عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehame_Deen1 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
منہجِ سَلَف کو لازم پکڑنا
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

منہجِ سَلَف کو لازم پکڑنا

 

’دِین‘ کی تحقیق یا ’دِین‘ کی بابت بحث یا تبادلۂ آراءکا سَلَفِی منہج کیا ہے؟

جہاں تک دِین کی بنیادوں کا تعلق ہے: جیسے مثلاً دِین کے عقائد، دِین کے بنیادی فرائض، حتی کہ عام حلال وحرام، اوامر ونواہی اور جائز وناجائز کے وہ امور جن کی بابت قرونِ ثلاثہ میں ہرگز ایک سے زیادہ رائیں نہیں پائی گئیں ___ اور ظاہر ہے کہ دِین کے ایسے اُمور ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اور دِین کے اِس حصہ کو ’اُصول دِین‘ بھی کہا جاتا ہے___ تو دِین کے ان اُمور کی بابت:

- نہ تو بحث جائز ہے،

- نہ اختلاف،

- اور نہ ’ازسرنو تحقیق‘۔

”اصول دِین“ کے معاملہ میں نصوصِ شریعت کے ’فہم‘ کی بابت جو کچھ سلف سے منقول ہے وہی حق ہے اور اسی کو ماننا واجب۔ اس کے ماسوا باطل ہے اور بدعت وضلالت۔ ان معاملات میں ’بعد والوں‘ پر کچھ فرض ہے تو وہ یہ کہ ’پہلے والوں‘ کی راہ پر چلیں۔ بقول عبداللہ بن مسعودؓ: علیکم بالاَمر العتیق(1)۔

بہت سے بکھیڑے تو اپنے یہیں سمٹ جاتے ہیں۔

رہ گئے وہ اُمور جو بنیادی عقائد اور بنیادی فرائض میں نہیں آتے نیز حلال وحرام اور جائز وناجائز کے وہ اُمور جن میں صحابہ و تابعین وائمۂ اتباع تابعین کے ہاں تعدد آراءپایا گیا ہو، اور جوکہ ”فروعِ دین“ شمار ہوتے ہیں، تو اختلاف کی جتنی گنجائش ان (سلف) کے ہاں پائی گئی گنجائش کا وہی دائرہ ہماری تحقیق اور تنقیح کیلئے بھی باقی رہے گا۔ یہ دائرہ جس کو ’فروع دِین‘ کہا جاتا ہے، اس میں:

- تحقیق اور بحث کی گنجائش ہے،

- راجح ومرجوح اور صحیح و غیر صحیح کا تعین بھی دلیل کی قوت کی بنیاد پرکیا جاسکتا ہے، اور

- کسی قابلِ اعتماد شخص (امام، عالم) کی تحقیق پر بھی اعتماد کیا جاسکتا ہے، خواہ اس ”اعتماد کرنے“ کو آپ کوئی بھی نام دیں۔

ہاں یہ بات بے حد واضح رہے کہ اس ”فروع دِین“ والے دائرہ میں بھی ’تحقیق‘ کیلئے ایک خاص درجہ کی علمی اہلیت مطلوب ہے۔ نہ صرف علمی اہلیت، بلکہ دورِ صحابہ وتابعین و تبع تابعین کے ائمۂ علم کے منہج کا عمومی التزام بھی۔ لہٰذا ایک عام آدمی تو ___ جو اس اہلیت کا حامل نہیں ___ بہرحال اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ اپنی ’تحقیق‘ کے نتائج اُمت کے سامنے لائے اور ایسا کرکے اُمت کو خواہ مخواہ پریشان اور خراب کرے، خواہ مسئلہ ’فروع‘ سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ اس کو چاہیے وہ یہ کام ان لوگوں پر چھوڑ دے جو اس کے اہل ہوں۔ علاوہ ازیں، وہ (ایک عام آدمی) جب کسی اہل علم سے رجوع کرے تو بھی یہ دیکھے آیا وہ اہل علم، اصول اور فروع کے معاملہ میں، قرونِ ثلاثہ کے اس دائرہ کا (جس کا اوپر ذکر ہوا) پابند ہے یا نہیں۔

چنانچہ ”اصول دِین“ میں تو کسی کے کلام کرنے کی گنجائش ہی کیا بے شک کوئی شخص تحقیق اوراجتہاد کی اہلیت بھی کیوں نہ رکھتا ہو ۔۔۔۔ حتی کہ ”فروع دِین“ کے اندر بھی ایک ایسا آدمی جو علمِ دِین میں ایک خاص درجہ کی علمی اہلیت نہیں رکھتا خدا کے دِین میں کلام کرنے کا ہرگز مجاز نہیں۔ اس کو تو بس یہ چاہیے کہ:

1) جہاں تک ”اصولِ دین“ کامعاملہ ہے تو وہاں صرف اور صرف سلف کے متفقہ فہم ہی کو اختیار کرے

2) اور جہاں تک ”فروع“ کا معاملہ ہے تو اس میں کسی صاحبِ علم پر اعتماد کرے اور اگر ہو سکے تو اس صاحبِ علم کی دلیل اور حجت کے معاملے میں بصیرت حاصل کرے، نہ ہوسکے تو اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا۔ البتہ سب لوگوں پر ’اپنے‘ اُسی صاحبِ علم سے رجوع کرنے کا تقاضا نہ کرے بلکہ دوسرے اگر کچھ دیگر اصحاب و ائمۂ علم پر سہارا کرتے ہیں (بات فروعِ دین کی ہورہی ہے) تو دوسروں کو دیگر اصحابِ علم پر اعتماد کرنے دے۔

ترجمانِ مذہبِ سلف حافظ ابن عبدالبر (368ھ ۔۔۔۔ 463ھ) کی مشہور تصنیف ”جامع بیان العلم وفضلہ“ سے اس سلسلہ میں چند اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

”سلف نے اس بات سے ممانعت فرمائی ہے کہ خدا تعالیٰ کے بارے یا اس کے اسماءوصفات کے بارہ میں بحث اور اختلاف ہو۔ البتہ جہاں تک فقہی مسائل کی بات ہے تو سلف کا اتفاق ہے کہ ان امور میں بحث اور اخذ ورد ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ (فقہ) ایک ایسا علم ہے جس میں اس بات کی احتیاج ہے کہ بوقت ضرورت فروع کو اصول کی جانب لوٹایا (قیاس کیا) جائے۔ جبکہ اعتقادات کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ اہلسنت وا لجماعت کے نزدیک اللہ عزوجل کی بابت کوئی بات کی ہی نہیں جا سکتی سوائے اس بات کے جو وہ خود ہی اپنی ذات کے بارے میں بیان کردے، یا جو رسول اس کی بابت بیان کردے، یا جس پر اُمت نے اجماع کرلیا ہو۔ خدا کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا کہ، قیاس کے ذریعے یا گہرے غور وخوض کے نتیجے میں، ادراک ہو جایا کرے ۔۔۔۔

”دِین اس معنی میں کہ وہ اللہ پر ایمان ہے، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت اور یوم آخرت پر ایمان ہے تو اس تک رسائی تو خدا کے فضل سے اس کنواری دوشیزہ کو بھی حاصل ہے جس کو کبھی گھر سے باہر کی ہوا تک نہ لگی ہو۔

(دِین کے اسی پہلو، یعنی ”اصولِ دین“ کی بابت) عمر بن عبدالعزیزؒ کا قول ہے: جو شخص اپنے دین کو بحثوں کا موضوع بناتاہے پھر وہ اکثر نقل مکانی کرتا ہے“

(صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص 383(2)

کچھ آگے چل کر ابن عبدالبر صحابیِؓ رسول حذیفہ بن الیمانؓ کا قول نقل کرتے ہیں:

”تمہارا بھٹک جانا اور صحیح معنوں میں بھٹک جانا یہ ہے کہ پہلے جس بات کو تم منکر جانتے تھے اب اس کو معروف جاننے لگو اور پہلے جس بات کو معروف جانتے تھے اس کو اب منکر جاننے لگو۔(3) خبردار خدا کے دین میں نئے نئے رخ اختیار نہ کرو۔ کیونکہ خدا کا دِین ایک متعین چیز ہے۔

(صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص 384)

یہ تو رہا اصول دِین کا معاملہ۔ رہ گئے فروع دِین تو اس میں استدلال اور استخراجِ مسائل ضرور ہو سکتا ہے مگر اس کے بھی باقاعدہ اصول اور قواعد ہیں۔ دِین کے اِس حصہ میں بات کرنے اور رائے دینے کیلئے بھی ضروری ہے کہ آدمی نہ صرف استدلال کے ان فقہی اُصولوں سے واقف ہو بلکہ نصوص شریعت کا بھی باقاعدہ علم رکھتا ہو حتی کہ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہو کہ کسی موضوع پر صحابہ ومابعد کے اہل علم کے اختلافات اور اقوال اگر منقول ہیں تو وہ کیا ہیں۔

امام محمد بن الحسنؒ کہتے ہیں:

”جو شخص کتاب اور سنت کا علم رکھتا ہے، اصحاب رسول کے اقوال سے واقف ہے اور فقہائے مسلمین کے اقوال سے آگاہ ہے وہی اس بات کا مجاز ہے کہ کوئی مسئلہ اس کے سامنے پیش آئے تو وہ اجتہاد کرکے کوئی رائے اختیار کرے اور اپنی اس رائے کو اپنی نماز یا اپنے روزے یا اپنے حج یا شرعی اوامر و نواہی کے کسی معاملہ میں قابل عمل جانے“

(جامع بیان العلم وفضلہ ۔۔۔۔)

چنانچہ فروع کے اندر بھی آپ جس اہل علم سے دِین سمجھیں گے اور اس کی تحقیق یا اجتہاد پر اعتماد کریں گے اس میں یہ شروط پائی جانا ضروری ہیں جن کاذکر امام محمدؒ کے قول میں اوپر گزرا ہے۔ رہ گیا وہ شخص جو علم کے اس درجے پر نہیں وہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ قرآن یا حدیث کی کتب کھول کر ___ خواہ فروع دِین ہی کامعاملہ کیوں نہ ہو ___ لوگوں کو دِین کے مسئلے بتائے الا یہ کہ وہ خود بھی کسی معتبر صاحب علم کی تحقیق پر اعتماد کرے اور اس سے ایک مسئلہ پڑھ کر یا اس سے لے کر آگے لوگوں کو پڑھائے۔

