عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 18,2024 | 1445, شَوّال 8
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehame_Deen1 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دورِ اول کے ”سَلَف“ اور زمانۂ آخر کے ’اکابرین‘
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

دورِ اول کے ”سَلَف“

اور

زمانۂ آخر کے ’اکابرین‘

 

ایک اور امر کا واضح ہو جانا بھی اس حوالے سے ضروری ہے۔ گو یہ اس گفتگو کا ایک نازک پہلو ہے مگر خدا شاہد ہے یہ اس موضوع کی حرمت کا تقاضا نہ ہوتا تو ہم ہرگز اس طرف نہ آتے۔

ہمارے برصغیر کے کئی ایک روایت پسند دینی طبقے اپنی روزمرہ اصطلاحات میں ’اکابرین‘ اور ’بزرگوں‘ اور ’بڑوں‘ کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اصطلاحات کے استعمال میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ اور پھر ہر طبقے کے ہاں خود ان کے اپنے دور میں بھی بڑوں اوربزرگوں کا پایا جانا اور ان کااحترام اور التزام کیا جانا بے حد مستحسن ہے، بلکہ ضروری۔ مگر اس کے باوجود بعض امور میں کسی خلط کا پایا جانا معاملے کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔ ’سَلَف‘ کی اصطلاح جو کہ اصولِ اہلسنت کا ایک اہم سنگ میل ہے ابھی پچھلی فصول کے اندر بیان ہو چکی ہے۔ کیا ’بزرگوں‘ اور ’بڑوں‘ اور ’اکابرین‘ کے الفاظ سے ہمارے ان قابل احترام حضرات کے نزدیک عین وہی مراد ہے جو اصولِ اہلسنت میں ’سلف‘ سے لی جاتی ہے؟

ہمارے اس سوال کے اٹھانے کا باعث یہ ہے کہ جس کثرت سے ان حلقوں میں لفظ ’اکابرین‘ وغیرہ استعمال ہوتا ہے اورجس کثرت سے اکابرین کی اتباع اور ان کے طریقے کو لازم پکڑ لینے کی تلقین اور تذکیر اِن کے یہاں کی جاتی ہے اور اکابرین کا راستہ ہاتھ سے چھوٹ جانے کے معاملہ میں جس شدت کے ساتھ اِس مکتبِ فکر کے حلقوں میں تخویف اور تحذیر کرائی جاتی ہے، اس کو دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس کا اصل محل درحقیقت اُمت کے سلف کو ہونا چاہیے۔ ہماری اس بات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو بخدا ہم اس پر معافی کے خواستگار ہیں مگر ہماری اس بات پر براہِ کرم غور ضرور کیا جائے۔

جہاں تک ان حلقوں کے ہاں ان الفاظ کے اطلاق کا تعلق ہے تو یہ سمجھ آنا کچھ مشکل نہیں کہ ’اکابرین‘ اور ’بزرگوں‘ کے الفاظ یہاں کچھ ایسے قابلِ قدر فضلاءکیلئے بولے جاتے ہیں جو آج سے کوئی پچاس یا سو سال پہلے پائے گئے یا زیادہ سے زیادہ جو پچھلی دو تین صدیوں میں یہاں برصغیر میں ہو گزرے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ’اکابرین‘ اور ’بزرگوں‘ ایسے الفاظ سے ان حضرات کے ہاں اُمت کے سلف بہرحال مراد نہیں لئے جاتے۔

روایت پسندی بلاشبہ ایک مستحسن بات ہے اور دورِ آخر کے بزرگوں کا ادب بھی بلاشبہ قابل تحسین ہے مگر روایات اور بزرگوں کا یہ سارا سلسلہ آخر پچھلے سو دو سو سال پر ہی کیوں محیط ہے؟؟؟

بزرگوں کے راستہ پر چلنے کی تلقین کی جانا بھی حرج کی بات نہیں۔ دورِ آخر کے بزرگوں کو بزرگ ماننے میں ظاہر ہے کیا مضائقہ ہوسکتا ہے؟ کوئی بات قابل فکر ہے تو وہ یہ کہ ”دورِ آخر کے اکابرین“ کے چھوڑے ہوئے طریقے اور راستے کا پابند رہنے کی صبح شام جہاں اس قدر تذکیر ہوتی ہے وہاں ”دورِ اول کے سلف“ کے چھوڑے ہوئے طریقے اور راستے کے حوالے دیا جانا اور ان کا پابند رہنے کی تذکیر کی جانا تو پھر اس سے ہزارہا گنا بڑھ کر ہونا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے؟

اپنے اکابرین کا سلسلہ اگر پچھلے دو تین سو سال پیچھے تک ہی جا پاتا ہے تو سلف کے دور تک آپ کیونکر پہنچیں گے؟

ہمارا سوال اصل میں دورِ آخر کے سلف کا التزام کیا جانے کے ’تذکرہ‘ پر نہیں بلکہ ہمارا سوال دورِ اول کے سلف کا التزام کیا جانے کے ’عدم تذکرہ‘ پر ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ’سلف‘ کا تصور تو ہو مگر وہ اپنے محل پر نہ رہنے دیا گیا ہو؟ یعنی ’سلف‘ کا تصور کوئی دس بارہ صدیاں نیچے سرک آیا ہو؟

اگر ایسا ہے تو ’اوپر چڑھنے‘ کا عمل ہمیں پھر سے ایک بھر پور زور لگا کر اور شاید بہت کچھ برا بھلا سن کر از سرنو شروع کرنا پڑے گا۔

پھر ایک اہم غور طلب بات تو یہ ہے کہ پچھلی چند صدیاں دراصل اپنے زوال کی صدیاں ہیں۔ ان میں جو رحجانات ایک بڑی سطح پر عام ہوئے وہ تو بطور خاص تنقیح کئے جانے کے قابل ہیں۔ اس کیلئے بھی کسوٹی ہمارے پاس وہی سلفِ اول کا منہج ہے جس پر دورِ آخر کے سب رحجانات اور یہاں پائے جانے والے سب ایجابیات و سلبیات کو پیش کیا جانا ہے۔ (شخصیات اور افراد کا محاکمہ البتہ ہمارا موضوع ہے اور نہ ہماری دعوت)

قرونِ خیّرہ کے گزر جانے کے بعد اہلسنت کے بعض طبقوں کے ہاں سنت اوربدعت کے خطوط کئی مقامات پر گڈمڈ ہوئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جیسا کہ اس پر کچھ بات ہو چکی ہے۔ پھر ہم جانتے ہیں یہ خلط شدہ اُمور صدیوں سے چلتے اور منتقل ہوتے بھی آئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اشعری اور ماتریدی عقیدہ کے وہ پہلو جو عقلیات اور تاویلِ صفات سے تعلق رکھتے ہیں اور آج تک ہمارے بہت سے مدارس میں سبقاً سبقاً پڑھائے جاتے ہیں اور پھر نقشبندی وچشتی و سہروردی طریقہ ہائے عبادت و روحانی اعمال کیا ابوبکرؓ وعمرؓ اور ابن مسعودؓ و ابن عباسؓ وغیرہ ایسی اسلام کی نسلِ اول سے مروی ہیں یا عمر بن عبدالعزیزؒ اور مجاہدؒ اور عکرمہؒ اور قتادہؒ اور نخعیؒ وغیرہ ایسی اسلام کی نسل دوئم سے ماثور ہیں اور یا پھر ابوحنیفہؒ، مالکؒ،ثوریؒ، ابن عیینہؒ، شافعیؒ، اوزاعیؒ، ابن حنبلؒ اور بخاریؒ وغیرہ ایسی نسل سوئم کے علمی ذخیروں سے ثابت ہوتے ہیں۔۔۔۔ یا پھر یہ اشیاءپہلے تین زمانے گزر جانے کے بعد امت میں دیکھی جانے لگیں؟؟؟

قرونِ ثلاثہ کے مابعد نیا جو کچھ آیا اور پرانا جو کچھ پس منظر میں چلا گیا وہ کسی ایسے جائزہ اور محاکمہ سے بالاتر نہیں جو منہجِ سلف کی روشنی میں ایک بے لاگ انداز کے ساتھ کیا جاتا رہے۔

