عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دعوت کا منہج کیا ہو۔’جو ہے‘ سے ’جو ہونا چاہیے‘ تک
:عنوان

:کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

Download in PDF format

سلسلہ وار

"دعوت کا منہج" مکمل کتابی شکل میں شائع  ہوچکا ہے۔ آن لائن پڑھنے یا ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

دعوت کا منہج کیا ہو

’جو ہے‘ سے ’جو ہونا چاہیے‘ تک

(حصہ دوم)

(حصہ اول یہاں کلک کریں)

یہ تو واضح ہے کہ ’جو ہے‘ وہ اس سے بہت مختلف ہے ’جو ہونا چاہئے‘!

اس سے پہلے ہم ان بعض اسباب کا جائزہ لے آئے ہیں جو اس بات کی تفسیر کر سکیں کہ اِس ’موجود‘ اور اُس ’مطلوب‘ میں یہ فرق کیونکر آیا۔ اس ’فرق‘ کے پائے جانے کے باعث جو کچھ نتائج برآمد ہوئے ان کا بھی ہم کچھ جائزہ لے آئے ہیں۔

البتہ اب جب ہم نے اس نبوی منہج پر کچھ تفصیل سے بات کرلی ہے جو اسلام کی اولین تحریک کی بنیادی جمعیت تیار کیے جانے اور پھر بنیادی جمعیت کو توسیع دیے جانے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے زیرنگرانی عمل میں آیا.... تو اب ہم پھر سے اس موضوع پر آتے ہیں کہ ’جو ہے‘ اور ’جو ہونا چاہئے‘ میں یہ جو فرق ہے وہ کیونکر ہے.....

’عجلت پسندی‘ ایک وہ عمومی وصف ہے جو ہمیں اسلامی بیداری کے اس پورے عمل میں اس کی ابتدا سے لے کر انتہاءتک آجاتا!!

خود ’اساسی جمعیت‘ کی تیاری کے معاملے میں ہی جلد بازی ہوئی!

ابتدا کے اندر اگر ہم نے کماحقہ اندازہ کرلیا ہوتا کہ:

٭ وہ خلل جو اُمت کے وجود اور اس کی بنیادی ساخت کو لاحق ہوا ہے اور اس کے باعث حقیقتِ اسلام یہاں کے معاشروں سے روپوش ہوئی ہے اور اسلام اپنے ہی نام لیواؤں کے مابین کیونکر اجنبی ہو چکا ہے اور جس سے فائدہ پا کر اس اُمت کے دشمن اس پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑے ہیں.... یہ دراصل خلل ہے کتنا گہرا

٭ وہ جہد جو اُمت کو اس کی تاریخ میں پیش آنے والے اس سب سے بڑے خلل کو دور کرنے کیلئے اور اس کے وجود کو لاحق امراض سے اس کی شفایابی کیلئے کی جانا مطلوب ہے وہ جہد ہے کس حجم اور نوعیت کی

٭ وہ محنت جو دشمنوں نے اسلام کا کام تمام کر دینے کیلئے مختلف سطحوں پر پچھلی کئی صدیوں سے کی ہے خود اس کا حجم اور نوعیت کیا ہے

ان تین باتوں کا کماحقہ اندازہ اگر ہم نے کر لیا ہوتا تو ہم نے اپنی تحریکی اٹھان کے معاملہ میں کہیں زیادہ گہرائی اور دھیمے پن سے کام لیا ہوتا اور جلد بازی کا اسلوب نہ اپنایا ہوتا!

تو کیا جب تحریکی اور دعوتی عمل کی یہاں صدا بلند ہوئی اس وقت ہمیں درست درست اندازہ تھا کہ ایک اساسی جمعیت کی تیاری جو یہاں درکار ہے وہ کس پائے کی ہونی چاہیے اور اس کی مواصفات کیا ہوں؟ کیا یہ بات ہمارے ذہن میں پوری طرح واضح تھی کہ اس دعوت کا رخ پوری قوت کے ساتھ ’عوامی طبقوں‘ کی جانب کردینا، قبل اس کے کہ بنیادی جمعیت کی تیاری مطلوبہ سطح پر ہو چکی ہو، ہمیں بہت سی مشکلات سے دوچارکر سکتا ہے؟ یعنی جب عوامی طبقے ایک ’جذبہ‘ جگا دیے جانے کے باعث اس دعوت کے ساتھ آملنے کیلئے جوق درجوق آگے بڑھیں تو ان کو وہ مربی اور وہ معلم ہی نہ ملیں جو کہ حقیقت اسلام کے ازسرنو وجود میں لائے جانے کیلئے اس دور کی ضرورت ہیں؟! کیونکہ ہم وہ مربی اور معلم ابھی تیار ہی نہ کر پائے تھے جو دعوت کی صدا پر لبیک کہنے والے عوامی جمگھٹوں کو باحسن اسلوب ’سنبھال‘ لیں۔ اور کیا ہم پر واضح تھا کہ ’جذبہ‘ جگا جگا کر عوامی طبقوں کو ساتھ ملاتے جانا بغیر اس کے کہ ہم ان کو تربیت کی خاص سطح تک پہنچا لیں کچھ خطرناک مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے، خصوصاًدعوتی عمل کو اس وقت کچھ ناقابل تلافی دھچکے لگ سکتے ہیں جب کچھ مقامی اور عالمی قوتیں بھڑک اٹھیں اور اس پر ہاتھ ڈال دیں جبکہ دعوت کے ساتھ چلنے والے لوگ ابھی کسی ایسی ضرب کیلئے تیار ہی نہ ہوں بلکہ خود تحریکی جمعیت ہی ایسی کسی ضرب کو کامیابی کے ساتھ سہہ جانے کیلئے مطلوبہ استعداد کی حامل نہ ہوئی ہو؟!