عن ابن بریدة عناَبیہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: القضاة ثلاثة۔ قاض فی الجنة واثنان فی النار۔ قاض عرف الحق فقضی بہ فذلک فی الجنة۔ وقاض قضی بالجہل فذلک فی النار، وقاض عرف الحق وجار فی الحکم فھو فی النار

(ابن ماجة 2381، ومثلہ فی ابی داﺅد 3574، وفی الترمذی 1320)

ابن بریدہؒ سے روایت ہے، وہ اپنے والد (بریدہؓ)سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی تین طرح کے ہیں۔ ایک جنتی اور دو دوزخی۔ ایک قاضی وہ ہے جو حق کا علم رکھتا ہے اور پھر اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ یہ جنتی ہے۔ ایک قاضی وہ ہے جو جہالت کی بنا پر فیصلہ دیتا ہے۔ یہ دوزخ میں جائے گا۔ ایک قاضی وہ ہے جو حق کا علم تو رکھتا ہے مگر فیصلہ (پھر بھی) ظلم پہ کرتا ہے۔ یہ بھی دوزخی ہے“۔

مذکورہ حدیث کے حوالہ سے قتادہؒ کہتے ہیں: میں نے ابوالعالیہؒ سے دریافت کیا: آخر اس شخص کا کیا قصور جس نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں غلطی کرلی؟ ابوالعالیہؒ نے جواب دیا: اس کا قصور یہ ہے کہ جب اس کو علم نہیں تو وہ فیصلہ دینے ہی کیوں بیٹھا“۔

(السنن الکبری للبیھقی ج 15 ص 98)

#########

کتاب وسنت کے فہم کا یہ اصولی طریقہ نہ اپنایا جائے تو پھر دین کے ہر معاملے میں ہروقت بات کرنے کی گنجائش باقی ہے اور کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ہر کوئی ہی اس پر تب طبع آزمائی کرے گا، جیسا کہ اس وقت عملاً ہو بھی رہا ہے اور جس کی طرف پیچھے ہم کچھ اشارہ کر آئے ہیں۔

دِین کے باب میں کیاکسی بھی بات اور کسی بھی مسئلے کو کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چیلنج کردے اور شرعی نصوص کے کچھ حوالے دے کر اپنے تئیں اس پر کچھ ’دلیلیں‘ لے آئے تو سب کام چھوڑ کر ہم اس پر بحث کرنا شروع کر دیا کریں؟

ایک ایسی زمین جس پر ہم پیرجما کر چل لیں اور پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں اور پوری دلجمعی کے ساتھ زمانے کی دوڑ میں شریک ہوں۔۔۔۔ اور جس میں چلتے ہوئے پیر پیر پر ہم لامتناہی بحثوں کے سلسلے لے کر نہ بیٹھ جایاکریں، ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے بلکہ بہت ہی بنیادی ضرورت۔

منہج سلف اور اصول اہلسنت دراصل ہماری اسی ضرورت کا نام ہے۔

یہ ایک متوازن ترین منہج ہے۔ یکسانیت uniformity اور تنوع diversity کے مابین جو کوئی بہترین توازن ہو سکتا ہے وہ اس منہج میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔اتباع اور اجتہاد میں جو کوئی بہترین نسبت تناسب ممکن ہے، وحی اور عقل کا جو کوئی بہترین سنگم ہو سکتا ہے وہ آپکو منہج سلف اور اصول اہلسنت میں ملتا ہے۔ بیک وقت ایک جانب ابداع novelty اور ابتکار creativity اور دوسری جانب تسلیم submissionاور اذعان surrender اپنی بہترین حالت میں پائے جاتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ آپ سے آپ اور بے ساختہ پائے جاتے ہیں اور لے کر دور اول سے آج تک بغیر کسی انقطاع کے پائے جاتے ہیں۔

حیرانی اور سرگردانی واقعتا قوموں کوناکارہ کرکے رکھ دیا کرتی ہے۔ اس کا سدباب ہمارے دِین میں ہم کو منہج سلف کا پابند کرکے باحسن طریق کر دیا گیا ہے۔

#########

کیا واقعتا ہمیں منہجِ سلف کا پابند کیاگیا ہے؟

اب یہاں ہم منہج سلف کو اختیار کرنے کے لزوم پر کچھ مختصر گفتگو کریں گے۔

مقدمہ فی اصول التفسیر میں امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:

”یہ بات جان لی جانا ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو جس طرح قرآن کے الفاظ بیان کرکے دیے ویسے ہی اس کے معانی بھی واضح کرکے دیے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل: 44) ”تاکہ تم لوگوں کے سامنے وہ تعلیم جو تم پر اتاری گئی کھول کر بیان کر دو) میں جہاں وہ بات آتی ہے وہیں یہ بات آتی ہے۔

”ابو عبدالرحمن السُّلَمی کہتے ہیں: وہ لوگ جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے، مثلاً عثمان بن عفانؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ، وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سبق میں لیتے تو اس وقت تک اگلے سبق پر نہ جاتے جب تک وہ ان دس آیات میں علم اور عمل کی ہر بات سیکھ نہ لیتے۔ کہا کرتے تھے: سو یوں ہم نے قرآن سیکھا تو (اسکا) علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا“۔

یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ ایک سورت کے حفظ میں مدت گزار دیا کرتے تھے۔

(مقدمہ فی اصول التفسیر ص 35)

ابوعبدالرحمن السلمی (عبداللہ بن حبیب الکوفی) ان کبار تابعین میں سے ایک ہیں جو صحابہ سے قرآن سیکھتے رہے ہیں جیسا کہ اوپر مذکور ان کی اپنی ہی روایت سے ظاہر ہے۔ اب یہ تابعی اپنے استاد صحابہ کا احوال خود ان کی اپنی زبانی بتا رہے ہیں کہ وہ (صحابہ اساتذہ) خود اپنے استاد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے محض قرآن کے الفاظ نہیں بلکہ قرآن کے الفاظ اور معانی ومفاہیم بیک وقت سیکھتے تھے ۔۔۔۔ اور یہ کہ قرآن کی بابت ان کا علم اور عمل بیک وقت مکمل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرنگرانی ہوا۔

چنانچہ صحابہ وتابعین کا یہ علمی، فکری اور نظریاتی تسلسل جو بعد کی نسلوں کیلئے محفوظ ہوا اور اپنے بعد آنے والوں کیلئے ایک متعین جہت اختیار کر گیا وہ سب کیلئے ایک مثال ٹھہرا۔ نصوصِ وحی سے استدلال کا کیا منہج اختیار کرنا ہے اور دِین کے اصول اور فروع کو کیونکر لینا ہے، اتفاق اور اختلاف کے کیا حدود اور ضوابط رکھے جانا ہیں اور ان معاملات میں کن آداب کو اپنایا جانا ہے، اتباع اور اجتہاد کو کیونکر مجتمع رکھنا ہے، ’غلطی‘ اور ’انحراف‘ میں کیونکر فرق کرنا ہے، وحدتِ صف کا کیا طریق کار ہے اور بدعات ومحدثات کے خلاف کیونکر محاذ بنانا ہے۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہمیں ان لوگوں سے لینا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺسے قرآن کا عملی سبق پڑھا اور پھر آگے اسی دیانت کے ساتھ یہی سبق بعد والوں کو پڑھایا۔

بنیادی طور پر یہ ایک مدرسہ ہے جس میں صحابہ پڑھے اور پھر آگے پڑھاتے رہے اور پھر صحابہ سے پڑھنے والے صحابہ سے پڑھ پڑھ کر اپنے بعد والوں کو پڑھاتے رہے۔ دِین کی حقیقت ، دِین کی فطرت، دِین کا مزاج، دِین کے اصول وفروع کی حدود، قواعدِ استنباط اور یہ کہ کہاں تعددِ آراءکی گنجائش چھوڑ دی جانا ہے البتہ کہاں اختلاف ہو جانے پر چہروں کو لال پیلا ہو جانا ہے ۔۔۔۔ غرض نصوصِ وحی کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی سب تفصیلات جو کہ دراصل ایمان کی ہی عملی تفصیلات ہیں یہ ہمیں اسی مدرسہ سے لینی ہیں جس میں صحابہ پڑھے۔ جس میں پھر صحابہ پڑھاتے رہے۔ اور جس میں پھر صحابہ کے پڑھے ہوئے پڑھاتے رہے۔

فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ (البقرہ: 137)

”اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں“۔ (ترجمہ حافظ محمد جونا گڑھی)

صحابہ کے ایمان جیسا ایمان، صحابہ کی اتباع جیسی اتباع، جس طرح صحابہ نے دین کو سمجھاعین اُسی طرح اور اُسی طرز پر دین کو سمجھنا اور جس طرح صحابہ دین پر عمل پیرا ہوئے عین اسی طرح دین پر عمل پیرا ہونا قرآن کا حکم ہے اور دین کا ایک باقاعدہ مطالبہ۔

عن عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”وتفترقاَمتی علی ثلاث وسبعین ملة کلھم فی النار اِلا ملة واحدة۔ قال: ومن ھي یا رسول اللّٰہ؟ قال: مااَنا علیہ واَصحابی

(الترمذی: 2711)

”بروایت عبداللہ بن عمروؓ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اور میری یہ اُمت تہتر ملتوں میں بٹے گے۔ سب دوزخی ہوں گی سوائے ایک۔ سوال کیا: وہ ایک کونسی اے اللہ کے رسول؟ فرمایا جو اس امر پر ہوگی جس پر میں ہوں ا ور میرے اصحاب ہیں“۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صرف اتنا نہیں فرمایا کہ ”مااَنا علیہ“ یعنی ”وہ راستہ اور منہج جس پر میں ہوں“ حالانکہ یہیں پر رکنا چاہتے تو رک جاتے۔۔۔۔ بلکہ اس دور کے لوگوں کیلئے جس میں تفرقہ ہوگا فرمایا: مااَنا علیہ واصحابي ”وہ راستہ اور منہج جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں“۔

اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1) صحابہ کا منہج اور صحابہ کا فہمِ دِین، نصوصِ وحی کو لینے اور سمجھنے کے معاملہ میں، بعد والوں کیلئے حجت ہے اور وحی کے استیعاب کی بابت ایک پیمانہ و مقیاس کادرجہ رکھتا ہے۔ دِین کے معاملہ میں وہ مسلمات جو صحابہ کے ہاں قائم ہو گئے اور حق وباطل کی جو بنیادیں اور نصوصِ وحی سے استدلال کے جو اصول ان کے دور میں قائم ہو گئے۔۔۔۔ بعد والے، خصوصاً وہ لوگ جو اختلاف اور تفرقہ کے دور میں پائے جائیں گے، انہیں بنیادوں اور انہی مسلمات اور انہی اصولوں کو اپنانے اور انہی پہ کاربند رہنے کے پابند ہیں (مذکورہ بالاحدیث مااَنا علیہ واصحابي  کی رو سے، کیونکہ یہ حدیث ہے ہی ’اختلاف‘ اور ’فرقہ جات‘ کے دور کی بابت) اور ایساکرنے والے ہی تفرقہ وہلاکت سے نجانے پانے والا گروہ شمار ہوں گے۔

2) دوسری بات جو اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ صحابہ کا منہج اور اُن کا فہمِ دین بعد کے ادوار کیلئے باقاعدہ طور پر باقی اور محفوظ بھی رہے گا اور نسل درنسل چلے گا۔ بصورت دیگر اس کو بعد کے ادوار کیلئے، خصوصاً اس دور کیلئے جب ’تہتر فرقے‘ پائے جائیں گے، ایک پیمانہ اور ایک مقیاس قرار دینا اور نجات کی بنیاد بتانا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ ایک چیز اگر بعد والوں کیلئے باقی ہی نہیں رہنی تواس کو نجات پانے والوں کی پہچان قرار دینا چہ مفہوم دارد؟

پس اس حدیث کی اپنی ہی دلالت ہے کہ وہ راستہ اور منہج جس پر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ پائے گئے وہ قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے کسی نہ کسی انداز میں اپنا تسلسل بھی جاری رکھے گا اور حجت بھی ٹھہرے گا۔ جو چیز محفوظ نہ ہو آخر وہ حجت کیونکر ہو سکتی ہے۔

امام ابن تیمیہؒ مجموع فتاوی میں کہتے ہیں:

”فرمان الٰہی ہے:

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

”مہاجرین وانصار کے سابقین اولین اور وہ لوگ جو احسان وخوش اسلوبی سے ان کے پیچھے چلے اللہ ان سب سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اللہ نے ان کیلئے جنتیں اور باغات تیار کئے ہیں، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم کامرانی ہے“۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پیچھے چلنے والوں کو بھی اپنی خوشنودی اور جنت کی نعمتوں میں شریک کردیا ۔۔۔۔ اس لئے جو لوگ سابقینِ اولین کی اتباع کریں گے وہ انہی میں شمار ہوں گے جبکہ یہ لوگ انبیاءکرام کے بعد افضل ترین لوگ ہیں، کیونکہ اُمت محمد ﷺ افضل ترین اُمت ہے جولوگوں کےلئے نکالی گئی ہے اور یہ لوگ اُمت محمد ﷺمیں افضل ترین ہیں۔

اس لئے علم اور دین میں ا ن کے اقوال واعمال کی معرفت رکھنا، دین کے جملہ علوم اوراعمال میں متاخرین کے اقوال واعمال کی معرفت سے صد مرتبہ افضل اور مفید تر ہے۔ کہ یہ لوگ اپنے بعد والوں سے افضل ہیں جیسا کہ کتاب اور سنت سے ثابت ہے، پھر جب ایسا ہے تو ان لوگوں کی اقتدا بعد والوں کی اقتدا سے بہتر ہے۔ علم ودین کے سلسلے میں دوسروں کے اجماع ونزاع کی نسبت صحابہ کے اجماع و اتفاق اور انہی میں ہونے والے اختلاف کی معرفت و دریافت بہتر اور افضل ہے ۔۔۔۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اجماع بہرحال معصوم ہوتا ہے، صحابہ نے اگر اختلاف کیا ہو تو بھی حق ان کے اقوال ہی میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔ بنا بریں ان کے اقوال ہی میں حق کی تلاش کی جا سکتی ہے، (جہاں ان کا اختلاف ہوا ہو وہاں بھی) ان کے اقوال میں سے کسی قول کو اس وقت تک غلط نہیں کہا جا سکتا جب تک کتاب اور سنت سے اس کا غلط ہونا ثابت نہ ہو جائے۔

کیونکہ متاَخرین کے بہت سے اصول، اسلام میں محدث اور بدعت شمار ہوتے ہیں جبکہ سلف نے اس سے پہلے اس کے برعکس اجماع کر رکھا ہوتا ہے، پھراجماعِ سلف کے بعد جو اختلاف پیش آئے تو وہ قطعی غلط اور بے جا ہوتا ہے مثلا خوارج، روافض، قدریہ، مرجیہ ایسے دوسرے فرقے جن کے اقوال وآراءمشہورو معلوم نصوص کے اور اجماعِ صحابہؓ کے صریح مخالف ہیں۔

اسی طرح دین میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں رہ جاتا جس کے بارے میں سلف نے کلام نہ کیا ہو اسلئے اس کی مخالفت یا موافقت میں سلف سے ضرور کوئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے“۔

(مجموع فتاویٰ ص 13، ص 33، 27)

امام اوزاعیؒ اس حقیقت کے بیان میں کیا خوبصورت پیرایہ اختیار کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

اِصبِر نَفسَکَ عَلٰی السُّنَّةِ، وَقِف حَیثُ وََقَفَ القَومُ، وَقُل بِمَا قَالُوا، وَکُفَّ عَمَّا کَفُّوا، وَاسلُک سَبِیلَ سَلَفِکَ الصَّالِحِ، فَ اِنَّہ یَسَعُکَ مَا وَسِعُھم

(شرح اصول اہل السنة والجماعة للالکائی 154:1)

”جی مار کر اس (اہل) سنت راہ پر جمے رہو۔ ان پہلوںکے قدم جہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رُک جاﺅ۔ جس بات کے وہ قائل ہوئے ہوں تم بھی اسی کے قائل رہو۔ جس بات سے وہ خاموش اور دستکش رہے ہوں تم بھی اس سے دستکش ہی رہو۔ چلو تو اپنے ان سَلَفِ صالح کی راہ پر چلو۔ اس لئے کہ گنجائش کا جو دائرہ ان کیلئے رکھا گیا ہے وہی تمہارے لئے ہے“۔

امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں:

اصول السنة عندنا: التمسک بما علیہ اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ والاقتداءبھم، وترک البدع، وکل بدعة فھ ¸ ضلالة

(شرح اصول اھل السنة والجماعة للالکائی 156:1)

”اصول (اہل) سنت ہمارے ہاں یہ ہیں کہ ہر وہ امر جس پر اصحاب رسول اللہﷺ تھے، اس سے چمٹ کر رہا جائے۔ ان کی اقتدا کی جائے۔ اور نئی ایجادات کو ترک کر رکھا جائے۔ کیونکہ ہر نئی اپج (بدعت) ضلالت ہے“۔

###########

یہ فہم دین کی بابت صحابہ کی عمومی اور مجموعی روش کی بات ہے۔ مراد یہ نہیں کہ ہر صحابی کا ہر قول شرعی حجت ہے۔ گو امام مالکؒ اپنے اصول فقہ میں قول صحابی کو (جس کے خلاف صحابہ کا کوئی اور قول نہ پایا جاتا ہو) معتبر دلیل شمار کرتے ہیں البتہ ہماری گفتگو ’قولِ صحابی‘ کی بابت نہیں، بلکہ مجموعی طور پر صحابہ کے فہم دین اور ان کے طریقہ ومنہج اور ان کے اتفاق کردہ امور ومسائل کے بارے میں ہے۔۔۔۔ اس کی حجیت پر ائمہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔

استدلال کے اصول، اعتقاد کے امور، اصول اور فروع میں امتیاز، اجتہاد کے دائرہ کا تعین، سنت اور بدعت میں فرق، ثوابت اور متغیرات میں توازن، اجتماع اور افتراق کے ضوابط، اہل بدعت سے تعامل کی حدود، پھر عبادات، معاملات، حدود، تعزیرات، اخلاق، سماجیات، تہذیب، حلال وحرام، فرائض و اوامر ایسے سب کے سب امور میں فہمِ دین کی بابت صحابہ کی اتباع لازم ہے۔

ان سب کے سب امور میں، حتیٰ کہ ان امور کی تفصیلات میں:

1) یا تو صحابہ نے اتفاق کیا ہے اور وہاں ان سے اختلاف جائزنہیں خواہ وہ فقہی مسائل کی بابت کیوں نہ ہو ۔۔۔۔

2) یا پھران امور میں صحابہ نے کہیں اختلاف کیا ہے (جو کہ فروع میں ہی کیا ہو سکتا ہے نہ کہ اصول میں) وہاں صحابہ کے اقوال(4) میں سے قولِ راجح اختیار کیا جائے گا۔ (5) یوں مجموعی طور پر اقوالِ صحابہ سے خروج پھر بھی نہ ہوگا۔ ۔۔۔۔

3) اور یا پھر صحابہ نے خاموشی اختیار کی ہے جس کی دو صورتیں ہیں: (الف) صحابہ کی خاموشی اگر عقائد اور ”اصولِ دین“ میں سے کسی امر کی بابت ہے مثلاً خدا کی صفات یا عقیدہ کی تفصیلات وغیرہ۔ تو صحابہ ہی کی طرح اس معاملہ پر خاموش رہنا اور اس کی ٹوہ میں جانے سے احتراز کئے رہنا بعد والوں پر لازم ہو گا (ب) اور اگروہ مسئلہ فروعی اور فقہی ہے اور اس کاحل پیش کرنے کی کسی دور میں ضرورت پیش آچکی ہے تو اس کا حل صحابہ ہی کے اصولِ استدلال اور انہی کے دیے ہوئے ضوابطِ قیاس واجتہاد کوسامنے رکھ کر، وقت کے فقہاءاپنے دور کے اندر تلاش کریں گے۔ (6)