کتاب وسنت کا وہ استنباط اور استخراج اور فہم اور تطبیق جس کے مجموعی طور پر درست اور قابل اعتماد ہونے کی ہمیں شریعت میں یقین دہانی ملتی ہے وہ صحابہ کا استنباط اور استخراج اور فہم ہے۔ رہے آخری صدیوں میں مقبول اور مشہور ہو جانے والے سلسلے تو وہ البتہ شریعت میں ایسی کوئی ضمانت نہیں رکھتے جس کی رو سے ہم ہرحال میں ان کو صحیح ماننے نیز ان کو کسی تنقیدی نگاہ سے نہ دیکھنے کے ہی شرعاً پابند ہوں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہمارے ایمان کو خطرہ لگ جانے کا اندیشہ ہو۔ ہاں جس بات پر ایمان کو خطرہ لگ جانے کا اندیشہ ہوجانا چاہیے وہ یہ کہ آدمی جانتے بوجھتے ہوئے دیانت اور عدل کا دامن محض رجال کی تعظیم میں ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے یا یہ کہ آدمی ہر معاملے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو حَکم بنانے سے احتراز کرے یا یہ کہ آدمی صحابہ کے راستے پر کسی اور راستے کو ترجیح دینا یا اس میں کچھ کمی بیشی ہو جانا قبول کرلے۔

کسی چیز کی تعظیم میں خاموش ہوا جاسکتا ہے تو وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہے اور یا پھر خیر القرون کا فہمِ اسلام۔ اس کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بات نہ ہو سکے۔

کیا ایسا تو نہیں کہ جس ظاہرہ Phenominon کا پیچھے ہم ذکر کر آئے ہیں اور جو کہ ہمیں آج کے پڑھے لکھوں کے ہاں بکثرت نظر آتا ہے یعنی ”پرانی روش سے جتنی ہٹ کر بات کی جائے وہ ان کو اتنی ہی ’مبنی برتحقیق‘ معلوم ہوتی ہے“ اس کا ایک سبب بھی (واضح رہے صرف ایک سبب) یہی ہو کہ برصغیر کی پچھلی چند صدیوں کا جمود ہمارے اس جدید پڑھے لکھے طبقہ کو قبول کر لینا دشوار ہو اور وہ اس سے کسی بھی طرح چھٹکارا پانے کی فکر میں ہوں اور یہی ذہنیت ___ ایک بے علمی کے سبب ___ ان کو پھر ان جدت پسند رحجانات کی جانب دھکیل رہی ہو جو کتاب وسنت (1) سے دین کی تعبیر کرنے کے معاملہ میں بنیادی طور پر کسی بھی قید سے آزاد ہیں اور جو کہ سلف سے خلف تک سب کو بلا امتیاز لتاڑ دیتے ہیں۔

اگر ایسا ہے تو اس صورتحال کا شکوہ پھر کیا صرف آج کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے کیا جائے؟ مزید یہ کہ آج کے اس تعلیم یافتہ طبقہ کو جدت پسندی کے خطرناک مضمرات بتا کر اور اس معاملہ میں عاقبت کی فکر کرا کر وقت کے ان جدت پسند رحجانات سے برگشتہ اگر کر بھی لیاجائے (جس کے کہ ہم بھی مؤید ہیں اور اسی کیلئے کوشاں) تو کیا اس جدت پسندی سے برگشتہ کراکر ان کو پھر انہی جامد و سکہ بند رحجانات کا ازسرنو پابند کیاجائے گا جو کہ پہلے ہی ان کے اس ردعمل کا سبب بنے رہے ہیں اور جن کی کل تاریخ دورِ زوال کی پچھلی چند تاریک صدیاں ہیں نہ کہ سلف کا دورِ تابندہ!؟

آخر راستہ کہاں سے کھلتا ہے؟ پچھلے ایک عرصہ سے ہم واقعتا ایک بند گلی پر پہنچ چکے ہیں اور شاید غلط جگہ پر زور لگا رہے ہیں۔ ’جدت پسندی‘ کا خاتمہ کیا جانے کا مطلب پچھلی دوتین صدیوں کے بزرگوں کا پابند ہورہنا ہو، اور ان بزرگوں کی پابندی سے آدمی نکلے تو پھر جدت پسندی اس کی منتظر ہو!.... جبکہ سَلَف کے راستے کی پابندی(2) یہاں کی فکری دنیا میں آدمی کیلئے کوئی آپشن ہی نہ ہو! کیا ہم جدت پسندی کے راستے بند کر کر کے یہاں کے پڑھے لکھوں کے سامنے سب راستے تو بند نہیں کر رہے؟ راستہ تو ایک ہی ہے جو آخر تک کھلا ہے اور جو کامیابی اور منزل پر پہنچنے کی ضمانت ہے، باقی تو سب راستے ہی کہیں نہ کہیں بند ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ راستہ تو، جس کا یہاں ذکر ہے، بند ہوا تو اپنے ہاں جدت پسندی کی یہ نوبت آئی! بلاشبہہ ہمارے یہ سبھی راستے جو متاخرین کے چلائے ہوئے ہیں اور جن پر جمود کے باعث ہم منہجِ سلف کی روشنی میں ان کی تنقیح و محاکمہ کرنے پر آج بڑی حد تک آمادہ نظر نہیں آتے، یہ سبھی راستے بلا شبہہ ایک عرصہ سے بند ہیں اور یہ ہمیں ہرگز کہیں نہیں پہنچا رہے۔ امام مالکؒ کا ایک قول جو بے انتہا مشہور ہے اور سنہری حروف سے لکھا جانے کے قابل:

لن یصلح آخر ھذہ ال اَمة اِلا بما صلح بہ اَولھا

”اِس اُمت کا آخر بھی عین اسی امر پہ آنے سے سدھرے گا جس پہ آکر اس کا اول سدھرا تھا“۔

٭٭٭٭٭


(1بلکہ ان جدت پسندوں میں سے کئی ایک تو صرف قرآن سے ہی ’اپنی سمجھ کے مطابق‘ دین اخذ کرنے کو کافی جانتے ہیں۔

(2) ’سلف کے راستے پر چلنے‘ کی صدا بھی ایک عوامی طبقے کی جانب سے گو یہاں بلند کی جاتی ہے، مگر (اساتذۂ علم کی ایک محدود تعداد کو چھوڑ کر) خود اس صدا کے اندر جو جو خلط مبحث اور غلطی ہائے مضامین پائے جاتے ہیں، اور خود یہ صدا جس طریقے سے کچھ فقہی اور فروعی بنیادوں پر فرقہ وارانہ رجحانات کی پرورش کرہی ہے، اور جوکہ خود ”منہجِ سلف“ سے ہی براہِ راست تصادم ہے۔۔۔۔ یہ سب منہجِ سلف کے حق میں بے اندازہ نقصان کا باعث بنا ہے، یہاں تک کہ دیکھنے پڑھنے والے یہ باور کرنے لگے کہ ”سلفیت“ گویا ’حنفی‘، ’مالکی‘، ’شافعی‘ اور ’حنبلی‘ کے مقابلے میں کچھ خاص ’امتیازی مسائل‘ پر مبنی ایک مذہب ہے!!! حالانکہ ”سلفیت“ اس سے کہیں وسیع تر ایک حقیقت ہے۔ یہ مذاہب اربعہ کو شامل ہے نہ کہ مذاہب اربعہ کے مغایر کوئی چیز۔ یعنی ایک آدمی فقہی اعتبار سے ’حنفی‘ یا ’شافعی‘ یا ’حنبلی‘ ہوتے ہوئے، اپنے عقیدہ ومنہج کے اعتبار سے سلفی ہوسکتا ہے۔ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں کہ امام طحاوی حنفی ہوتے ہوئے سلفیت میں امام کا رتبہ رکھتے ہیں، ابن ابی العز حنفی، شرحِ عقیدہ میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابنِ قدامہ اور ابن رجب حنبلی ہوتے ہوئے اور ابن حجر اور نووی شافعی ہوتے ہوئے منہجِ سنت وسلف کے امام ہوسکتے ہیں۔ پس منہجِ سلف تو وہ چیز ہے جس پر تمام اہلسنت طبقے اپنا تمام تر فقہی تنوع برقرار رکھتے ہوئے اکٹھا ہوسکتے ہیں۔

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز