عقیدۂ سلف سے اعراض.. کہیں دہشتگردی تو
کہیں جدت پسندی
تنقیحات
ہمارے مضمون (عقیدۂ سلف تک رسائی؟) پر ایک اعتراض وارد ہوا
ہے:
عقیدۂ سلف کا نام لینے والے ایک
طرف حکمرانوں تک کے وفادار اور دوست۔ دوسری طرف اسی عقیدۂ سلف کا نام لینے والے
ہر سُو دہشت پھیلاتے اور لوگوں کا قتلِ عام کرتے پھریں۔ یہ عقیدۂ سلف اگر آپ کو
اتنے مختلف نتائج پر پہنچاتا ہے تو پھر یہ علاج کس مرض کا ہے؟
جواب:
بھائی دہشتگردی اور لوگوں
کا قتل عام محض دماغ کے فتور کا نام ہے۔ اس کا کچھ تعلق عقیدۂ سلف کے ساتھ نہیں
ہے، اگرچہ یہ کسی بھی عقیدے کا نام لیں یا کہنے کو کسی بھی دلیل کا سہارا لیں۔ غیر
ذمہ دار لوگوں کے ہتھے کچھ بھی چڑھ سکتا ہے۔
اس کا الزامی جواب میں یوں
دے سکتا ہوں: محض ’’قرآن‘‘ یا محض ’’کتاب وسنت‘‘ کو حجت ماننے والے کیسےکیسے
بُعدالمشرقین نتائج پر نہیں پہنچتے؟ یہ اعتراض جو اوپر ذکر ہوا، آخر انہی حضرات کی
طرف سے ہے نا جو سلف کے مقررات کو حجت ماننے پر تیار نہیں؟ یا جو محض ’’قرآن‘‘ یا
محض ’’کتاب وسنت‘‘ کی حجیت کے دعویدار ہیں؟
تو پھر آئیے دیکھتے ہیں کہ
خالی ’’قرآن‘‘ کو ماننا یا محض ’’کتاب و سنت‘‘ کو ماننا کیسےکیسے متعارض نتائج تک
پہنچاتا ہے۔
اپنی اَقُول سے کتاب و سنت
کو سمجھنے والوں کو آپ نے اس حد تک آزاد خیال تو دیکھ ہی رکھا ہو گا کہ وہ لبرلز
کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر تک میں کافر کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو
فساد کہتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ تک کو کافر کہنے کے روادار نہیں۔ اور ان سب باتوں کی
دلیل اپنے تئیں ’کتاب وسنت‘ سے دیتے ہیں۔
دوسری
طرف دیکھیے: موجودہ دور میں دہشتگردی کی اصل بنیاد رکھنے والی مصر کی (شکری مصطفیٰ
کی تاسیس کردہ) جماعۃ التکفیر والہجرہ بھی کسی ’سلف‘ وغیرہ کو نہیں مانتی۔ دورِ
حاضر کی جماعتوں اور فرقوں پر عربی
انسائیکلوپیڈیا (الموسوعۃ المیسرۃ فی الأدیان
والمذاھب والجماعات المعاصرۃ) میں مصر کی اس جماعت کے
عقائد کی بابت لکھا ہے:
وكل من أخذ بأقوال الأئمة أو
بالإجماع حتى ولو كان إجماع الصحابة أو بالقياس أو بالمصلحة المرسلة أو بالاستحسان
ونحوها فهو في نظرهم مشرك كافر.
والعصور الإسلامية بعد القرن
الرابع الهجري كلها عصور كفر وجاهلية لتقديسها لصنم التقليد المعبود من دون الله
تعالى فعلى المسلم أن يعرف الأحكام بأدلتها ولا يجوز لديهم التقليد في أي أمر من
أمور الدين۔ قول الصحابي وفعله ليس بحجة ولو كان من الخلفاء الراشدين. (ج 1 ص
336)
ہر وہ شخص جو ائمہ کے
اقوال پر چلے یا اجماع پر چلے خواہ وہ صحابہؓ کا اجماع کیوں نہ ہو، یا قیاس پر
چلے، یا مصلحہ مرسلۃ یا استحسان وغیرہ سے دلیل لے، وہ ان کے نزدیک کافر مشرک ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے بعد کے
سب اداوار ان کے نزدیک کفر اور جاہلیت کے ادوار ہیں۔ اس لیے کہ (ان ادوار میں)
تقلید کا بت پوجا جاتا رہا ہے خدا کی عبادت کے مقابلے میں، جبکہ مسلمان پر واجب ہے
کہ وہ احکام کو ان کے دلائل سے ہی جانے (!)۔ تقلید ان کے نزدیک امورِ دین میں سے
کسی بھی امر کے اندر جائز نہیں۔ صحابی کا قول یا فعل بھی ان کے نزدیک حجت نہیں خواہ
وہ خلفائے راشدین میں سے کیوں نہ ہو۔
کیا خیال ہے، اجماع، سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، مواقفِ صحابہ، اقوال ائمہ
وغیرہ ایسی اشیاء کی ہرگز کوئی حجیت نہ ماننے میں ’’جماعۃ التکفیر والہجرۃ‘‘ کا
کیا وہی عقیدہ نہیں جو یہاں ’’المورد‘‘ وغیرہ کا ہے؟ دونوں کی حجت براہِ راست کتاب
و سنت سے!
اور نتائج کتنے مختلف؟
ایک کے نزدیک یہود و نصاریٰ اور ہندو بھی کافر نہیں۔ جبکہ دوسرے کے نزدیک میں،
آپ، سب نماز پڑھنے والے کافر اور مشرک، اور سب کے جان اور مال مباح!
ایک کے نزدیک مرزا قادیانی بھی شاید کافر نہیں۔ جبکہ دوسرے کے نزدیک یہاں کے
راسخ العقیدہ ترین مسلمان بھی کافر!
بھائی عقیدۂ سلف کو ماننے والے اللہ کے فضل سے ضلالت اور گمراہی کے جن گڑھوں
میں گرنے سے محفوظ رہتے ہیں انہیں جاننے کےلیے آپ عقیدۂ سلف کے کچھ متون ہی پڑھ
لیں (جن کا ہم نے اپنے مضمون ’’عقیدۂ سلف تک رسائی؟‘‘ میں کچھ ذکر کیا ہے) آپ کو
معلوم ہو جائے گا کہ کیسے کیسے خطرناک مقامات پر ناپیداکنار بحثوں سے آپ کی جان
چھوٹتی اور مقرراتِ سلف کے دم سے ان مقامات پر آپ کو ایک وثوق ملتا ہے۔