہیں کراتے۔۔ جو ایک عام آدمی کے قرآن اور سنت کو محض ہاتھ لگانے کیلئے ان علوم اور فنون کی ایک طویل فہرست گنوانے بیٹھ جاتے ہیں جو کہ صرف ایک ’مجتہد‘ کی ضرورت ہیں نہ کہ ایک ’طالب علم‘ کی۔۔۔۔ جو مذہبی رحجانات وقت کے انسان کو وحی کی نصوص میں غوطہ زن نہیں کراتے اور جو مصادرِ دین کا کوئی ’آسان متبادل‘ دینے پر ہی اصرار کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ تو دراصل یہ وہ رحجانات ہیں جن کو آپ اس معاملہ میں دوسری انتہا کہہ سکتے ہیں بلکہ اس ردعمل کا اصل سبب بھی جو کچھ لوگوں کے اول الذکر انتہا پرجانے کا باعث بنتا رہا ہے۔
اصل نصاب ہمارے ایمان اور عمل کیلئے خدا کی کتاب ہے اور اس کے رسول کی سنت۔ ہاں البتہ اس کو پڑھنا ہمیں سلف سے ہے اور اس کے پڑھنے میں سلف کے فہم اور طریقہ سے ہرگز مستغنی نہیں ہونا اور نہ ہی اس میدان میں ’خودکفیل‘ ہونے کا کوئی زعم رکھنا ہے۔ مگر یہ کہ ’شرح‘ ہی ”متن“ سے کفایت کر جائے، ”اصل نصاب“ کہیں پس منظر میں ہی چلا جائے اور صرف ’ٹیسٹ پیپر‘ چلیں!۔۔۔۔ تو یہ منہج بھی نہ صرف غلط ہے اور ہم کو مصادر دِین سے ہی غافل کردیتا ہے بلکہ سب سے پہلے یہ سلف ہی کے طریقے سے متصادم ہے۔
یہ سوچ کہ بزرگوں نے کتاب وسنت سے جو نچوڑ نکالنا تھا وہ نکال لیا ہے اور ایک بڑی سطح پر بس اب ہم کو بزرگوں پرہی انحصار کرنا ہے، نسل درنسل اب قیامت تک ہمیں انہی کا التزام کرنا اور انہی کی دہرائی ہوئی عبارتیں دہراتے رہنا ہے ۔۔ یہ طرزِ عمل یا اندازِ فکر بھی اول الذکر (جدت پسند) انتہاءکی نسبت کچھ کم خطرناک اور کم مہلک نہیں۔
کتاب اور سنت کا ’نچوڑ نکال‘ لینے کا کیا مطلب؟؟؟ یہ تو وہ چشمہ ہے کہ اس سے جتنا بھی نکالا جائے اس کی سطح ذرہ بھر نیچی نہ ہو۔ زمانے اس سے سیراب ہو لیں اس میں کچھ بھی کمی نہ آئے۔ اور پھر اس کی تازگی کا تو کوئی بدل ہی نہیں۔ اشرف المخلوقات کی پیاس ہر دور میں ایمان کے صرف اس منبع سے بجھ سکتی ہے۔ کوئی چیز بھی اس کا ’متبادل‘ نہیں۔ کسی چیز کو اس کا نعم البدل ماننا یا عملاً ایسا تاثر دینا، احسنِ تقویم میں پیدا کی جانے والی اس مخلوق کے رتبہ سے فروتر ہے۔ انسان کی یہ تاریک دُنیا صرف آسمان کی روشنی سے ہی جلا پا سکتی ہے۔
سلف کا فہم اور سلف کا منہج تو جس چیز کا نام ہے وہ اس وحی کے چشمہ سے سیراب ہونے کا ہی دراصل وہ ادب اور طریقہ ہے جس کے بغیر اس چشمہ سے انسان کو شفا اور سیریابی ہونے کی بجائے کوئی روگ لگ سکتا ہے (يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً (البقرہ:26)(1) فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ (آل عمران: 7)(2) رہا یہ کہ دُنیا کی کوئی چیز انسان کو اس بات سے ہی مستغنی کردے کہ تاعمر وہ اسی چشمہ سے ہی بھر بھر کر پئے، تو اس بات کا، منہجِ سلف اور اصولِ اہلسنت سے دور نزدیک کا بھی کچھ واسطہ نہیں بلکہ یہ اس سے صاف صاف متصادم ہے۔ وحی کے سوا کوئی گھاٹ نہیں جس سے خدا کی مخلوق پئے اور اپنی درماندگی کا مداوا کرے۔
ایک ایسا آدمی جو آپ کو بادشاہ کا پتہ دے سکتا ہے یا یقینی طور پر آپ کو بادشاہ تک پہنچا کر آسکتا ہے ___ اپنی تمام تر اہمیت و افادیت کے علیٰ الرغم ___ کیا ’بادشاہ‘ کا متبادل ہو سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہو تو اس سے بڑی محرومیت کیا ہو سکتی ہے؟!!
معاملہ یہ ہے کہ کلام اللہ ایک ایسا محیط کلام ہے کہ اس میں علم، ایمان اور حقیقت کے سمندر پوشیدہ ہیں۔ سنت، جوامع الکلم پرمشتمل ہے اور اس ذات کی وحی ہے جو وقت اور زمانے سے بلند ہے۔ا یسی جامع چیز زمین پر اس کے سوا کبھی اتری ہی نہیں۔ اصولِ سلف اس کی وسعت کو محدود کر دینے کا نام نہیں بلکہ اس کی وسعت سے مستفید اورمحظوظ ہونے کے صحیح منہج کا نام ہے کیونکہ وحی کی تلقی کا یہ وہ انداز ہے جو خود صاحبِ وحی کے زیر نگاہ اور اسی کے زیر ہدایت پروان چڑھا اور جس کی سب تراش خراش صاحبِ وحی کے اپنے ہاتھوں ہوئی۔ البتہ اس میں قیامت تک کی جو ضروریات عمدگی کے ساتھ سمو دی گئی ہیں وہ اپنی جگہ باقی ہیں۔ سلف نے کلام اللہ یا رسول اللہ کے جوامع الکلم کو معانی کے لحاظ سے محصور یا مقید نہیں کر دیا ہے۔ سلف نے کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ کے فہم کے عمل کو دراصل وہ رخ دے دیا ہے جس کے نہ ہوتے ہوئے انسانی فہم منتشر اور مشتت ہو سکتا تھا اور کسی ایسی سمت میں جا سکتا تھا جو کہنے والے کا مقصود نہیں یا جو انسان کے زمین میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے میں مانع ہو۔
ہمیں جو کرنا ہے وہ یہ کہ فہمِ سلف کا استیعاب کرتے ہوئے خود اپنے دور میں خدا کی اس وحی سے ہی اپنا علمی، فکری، شعوری، تہذیبی اور واقعاتی وجود برآمد کریں البتہ اس عمل کے ہر مرحلے میں اِس کے درست ہونے کی توثیق منہج سلف سے کراتے رہیں۔
یعنی نہ ’وحی‘ کا کام کبھی کسی دور میں ختم ہوتا ہے اور نہ ’انسان‘ کا۔ البتہ اس کا فورمیٹ format وہی ہوگا جس کو منہجِ سلف یا اصولِ اہلسنت کہا جاتا ہے۔
پس یہ تین چیزیں ہیں:
- وحی، اپنی خالص حالت میں۔
- اپنے دور کا انسان، بلکہ اپنے دور کا ایک بھرپور اور جیتا جاگتا باشعور انسان۔
- اور پھر انسان کے وحی سے تعامل کرنے کا وہ درست طریقِ کار جو شارع کے اپنے زیر نگاہ قرنِ اول میں پایۂ تکمیل کو پہنچ کر بعد والوں کیلئے نظیر precedent کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ہدایت پانے کا عمل انہی تین امور کا اجتماع ہے۔ ان تینوں میں سے کسی بھی چیز کا روپوش ہو جانا یا اس کا اپنی جگہ سے ہٹا دیا جانا غیر مطلوبہ نتائج برآمد کرنے کا ہی سبب بنے گا۔
٭٭٭٭٭
(1) ”بہتوں کو وہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور بہتوں کو گمراہی“
(2) ”پس البتہ وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ اس (کلام) کے ان حصوں کے پیچھے جاتے ہیں جو متشابہ ہوں، فتنہ کی تلاش میں اور اس کی تاویل کی تلاش میں“