حالات سے جو واضح ہوتا ہے اس کو دیکھیں تو میرا خیال ہے یہ امور ہم پر اس حد تک واضح نہ تھے جس حد تک ہونے چاہییں تھے۔ حتی کہ تحریک کی بنیاد اٹھانے میں ہی کچھ عجلت برتی گئی۔ وہ خام مواد جو اسے حاصل تھا اس کو کندن بنایا جا سکتا تھا مگر اس پر پورا کام نہیں ہوا۔ یہ تو سچ ہے کہ جو بھی تحریک شروع ہوگی وہ کچھ ایسے ہی مواد سے مشروع ہوگی جو ابھی خام ہو۔ مگر اس کا چناؤ ابتدا کے اندر ایک خاص معیار چاہتا ہے۔ پھر اس کی تیاری ایک خاص انداز کی محنت اور عرق ریزی چاہتی ہے۔ اس کی تنقیح ایک خاص درجے کی کی جانا ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی پھر اس کو دعوت کے میدان میں کوئی ’کام‘ دیا جانا ہوتا ہے۔ خاص طور پر دعوت اگر اسلام پہ آنے والی غربت اور اجنبیت کو ’چیر‘ کر ماحول میں برآمد کی جانا ہو اور اس کو دشمنی کی ایک خاص نوعیت اور کیفیت سے پالا پڑنا ہو!!

جو ہوا سو ہوا۔ ہم اس وقت کسی کو ملامت کرنے نہیں جا رہے جس نے خدا کے راستے میں جو محنت کی اس کا اجر وہ خدا سے ان شاءاللہ ضرور پائے گا۔ یہاں ہمارے زیر بحث جو بات ہے وہ بس اتنی کہ ’جو ہے‘ اور ’جو ہونا چاہئے تھا‘ میں فرق کی نشاندہی کر دی جائے۔

اس میں شک نہیں کہ داعی تحریک، خدا آپ رحمۃاللہ علیہ پر رحمت کرے اور جو کچھ وہ اس اُمت کیلئے کر گئے اس پر ان کو جزائے خیر دے، نے اس انسانی مواد کو جو آپ کو حاصل تھا نکھارنے پر بھرپور محنت کی اور ان سب مادوں سے جو معاشرے سے خود بخود لگ جاتے ہیں اس کی تنقیح کردینے پر خوب توجہ دی.... ان نوجوانوں کو ’انفرادی زندگی‘ کے حصار سے نکالا۔ ان کے اندر اجتماعیت کی روح پھونکی۔ اخوت، تعاون، محبت اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر ان کو صف آرا کیا۔ ان کو رشتہ اخوت سے منسلک ہونے کا شعور دیا۔ ’ذاتی‘ حیثیت میں ’عبادت گزار‘ رہنے کی بجائے عبادت وبندگی کو جماعت میں ڈھال دینے پہ ان کو گامزن کیا اور پرہیز گاری کے وہ اجتماعی اُفق ان کو دکھائے جس میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی آتا ہے اور ایک ایسے معاشرے کا قیام بھی جو اللہ کی شریعت کو محکم مانے۔ علاوہ ازیں ان کو اعلیٰ اخلاق پر تربیت دی اور اللہ کے دین کیلئے فدائیت اور جانبازی سکھائی۔

مگر حالات سے جو واضح ہوتا ہے اس کو دیکھیں تو ایک سیاسی اور تحریکی وفکری معنی میں پختگی کی سطح ابھی خاصی نیچی تھی اور اس کو ابھی اور بلند ہونا تھا۔ اس سے بڑھ کر سنگین بات یہ کہ آج اس دور میں اسلام کی تحریک کو ’جو کام‘ کرنا ہے اور معاملے کو ’کہاں سے اٹھا کر کہاں تک پہنچانا‘ ہے اس کے ادراک میں بہت کمی رہ گئی تھی۔

’ایک بہت بڑی جماعت‘ کھڑی کرلینے میں ہم سے کچھ جلدی ہو گئی تھی.... ایک بہت بڑی عوامی جماعت جو ہمارے خیال میں اقتدار تک پہنچنے کیلئے پائی جانا ضروری تھی اور جس کے ذریعے اقتدار لے لینے کے بعد ہم معاشرے کے اندر خدا کی شریعت کو نافذ کردینا چاہتے تھے!

بلاشبہ یہ ایک جائز ہدف تھا۔ اگرچہ جاہلیت بھی ہر انسان کو ہی یہ حق دیتی ہے کہ وہ قانونی ذرائع اختیار کرکے اقتدار تک پہنچے سوائے یہ کہ وہ کوئی اسلام پسند ہو۔ یہاں اسلام پسند اگر اس بات کی کوشش کریں تو وہ مجرم کہلائیں گے! مگر اس بات کو جانے دیجئے کہ یہ جاہلیت کا وہ معروف موقف ہے جو وہ اہل حق کی بابت اختیار کرتی ہے اور یہ اس وقت سے ہے جب سے جاہلیت کہیں پائی گئی اور دعوت حق کا وہاں وجود ہوا۔

مگر مسئلہ اس ہدف کے جائز ہونے یا نہ ہونے میں نہیں بلکہ اس بنیادی سوال میں ہے کہ کیا محض ’نفاذ شریعت‘ اس بات کیلئے کافی ہے کہ اِس اُمت کی کایا پلٹ جائے جو کہ (بالفاظ حدیث) سطح سیلاب پہ پائے جانے والے خس وخاشاک کی حالت کو پہنچ چکی ہے، یا پھر اس کیلئے کچھ اور بنیادی امور بھی درکار ہیں ’نفاذ شریعت‘ سے پہلے اور بعد میں بھی اور اس کے وجود میں آجانے کے دوران بھی؟!

اگر داعی اول رحمہ اللہ نے اس منتخب جمعیت پر جس کو کہ اس کی جماعت کی تاسیسی بنیاد بننا تھا وہ بات واضح کردی ہوتی جو کہ آپ نے بعد ازاں 1948ءمیں (یعنی ابتدائے دعوت کے پورے بیس سال بعد) عوام پر واضح کی تو معاملات شاید بہت مختلف انداز میں پیش آتے!

1368 ھجری (1948 عیسوی) میں امام شہید نے ایک مہم کا آغاز کیا جس کو ’معرکہء مصحف‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں آپ کا بیان تھا:

”اسلام دین بھی ہے اور ریاست بھی۔ یہ بات کسی شک وشبہ کی متحمل نہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلام ربانی شریعت ہے جس میں انسانی تعلیمات ہیں تو سماجی احکام بھی۔ اس کی تنفیذ اور اقامت کا کام اہل ایمان کو سونپا گیا ہے اور مسلمانوں پر جو حکمران ہے وہ اس فرض کا براہ راست مخاطب ہے۔ اگر وہ حکمران شریعت کے ان احکام کے حفظ واقامت سے سرتابی کرتا ہے تو وہ مسلمان حکمران نہیں رہتا۔ ریاست کے قوانین اگر اس فرض سے اھمال برتتے ہیں تو وہ ریاست اسلامی نہیں رہتی۔ اگر جماعت یا اُمت اس ایمال پر راضی بہ رضا ہو جاتی ہے تو چاہے زبان سے اسلامی ہونے کا وہ کتنا ہی دعویٰ کرے اسلامی نہیں رہتی۔ مسلمان حکمران کے شرائط میں سے ہے کہ وہ خود فرائض اسلام کا پابند وملتزم ہو۔ خدا کی حرمتوں کو پامال کرنے سے دور رہنے والا ہو۔ کبائر کے ارتکاب سے باز رہتا ہو۔ یہ سب باتیں درست مگر یہ اس کو مسلم حکمران قرار دینے کیلئے کافی نہیں جب تک کہ وہ ریاست میں ازروئے دستور اس بات کا پابند نہ ہوکہ احکام اسلام کا تحفظ کرے اور مسلمانوں کے مابین ان کا قیام کرے۔ دعوت اسلام کا حکمرانوں کی بابت وہی موقف ہوگا جو کہ ان کا دعوت اسلام کی بابت ہو“۔

کیا خیال ہے اگر انہوں نے ابتدا ہی سے یہ لہجہ واضح کردیا ہوتا تو عوام کے وہ سب گروہ جو ایک جذباتی انداز میں آپ کے اردگرد اکٹھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ لاکھ کو پہنچ گئی تھی، اور جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، جبکہ قوم کی کل آبادی اس وقت ابھی انیس ملین سے تجاوز نہ کرتی تھی.... کیا آپ کے گردا گرد اکٹھے ہو جاتے؟ بلکہ وہ منتخب جمعیت بھی کیا اس آسانی سے آپ کے گرد مجتمع ہوجاتی اور جذبات کے زیراثر اتنا فاصلہ طے کر لیتی؟

میرا نہیں خیال!

اور کیا تب بھی یہ انہی اشخاص پر مشتمل ہوتی جن پر کہ یہ بالفعل مشتمل تھی، یا پھر کسی اور سطح کے عناصر پرمشتمل ہوتی؟

کچھ کہا نہیں جا سکتا! کم از کم یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی!

بہرحال وہ کوئی سے بھی اشخاص ہوتے جن پر اس اساسی جمعیت کی بنیاد اٹھائی جاتی، دعوت کا لہجہ زیادہ گہرا اور زیادہ واضح اور زیادہ دوٹوک ہونے کی صورت میں وہ لوگ زیادہ مضبوط ہوتے۔ شعور اور ادراک میں زیادہ گہرے ہوتے۔ لمبا چلنے میں زیادہ بہتر صلاحیت کے حامل ہوتے اور اس کی نسبت جو بالفعل پیش آیا وہ عجلت اپنانے سے زیادہ بچ کر رہتے۔ جذباتی اپروچ سے نسبتاً دور ہوتے اور یہ نہ سمجھتے کہ ان کا ہدف سہل الحصول ہے۔ تب وہ ذہنی اور اعصابی طور پر بھی اور تربیتی اور فکری طور پر بھی اس سے ایک کہیں بڑی سطح کی کشمکش کیلئے تیاری کرتے۔ جبکہ یہاں حال یہ تھا کہ ان میں سے بہت سارے یہ سمجھتے رہے کہ جن وسائل کو وہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ بہت جلد ان کا ’مطلوبہ‘ نتیجہ برآمد کرلانے والے ہیں!

مگر اس صورت میں، جب تبدیلی کا یہ پورا نقشہ ان پر واضح ہوتا، یہ لوگ مطلع ہوتے کہ راستہ طویل ہے بلکہ بہت طویل ہے اور یہ کہ جو جدوجہد یہاں مطلوب ہے بہت بھاری بھی ہے اور بہت مختلف بھی۔ اور یہ کہ جو وسائل اس تبدیلی کیلئے مطلوب ہیں وہ کیفیت اور نوعیت میں ان وسائل سے بہت بڑھ کر ہیں جو ان کے منہج میں اپنائے گئے۔ کیونکہ جو کام پیش نظر ہے وہ ایک پہلے سے موجود عمارت میں کچھ ’اصلاحات‘ نہیں بلکہ اس کی پوری بنیاد کی ہی ایک تجدید نو ہے۔

اور جہاں تک ساتھ چلنے والے ’عوام‘ کا تعلق ہے تو اگر تبدیلی کی یہ بنیادیں ان پر واضح ہوتیں تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ اس جوق درجوق انداز میں دعوت کے ساتھ آملتے۔ تب ان کو اندازہ ہوتا کہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ پرتاثیر تقریریں سنی جائیں اور زبردست جلسوں میں شرکت کی جائے جیسا کہ وہ ان زبردست اجتماعات میں، جن کو کہ وہ روحانیت سے پُر کہا کرتے تھے پورے جوش وخروش سے شریک ہوئے اور حدنگاہ تک پائے جانے والے انسانوں کے ٹھٹھ دیکھ کر ’اُمیدوں‘ سے لدے پھندے واپس آتے!

تب ان عوامی انداز کے طبقوں کو معلوم ہوتا کہ یہ جاہلیت کے ساتھ ایک باقاعدہ ہاتھا پائی ہے اور جو کہ انسان کو بہت سے خطرات میں دھکیل سکتی ہے جن کو کہ خوامخواہ مول لے آنا ایک ’سمجھدار‘ کا کام نہیں: وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا  (القصص: 57) ”کہنے لگے تمہارے ساتھ مل کر اگر ہم اس ہدایت کے پیچھے چل پڑیں تو اپنے گھر سے اچک لئے جائیں“۔

تب یہ تحریک بہت دھیمے قدموں سے چلتی۔ مگر ایک زیادہ صحیح وپختہ راستے پہ ہوتی۔ بنیادی جمعیت نسبتاً زیادہ وقت لے کر تیار ہوتی۔ اس کیلئے زیادہ آہستگی کے ساتھ اور زیادہ گہری نظر کے ساتھ جوان چنے جاتے اور یوں اس کو اپنی ابتدائی تیاری مکمل کرنے کیلئے کہیں زیادہ بہتر انسانی خام مواد ملتا۔ پھر ان کی تیاری کیلئے محنت بھی زیادہ اعلیٰ پائے کی ہوتی تاکہ بنیاد اٹھانے کیلئے ایک زیادہ کارآمد بیج حاصل ہوا ہوتا اور روحانی تربیت، اخلاقی تربیت، فکری تربیت، نفسیاتی تربیت اور مستند علم شریعت کے حصول وغیرہ کے حوالے سے تربیت اور تیاری کے سب پہلو عمل میں آجاتے.... اس مجموعی فضا میں رہتے ہوئے جو اس ربانی ہدایت سے تشکیل پاتی: كُفُّواْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ ”ہاتھ روک رکھو اور اقامت صلوات اور ایتاءزکوٰۃ کئے رہو“۔

پھر اسی دھیمے انداز میں ’بنیادی جمعیت‘ کی ’توسیع‘ عمل میں آتی اور وہ اس وقت جب اس ’توسیع‘ کی واقعتا نوبت آچکتی، جبکہ بنیادی جمعیت کی تیاری ہو چکی ہو، ایسے جانباز افراد کی بنیاد پر جنہوں نے اپنے آپ کو دعوت کیلئے ایک پوری بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہوتا اور ان کو پورا ادراک ہوتا کہ مسئلہ درپیش ہے کیا اور اس کے تقاضے ہیں کیا۔ ان کو پورا اندازہ ہوتاکہ اُمت کس حالت کو پہنچی ہوئی ہے اور اسکو روگ کون کون سے لاحق ہیں۔ ان پر پوری طرح واضح ہوتا کہ تبدیلی کے اس پورے عمل میں کیا کیا کچھ کیا جانا ہے اور مطلوبہ عمل کی نوعیت ہے کیا۔ یہ تشکیل جمعیت اور توسیع جمعیت ’عوام‘ کی جانب رخ کرنے سے پہلے ہو چکی ہوتی اور پھر ان عوامی طبقوں کو پرچم تلے آکھڑے ہونے کی صدا دی جاتی۔

’سیاسی کام‘ بھی، یعنی قومی مسائل اور سماجی معاملات میں الجھنے کا کام بھی تب ذرا تاخیر سے ہوتا۔ جبکہ اس دوران ایک صحیح اور پختہ بنیاد کو ہی معاشرے کے اندر کھڑا کرنے پر محنت ہو رہی ہوتی جس کی اساس صحیح عقیدہ ہوتا اور صحیح تربیت ہوتی، تربیت کے تمام تر تقاضوں سمیت۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو دعوت کیلئے پیش کیا ہوتا ان کو باقاعدہ تیار کرلیا گیا ہوتا بالکل اسی انداز میں جس میں مدینہ کے معاشرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین سابقین نے تیار کیا تھا۔

اس کے بعد پھر بے شک ’مڈبھیڑ‘ ہو جاتی! اس سے چارہ بہرحال نہیں۔ خدائی سنتوں کی رو سے جو اس نے حیات انسانی کے اندر مقرر ٹھہرا رکھی ہیں یہ ہو کر رہتا ہے۔ اس کی ابتدا بھی جاہلیت ہی کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ وہ زمین میں ایک جماعت مومنہ کے وجود سے ہمیشہ ہی اپنے لئے ایک خطرہ محسوس کرتی ہے، بے شک اہل ایمان تعداد میں تھوڑے کیوں نہ ہوں۔ بے شک وہ اس مقابلے میں آنے سے کتنا ہی بچیں۔ جاہلیت ان سے خطرہ بہرحال محسوس کرتی ہے: إِنَّ هَؤُلَاء لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ ---وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ (الشعراء: 56۔ 54)

 *******

مگر اس صورت میں زیادہ امکان ہوتا کہ یہ ’آمنا سامنا‘ کچھ مؤخر کر لیا جاتا جبکہ اس دوران ایک ’اساسی جمعیت‘ کی تیاری کیلئے اور ’توسیع شدہ جمعیت‘ کی تیاری کیلئے زیادہ وقت حاصل کرلیا جاتا اور ان دونوں کی تربیت کیلئے تمام تر ممکنہ صورتیں بروئے کار لائی جاتیں۔ مزید یہ کہ.... جب یہ سب کام ’کفوا ایدیکم‘ کی فضا میں رہ کر ہوتا اور ان پاک طینت لوگوں کا کوئی ’قصور‘ دُنیا کو نظر ہی نہ آتا سوائے ’ان یقولوا ربنا اﷲ‘ تو یہ بات اس معاملہ میں مددگار ہوتی کہ ’عوام‘ بھی سمجھیں کہ اس دعوت اور جاہلیت کے مابین مسئلہ نزاع کی حقیقت ہے کیا۔ تب اس صورت میں عوام کے ذہن میں اس ’اصل مسئلہ‘ کے ساتھ وہ دوسرے ’مسائل‘ گڈمڈ نہ ہوتے جو کہ ان کو واقعتا گڈمڈ نظر آئے۔ تب طاغوتوں کیلئے آسان نہ رہتا کہ وہ اسلام کے خلاف اپنی اس جنگ میں عوام کو بے وقوف بنائیں کسی وقت طاقت کا استعمال کرکے اور کسی وقت ذرائع ابلاغ کے ہتھکنڈے استعمال کرکے۔ کیونکہ اس صورت میں ’سبیل المجرمین‘ واضح ہو جاتے کیونکہ ’تفصیل آیات‘ کا کام ہو رہا ہوتا اور خدائی منہج پر دعوت کا کام آگے بڑھ رہا ہوتا۔ تب لوگوں کیلئے یہ آسان ہوتا کہ وہ اس ’الجھے‘ ہوئے معاملے میں کیا موقف اپنائیں: وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ  (الانعام: 55) ”ہم تو ایسے ہی آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں اور اس لئے بھی کہ سبیل المجرمین واضح ہو کر رہ جائے“۔

 *******

مگر جو بالفعل ہوا وہ اس سے برعکس تھا۔

’مسئلہ باعث نزاع‘ اس واضح انداز میں پورے بیس سال کے بعد لوگوں کے سامنے آیا۔ جبکہ اس دوران دین پسند جمگھٹے اس دعوت کے گرداگرد اکٹھے رہے بغیر یہ اندازہ کیئے کہ اس میں کیا کیا خطرات مضمر ہیں۔ دعوت کس چیز کی تھی یہ بات شدید خلط ملط تھی۔ ابھی اس کا وہ آہنگ نہ بنایا گیا تھا کہ یہ صاف صاف لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی دعوت ہو۔ بہت سے سیاسی، قومی اور سماجی مسائل اس میں گڈمڈ تھے۔ ایسا کرنے کے پیچھے اصحابِ دعوت کا یہ گمان کارفرما تھا کہ ان مسائل کو سامنے لانے سے دعوت کو عوامی پذیرائی دلانے میں مدد ملے گی! اور یہ کہ عوام کو جوش وخروش کے ساتھ چلانے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ مسائل جو ’عوام‘ کی نظر میں اہم اور توجہ طلب ہیں دعوت میں انہی مسائل کا زیادہ سہارا لیا جائے! یہاں تک کہ مسئلہ فلسطین کا وہ بم پھٹا جس نے اس ساری صورتحال کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ یعنی 1948ءمیں۔۔۔۔

تب اس نوخیز تحریک کے خلاف ظلم اور بربریت کی وہ بدترین صورتیں پیش آئیں جو کہ خیال تک میں نہ آسکیں۔

بالکل درست کہ دعوت کے خلاف جاہلیت کے بھڑک اٹھنے کی توقع ہونی ہی چاہئے تھی۔ کیونکہ، جیسا کہ ہم نے کہا، یہ خدائی سنتوں میں سے ایک سنت ہے اور امام شہید اپنے رفقا اور اپنے پیروکاروں کو اپنے خطاب میں کہا کرتے تھے: ”میں یہ بات بہت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ تمہاری دعوت ابھی بہت سے لوگوں پر مخفی ہے۔ جس دن وہ اس سے واقف ہوں گے اور اس کے مضمرات اور اس کے اہداف ومقاصد کا ادراک کریں گے اس دن اس دعوت کو ان کی جانب سے شدید مخالفت اور سنگین دشمنی دیکھنے کو ملے گی۔ اس دن تمہیں اپنے سامنے بڑی ہی مشقتیں نظر آئیں گی اور ہر طرف رکاوٹیں دکھائی دیں گی.... حقیقت میں اس وقت ہی تم وہ راستہ اختیار کرو گے جو کہ درحقیقت داعیانِ حق کا راستہ ہوا کرتا ہے“۔

مگر جس انداز میں دعوتِ دین پر مظالم ڈھائے گئے اس کا اندازہ بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ مذبح خانے تھے جو اس دعوت کا خمیازہ بنے اور ابھی تک بنے چلے آرہے ہیں۔

صلیبی مغرب کو درحقیقت اس ’مقام‘ کی نشاندہی ہو گئی تھی جہاں سے ’خطرہ‘ ہے۔ یہ وہ ’اسلام‘ ہے جو سیاست کو موضوع بناتا ہے اور محض ’قلبی‘ و ’بدنی‘ عبادات پر قانع نہیں ہوتا بلکہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ واقع زمین میں اپنایا جانے والا ایک کلی منہج ہو اور پوری کی پوری انسانی زندگی کو چلائے خواہ وہ سیاست ہو، معیشت ہو، سماج ہو، فکر اور تعلیم ہو یا اخلاق یا زندگی کا کوئی سا بھی شعبہ۔ مغرب کی نظر میں آخر اس سے بڑھ کر خطرے کی کوئی بھی بات ہو سکتی ہے؟

ایسے ’اسلام‘ کا سدباب کرنا تو چنانچہ ضروری ہے! اس کے خلاف سب قویٰ کو بروئے کار لایا جانا ہے! اس کا ہر جگہ تعاقب ہونا چاہیے اور اس کے سوتے خشک کردیے جانے چاہیں! اس کو بدنما بنا کر پیش کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان اس کی طرف رخ نہ کریں کیونکہ اس صورت میں خطرہ بڑھ جاتا ہے!

صلیبی ذہنیت اور صہیونیت کے دِل میں غضب کی آگ بھڑکانے میں دو باتیں بیک وقت سبب بنیں:

(1) اسلامی بیداری کا ’اچانک پن‘ عین اس وقت سامنے آیا جب صلیبی ذہنیت دو سو سال سے زائد عرصہ کی مسلسل محنت ومنصوبہ بندی کے بعد اب یہ توقع کرنے لگی تھی کہ اسلام کا کام تمام کرنے میں وہ قریب قریب کامیاب ہو چکی ہے۔ مگر یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ ’اسلام‘ تو پھر جاگنے لگا ہے!

(2) عالمی یہودیت ایک لمبی منصوبہ بندی اور محنت کرکے اس نقطے تک پہنچی تھی کہ وہ اپنی ایک ریاست سرزمین اسلام کے قلب میں قائم کرلے۔ وہ یہ خواب دیکھ رہی تھی کہ وہ امن وامان سے یہاں اپنی ایک مملکت قائم کرکے رہے گی۔ یہ نئی اسلامی بیداری اس کیلئے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا!

یہ دونوں باتیں بیک وقت پیش آئیں اور معاً اس بات کی متقاضی ہوئیں کہ اس ’مشترک‘ دشمن کا پورے زور کے ساتھ صفایا کردیا جائے۔

کیا یہ ممکن تھا کہ اسلامی تحریک اس صلیبی وصہیونی عداوت سے اور اس کے مکروہ سازش سے محفوظ رہتی اور اس کا کام تمام کرنے کی اس کی جانب سے کوئی کوشش نہ ہوتی؟ ہماری نظر میں یہ خیال اور محال ہے!

لیکن ہمارے خیال میں ایک اور صورت کے پیدا ہونے کا بھی امکان تھا بشرطیکہ معاملات صحیح تر منہج پہ چلتے۔ وہ ’عوام‘ جن کو میدان میں قبل از وقت لے آیا گیا تھا.... یہ ’عوام‘ اگر ’مسئلہ باعث نزاع‘ کی حقیقت سے درست آگہی رکھتے اور اسلام اور جاہلیت کی کشمکش کا درست ادراک رکھتے تو نقشہ کچھ مختلف ہوتا! البتہ جب ہم ’عوام‘ کی بات کرتے ہیں تو ان کو ادراک کے اس نقطے تک پہنچانا ممکن ہی نہ تھا جب تک کہ ان کی ایک خاص سطح کی تربیت نہ کر لی جاتی۔ ان کی تربیت ممکن نہ تھی جب تک اس اساسی جمعیت کی ایک درست منہج پر تیاری نہ کر لی گئی ہوتی۔ یوں ایک کڑی میں رہ جانے والا نقص پھر باقی کی سب کڑیوں میں آجانے والے نقص کا باعث بنا!

اس کے بعد پھر وہ واقعات پیش آئے جن کی جانب پچھلی فصول میں ہم اشارہ کر آئے ہیں.... یعنی دشمنوں کی وحشتناکیوں کے بالمقابل ظاہر کیے جانے والے ردعمل جو اسلامی طبقوں کی جانب سے پیش آئے۔ اس سے پھر وہ ’غیر واضح‘ اور ’خلط ملط‘ صورتحال اور بھی غیر واضح اور خلط ملط ہوئی۔ ’اساسی جمعیت‘ سے لے کر ’عوامی حمایت‘ تک سب کچھ ابہام میں چلا گیا اور تحریک کا کوئی ’مقدمہ‘ ہی نہ رہا۔ ہماری مراد ہے ایک طرف کچھ اسلامی دھڑوں کا پارلیمانوں کے اندر جا بیٹھنا اور اس سے نظام موجودہ کو غیر شرعی منوایا جانے کا مسئلہ سرے سے بے جان ہو جانا اور اس کے ساتھ صرف ایک ’سیاسی‘ انداز کے اختلاف کا تاثر ابھر آنا۔ مزید برآں خدائی شریعت کی تحکیم کی ’آپ سے آپ فرضیت‘ ہونے کی بجائے اس کا ’اکثریت کے ووٹوں‘ کے ساتھ نتھی ہو رہنا.... اور دوسری طرف کچھ اسلامی دھڑوں کا برسراقتدار طبقوں کے خلاف مسلح کارروائیاں چھیڑ بیٹھنا اور اس سے تحریک کا اصل مقدمہ اور بھی حاشیائی ہو جانا اور اس سارے کے سارے معاملے کا لوگوں کی نظر میں بس یہ ہو رہنا کہ کون مرا اور کس نے مارا، اور کون جیتا اور کون ہارا! (1)

پھر تو کچھ اور دھڑے بھی نکل آئے جو کہ تکفیری رجحانات کے مالک تھے اور جن کی جنگ ہی ’لوگوں‘ کے ساتھ تھی.... اس بنا پر کہ ان کے نزدیک لوگ ’کافر‘ ہو گئے ہیں اور ان کی جان مال حلال ہے جب تک کہ وہ ’اہل ایمان‘ کی ’جماعت‘ میں شامل نہیں ہو جاتے!

اس سے دین کیلئے کیے جانے والے کام کا جو نقصان ہوا وہ اندازے سے باہر ہے۔ ایسے تکفیری رجحانات سے جن پر خود شریعت سے ہی کوئی سند نہیں ملتی، لوگ تو متنفر ہوئے ہی ذرائع ابلاغ کو ایک بہت اچھا موقعہ ہاتھ آیا جو کہ دین کے تحریکی عمل کو خراب کرنے کی ویسے ہی تاک میںر ہتے ہیں۔ اب ان کو موقعہ ملا کہ اسلام کو خونیں رنگ میں پیش کریں۔ حالانکہ یہ تکفیری رجحانات کے حامل یہاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھے۔ مگر ذرائع ابلاغ نے اس سے فائدہ اٹھا کر پورے کے پورے تحریکی عمل کی صورت بگاڑ دینے کی ٹھانی اور سب کو بلاامتیاز ’دہشت گرد‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جن کا کہ قلعہ قمعہ کردیا جانا چاہئے اور جن کے سوتے خشک کردینے چاہیں!

عالمی ذرائع ابلاغ اس بات کے حاجتمند نہ تھے کہ کوئی انہیں اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے پر اکسائے یا اس کی جانب ’توجہ‘ دلائے۔ اسلام کے خلاف جو بغض اور کینہ وہ لیئے بیٹھے ہیں اس کے باعث وہ تو تیار بیٹھے تھے کہ کوئی ایسا ’موقعہ‘ ہاتھ آئے اور پھر وہ اس کا آخری حد تک فائدہ اٹھائیں!

اِدھر یہ حال ہوا کہ معاشرے کے اندر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے مقدمے پر ابہام اور غموض کی ایک دبیز تہہ چڑھا دی گئی۔ تحریکوں کے افراد سے لے کر عوام تک اس کا اثر دیکھنے میں آیا.... اُدھر یہ حال رہا کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فکر ارجا کے علمبردار میدان میں اتر آئے اور اپنے فکر کی پورے زور شور سے اشاعت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ کچھ ’علمائ‘ تک جن کو کہ لوگ اہل الذکر شمار کرتے اور علم دین میں مرجع تسلیم کرتے تھے اس کی گرداب میں آگئے۔ یہ ان طبقوں کو بھی شرک میں پڑا ہوا نہ مانتے تھے جو کہ فی الواقع شرک کے مرتکب تھے۔ یہ شرک میں پڑے ہوؤں سے بھی ارتکاب شرک کی نفی کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور بدستور ان کو مومن ہونے کے پکے سرٹیفکیٹ جاری کر رہے تھے: یوں یہ اس جرم عظیم کو لوگوں کی نظر میں ’معمولی‘ بنا دینے کا باعث بنے.... اس جرم عظیم کو جو کہ کوئی انسان خدا کے حق میں کبھی کر سکتا ہے یعنی خدا کی اتاری ہوئی شریعت سے روگردانی اور اس کو ہٹا کر اور عین اس کی جگہ پر جاہلیت کی دی ہوئی شریعتوں کو انسانوں کے مابین حکم ٹھہرا دینا۔ اس جرم کو یہ لوگ ’محض ایک گناہ‘ کے طور پر پیش کر رہے تھے اور جو کہ ان کی نظر میں اس بات کا مستحق نہیں کہ اس پر ’زمین آسمان‘ ایک کردیا جائے!

حق یہ ہے کہ اس مسئلہ کو معاشرے میں پڑھا پڑھایا جانے کیلئے ایک طویل تر تعلیمی مشن درکار تھا اور ایک شدید تر محنت اور عمیق تر ترکیز۔ اس کا آغاز تحریکوں کے اپنے افراد سے ہوتا اور ان کو یہ مسئلہ ازبر کرانے کیلئے اچھا خاصا وقت صرف کردیا جاتا یہاں تک کہ یہ ان کا ایک باقاعدہ مقدمہ بن جاتا۔ پھر اس اساسی جمعیت کی توسیع ہوتی اور انہی بنیادوں پر ہوتی بغیر اس سے کہ اس دوران ’عوام‘ کے خلاف کوئی محاذ کھول دیا جاتا۔

 *******

اس کے بعد یہ ہوا کہ اسلام کے اس تحریکی عمل میں ’ٹولوں‘ کا فنا منا سامنے آنے لگا، جس کے متعدد اساب تھے:

اس کا ایک سبب یہ تھا کہ کوئی ایسی بھاری بھر کم قیادت باقی نہ رہی تھی جو اپنی زوردار شخصیت کے باعث پورے کے پورے تحریکی عمل کو اپنے گرد پرو لیتی۔ یا اور نہیں تو ان میں نقطہ ہائے نظر کی قربت ہی پیدا کرائے رکھتی۔ اس کے بجائے اب یہاں چھوٹی سطح کی قیادتیں تھیں جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اور اپنی رائے کو ہی سب کچھ سمجھتی اور اس کے گمان میں درست راستہ بس اسی کا راستہ ہے اور سب دوسرے ’غلطی‘ پر ہیں۔

اس کا ایک سبب یہ تھا کہ دعوت کا علم اٹھانے والے بہت سے نوجوان کسی ایسے ماحول میں پروان نہ چڑھے تھے جس میں تربیت کا بھرپور بندوبست ہوتا اور دینی اخوت اور مسلمانوں کے ساتھ جڑ کے رہنے کی روح ان کے اندر ان کی گھٹی میں اتاری گئی ہوتی۔ یہ ایک سطحی سی فکری یگانگت تھی جو کہ تفسیر یا تاویل یا فہم کے اختلاف کا ایک بھی دھچکا برداشت نہ کر سکے۔ ایک ایک مسئلہ پر ’جماعتوں‘ کے جڑنے اور ٹوٹنے کے واقعات ہونے لگے۔

اس کا ایک بڑا سبب علم شرعی کا نہ پایا جانا تھا۔ جبکہ ایک پختہ اور راسخ شرعی علم ایک درست فکر اور ایک درست سلوک کو برآمد کرنے کیلئے بنیادی ضابطے کا درجہ رکھتا ہے۔

پھر اس کا ایک سبب، جو کہ کچھ ایسا محتاج بیان نہیں، اسلام دشمن اداروں اور ایجنسیوں کی ان تھک محنت تھی۔ جو کہ دینی میدان میں کام کرنے والوں کے مابین ہر اختلاف کو گہرا کرنے اور ان کو ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھ دینے پر برسرعمل تھیں۔

 *******

کیا اس صورتحال کے سلجھنے کی کوئی اُمید ہے۔ کیا اس بات کی اُمید ہے کہ وہ طبقے جو اپنا راستہ اختیار کرنے میں کچھ جلدی کر بیٹھے ہیں اپنی راہ عمل میں ذرا ایک نظرثانی کرلیں؟ ان غلطیوں کا تدارک کرلینے کی ایک کوشش کریں جن میں وہ کسی وجہ سے پڑ گئے اور ایک درست نبوی منہج پر اپنے کام کی ایک نئی ابتدا کریں؟

جو ہوا یقینا وہ خدا کے مقدر کیئے ہوئے اُمور میں سے ایک ’مقدر‘ ہے.... مگر ہم نے خدا کی کتاب اور رسول کی سنت سے جو سیکھا ہے وہ یہ کہ خدا کے قضا وقدر پر ایمان رکھنا اس بات کے منافی نہیں کہ انسان کو بھی اس کی غلطی کی ذمہ داری اٹھوائی جائے۔ نہ ہی قضا وقدر پر ایمان اس امر میں مانع ہے کہ جو غلطی ہوچکی ہو اس کی درستی کی بھرپور سعی نہ کی جائے۔

تو کیا اس بات کی اُمید ہے کہ اسلام کیلئے کیئے جانے والے کام کو ایک درست پٹڑی پر چڑھا لیا جائے اور ہمارے دینی طبقے ایک غور وخوض اور نظرثانی کے عمل سے گزر کر اپنی تحریک کو ایک نئی اور بہترین اور موثر ترین سمت دے لیں؟

پٹڑی کو درست کر لینا بہرحال ایک بنیادی فرض رہے گا.... کہنے والے یہ کہیں گے کہ دشمن، اسلام کے تحریکی عمل کو اس بات کا موقعہ نہ دے گا کہ وہ اپنا رخ اب جا کر درست کرلے اور یہ کہ دشمن ایسا ہو جانے سے پہلے ہی اس کے ساتھ جنگ چھیڑ دے گا۔ ہمارا کہنا ہے: یہ جنگ تو بہرحال نہیں رکے گی۔ مگر یہ اسلامی تحریک کا خاتمہ نہیں کردینے کی۔ بلکہ یہ تحریک کو مہمیز دینے کے عوامل میں سے ایک عامل ہوگی اور اس معاملہ میں مددگار ہوگی کہ لوگ اس بات سے آگاہی پائیں کہ اسلام اور جاہلیت میں یہ جو معرکہ بپا ہے اس کی اصل حقیقت دراصل ہے کیا۔

جن لوگوں کوخدا نے بات کی سمجھ دے رکھی ہے ان پر نصیحت کا فرض بھی بہرحال فرض رہے گا۔

”الدین النصیحۃ“ قالوا: لمن یا رسول اﷲ؟ قال: ﷲ ولرسولہ ولکتابہ ولعامۃ المسلمین وخاصتہم“ (2)

”دین نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے” عرض کیا: کس کی خاطر اے اللہ کے رسول؟ فرمایا ”خدا کی خاطر، اس کے رسول کی خاطر، اس کی کتاب کی خاطر، عامۃ المسلمین کی خاطر اور اُن کے خواص کی خاطر“۔

*******

 

(1) ملاحظہ کیجئے اس کتاب کی فصل: تحریکوں میں عجلت پسندی کے اسباب

(2) حدیث کا حوالہ پیچھے گزر چکا

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز