عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, April 24,2024 | 1445, شَوّال 14
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehame_Deen1 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
منہجِ سلف قرونِ ثلاثہ کے بعد
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

منہجِ سلف

قرونِ ثلاثہ کے بعد

   

اَتباعِ تابعین کا دور گزرتے ہی یہاں ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا دیکھنے میں آیا جوکہ تیسری صدی کے اواخر میں اٹھنا شروع ہوا اور چوتھی صدی کے نصف کو پہنچتے پہنچتے __ یعنی ایک صدی کے دوران ہی __ تقریباً پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک باطنی اور رافضی انقلاب تھا جو مسلم دُنیا کے ہر طرف اندھیرا کر چکا تھا۔ چوتھی صدی کے نصف کے آس پاس پر ذرا ایک نگاہڈالیئے اور دیکھئے عالم اسلام کی حالت کیا تھی:

1) جزیرۂ عرب کے بیشتر خطوں میں بحرین کے قرامطہ کا دور اقتدار جو کہ رافضی باطنیت کا بدترین نمونہ تھے اور جو کہ کعبہ سے حجر اسود تک اکھاڑ لے گئے تھے اور اہلسنت کا قتل عام کرتے تھے۔

2) مراکش سے لے کر مصر تک کے طویل وعریض خطہ پربلکہ شام کے بعض علاقوں تک پر فاطمی (دراصل عبیدی) خلافت جو کہ باطنی رافضیت کی ایک خبیث شکل تھی اور جس کی ایک فرع آج کے اسماعیلی ہیں۔ اسی ’فاطمی خلافت‘ کا اقتدار بعد ازاں پانچویں صدی میں صلیحیوں کے ہاتھوں یمن تک میں قائم ہوا بلکہ کوئی ایک سال بھر کیلئے بغداد کے اندر بھی قائم رہا اور ایک معجزانہ طور پر بغداد کی برائے نام سنی خلافت اس کے ہاتھوں مکمل طور پر ختم ہوجانے سے بچ پائی۔

3) عراق سے لے کر فارس، اصفہان، طبرستان اور جرجان تک بویہی اقتدار جو رافضی عقائد کا پورے دھڑلے کے ساتھ پرچار کرتا تھا اورجس نے کہ دارِخلافت بغداد پر قابض ہو کر مساجد کے دروازوں تک پر اصحاب رسول کو گالیاں لکھ رکھی تھیں۔

4) شمالی عراق اور جنوبِ شام پر بنو حمدان کا اقتدار جو ان سب میں نسبتاً بہتر تھے اور جو کہ ان سب میں وہ تنہا ریاست تھی جو عرصہ تک روم کے ساتھ برسرقتال بھی رہی۔ گو یہ رافضی نہ تھی مگر واضح طور پر تشیع کا میلان رکھتی تھی۔ تشیع تو گویا وقت کا فیشن بن چکا تھا۔

5) ملتان جو کہ ہند کے مفتوحہ خطوں میں مرکز کی حیثیت رکھتا تھا میں اسماعیلی رافضیوں کی سلطنت جو بعد ازاں چوتھی صدی کے اختتام پر محمود غزنویؒ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی۔

پورے عالم اسلام میں صرف دو خطے بچتے تھے جو رافضی یا شیعی اقتدار کے زیرتسلط آنے سے محفوظ رہے گو وہاں بھی بے شمار بدعات اور انحرافات عام ہو رہے تھے۔ ایک طرف عالم اسلام کے آخری مشرقی کونے میں ماوراءالنہر کی سامانی ریاست اور دوسری جانب آخری مغربی کونے پر اندلس کی اموی امارت جو کہ خود بھی حالات کے ہاتھوں ڈھچکولے کھا رہی تھی بلکہ فاطمیوں کے توسیع پسندانہ عزائم اورجارحانہ حملوں سے بڑی مشکل کے ساتھ اپنا دفاع کر رہی تھی۔

اس لحاظ سے چوتھی صدی ہجری ہمیں رافضی اور باطنی ظلمت کی صدی نظر آتی ہے۔ اسی اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر صلیبی شام اور فلسطین کے ساحل پر آبیٹھے اوربالآخر بیت المقدس پر بھی قابض ہوئے۔ جبکہ اسی صدی کے اواخر میں جا کرہم دیکھتے ہیں کہ اہلسنت ایک نئی کروٹ لیتے ہیں اور پانچویں صدی میں ایک نئے سرے سے سنت اور توحید کا غلغلہ ہونے لگتا ہے۔

یوں پانچویں اور پھر چھٹی صدی ہمیں رافضیت کے خلاف اہلسنت کی فتح کی صدی نظر آتی ہے جس میں گو اس بار بہت کچھ ’دخن‘(1) بھی تھا۔ سیاسی اسٹیج پر اس عمل کا آغاز چوتھی صدی کے اواخر میں غزنوی فتوحات سے ہوا جن کی تگ وتاز بغداد سے لے کر ماوراءالنہر اور بلاد ہند تک تھی اور جس کے دوران ___ جیسا کہ امام ابن کثیرؒ البدایہ(2) والنہایہ میں بیان کرتے ہیں ___ اہل بدعت پر زمین تنگ ہو گئی تھی۔ پھر پانچویں صدی کے ربع دوئم میں بنی سلجوق کی دولت قائم ہوئی جو کہ عمومی طور پر سنت اور شرع کے منبع تھے جن کا کہ اقتدار ماوراءالنہر سے لے کر خراسان تک اور پھر رافضی بویہیون کا اقتدار ختم کردینے کے بعد عراق اور جنوب شام تک جا پہنچا۔ حتی کہ سلجوقیوں نے روم سے جہاد کا ازسرنو آغاز کیا اور ایشیائے کوچک میں عرصہ کے بعد نئی فتوحات ہوئیں۔ اس کے بعد پھر زنگی دولت نے چھٹی صدی ہجری کے ربع دوئم میں شام کو اہلسنت کا قلعہ بنا دیا جس کے بعد ایوبی دولت نے مصر سے فاطمی خلافت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرکے شام اور مصر کو سنت کے پرچم تلے جمع کیا۔ تب اس سُنی وحدت کے نتیجہ میں چھٹی صدی کے نصف دوئم میں بیت المقدس اہل اسلام کو واپس ملا۔

نورالدین محمود زنگی اور صلاح الدین یوسف ایوبی وغیرہ کا امام ابن تیمیہ اپنی کتب میں ”ملوک السنۃ“ کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔ (دیکھےئے فتاوی ابن تیمیہ ج 17 ص 5، ج 27 ص 49، ج 3 ص 280)

٭٭٭٭٭

اتباع تابعین کا زمانہ گزرنے کے بعد، جب معاملہ ایک بڑی سطح پر اس قدر متاثر ہوچکا تھا، اور منہجِ سنت تک رسائی اتنی ہی آسان نہ رہی تھی جتنی کہ قرونِ ثلاثہ خیرہ میں، تو اس معاملہ کی اب ایک اور جہت بنی۔۔۔۔

اہلسنت (جماعتِ سلف کی راہ پر چلتے آنے والے اصحاب) معاشرے میں اب وہ حیثیت نہ رکھتے تھے جو کہ گزشتہ ادوار میں ان کو حاصل رہی تھی۔ معاشرہ اب ان سے اس طرح رہنمائی نہ لے رہا تھا اور نہ لے سکتا تھا جس طرح کہ اس سے پہلے۔ وقت کے علمی، فکری اور معاشرتی رحجانات پر اب یہ اس طرح چھائے ہوئے نہ تھے اور نہ ہی فکری اور تہذیبی حالات پر ان کی وہ گرفت رہی تھی۔ باطنی اور رافضی اور معتزلی غلبہ کے پیش نظر اہل سنت اب اُس پہلے والے انداز میں معاشروں کی قیادت کر ہی نہ کرسکتے تھے۔

پس اب ایک بڑے خلا کا پیدا ہونا یقینی تھا۔

خالص علم کی پسپائی، علماءکا ایک بڑی تعداد میں اٹھ جانا۔ علمی حلقوں کی رونقیں بڑی حد تک قصۂ پارینہ بن جانا اور زنادقہ و اہل بدعت کا راج ۔۔۔۔ اب یہ وہ دور تھا جس میں سنت اور بدعت خلط ہونے لگے۔ جبکہ اس سے پہلے اس بات کی گنجائش نہ تھی۔ رفتہ رفتہ اہلسنت ایک نام بن کر رہ گیاجبکہ اس سے پہلے یہ ایک حقیقت تھی نہ کہ محض ایک نام۔ بہت سوں کیلئے اب یہ ایک نسلی تسلسل تھا اور کچھ لگے بندھے کام کر لینے اور کچھ ظاہری علامات اختیار کرلینے کا نام۔(3)

حتی کہ وہ لوگ بھی جن کیلئے یہ ایک نام نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی، ان میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جن کیلئے یہ حقیقت اب دن بدن ’جزوی‘ ہوتی جا رہی تھی۔ اہلسنت کے بعض اصول سے ان کا شدید تمسک تھا جبکہ اہلسنت کے بعض اصول پر ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی تھی۔ فکر وفہم کے جن خطوں پر سنت کی پسپائی ہو رہی تھی وہ بدعت کے زیرآب آرہے تھے۔ چنانچہ اسی بات کو ہم نے سنت اور بدعت کا خلط کہا ہے۔ سو ایک کثیر تعداد اب ایسے لوگوں کی ہونے لگی جو جزوی طور پہ سنت افکار پر تھے اور جزوی طور پربدعت افکار پر۔ (4) جبکہ شمار بدستور یہ سب لوگ اہلسنت ہی ہوتے رہے۔

یوں بہت سے لوگ جو اہلسنت شمار ہوتے تھے ان کے حق میں اب یہ دیکھا جانا ٹھہر گیا تھا کہ کوئی اہلسنت ہے تو اسکے ہاں منہجِ اہلسنت در حقیقت کس قدر پایا جاتا ہے۔ یعنی معاملہ ’فیصدی‘ کا ہو گیا تھا۔ اور بہت سے لوگوں کے بارے میں یہ بات صادق آتی تھی۔

سنت اور بدعت کے خلط کا یہ وہ دور ہے جس میں کئی ایک اہلسنت طبقوں میں نئے رحجانات نے جنم لیا اور یہ رحجانات آگے چل کر خود بھی رفتہ رفتہ بدعت کی صورت دھارتے گئے گو بالکل آغاز کے اندر ایسا نہ تھا۔ تب سے اب تک اہلسنت کے کئی ایک طبقوں کی ان رحجانات سے جان نہیں چھوٹی۔ صوفیت کے بہت سے سلسلے، عقائد میں اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ کا پھیل جانا اور وقت کا ایک فیشن بن جانا سب اسی دور کی یادگار ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ گو بدعت کے بعض پہلوؤں کا سدباب کر رہے تھے مگر دوسری جانب منہج سلف کے بعض پہلوؤں سے خود بھی بیگانہ ہو رہے تھے۔ (5)

مذہبی تعصب بھی اسی دور کی یادگار ہے۔

مذاہبِ اربعہ ودیگر فقہی مذاہب درحقیقت اہلسنت کے معتبر فقہی مذاہب ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا اہلسنت ہی کافقہی تسلسل بن کر رہنا ہے۔ ”اصول دِین“ کے اندر ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ کوئی اختلاف ہے تو فروع کے اندر جس کی کہ سلف کے ہاں گنجائش رہی ہے۔ چنانچہ فروع کے اندر فقہی مذاہب کا یہ تنوع، منہجِ سلف کا ہی دراصل ایک تسلسل تھا۔ ان کے اپنائے جانے میں ___ جب تک کہ معاملہ اندھی تقلید اور ضد بازی تک نہ پہنچے ___ کوئی بھی ہرج کی بات نہ تھی۔ امام طحاوی (239ھ ۔۔۔۔ 322ھ) ایسے ائمہ سنت اور ترجمانِ عقیدۂ سلف کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ فروع میں خود حنفی مذہب رکھتے ہیں البتہ کسی کو اس کے فقہی مذہب سے برگشتہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پاتے۔ یعنی خود ایک فقہی مذہب پر رہتے ہیں تو دوسروں کو اپنے اپنے فقہی مذاہب پر رہنے دیتے ہیں۔ البتہ ”اصولِ دین“ میں وہ پوری اُمت کو سلف کے اس منہج پر لاتے ہیں جس کی اِتباع حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، اہل الظاہر وغیرہ سمیت سب پر یکساں لازم ہے۔یہی طریقہ اصولِ اہلسنت کی تعلیم دینے والے سب ائمہ کا رہا اور صدیوں چلتا رہا۔ فروع کو میدانِ کارزار کسی نے بھی نہ بنایا۔ لوگوں کے فقہی مذاہب چھڑوانے یا بدلوانے کی تحریک کبھی نہیں چلائی گئی۔ صرف تعصب اور تقدیسِ رجال سے ممانعت کی گئی۔ یہی طریقہ ہمیں آجری (م 360ھ) ابن بطہ (م 387ھ) ابن مندہ (م 395ھ) اور لالکائی (م 418ھ) وغیرہ کا دکھائی دیتا ہے جو اپنے دور کے ائمہ سنت تھے اور اصول اہلسنت کے بہترین ترجمان۔ بلکہ آج تک اصولِ اہلسنت کا علم پانے کیلئے انہی کے مؤلفات سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اور یہی اسلوب پھر ہمیں بعد ازاں ابن تیمیہ، ابن قیم، نووی، ذھبی اور ابن حجر وغیرہ کے ہاں ملتا ہے۔ یہ سب اپنے اپنے دور میں سنت کے امام تھے۔ فروع کے اندر بحث وتحقیق میں بھی گو انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر مذاہب کی جنگ بھی نہیں کروائی۔ البتہ اصولِ دین میں نزاع اور افتراق کی شدید سرکوبی کی اور اس پہلو سے اُمت کو پہلے والے راستے پر لے آنے اور قائم رکھنے کیلئے ہی سرگرم رہے۔ اُمت کی تالیف اور شیرازہ بندی کی ان کے ہاں یہی اساس تھی۔

چنانچہ فروع کے اندر فقہی مذاہب کا تنوع پایاجانا حرج کی بات تھی اور نہ اب ہے۔ مگر چوتھی صدی ہجری میں جو فرق آیا وہ مذہبی تعصب کی بدعت تھی۔ اس کے باعث فروع ہی لوگوں کیلئے اصول بن گئے۔ اب لازماً یہ ہونا تھا کہ اصول سرے سے ہی ان کی نگاہ سے روپوش ہو جائیں۔ سو سب معرکے اب اسی میدان میں سر ہونے لگے۔ یہاں تک کہ فقہی مذاہب بہت سوں کیلئے قریب قریب ’ادیان‘ کی شکل اختیار کر گئے۔

بہرحال اسلام کی پہلی تین نسلیں گزرجانے کے بعد معاً جو دور آیا اور حالات نے جس انداز سے پلٹا کھایا (سیاسی پلٹا تو صحابہ کے دورِ آخر میں ہی آگیا تھا مگر ہم ایک فکری اور نظریاتی پلٹے کی بات کر رہے ہیں) اس کے بعد اہلسنت سے منسوب کئی ایک طوائف میں کچھ ایسے غیر مطلوبہ رحجانات در آنے لگے اور اس کے باعث ان کے ہاں فکر وعمل کی کچھ ایسی سکہ بند جہتیں بنیں کہ اہلسنت سے منسوب ایک کثیر تعداد آج تک ان رحجانات کے زیراثر ہے۔ خصوصاً برصغیر۔ ان تمام تر صدیوں میں اصلاح کی کوششیں بھی گو کم نہ رہیں پھر بھی اہلسنت کا داخلی میدان مکمل طور پر صاف نہ ہو سکا۔ تاآنکہ زوال کی یہ آخری صدیاں آئیں اور بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے گئیں۔ یوں اصلاح اور تبدیلی اور دِین کو خالص کرنے کا عمل اور بھی بہت پیچھے چلا گیا۔

تیسری صدی ہجری کے بعد سے لے کر یوں بھی ائمۂ اہلسنت پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جو شدید طور پر ہنگامی دور نہ ہو۔ بہرحال اہلسنت کی یہ جزوی پسپائی جو چوتھی صدی کے اندر دیکھنے میں آئی اور ایک ایسے عظیم الشان تسلسل کے فوراً بعد آئی ۔۔۔۔ یہ ایک ایسا دھچکہ تھا جس سے آج تک اہلسنت کا وجود سنبھلنے نہیں پایا۔

٭٭٭٭٭

اب جب یہ دیکھنے کا وقت آگیا تھا کہ کوئی آدمی ’کتنے فیصد‘ اہلسنت منہج پر ہے تو طبعی اور ضروری امر تھا کہ اصولِ اہلسنت اور منہجِ سلف کی اب ایک ازسرنو تنقیح بھی ہونے لگتی۔ ’اہلسنت‘ جب ایک نسلی اور گروہی پہچان بن گئی تھی تو اصل حقیقت کو جلی کیا جانا طبعی طور پر وقت کی ایک بڑی ضرورت تھی۔ سنت اور بدعت کا جہاں خلط ہو قدرتی طور پر وہاں یہ امتیاز کرایا جانا تھا کہ کونسی چیز” شروع سلف“ سے چلی آرہی ہے اور کونسی چیز ’بعد میں‘ کہیں سے آشامل ہوئی ہے۔

پیش ازاں، قرون ثلاثہ کے دوران، اصول اہلسنت سے تمسک ایک بے انتہاءمعلوم حقیقت اور ایک حد درجہ متعین امر سے چمٹ جانے کا نام تھا۔ مگر اب جو اس معاملہ کی نئی جہت بنی وہ یہ کہ ’اصول اہلسنت سے تمسک‘ کے معنی میں ’چمٹ جانے‘ کے علاوہ ’تنقیح کرلینے‘ کا مفہوم بھی اس میں شامل ہوگیا۔

پس اب اس بات کا تقاضا تھا کہ اس دور میں اصولِ اہلسنت کے نہایت ثقہ قسم کے ترجمان پائے جائیں۔ چنانچہ وقت کے بہت سے اچھے اچھے مجاہدانہ کردار کے مالک علماءنے اپنے اپنے دور کے حوالے سے اصولِ اہلسنت کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ کچھ اہل علم تھے جنہوں نے کچھ خاص متعین میدانوں میں اصولِ سنت اور منہجِ سلف کی ترجمانی کی جبکہ راہِ سلف کے کچھ خاص شہسواروں نے منہجِ سلف کی ایک جامع انداز کی ترجمانی کا فرض بھی نبھایا۔ چنانچہ ان متاخر صدیوں میں کچھ خاص چہرے اصولِ سنت اور منہجِ سلف کی شناخت بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔

’آپریشن‘ تکلیف کے بغیر کب انجام پاتا ہے۔ اس عمل میں اب یہ بھی لازمی تھا کہ اہلسنت سے تاریخی طور پر منسوب طبقے آپس میں بھی الجھنے لگیں اور خود انہی کے بہت سے طبقے اس ”تحقیق“ اور ”تنقیح“ اور ”احیاء وتجدید“ کے عمل کو خوش آمدید کہنا اپنے لئے دشوار پائیں بلکہ بسا اوقات اس کو بُرا بھلا تک کہیں ا ور حتی کہ اس کو ’اہلسنت‘ ہی سے انحراف قرار دیں!

منہجِ سلف کے اصل ترجمانوں اور اپنے وقت میں تجدیدی مساعی کرنے والوں کیلئے چنانچہ اب یہ ایک چومکھی تھی کہ اپنوں کو بھی گھر لانے کی سعی کریں اور پرایوں سے بھی اس گھر کا تحفظ کریں۔

تب سے اب تک یہ معاملہ مختلف انداز میں اور مختلف سطحوں پر چلتا رہا ہے۔ اس میں اب ایک فرق پچھلے دو سو سال سے یہ آیا ہے کہ مغربی اقوام اور مغربی افکار کے پوری دُنیا پر غلبہ پالینے کے باعث زمانہ بڑی حد تک ایک بالکل ہی نیا رخ اختیار کر گیا ہے اور یکایک اب یہ ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ اصولِ اہلسنت جن کی ترجمانی یہاں کے آج سے دو سوسال پہلے کے روایتی معاشروں کے اندر ایک خاص انداز کے ساتھ کی جاتی رہی اور کسی نہ کسی حد تک کامیابی کے ساتھ کی جاتی رہی اور جو کہ یہاں کے روایتی مسائل یا روایتی بدعات یا روایتی انحرافات کے مدمقابل کی جاتی رہی اور جس کے دوران سنت اور بدعت کے ایک روایتی خلط کی تنقیح ہوتی رہی ۔۔۔۔ انہی اصولِ سنت کی ترجمانی اب آج کے اِن غیر روایتی معاشروں میں کرکے دکھائی جائے اور آج کے ان ’غیر روایتی مسائل‘ اور ’غیر روایتی بدعات‘ اور ’غیر روایتی انحرافات‘ کے مدمقابل سلف کے اس منہج کو لایا جائے اور سنت اور بدعت کے اس ’غیر روایتی‘ خلط کی بھی اسی منہج کی بنیاد پر ایک تنقیح کی جائے۔ یہ بہرحال کوئی چھوٹی تبدیلی بھی نہیں ہے۔ بہت سے اہل علم حضرات جو یہاں کے ’روایتی معاشروں‘ میں منہج سلف کی ایک اچھی ترجمانی کر سکتے تھے آج کے ان ’غیر روایتی‘ معاشروں میں تقریباً تقریباً کچھ بھی پیش کر سکنے سے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیںب لکہ سچ پوچھیں تو ہکا بکا دیکھے جاتے ہیں۔ الاماشاءاللہ۔

اس لحاظ سے اب ہم جہاں کھڑے ہیں وہ تاریخ کا ایک پیچیدہ مقام ہے۔ اہلسنت کی اس بار کی پسپائی ہرگز کوئی چھوٹی پسپائی نہیں۔

٭٭٭٭٭

(1) غبار و آلودگی۔ یعنی مجموعی طور پر معاملہ اہلسنت راہ پر تھا مگر بدعت کا ایک گونہ خلط ساتھ تھا، جس سے کہ یہ لوگ اہلسنت سے خارج بہر حال نہ ہوتے تھے۔

 (2) البدایہ والنہایہ: جلد: 11 صفحہ: 222۔ 227

(3) حتی کہ بعض کیلئے یہ ایک ’عصبیت‘ کی شکل بھی اختیار کر گیا جس کے مظاہر آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

(4) اہلسنت کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک ہی شخص میں سنت اور بدعت دونوں وصف مجتمع ہوں اور وہ اپنی سنت کے بقدر قابل ستائش ہو اور اپنی بدعت کے بقدر قابل گرفت یا- خا ص حالات میں - قابل عذر (دیکھیے فتاوی ابن تیمیہ ج 28، ص 209)

(5) اس تاریخی اور واقعاتی مسئلہ کو وضاحت سے پڑھنے کیلئے دیکھیئے: مجموع فتاوی ابن تیمیہ(جلد: 3، صفحہ: 348)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز