مسلم ملکوں میں
تخریب کاری
استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ کے فائل سے
یہ
بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ استعماری قوتیں جہاں جہاں گئی ہیں وہاں وہاں فساد،
بدامنی، خون ریزی، فرقہ واریت، علاقائیت، نسل پرستی، سرحدی تنازعے، جرائم، بدکاری،
قحبہ گری، منشیات، اِغوا برائے تاوان، اور طرح طرح کے مافیا کسی موسمی وباءکی طرح
پھوٹ پڑتے رہے ہیں۔ صرف ایک ہمارے اِس خطے کی بات نہیں؛ جہاں جہاں یہ لوگ گئے، یہی
گند پھیلاتے رہے۔ ویتنام اور فلپائن وغیرہ میں بھی یہی افسانے رہے۔ ان کی اصل
مہارت البتہ یہ ہے کہ یہ اپنا سارا گند __ ابلاغی
سطح پر ایک حیرت انگیز کامیابی کے ساتھ __ اپنے مدمقابل پر ڈال دیتے ہیں۔ نتیجتاً مقامی
آبادیاں بیرونی حملہ آوروں کی بجائے اپنے
گھر کے مزاحمت کاروں کو کوسنے لگتی ہیں؛ جس سے یہ سامراجی قوتیں دہرا تہرا فائدہ
حاصل کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر ملک کے اندر اِن کو ڈھیروں کے حساب سے ایسے 'دانشور'
حاصل رہتے ہیں جو اِن کے پھیلائے ہوئے اس سارے گند کی ذمہ داری ایک کمال 'مبصرانہ'
انداز میں ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور اپنی زمینوں کا دفاع کرنے والی اُن معصوم
قوتوں پر ڈال دیتے ہیں جن کو اپنے 'امیج بلڈنگ' کےلیے اور اپنے دشمن کے 'امیج
ڈسٹرکشن' کےلیے وہ لمبے چوڑے وسائل دستیاب نہیں ہوتے جو اِن استعماری افواج نے
اپنی فوج کشی کے وقت اپنی ابلاغیاتی کوریج کےلیے مختص کر رکھے ہوتے ہیں۔
*****
یہ
بھی ماننا چاہئے کہ استعمار کے خلاف اپنے مزاحمتی عمل میں مسلم قوموں کو کچھ بھاری
نقصان بھی اٹھانے ہوتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہئے، استعمار سے آزادی کے عمل میں
پائے جانے والے نقصانات کتنے ہی بڑے ہوں وہ استعمار کی غلامی قبول کرنے کے نقصانات
سے بہرحال چھوٹے ہوتے ہیں۔اور جب جنگ ہے تو کہیں آپ کی منصوبہ بندی رنگ لائے گی تو
کہیں دشمن کی چال بھی کامیاب ہو جائے گی؛ جس سے کم ہمت لوگ فوراً جھلا اٹھتے ہیں۔
ان کا تقاضا گویا یہ ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جنگ میں اگر آپ کامیابیوں کی ضمانت
دیتے ہیں پھر تو چلیں ہم آپ کی بات کچھ سن لیں گے۔ لیکن جہاں کوئی رِسک risk لینے کی
بات ہے تو ایسی جنگ سے ہماری توبہ؛ غلامی ہمارے لیے اس سے کہیں اچھی ہے! اب بھلا
جنگ ہو اور رِسک risk نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟! یہاں تو؛ کہیں آپ کا
ہاتھ پڑے گا اور کہیں دشمن کا بھی ہاتھ پڑ جائے گا، جس سے ہمارے یہ سارے ’ففتھ
کالمسٹ‘ آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ دشمن کی مدد جتنا ہمارا یہ طبقہ کرسکتا ہے اتنا
کوئی نہیں کر سکتا۔
غرض پہلے افغان جہاد کے اختتام پر ہمیں کچھ بڑے جھٹکے بھی
لگے ہیں اور معاملے کو ازسرنو ایک ڈھب پر لانا اب کچھ مشکل ہو گیا تھا۔
کمیونسٹوں
کے افغانستان میں شکست کھاتے ہی... "امریکی" میدان میں آ جاتے ہیں اور
وہ سارے گھوڑے جو مقامی طور پر روسیوں کی سواری کےلیے "یہاں" پر مخصوص
تھے اب بے تکلف امریکیوں کے زیر تصرف آنے لگتے ہیں۔ ضیاءالحق اور عبد اللہ عزام
سمیت ہماری قیادت کے ایک بڑے حصے کو فی الفور راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ خلق اور
پرچم کو کچھ قلابازیاں لگوا کر، اور شمال میں کچھ نئے گھوڑے خرید کر، حکمتیار کو
ان کے ساتھ الجھا دیا جاتا ہے۔ 'الذولفقار' کے سیاسی چہرے کو ایک گونا کامیابی کے
ساتھ یہاں اقتدار میں لے آیا جاتا ہے؛ جو ضیاءالحق کی ٹیم کے رہے سہے حصوں (مانند
حمید گل وغیرہ) کو بڑی کامیابی کے ساتھ سائڈ لائن کر دیتا ہے۔ جس کے بعد
"یہاں" کی صفائی تو کون کرتا، ایک بار تو خطرہ یہ پڑ گیا تھا کہ
افغانستان "امریکی بھارتی ایرانی" اثرورسوخ کا ایک گڑھ بن گیا ہے اور
ہمارے جہاد کے دنوں کی محنت اچھی خاصی حد تک اکارت چلی جانے والی ہے۔ تاآنکہ
"ملا عمر" کی صورت میں ایک نئی امید افزا پیشرفت سامنے آتی ہے اور
معاملہ ہمارے اِس نئے حریف (امریکہ بھارت گٹھ جوڑ) کے مدمقابل ایک مثبت سمت میں
بڑھنے لگتا ہے۔ ملا عمر کی پے در پے کامیابیاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو
بوکھلا دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کے 'صبر' کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ
بنفس نفیس، کیل کانٹے سے لیس، افغانستان پر لشکر کشی کرنے چلا آتا ہے؛ اور جس میں
یہ واضح ہے کہ اُس کی یہ توسیع پسند و قبضہ کار استعماری ذہنیت افغانستان پر رک
جانے والی نہیں؛ بلکہ پورے خطے اور شاید پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لینا
چاہتی ہے (بلکہ وہ صلیبی جنگ کا ایک باقاعدہ نیا مرحلہ ہے؛ جس پر ہم نے اپنے دیگر
مضامین میں کچھ روشنی ڈالی ہے)۔ اور جس میں سب سے بڑھ کر، اُس کے پیش نظر، اِس بار
اُس "اسلامی خطرے" کو جڑ سے ختم کرنا ہے جو ایک ممکنہ ’پاک افغان وحدت‘
کی صورت میں ان کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے؛ اور جس کو پلتا چھوڑ دینے کی صورت میں
کم از کم بھی وسط ایشیا سے لے کر کلکتہ، ڈھاکہ اور چٹاگانگ بلکہ رنگون تک، اور
ہمالیہ سے بحر ہند تک ایک ناقابل تسخیر اور باہم مترابط اسلامی سنی بلاک وجود میں
آتا ہے (خواہ اس کا سیاسی نقشہ فی الحال جو بھی ہو).... یعنی وہ بات جس کا تصور
بھی امریکہ اور بھارت ہر دو کے ہوش اڑا کر رکھ دے! امریکہ اور بھارت (اور ساتھ میں
اسرائیل بھی) کی نظر میں یہ اُن کے وجود کی جنگ ہے اور اس کو ہر قیمت پر جیت لینے کےلیے
وہ اپنا سب کچھ جھونک دینے پر تیار نظر آتے ہیں۔ اس "چیلنج" کے ساتھ
پورا اترنے کےلیے آپ کا یہ خطہ عالمی پہلوانوں کا سب سے بڑا اکھاڑا بن جاتا ہے اور
حالیہ عالمی تاریخ کے ایک بدترین اور جارح ترین گھمسان کا میدان۔ بظاہر 'چھوٹے
چھوٹے' واقعات کے پیچھے اتنے بڑے بڑے مہرے ہلائے جا رہے ہوتے ہیں کہ ایک کوتاہ نظر
اس کا تصور تک نہ کر سکے۔ جیسا کہ ہم نے کہا، "یہاں" کے وہ بے شمار
عناصر جو خطے میں سوویت یونین کی مسلط کردہ جنگ میں "بی ٹیم" کی حیثیت
رکھتے رہے تھے وہ سب کے سب عناصر اب امریکہ کے زیر تصرف ہیں۔ صرف کے جی بی کی جگہ
سی آئی اے اور بلیک واٹر ایسی نئی بلاؤں نے لے لی ہے، را اور خاد کا "مددگار
کردار" یہاں پر آج بھی اُسی 'بے لوثی' کے ساتھ دستیاب ہے۔ قادیانیت کا اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف بغض و کینہ اِن حالیہ امریکی نیٹ ورکس کی بھی اُسی وارفتگی
کے ساتھ بلائیں لے رہا ہے جو کسی زمانے میں کمیونسٹ عناصر کےلیے دیدہ و دل فرش راہ
کروا رہا تھا۔ "رے منڈ ڈیوس" اِس دیگ کا محض ایک چاول تھا ورنہ یہ پکوان
اِس بار تو ایک نہایت وسیع و عریض دسترخوان کو 'سرو' serve کرنے
کےلیے تیار ہو رہا ہے۔ آپ کے یہ سب دانشور آنکھیں کھولنے پر تیار ہوں تو وہ اِس
'کلاشنکوف کلچر' کو اس کی پوری حقیقت کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں اور اس کی بابت قوم کی
بھی بروقت آنکھیں کھول سکتے ہیں؛ مگر ان کو اِس جہاد کو ہی کوسنے سے فراغت نہیں جس
نے افغانستان میں امریکہ کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور جس کی کامیابی کو دیکھ کر
بھارت کے پیٹ میں بل پڑ رہا ہے، تو ہمارے اِن دانشوروں کو بھی یہاں پر بیٹھے ہوئے
اس سے تکلیف اور اذیت ہو رہی ہے؛ جس کے باعث اِن کی کل کوشش ہر طرف کا یہ ملبہ
مجاہدین پر ہی ڈال دینے کےلیے صرف ہو رہی ہے۔
چنانچہ
جس 'کلاشنکوف کلچر' کا آپ کو اِس "جہاد" کے حوالے سے گلہ ہے وہ آپ کے اس
دشمن کا ایک باقاعدہ ہتھیار رہا ہے جسے وہ یہاں مقامی طور پر آپ کے خلاف برتتا آیا
ہے؛ اور یہ چیز عین روسی حملے کے وقت سے چلی آتی ہے۔ یہ ایک جنگ ہے جو آپ کے
طلب کئے بغیر آپ پر مسلط کی گئی ہے۔ نہ آپ روس کے ساتھ لڑنے گئے تھے جس کے اعتماد
یافتہ "مقامی عناصر" نے اِس جنگ کے ایک حصے کے طور پر کسی وقت آپ کے
یہاں 'کلاشنکوف' کاشت کی تھی۔ نہ آپ امریکہ کے ساتھ لڑنے گئے تھے جو بڑے سالوں سے آپ
کے ہاں 'ریمنڈ ڈیوس' کاشت کرنے میں مصروف ہے بلکہ آنے والے کسی "خاص
مرحلے" کےلیے اِس زہریلی فصل کے ڈھیر لگاتا چلا جا رہا ہے۔ تاریخ میں ہم پر بے شمار ایسی آفتیں آئی ہیں جن کو
ہم کبھی بلانے نہیں گئے تھے۔ کسی وقت ہم پر تاتاری ٹڈی دل چڑھ آیا تھا جوکہ ہمارے
شہروں اور بستیوں پر خدا کا عذاب بن کر نازل ہوا تھا اور حد نگاہ تک ہماری فصلیں
اور نسلیں ویران کرتا چلا گیا تھا۔ ایسے ہی کچھ ناگہانی مصائب ہمارے گناہوں کے سبب
آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں کبھی روس کی شکل میں تو کبھی امریکیوں کی شکل میں تو
کبھی بنی صیہون کی شکل میں تو کبھی بھارت کی شکل میں۔ البتہ اس کا وہ تعلق جو
یہ 'دانشور' فی الفور "پہلے افغان جہاد" اور "ضیاءالحق" کے
ساتھ جوڑنے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں پر بولا جانے والا سب سے بڑا جھوٹ ہے؛ اور جس کے
پس پردہ کچھ بڑے بڑے شاطر دماغ بول رہے ہیں۔ یہ تو دشمن کی جانب سے ہم پر مسلط کی
جانے والی اُس جنگ کا حصہ ہے اور اُس کا وہ باقاعدہ ہتھیار ہے جس کے وار سے خدا کا
شکر ہے اب تک ہم کسی نہ کسی طرح بچتے چلے آ رہے ہیں اور جس کو امریکہ ہم پر برتنے
کے ابھی بے شمار منصوبے بنائے بیٹھا ہے۔
یہ
ہیں وہ اصل فیکٹر جو اِس تیزی کے ساتھ تشویش ناک ہوتی چلی جانے والی "امن و
امان کی صورتحال" کے پیچھے حقیقی طور پر کارفرما ہیں، اور جوکہ آپ کے اِس
بظاہر 'اسٹرٹیجک پارٹنر' کے اپنے ہاتھوں آپ کی سرزمین کے اندر دھڑا دھڑ کاشت ہو
رہے ہیں، اور جن پر انگلی اٹھانے تک کے لئے فی الحال آپ اپنے اندر جرأت کی کمی
پاتے ہیں... ان سے صبر اور حکمت کے ساتھ نبردآزما ہوئے بغیر بہرحال چارہ نہ ہوگا۔ یہاں
جھنجھلاہٹ اور ہائے دہائی آپ کے دشمن ہی کے حق میں فائدہ مند ہوگی، کیونکہ درحقیقت
وہ یہ سب کچھ آپ کو ’ہینڈزاَپ‘ کروانے کےلیے کر رہا ہے۔ نیز آپ اُس کی اِس 'دوستی'
کے ہاتھوں مار کھاتے چلے جانا چاہتے ہیں تو بھی یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے؛ خواہ وہ
"فیصلہ" آپ جس سطح پر بھی کریں۔ اس کی ذمہ داری "جہاد" کو
اٹھوانا پھر بھی گمراہ کن ہی رہے گا۔
(ماخوذ از ایقاظ جولائی 2011ء)
سن 2011 کی ایک تحریر سے اقتباس