ائمۂ اربعہ ابو حنیفہؒ، مالکؒ، شافعیؒ و ابن حنبلؒ ودیگر ائمہ اہلسنت کے ہاں مختلف پیرایوں میں یہی بات دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی منہج پر (ان کے اساتذہ) تابعین نے صحابہؓ سے تربیت پائی اور پھر آگے (ان کو)تربیت دی تھی۔ اسی منہج پر صحابہؓ اپنے زیرتربیت تابعین کو مجموعی طور پر پاتے رہے تو اس پراظہار اطمینان کرتے رہے تھے جبکہ اس منہج سے خروج کر لینے والوں کی مذمت میں صحابہ آخری حد تک چلے جاتے رہے اور ان کو اہل بدعت وتفرقہ قرار دیتے رہے تھے۔ یہاں تک کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے قدریہ کے کچھ لوگوں کو، جوکہ قرآن سے استدلال کا اپنے تئیں خوب خوب اہتمام کرتے تھے، پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ پوری زمین کی دولت بھی راہِ خدا میں خرچ کرڈالیں تو اس انحراف کے ہوتے ہوئے جس کو وہ لے کر چل رہے ہیں، یہ عمل ان کو کچھ فائدہ دینے والا نہیں۔ یہ واقعہ عقیدہ کی بیشتر کتب میں مذکور ہے۔

یوں صحابہؓ کے اس تعامل نے ہی سب سے پہلے ایک طرف ”اہلِ سنت وجماعت“ اور دوسری طرف ”اہلِ بدعت وتفرقہ“ کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دینے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ہی ”اجتہاد“ اور ”انحراف“ کو ضبط میں لانے کی اساس فراہم کی اور ”اِتِّباع“ اور ”شقاق“ میں تمییز کرائی۔ پس اس امر کی تاسیس خود صحابہؓ کے ہاتھوں ہوئی۔ اسی منہج پر تابعینؒ نے صحابہؓ سے تربیت پا کر پھر آگے اَتباعِ تابعینؒ کو تربیت دی۔ فقہاءِ اربعہ، اور کتبِ ستہ (جنکو صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے) کے مصنفین سمیت بیشتر مشہور محدثین، فقہاءاور مؤلفین اسی اَتباعِ تابعین کے دور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

اَتباعِ تابعین کا یہ وہ زمانہ ہے جب شریعت کے تقریباً سب علوم کی تدوین ہوئی۔ حدیث، تفسیر، فقہ، مغازی، اصول اعتقاد، ادب، اخلاق، موضوعاتِ ایمان، اصولِ لسان سب کچھ مدون ہوا اور بعدکی نسلوں کیلئے محفوظ کردیا گیا۔ یہ خدا کی رحمت تھی کہ صحابہ کا وہ علم جو اطرافِ عالم میں پھیل چکا تھا اور، فتوحات اور نئی اقوام کی تربیت ایسی کچھ خاص ضروریات کے تحت، عالمِ اسلام کے سب ملکوں، شہروںاور بستیوںمیں منتشر تھا ___ تابعین واتباع تابعین کی تابڑ توڑ علمی رحلتوں اور طویل مذاکروں اور شبانہ روز مراجعوں کے اس دیوانہ وار عمل کے نتیجے میں ___ صحابہ کا چھوڑا ہوا یہ علم اپنی تنقیح، چھان پھٹک اور اپنی نقل وروایت اور ذکر و مراجعہ اور شہرہ وتذکرہ میں جب اپنے عروج کو پہنچ چکا اور اس کو جمع و حفظ اور تاصیل وتبویب کے جب بہترین امکانات اور تاریخ کے بہترین اور صالح ترین دماغ حاصل تھے اور اس کثرت سے اور اس وافر انداز میں میسر تھے تو دھڑا دھڑ اس کی تدوین ہوئی اور قیامت تک کی نسلوں کیلئے کمال دیانت اور خوبصورتی سے اس امانت کو محفوظ کر لیا گیا۔جبکہ اس نسل کے گزرنے کے ساتھ ہی فتنوں اور گمراہیوں کا وہ طوفان آیا کہ اہلسنت کا وجود غیر معمولی حد تک سمٹ جانے اور معاشرے کی سطح پر پسپائی اختیار کر جانے پر مجبور ہوا۔ یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں اور چوتھی صدی ہجری تقریباً ساری ہمیں عالم اسلام پہ ہر طرف باطنی فرقوں، روافض، زنادقہ اور موقعہ پرستوں کی ہی ریاست اور سیادت نظر آتی ہے۔

اس انحطاط کا ذکر، جو تبع تابعین کا دور گزرنے کے ساتھ ہی عالمِ اسلام پر آیا اور سنت وبدعت کے خلط کی راہ ہموار کرنے لگا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بعض اہلسنت طبقے ہی جزوی طور پر بدعات کے حامل پائے جانے لگے، اور یوں یہاں سے سنت راستے کی تنقیح کے عمل نے ایک نیا موڑ دیکھا۔۔۔۔ اس کا ذکر ہم آئندہ فصل میں کریں گے۔ البتہ ان تین زمانوں کے اندر دین کو اس کے مستند مصادر سے لینے اور مختلف حالات کے اندر اس کے اصولوں کی تطبیق کرنے اور پھر معاشرے کے اندر اس کو لے کر چلنے کا پورا ایک منہج سامنے آچکا تھا، نہ صرف سامنے آچکا تھا بلکہ ایک معلوم روشن شاہراہ کی صورت دھار گیا تھایوں کہ جب اس سے انحراف ہو تو فورا معلوم اور محسوس ہونے لگے اور طبیعتیں صاف اس سے ابا کرنے لگیں۔ نہ صرف دین پر چلنے اور وحی سے ہر ہر معاملے میں راہنمائی لینے کا ایک منہج ان تین زمانوں کے اندر ایک کامل انداز میں سامنے آچکا تھا اور تنوعِ آراءکی حدود بھی اس کے اندر واضح ہو چکی تھیں اور وہ ’سرخ لکیر‘ بھی پوری طرح واضح ہوگئی تھی جس کو پار کرنا اختلاف کی وہ قسم کہلائے جو امت کے اندر ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت سمجھا جائے گا۔۔۔۔ نہ صرف یہ، بلکہ دین سے انحرافات (بدعات) کی درجہ بندی کرنے حتیٰ کہ دین سے انحراف اور ابتداع کا مرتکب ہونے والوں کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی جو جو صورتیں اپنائی جانا ہیں ان کو واضح کردینے تک کا عمل پوری کامیابی کے ساتھ ہوگیا تھا۔

اب، یعنی تبع تابعین کا دور گزر جانے کے بعد، معاملہ اگر اسی زور اور قوت کے ساتھ نہ بھی جاری رہ سکا __ اور واقعتا تبع تابعین کے بعد عالم اسلام کے اطراف واکناف میں اہلِ سنت کا معاملہ اس زور وشور سے اوراس بڑی سطح پر اور اس عوامی پزیرائی کے ساتھ جاری نہ رہا __ تو بھی بہر حال اس بات کا خدشہ نہ رہا تھا کہ اس راستے کا سِرا ہی روپوش ہوجائے گا۔ ذرہ بھر کوشش کر کے معاملے کا سرا پالینا ہر شخص کیلئے ممکن تھا اور آج تک ہے۔

یہ وہ کام تھا جو اسلام کے تین ابتدائی زمانوں میں، کہ جس کی بابت ہم ہر خطبے میں سنتے ہیں: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم۔۔۔۔

یہ وہ کام تھا جو اسلام کے تین ابتدائی زمانوں میں، کہ جن کو ”قرونِ سلف“ بھی کہا جاتا ہے، ”قرونِ خیِّرہ“بھی، ”قرونِ نیِّرہ“ بھی اور ”قرونِ ثلاثہ“ بھی، بصورتِ اتم تکمیل پاچکا تھا۔۔۔۔

’بعد والوں‘ کو اب انہی کے پیچھے کھڑے ہونا ہے ، ورنہ اِن کی جہت آپ سے آپ ”انحراف“ مانی جائے گی اور صریحا ”شقاق“۔

’جہت‘ کے تعین کے معاملہ میں اسلام کی پہلی تین نسلوں کے اس برگزیدہ عمل نے، جوکہ ڈھائی تین صدیوں پر محیط ہے، مسئلہ کو اتنا ہی سادہ اور آسان کردیا ہے۔


(1) ”پرانے ترین دور والے اسلام ہی کو لازم پکڑے رہو“

(2) صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف الامام الامام ابی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال

(3) یعنی صحابہ کے ماحول میں جس چیز کو حق جانا جاتا تھا، آدمی کا بزعم خود کسی ’دلیل‘ کی بنیاد پر، یا کسی کے بہکانے کے زیر اثر،اسے غلط جاننے لگنا اور جس چیز کو صحابہ کا علم وعمل غلط قرار دیتا رہا ہو، اس کو درست جاننے لگنا۔

(4) گو عمر بن عبدالعزیزؒ کے نزدیک صحابہ کے اقوال میں عندالاختلاف کوئی سا بھی قول اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی مذہب امام احمد بن حنبل کا ہے۔مگر جمہور کے نزدیک صحابہ کے اقوال میں اختلاف ہو تو ان میں سے قول راجح اختیار کیا جائے گا نہ کہ کوئی سا بھی قول، یعنی دلیل کی بنیاد پر ایک قول کو چھوڑ بھی دیا جاسکتا ہے۔ (دیکھیے جامع بیان العلم وفضلہ ص366 تا ص 371) کیونکہ اس طرف صحابہ کا قول ہے تو اس سے متعارض دوسری طرف بھی صحابہ ہی کا قول ہے ۔

(5) اس قول راجح کے اختیار میں اگر کوئی اختلاف ہو تو اس کو اختلاف سائغ کہا جائے گا۔ یعنی وہ اختلاف جس کیلئے دِین میں گنجائش ہے اور جس کے باقی رہتے ہوئے بھی مسلمانوں کا اجتماع اور اخوت اور ان کے باہم مل کر جہاد کرنے اور اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کا عمل ذرہ بھر متاثر نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ فقہی امور میں اختلاف ہو جانے کے باوجود اگر صحابہ میں وحدت اور اخوت برقرار رہتی ہے تو اسی اختلاف کے رہتے ہوئے ہم میں اخوت اور وحدت کیوں باقی نہ رہنی چاہیے؟!

(6) دِین کے اس حصہ میں بھی اگر اختلاف ہو جاتا ہے یوں وقت کے اہل علم کا اپنے دور کے کسی معاملہ میں اجتہاد مختلف ہو جاتا ہے تو بھی اختلاف سائغ شمار ہوگا۔ اختلافِ سائغ، یعنی ایسا اختلاف ہوجانے پر ایک دوسرے کے سر آنا جائز نہیں۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز