عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’پردیسی‘ یا پھر ’راہ گیر‘!
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

’پردیسی‘ یا پھر ’راہ گیر‘!

 

 

عن ابن عمر رضی اﷲ عنهما قال: أخذ رسول اﷲ بمنکبی فقال: کن فی الدنیا کأنک غریب، أو عابر سبیل، وکان ابن عمر رضی اﷲ عنهما یقول: اِذا أمسیت فلا تنتظر الصباح و اِذا أصحبت فلا تنتظر المساء، وخد من صحتک لمرضک ومن حیاتک لموتک  (راوہ البخاری)

عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کندھے سے پکڑا اور فرمایا: ”دُنیا میں یوں رہو جیسے پردیسی یا بس ایک راہگیر“۔ عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے: ”کوئی شام مل جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اور صبح مل جائے تو شام کی آس مت رکھو۔ صحت میں بیماری کا بندوبست کرلو اور زندگی میں موت کا“

ترمذی نے یہی حدیث لیث سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے اور اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے (وَعُدَّ نفسَکَ مِنَ اَھلِ القُبُور) کہ ”اپنے آپ کو قبرستان میں پڑا ہوا دیکھو“ اور اس روایت میں عبداللہ بن عمرؓ کے الفاظ میں یہ اضافہ آتا ہے۔ (فاِنک لا تدری یا عبداﷲ مأ اسمک غداً) ”کیونکہ تم نہیں جانتے اے عبداللہ کل تمہیں کس نام سے پکارا جائے گا۔“ ابن ماجہ نے یہی روایت بیان کی ہے مگر اس میں عبداللہ بن عمرؓ کے الفاظ نقل نہیں کئے۔ امام احمد اور نسائی نے اوزاعی سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے مجھے پکڑا اور فرمایا: ”اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اس کو دیکھتے ہو۔ اور دُنیا میں یوں رہو گویا پردیس میں رہتے ہو یا بس گویا کہیں راہگیر ہو“۔

یہ حدیث آرزو ہائے دنیا کو مختصر کر دینے کیلئے شریعت کی بنیاد ہے۔ مومن کا کیا کام کہ وہ دنیا کو اپنا وطن بنا لے اور اسی کو اپنا ٹھکانہ سمجھ لے اور پھر اس میں دل لگا کر رہنے لگے۔ وہ تو اس دُنیا میں یوں رہے گا گویا عازم سفر ہے اور کوچ کر جانے کیلئے ہر دم تیار۔ انبیاءنے اور ان کے نیک پیروکاروں نے جو وصیتیں کی ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے۔

مومن آل فرعون کی یہ بات خدا نے قرآن میں ذکر فرمائی:

إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَار۔ (المؤمن: 39)

”یہ حیات دُنیا ایک متاعِ فانی ہے (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے“۔

نبی ﷺفرمایا کرتے تھے: ”میرا دُنیا سے کیا کام! میری اور دُنیا کی مثال تو بس ایسی ہے کہ جیسے کوئی سوار اپنی سواری سے اتر کر کسی پیڑ کی چھاؤں میں گھڑی دو گھڑی آرام کرے پھر اُٹھے اور چل دے“۔

مسیح علیہ السلام کی اپنے پیروکاروں کو نصیحت تھی:”یہ عبور کرنے کی ہے۔ دل لگا لینے کی نہیں“۔ مسیح علیہ السلام ہی سے یہ قول بھی آتا ہے: ”کون ہے جو سمندر کی کسی موج پر گھر بنا لے؟ یہ دُنیا بھی ویسی ہے۔ اس کو ٹھہرنے کی جگہ کبھی مت سمجھنا“۔

ایک آدمی ابوذر رضی اللہ عنہ کے ہاں آیا اور گھر میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور حیرانی کے ساتھ ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھنے لگا: آپ لوگوں کا سامان کہاں ہے؟ ابوذرؓ کہنے لگے: ہم نے دراصل ایک دوسرا گھر لے لیا ہے اور کچھ ہی دیر میں وہاں منتقل ہو رہے ہیں۔ آدمی نے پھر کہا: مگر جب تک آپ یہاں ہیں آپ کا سامان یہاں ہونا چاہئے۔ ابوذرؓ فرمانے لگے: مالک مکان معلوم نہیں کب یہاں سے ہمیں نکال دے!

کسی نیک انسان کے ہاں کچھ لوگوں کا جانا ہوا۔ چاروں طرف نظر دوڑائی کچھ نظر نہ آیا۔ صاحبِ خانہ سے کہنے لگے: لگتا ہے آپ لوگ یہاں سے منتقل ہو رہے ہیں۔ فرمایا: منتقل کہاں ہوں گا نکالا جاؤں گا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

”دُنیا جا رہی ہے، آخرت آرہی ہے۔ کچھ لوگوں کو دُنیا کا مال ہیں اور کچھ آخرت کا۔ دیکھو ان میں رہو جو آخرت کا مال ہیں اور ان میں مت رہنا جو اسی دنیا کا مال ہیں۔ بات یہ ہے کہ آج عمل ہی عمل ہے حساب نہیں۔ کل حساب ہی حساب ہے اور عمل کی کوئی گنجائش نہیں“۔

کسی دانا کا قول ہے:

”مجھے تو اس شخص پر تعجب ہے کہ جس سے دُنیا رخصت ہو رہی ہے اور آخرت اس کی جانب بڑھتی چلی آرہی ہے مگر یہ ہے کہ جانے والی کی خاطر میں لگا ہے اور آنے والی سے منہ موڑ کر بیٹھا ہے“

عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے کسی خطبے میں فرمایاتھا:

”خبردار یہ دُنیا اس قابل نہیں بنائی گئی کہ تم اس میں دل لگا کر رہو۔ خدا نے لکھ دیا ہے کہ یہ فنا ہو کر رہے گی۔ اور اس میں جو بس رہے ہیں خدا نے لکھ دیا کہ وہ یہاں سے کوچ کرکے رہیں گے۔ کتنے ہی سجے سجائے گھر ہیں جو کچھ ہی دیر میں ویران ہو جانے والے ہیں۔ ان گھروں میں کتنے ہی ایسے رہنے والے ہیں جن پر دُنیا اب رشک کرتی ہے مگر عنقریب وہ ان گھروں میں نظر تک نہ آئیں گے۔ دیکھو جب تمہیں جانا ہے تو کیوں نہ اس سفر کو ایک اچھا اور خوشگوار سفر بنا لو ۔ یہاں جو کچھ میسر ہے اس سفر کیلئے ساتھ اُٹھا لو۔ سواری کا بندوبست کرلو۔ زاد راہ لے لو اور دیکھو اس سفر میں بہترین زاد راہ تقویٰ ہے“۔

جب یہ دُنیا ایک مومن کے بس رہنے کی جگہ نہیں تو حدیث کی رو سے ایک مومن کو ان دو بہترین صورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے:

- یا تو وہ ایسے رہے جیسے آدمی پردیس میں رہتا ہے۔ کسی اجنبی ملک میں عزیز رشتہ داروں سے دور جہاں وہ کچھ کمانے گیا ہے اور واپسی کے دن گن رہا ہے۔

- یا پھر سرے سے ہو ہی ایک راہگیر جو کچھ دیر کیلئے بھی کسی جگہ پر مقیم نہیں ہوتا بلکہ وہ دن رات کہیں پڑاؤ کرتا ہے تو اپنے اصل وطن کو واپس جانے کیلئے۔

چنانچہ نبی ﷺنے عبداللہ بن عمرؓ کو جو وصیت کی تو وہ یہی کہ دو حالتوں میں سے کوئی ایک حالت اختیار کر لیں: پردیسی یا پھر راہگیر۔

پہلی حالت یہ ہے کہ آدمی دنیا کو پردیس سمجھے، جہاں اس کی اقامت تو ہے مگر یہ اس کا اپنا شہر نہیں۔ اسے اس شہر کو چھوڑنا ہے۔ سو یہاں دل لگانے کا کیا فائدہ۔ اس کا دل ’پردیس‘ میں رہتے ہوئے بھی ’دیس‘ میں رہتا ہے۔ اس آدمی کی حالت یہ ہے کہ کہیں پردیس میں رکنا پڑ گیا ہے۔ سواری میں کوئی خلل آگیا ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یا سامان جمع کرنے کی ضرورت ہے یا کوئی اور مہم جس کے ختم ہوتے ہی اسے وطن واپس چلے جانا ہے۔

فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ”مومن دنیا میں غمگین اور پریشان رہتا ہے۔ اس کی ساری سوچ اس بات میں ہوتی ہے کہ وہ یہاں زیادہ سے زیادہ سامان اکٹھا کر لے اور پھر لدا پھندا وطن جائے۔ جو آدمی دُنیا میں یوں رہتا ہو اس پر ایک ہی فکر سوار ہو گی اور وہ یہ کہ وہ یہاں سے ہر ایسی چیز جمع کر لے جو اس کے اپنے وطن میں بیش قیمت سمجھی جائے گی اور جس کے بل پر وہ اپنے گھر میں ٹھاٹھ کرے گا۔ اُس کو اس بات سے کیا غرض کہ وہ پردیس میں لوگوں سے چودھراہٹ پر الجھے یا اسے وہاں پر کم درجہ ملے تو وہ اسی پر پریشان ہو کر بیٹھ رہے“۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ”مومن کیلئے دُنیا پردیس ہے۔ یہاں اسے کم درجہ ملے تو اسے اس پر ہائے دہائی کی کیا ضرورت۔ یہاں بلند درجہ پانے کیلئے دُنیا والوں کے ساتھ دوڑ لگانے کی اسے کیا حاجت۔ لوگ یہاں کسی اور فکر میں رہتے ہیں اور یہ کسی اور فکر میں“۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو اور ان کی جورو کو جنت میں بسایا۔ پھر ان دونوں کو وہاں سے اتار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ ان کو اور ان کی نیک اولاد کو واپس یہیں لا بسائے گا۔ سو وہ جو اس بات پر ایمان رکھتے وہ سارا شوق اپنے اسی وطن کیلئے رکھتے ہیں۔ وطن سے محبت (اس معنی میں) واقعی ایمان ہے۔

عطاءالسلم ¸ دُعا کرتے ہوئے کہا کرتے تھے:

”خدایا دُنیا میں میری پردیس کی حالت پر رحم فرما۔ قبر میں میری تنہائی کی حالت پر ترس فرمانا۔ اور کل جب میں تیرے سامنے کھڑا ہوں گا میری اس بے مدد گاری کی حالت پر مہربانی فرمانا“

حسن بصریؒ کہتے ہیں: ”مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے صحابہؓ سے فرمایا:

”میری مثال اور تمہاری مثال اور دُنیا کی مثال بس ایسی ہے گویا کچھ لوگ لق ودق صحرا سے گزر رہے ہوں، یہاں تک کہ ان کو یہ تک اندازہ نہیں رہتا کہ جو راستہ وہ طے کر چکے وہ زیادہ ہے یا وہ جو ابھی پڑا ہے۔ کھانے پینے کا سب سامان ختم ہوجاتا ہے اور سواری تک پاس نہیں رہتی۔ اب وہ دشت میں بے سروسامان بیٹھے ہیں اور ان کو اپنا ہلاک ہو جانا یقینی نظر آتا ہے۔ نوبت جب یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو ان کے پاس ایک آدمی آتا ہے جس کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے۔ یہ کہنے لگتے ہیں۔ ضرور یہ ابھی ابھی کسی ڈیرے سے آیا ہے اور یہ آیا بھی کہیں قریب سے ہے۔ آدمی جب ان کے پاس آپہنچتا ہے تو ان سے پوچھتا ہے: کیا ماجرا ہے؟ وہ کہتے ہیں: سب تمہارے سامنے ہے۔ تب وہ کہتا ہے: کیا خیال ہے اگر میں تم کو بہتے پانی اور سرسبز وشاداب جگہ تک لے چلوں تو تم مجھے کیا کرکے دو گے؟ وہ سب کہتے ہیں: تم جو کہو وہ کریں گے اور تمہاری ہرگز کوئی بات نہ ٹالیں گے۔ وہ کہتا ہے: میرے ساتھ پختہ عہد اور خدا کے نام کا میثاق کرو۔ وہ اس کے ساتھ اپنے عہد اور خدا کے نام کے میثاق کرتے ہیں کہ وہ اس کی کہی بات ہرگز نہ ٹالیں گے۔ تب وہ آدمی انہیں پانی اور سبزے تک پہنچا دیتا ہے۔ وہ کچھ دیر تک ان کو وہاں رہنے دیتا ہے پھر انہیں کہتا ہے: اٹھو اب آگے چلنا ہے۔ وہ پوچھنے لگتے ہیں: اب کہاں چلنا ہے؟ وہ کہتا ہے: وہاں جہاں ایسے زبردست چشمے ہیں جو یہاں نہیں۔ اور جہاں ایسی سرسبزی وشادابی ہے جو یہاں کہیں نہیں۔ تب ان میں کی اکثریت بول اٹھتی ہے: ارے بھائی ہمیں تو یہی بڑی مشکل سے ملا ہے اور اس کو ہی پانے کی ہمیں تو امید نہیں تھی۔ اس سے بہتر جگہ پا کر ہم کیا کریں گے!؟ مگر ان میں سے تھوڑے لوگ کہنے لگتے ہیں! کیا تم نے اس شخص کے ساتھ پختہ عہد اور خدا کے نام کے میثاق نہیں کئے تھے کہ تم اس کی کہی بات ہرگز مت ٹالو گے۔ پھر اس نے جو پہلی بات تمہیں بتائی وہ سچ ثابت بھی ہوئی ہے۔ بخدا یہ اپنی دوسری بات میں بھی ضرورسچا ہوگا“۔ آپ فرماتے ہیں: ”تب وہ آدمی ان تھوڑوں کو لے کر وہاں سے چل دیتا ہے اور باقی سب وہیں پڑے رہتے ہیں، تب دشمن ان پر اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ کچھ پکڑے جاتے ہیں اور کچھ مارے جاتے ہیں“۔

یہ حدیث ابن ابی الدنیا نے روایت کی ہے۔ امام احمدؒ نے بھی اس کو مختصر الفاظ میں علی بن زید بن جدعان عن یوسف بن مہران، عبداللہ ابن عباس سے روایت کیا ہے۔

چنانچہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺکی امت کی آپ ﷺکے ساتھ جو حالت ہے اس پر غایت درجہ مطابقت رکھتی ہے۔ یعنی جب آپ کی بعثت ہوئی تو عرب دنیا کی ذلیل ترین اور کمترین قوم تھے۔ دُنیا اور آخرت ہر معاملے میں دُنیا سے پیچھے تھے۔ چنانچہ آپ نے ان کو نجات کی راہ دکھائی اور لوگوں نے آپ کی صداقت کے دلائل اپنی آنکھوں سے دیکھے جیسا کہ حدیث میں بیان کی گئی مثال میں لوگوں نے، جبکہ انکا زاد راہ اور سازوسامان ختم ہو چکا تھا، اس آدمی کی بات سچ پائی جس کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور جس نے ان کو پانی اور سرسبز جگہ کی نشاندہی کرکے دی تھی تب انہوں نے اس کے حلیہ اور اس کے چہرے مہرے کو دیکھ کر اس کے سچا ہونے کا اندازہ لگایا تھا۔ اس طرح عربوں نے آپ کی نبوت کی سچائی بھانپ کر آپ کی اتباع اختیار کی اور فارس اور روم کے ملک اور خزانوں کے مالک بن گئے۔ مگر آپ نے اس اقتدار اور ان خزانوں سے دھوکہ کھا جانے سے ان کو ممانعت فرمائی تھی اور یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ وہ اس میں دل نہ لگا لیں بلکہ دنیا کے اس اقتدار اور اس سب شان وشوکت کو بس ایک گزرگاہ جانیں اور اس سے جتنا ہو سکے آخرت کا سامان لیں اور اپنی تمام تر محنت اور جدوجہد کے معاملہ میں بس آخرت ہی کے طلبگار ہوں۔ سب نے آپ کا پہلا وعدہ سچا پایا۔ دنیا مفتوح ہو گئی اور خزانوں کی بارش ہونے لگی تو اکثر لوگ اس کو جمع کرنے کے درپے ہوئے اور اسی دُنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے کو مات دینے کی سوچنے لگے۔ اسی میں دل لگا کر رہنے کی سوچی اور اسی کی شہوات و خواہشات میں لوٹنے لگے۔ جس اگلی منزل کی آپ نے ان کو نشاندہی کر کے دی تھی یعنی آخرت، اس کے لئے آستینیں چڑھا کر تیاری کرنے سے اکثر لوگ غفلت میں پڑ گئے۔ مگر کچھ لوگوں نے آپ کی یہ وصیت یاد رکھی کہ اس سب شان وشوکت اور دولت واقتدار کو اصل منزل کیلئے بس ایک گزرگاہ سمجھیں اور پوری محنت اور جدوجہد بس اسی آخرت کیلئے کرتے رہیں۔ سو تھوڑے لوگوں کا یہ گروہ نجات پا گیا اور دُنیا میں یوں چلا کہ آخرت میں اپنے نبی کا ساتھ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ کیونکہ اس نے اپنے نبی کی وصیت اپنی نگاہوں سے پرے نہ ہونے دی اور آپ کی نصیحت پر حرف بحرف عمل کرتا رہا۔ رہی اکثریت تو وہ دنیا کے نشے میں محو ہو گئی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دُنیا کو پا لینے کی فکر نے ان کو آخرت بھلا دی۔ تب موت آتی گئی اور ان میں سے ایک ایک کو اٹھاتی گئی۔ ’کچھ پکڑے گئے اور کچھ سرے سے مارے گئے“!

یحییٰ ابن معاذ رازی نے کیا ہی اچھا کہا: ”دُنیا جامِ شیطان کی مے ہے۔ جو اس کے نشے میں مخمور ہوا اس کو ہوش تبھی آیا جب وہ موت کی حوالات میں جا پہنچا اور وہاں ندامت سے اپنے جیسے اور بہت سوں کو دیکھا کہ پیچھے سب کچھ اجاڑ آئے ہیں“۔

مومن کیلئے دُنیا میں رہنے کی دوسری حالت یہ ہے کہ وہ دُنیا میں اپنے آپ کو ایک مسلسل سفر کی حالت میں سمجھے۔ وہ اپنے آپ کو پڑاؤ کرنے کی اجازت تو دے مگر اقامت کی نہیں۔ یقین رکھے کہ وہ اپنے سفر کی ایک کے بعد ایک منزل طے کئے جا رہا ہے اور موت اس سفر کی آخری منزل ہے۔ جس آدمی کا یہ حال ہو گا اس کی ساری توجہ سفر پر ہو گی۔ وہ جو اٹھائے گا سفر کیلئے اٹھائے گا۔ دنیا کا ایسا سامان جو ’ساتھ اٹھانے میں‘ نہ آسکے اس کی توجہ لے ہی نہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے بعض خاص اصحاب کو وصیت کی تھی کہ دُنیا میں ان کا سامان زیادہ سے زیادہ اتنا ہو کہ ایک ہی بار اونٹ پر لدنے میں آجائے۔

محمد بن واسعؒ سے پوچھا گیا: کیا احوال ہیں؟ فرمایا: ”وہ آدمی کیسا ہونا چاہئے جو اپنے سفر آخرت کی روز ایک منزل طے کرتا ہے“!

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ”یوں سمجھو تم بس کچھ دنوں کا مجموعہ ہو اس میں سے جب کوئی دن چلا جاتا ہے تو تمہارے وجود کا ایک حصہ جھڑ جاتا ہے۔ ادھر دن پورے ہوئے اُدھر تم نگاہوں سے غائب، پھر نظر تک نہ آؤ گے“۔

حسن بصریؒ ہی فرماتے ہیں: ”آدم کے بچے تم دو سواریوں پر چلے جا رہے ہو۔ ایک سواری تم کو اتارتی ہے تو دوسری اُٹھا لیتی ہے۔ دن ختم ہوتا ہے کہ رات آجاتی ہے۔ دونوں تم کو باری باری اُٹھاتے ہیں اور بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ایک سے اترتے ہو دوسری پہ چڑھتے ہو۔ مزے مزے کی یہ سواری جانتے ہو تم کو کہاں لے کر جائے گی؟ یہ تم کو موت کے منہ میں دے کر آئے گی۔ آدم کے بچے تم سے بڑھ کر خطرات کی جانب بھاگنے والا بھلا کون ہو سکتا ہے“؟!

حسن بصریؒ ہی یہ بھی فرماتے ہیں: ”موت کا پتہ تمہارے ماتھے پہ لکھ دیا گیا ہے۔ اور یہ ڈاک، زمانے کی رفتار سے، منزل کی طرف بھاگی چلی جا رہی ہے“۔

داؤد طائی کہتے ہیں: یہ رات اور دن اس سفر کی منزلیں ہیں جسے لوگ ایک ایک کرکے اور بھاگم بھاگ طے کرتے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کس کی کب آخری منزل آجائے۔ پس اگر تم کر سکو تو ہر مرحلے سے آگے کیلئے کچھ اُٹھا لو۔ ایسا نہ ہو کہ سرے پہنچو تو پاس کچھ بھی نہ ہو۔ معاملہ بہت جلدی کا ہے کیا معلوم کب منزل آپہنچے۔ سفر کا سامان ہر دم پورا اور تیار رکھو۔ جتنا ہو سکے اٹھا لو اور جتنا زور لگ سکے لگا لو اور یاد رکھو منزل جب بھی آئے گی اچانک ہی آئے گی“۔

سلف میں سے کسی بزرگ نے اپنے کسی بھائی کو لکھا:

”برادر عزیز! تمہیں لگتا ہے کہ تم یہاں ٹھہرے ہوئے ہو ۔ نہیں، تم تو بھاگے جا رہے ہو۔ کبھی ایک لمحہ بھی نہیں رُکے۔ تمہیں کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔ موت تمہاری طرف کو بڑھ رہی ہے اور دُنیا تمہارے پیچھے سمٹ رہی ہے۔ جو گزر گئی وہ واپس آنے سے رہی اور جو آئے گی وہ ویسے ہی گزر جائے گی جیسے پہلی گزری۔ اور وہ دن آنے ہی والا ہے جب سودا ہاتھ سے جا چکا ہو گا“۔

کسی دانا کا قول ہے: ”دُنیا میں ایسے شخص کی کیا خوشی جس کی زندگی میں جوں جوں دن گزرتا ہے ماہ گھٹتا ہے۔ جوں جوں ماہ گزرتا ہے سال گھٹتا ہے۔ جوں جوں سال گزرتا ہے توں توں عمر گھٹتی ہے۔ وقت بڑھنے سے رکتا ہے اور نہ عمر گھٹنے سے۔ دنیا میں ایسے آدمی کی کیا خوشی جس کی عمر اسے کھینچ کر اجل کے پاس لے جا رہی ہے اور جس کی زندگی اسے موت کے منہ میں دے آنے کو بھاگ رہی ہے“۔

فضیل بن عیاض نے ایک شخص سے پوچھا: دُنیا میں تم پر کے سال گزرے؟ کہا: ساٹھ سال۔ فرمایا: اچھا تو تم ساٹھ سال سے خدا کے ہاں پہنچنے کو بھاگ رہے ہو۔ بس اب عنقریب پہنچ جاؤ گے۔ آدمی نے جواباً کہا: ”ہم ہیں ہی خدا کے اور ہمیں اسی کے پاس لوٹ رہنا ہے“ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون) فرمایا: تم انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ رہے ہو جانتے ہو اس کی تفسیر کیا ہے؟ جو یہ جان گیا کہ وہ خدا کی چیز ہے اور خدا کی بندگی کرنے کو یہاں ہے اور کچھ دیر تک اس کو خدا کے پاس لوٹ رہنا ہے اسے یاد رہنا چاہئے کہ ایک لمحہ ایسا آئے گا جب وہ خدا کے پاس تنہا کھڑا ہوگا۔ جو یہ جانتا ہے کہ اسے خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہاں اس سے جواب پرسی ہوگی۔ جسے معلوم ہے کہ اس سے جواب پرسی ہو گی اسے جواب تیار رکھنا چاہئے۔ آدمی نے عرض کی: تو پھر کوئی چارہ ہے؟ فرمایا: بہت آسان۔ پوچھا: کیا ہے؟ فرمایا: جو رہ گئی ہے اس میں نیکی کرنے لگ جاؤ، جو گزر گئی اس کی بھی ساتھ بخشش ہو جائے گی۔ہاں اگر تم جو رہ گئی ہے اس کو بھی برائیاں کرکے گزار دیتے ہو تو تم دونوں کا جواب دینے میں پکڑے جاؤ گے۔ جو رہ گئی پھر وہ بھی بری اور جو گزر گئی پھر وہ بھی مصیبت“۔

کسی دانا کا قول ہے: ”ماہ و سال کے سوار کو چلنے کی ضرورت نہیں اس کی سواری خود چلتی ہے اور اس کی منزل آپ سے آپ آتی ہے“۔

کسی کا یہ بھی قول ہے: ”دن رات کی مسافت عجیب مسافت ہے۔ اس کی غایت موت ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں آدمی چاہے بیٹھا رہے فاصلے خود بھاگتے ہیں اور منزلیں خود ہی سر ہوتی ہیں“۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ”دن اور رات برابر بھاگ رہے ہیں۔ عمر گھٹاتے جا رہے ہیں اور اجل کو قریب لاتے جا رہے ہیں۔ تم کہاں کی امید رکھ کر بیٹھے ہو۔ اس دن رات کی دوڑ نے نوح ؑکی عمر کھائی۔ عاد اور ثمود کو قصۂ پارینہ کیا۔ اس کے بعد نہ معلوم اس نے کتنے زمانے دیکھے۔ آخر سب کے سب پروردگار کے پاس پہنچ کر رہے اور اپنے اعمال کے حوض میں غوطہ زن ہو کر رہے۔ لوگ مر مر کر جاتے رہے۔ قومیں گزرتی رہیں پر اس ’دن رات‘ کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ یہ جیسے تھے ویسے ہیں۔ یہ اب بھی ان کو نگل جانے کیلئے ویسے ہی تیار ہیں جو ابھی یہاں بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو ابھی یہاں آئیں گے۔ جہاں پہلے گئے وہیں یہ جائیں گے“۔

امام اوزاعیؒ نے اپنے کسی بھائی کو لکھا تھا:

”امابعد۔ ہوشیار رہو تم چاروں طرف سے گھیر لئے گئے ہو۔ نیا دن چڑھنے کے ساتھ اور ہر نئی رات پڑنے کے ساتھ تم اپنے انجام سے قریب کر دیئے جاتے ہو۔ خدا سے ڈرتے رہو، اس کے سامنے کھڑے ہونے سے خائف رہو۔ اور ہاں دُنیا سے رخصت ہوتے وقت تمہارا آخری لمحہ وہ ہونا چاہئے جو خدا کے ساتھ گزرا ہو“۔

 

٭٭٭٭٭

 

عبداللہ بن عمرؓ کی جو وصیت ہے کہ:

”شام پالو تو صبح کی امید نہ رکھو اور صبح پالو تو شام کی آس نہ لگاؤ، اور اپنی تن درستی سے اپنی بیماری کے لئے کچھ اٹھا لو اورزندگی سے موت کیلئے کچھ لے لو“

تو وہ اسی حدیث سے ماخوذ ہے جس کے کہ عبداللہ بن عمرؓ خود ہی راوی ہیں۔ عبداللہ بن عمرؓ کی یہ وصیت دنیا میں آرزو مختصر کرنے کا سبق دیتی ہے، یعنی آدمی کو شام مل جائے تو صبح کی آس پر نہ رہے اور صبح کر لے تو کسی نیکی کو شام پر نہ اٹھا رکھے۔ یہی گمان رکھے کہ اس کی اجل ممکن ہے اس سے پہلے ہی آجائے۔

’دنیا میں زہد اختیار کررکھنے‘ کی بہت سے علماءنے یہی تفسیر کی ہے۔ امام مروزیؒ کہتے ہیں: امام احمدؒ سے پوچھا گیا یہ ’دنیا میں زہد‘ یا ’دنیا کو بے وقعت جاننا‘ کیا ہے؟ فرمایا:’یہی کہ یہاں آرزو مختصر کر لو۔ صبح پالو تو کہو کیا پتہ شام آتی ہے یا نہیں‘۔ امام مروزیؒ کہتے ہیں: سفیان ثوریؒ بھی یہی کہا کرتے تھے۔
امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا: درازیِ آرزو سے نجات پانے کیلئے کیاتدبیر ہو؟ فرمایا: ہم نہیں جانتے۔ یہ تو بس توفیق کی بات ہے۔

امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: تین عالم کہیں اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے ایک سے پوچھا گیا: دنیا میں رہنے کی کتنی آس ہے؟ اس نے جواب دیا: جب نیا ماہ شروع ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے میری موت شاید اسی ماہ ہو گی۔ دوسروں نے کہا: یہ تو بڑی آس ہے۔ پھر دوسرے سے پوچھا گیا۔ اس نے کہا: ہر ہفتے میں سمجھتا ہوں اگلا ہفتہ میں شاید نہ دیکھ پاؤں۔ کہا گیا: یہ بھی بڑی آس ہے۔ پھر تیسرے سے پوچھا گیا تو وہ گویا ہوا: اس آدمی کی آس پوچھتے ہو جس کی جان ہی کسی اور کے ہاتھ میں ہے!؟

بکر مزنیؒ کہتے ہیں: تم میں سے کوئی جب رات کو سوئے تو اگر ہو سکے تووصیت سرہانے رکھ چھوڑے۔ کیا معلوم رات وہ اہل دنیا میں تھا تو صبح وہ اہل آخرت کے ہاں کرے۔

اویسؒ کو جب پوچھا جاتا: حضرت کیسی گزر رہی ہے؟ تو فرماتے: کیسی گزرے گی اس آدمی کی، جسے کوئی صبح مل جائے تو شام کی آس نہ ہو اور شام پائے تو صبح کا یقین نہ ہو اور پھر آگے پہنچے تو معلوم نہیں جنت یا جہنم، کہاں بھیجا جائے۔

عون بن عبداللہؒ فرمایا کرتے تھے: جو آدمی کل کو اپنی زندگی میں شمار کرتا ہے وہ بھلا آدمی موت سے واقف ہی نہیں۔ کتنے ہیں جو دن شروع کر لیتے ہیں مگر پورا نہیں کر پاتے۔ کتنے ہیں جو کل کی آس پر رہتے ہیں مگر ان کی کل نہیں آتی۔ اگر کہیں تم اجل کا روپ جان لو اور کہیں تم یہ دیکھ لو کہ ’اجل‘ آتی کس طرح ہے تو تم کو ’آس‘ بہت ہی بری لگنے لگے اور ’آس‘ کے فریب میں رہنا اس سے بھی برا۔

عون بن عبد اللہؒ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: مومن کے حق میں سب سے کارآمد دن وہی ہوتا ہے جسے وہ شروع کرے تو سمجھے کہ اس دن کا آخر وہ نہیں دیکھے گا۔

مکہ میں کوئی عبادت گزار عورت تھی۔ شام پڑتی تو وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوتی: اے نفس بس یہی رات ہے اگلی کو ئی رات کیا پتہ تم دیکھو نہ دیکھو۔ بس جتنی محنت ہو سکے اسی میں کر لو۔ صبح ہوتی تو پھر وہ اپنے آپ کو مخاطب کرتی: اے نفس بس یہی دن ہے جو تجھے ملا ہے اگلا کوئی دن تجھ پہ آئے یا نہ آئے۔ جو ہو سکتا ہے بس آج ہی کر لو۔

بکر مزنیؒ فرماتے تھے: اگر تم نماز سے لطف لینا چاہتے ہو تو یہ سمجھ کر نماز پڑھو کہ اس کے بعد کوئی نماز پڑھنے کو شاید ملے یا نہ ملے۔ ان کا یہ قول دراصل نبی ﷺ سے جو روایت ہوئی ہے اس سے ماخوذ ہے یعنی صل صلاة مودع ”اس شخص کی سی نماز پڑھو جو دنیا سے رخصت ہو رہا ہو“۔

کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے گیا۔ دروازے پر دستک دی تو جواب ملا: صاحب گھر پر نہیں۔

پوچھا: کب واپسی ہو گی؟ یہ کوئی باندی تھی اور معرفت میں خاص مقام رکھتی تھی۔ دروازے کی اوٹ سے بولی: جس کی جان اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں کون بتائے وہ کب آتا ہے!

ابو العتاہیہ کے دو شعر ہیں:

ادھر میں عمر دراز کی آس رکھوں ادھر معلوم نہیں جس دن کی صبح ملتی ہے اس کی شام بھی ساتھ میں ملتی ہے یا نہیں۔

تم دیکھتے نہیں جب بھی سویر ہوتی ہے تو وہ تمہاری عمر کو کاٹ کر اور اس سے ایک دن گھٹا کر ہوتی ہے۔

ابو العتاہیہ کا یہ دوسرا شعر دراصل ابو الدرداءرضی اللہ عنہ اور حسن بصریؒ کے اس قول سے ماخوذ ہے:

ابن آدم! جب سے تم ماں کے پیٹ سے نکلے ہو تب سے تم اپنی عمر کی عمارت ایک ایک اینٹ کر کے گرا رہے ہو۔

سلف میں سے کسی کے یہ اشعار ہیں:

دن کٹ جاتا ہے اور وقت گزر جاتا ہے تو ہم کتنے خوش ہوتے ہیں حالانکہ جب کوئی دن گزرتا ہے تو وہ ہمیں اجل سے کچھ اور ہی قریب کر جاتا ہے۔

موت کے دستک دینے سے پہلے اپنی اس جان کیلئے بھی کچھ کر لو اور وہاں کیلئے کچھ مشقت یہاں کر جاؤ۔عمل ہی گھاٹا ہے اور عمل ہی کمائی۔

پھر عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:”اپنی تندرستی سے اپنی بیماری کے لئے کچھ اٹھا لو اور زندگی میں موت کیلئے کچھ کر لو“۔

یعنی تندرستی میں نیک اعمال کو غنیمت جان لو اس سے پہلے کہ لاچار ہو جاؤ اور پھر کوئی نیکی چاہو بھی تو نہ کر سکو۔ اور یہ کہ خدا کو خوش کرنے کیلئے اس زندگی کو غنیمت جانو قبل اس کے کہ موت آئے اور تم ہزار نیکی کرنا چاہو پر وہ نہ کرنے دے۔

اسی عبداللہ بن عمرؓ والی روایت میں ایک الفاظ یہ بھی آتے ہیں:

فانک یا عبداللّٰہ لا تدری ما اسمک غداً

”وہ اس لئے اے عبداللہ کہ تم کیا جانو کل تمہارا کیا نام لیا جاتا ہے“

یعنی تم کیا جانو کل تم زندوں میں ہو گے یا مردوں میں۔

اس معنی کی متعدد باتیں احادیث میں مروی ہوئی ہیں۔

صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

”دو نعمتیں ایسی ہیں جن کا (مول کرنے) میں اکثر لوگ گھاٹا کھا جانے والے ہیں۔ ایک تندرستی اور دوسری فراغت“۔

مستدرک حاکم میں عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے بس غنیمت جانتے رہو۔ جوانی کو ضعیفی سے پہلے،تندرستی کو کوئی روگ لگنے سے پہلے، مالی آسودگی کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو عدیم الفرصت ہو جانے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے“۔

غنیم بن قیس کہتے ہیں: ہم اسلام میں اپنے اول اول دور میں ایک دوسرے کو یہ بکثرت یاد کرایا کرتے تھے:

”ابن آدم! قبل اس کے کہ فرصت چلی جائے فراغت ہی میں کچھ کر لو۔ قبل اس کے بوڑھے ہونے لگو جوانی میں کچھ کرجاؤ۔ قبل اس کے بیمار لاچار ہو جاؤ صحت میں کچھ کر لو۔ قبل اس کے آخرت کو جا دیکھو یہیں دنیا میں کوئی ہاتھ پیر مار لو اور قبل اس سے کہ تم کو موت آلے زندگی زندگی کچھ بنا لو“۔

صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

”چھ (آفتوں) سے پہلے پہلے جتنا کچھ کر سکتے ہو کر لو:

اس سے پہلے کہ جب سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہو پڑے۔

اس سے پہلے کہ دھواں رونما ہو جائے۔

اس سے پہلے کہ دجال نکل آئے۔

اس سے پہلے کہ دابۃ الارض کا خروج ہو۔

اس سے پہلے کہ وہ زمانہ آئے جب ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ جائے گی۔

اس سے پہلے کہ جب عوامی (ہڑ بونگ) اقتدار پائے گی“(1)

ترمذی کی روایت میں ابوہریرہؓ ہی سے نبی ﷺ کے یہ الفاظ آتے ہیں:

”سات (آفتوں) سے پہلے پہلے اعمال کی جلدی کر لو کیا تم اس انتظار میں ہو کہ ایسی محتاجی آئے کہ سب ہوش اڑا دے، یا ایسی مالداری میں پڑو جو آدمی کو سرکش کر دے، یا کوئی ایسا روگ لگے کہ ہر چیز کا صفایا کر دے، یا ضعیفی آلے جو جسم میں جان ہی نہ رہنے دے، یا موت آئے اورخاک میں ملا دے اور یا پھر جب دجال ہی آجائے جو کہ آنے والے فتنوں میں سب سے بڑا روپوش فتنہ ہے۔ اور یا پھر، تم قیامت کے انتظار میں ہو اور وہ تو کیا ہی بری اور کڑی آفت ہے“۔

ان احادیث سے مراد یہ ہے کہ یہ سب کی سب چیزیں نیک اعمال میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو ذاتی طور پر نیکی کرنے سے دور رکھتی ہیں مثلا محتاجی، حد سے بڑھی ہوئی مالداری، بیماری و لاچاری، ضعیفی اور موت۔ جبکہ ان میں بعض چیزیں ایسی مذکور ہوئی ہیں جو کہ فتنۂ عام ہوں گی مثلا قیامت کاآنا یا دجال کا نکلنا یا دوسرے ایسے فتنے جو لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیں۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ان فتنوں کی بابت الفاظ آئے ہیں۔

بادروا بالاَعمال فتنا کقطع اللیل المظلم

”ایسے فتنے پڑنے سے پہلے پہلے نیک اعمال کی جلدی کر لو جو اندھیری رات کی طرح چڑھ آئیں گے“۔
ان میں سے بعض خوفناک باتیں تو ایسی ہیں کہ جب وہ رونما ہو جائیں تو پھر اس کے بعد نیک عمل کیا گیا کارآمد ہی نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ۔ (الانعام: 158)

”جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو“ ۔

صحیحین میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

”قیامت نہ آئے گی جب تک سورج اپنے مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ پھر جب وہ طلوع ہو جائے اور لوگ اسے دیکھ لیں تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پس یہ وہ وقت ہو گا جو کسی نفس کو جو اس سے پہلے مومن نہیں ہوئی یا ایمان میں کوئی نیک کمائی نہ کر پائی اسکا اب ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا“۔

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

”تین باتیں جب ہو جائیں پھر جو کوئی نفس اس سے پہلے مومن نہ تھی یا ایمان میں کوئی نیک کمائی نہ کر پائی اس میں اب ایمان کا آنا اس کو کوئی فائدہ نہ دے گا! سورج کا اپنے غروب کی جگہ سے طلوع ہو پڑنا، دجال اور دابۃ الارض“۔

اسی میں آپ ﷺ سے یہ روایت بھی آتی ہے:

” جو شخص سورج کے مغرب سے چڑھ آنے سے پہلے تائب ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کی طرف رجوع فرما لے گا“۔

ابو موسی الاشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں،فرمایا:

”اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کا خطاکار توبہ کر لے۔ دن کو اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ رات کا خطاکار توبہ کر لے....تاآنکہ سورج اپنے غروب کی جگہ سے طلوع ہو جائے“۔

امام احمد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ صفوان بن عسالؓ سے نبی ﷺ کی حدیث روایت کرتے ہیں:

”سورج کے غروب ہونے کی سمت اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے جس کے درمیان فاصلہ ستر سال کی مسافت ہے۔ یہ کبھی بند نہ ہو گا تاآنکہ سورج وہاں سے طلوع ہو جائے“۔

مسند میں عبدالرحمن بن عوفؓ اور عبداللہ بن عمرؓ اور معاویہؓ سے روایت آتی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”توبہ تب تک قبول ہوتی رہے گی جب تک سورج اپنے غروب کی جگہ سے طلوع نہ ہو جائے۔ پھر جب سورج وہاں سے چڑھ آئے تب جس دل میں جو ہے بس اسی کے ساتھ وہ سر بمہر کر دیا جائے گا اور لوگ عمل سے مستغنی کر دیے جائیں گے“۔

عائشہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا: جب ان نشانیوں کے عمل میں آنے کی ابتدا ہو جائے گی تو (اعمال) لکھنے والے اپنے قلم چھوڑ دیں گے۔ نگران فرشتے نگرانی سے سبکدوش کر دیے جائیں۔ اور اجساد ہی اعمال کی شہادت دیں گے۔ عائشہؓ کا یہ قول ابن جریر طبری نے نقل کیا ہے۔ ایسا ہی قول کثیر بن مرہ اور یزید بن شریح و دیگر سلف سے مروی ہے کہ: جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا تو پھر جس دل میں جو (نیکی یا بدی) ہے بس وہ دل اسی کے ساتھ سربمہر کر دیا جائے گا۔ نگران فرشتے اعمال پیش کر دیں گے اور فرشتوں کو کہہ دیا جائے گا کہ اب اعمال لکھنا موقوف کر دیں۔

سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے تو فرشتے اپنے پرچے لپیٹ لیں گے اور اپنے قلم دھر دیں گے۔

چنانچہ مومن کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ نیک اعمال کی جلدی کر لے قبل اس کے کہ وہ نیک اعمال کی قدرت سے ہی محروم کر دیا جائے اور اسکے اور نیک اعمال کے مابین رکاوٹیں اور پردے حائل ہو جائیں۔

ابوحازم کہا کرتے تھے: آخرت کی خریداری عنقریب سست پڑ جانے والی ہے۔ ہو سکتا ہے پھر وقت وہ آئے کہ اس بازار میں تھوڑا نہ بہت کچھ پایا ہی نہ جائے۔

جب انسان پر وہ وقت آتا ہے کہ انسان نیک عمل پر قدرت پانے سے ہی محروم کر دیا جائے تب صرف حسرت اور افسوس رہ جاتا ہے۔ پھر وہ کتنی آرزو کرتا ہے کہ وہ وقت دوبارہ آجائے جب وہ نیکی کرنے پر قدرت رکھتا تھا۔ مگر یہ آرزو کس کام کی۔ اللہ تعالیٰ نے تبھی تو فرمایا ہے:

وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ۔ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔ أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَى علَى مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ۔ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ۔  أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ۔ (الزمر: 54۔58)

”اور جھک پڑو اپنے پروردگار کی طرف اور اس کے مطیع فرمان ہو جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کر لو اپنے رب کی اتاری ہوئی (کتاب) کے بہترین پہلو کی، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی نفس کہے:

”افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں کرتا رہا، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا“۔ یا کہے: ”کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا“ یا عذاب دیکھ کر کہے: ”کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں“

یہ بھی ارشاد خداوندی ہے:

حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ۔ (المؤمنون: 99۔100)

”یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ”اے میرے رب، مجھے اسی دنیا میں بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا___ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے۔ اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک “۔

اوریہ بھی فرمایا:

وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ۔  (المنافقون: 10)

”کچھ خرچ کر لو (خدا کی راہ میں) اس میں سے جو ہم نے تمہیں بخش رکھا ہے قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ ”اے میرے رب کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو کوئی مزید مہلت ہرگز نہیں دیتا“۔

ترمذی میں ابوہریرہؓ سے مرفوع آتی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

”جو بھی یہاں سے مر کر جاتا ہے نادم ضرور ہوتا ہے“۔ صحابہ نے عرض کی۔ ندامت کس بات کی؟ فرمایا: ”اگر وہ نیک ہو تو نادم ہوتا ہے کہ کاش کچھ اور نیکی کر لیتا۔ اور اگر وہ خطاکار ہو تو ندامت اور حسرت کرتا ہے کہ کاش (دنیا میں ہی) اس کو کوئی ڈانٹ ڈپٹ کر دیتا“۔

جب ایسا ہے تو پھر مومن پر یہ جان رکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی جتنی عمر بچ گئی ہے وہ تو بہت ہی بڑی غنیمت ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے: آدمی کو ایمان میسر آجائے تو اس کی باقی ماندہ زندگی کا پھر کوئی مول نہیں۔

سعید بن جبیرؒ کہتے ہیں: ہر وہ دن جو ایک مومن کو گزارنے کیلئے ملتا ہے ہر غنیمت سے بڑھ کر ہے۔

بکر مرنیؒ کہا کرتے تھے: خدا جس دن کو بھی پیدا کر کے دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ دن کہتا ہے: اے ابن آدم مجھے غنیمت جان لے، ہو سکتا ہے میرے بعد تیرے لئے کوئی اور دن نہ بھیجا جائے۔ اور جو رات آتی ہے وہ بھی یہی کہتی ہے: ابن آدم مجھے غنیمت جان، ہو سکتا ہے تیرے لئے میرے بعد کوئی رات نہ ہو۔

اسی معنی میں کسی نے یہ دو شعر کہے ہیں:

فراغت کو غنیمت سمجھو تو کچھ رکوع و سجود ہی کر لو، کہ آگے جا کر فضیلت اور مرتبہ پاؤ۔ کیا پتہ موت آئے تو اچانک آئے اور کسی چیز کا موقعہ ہی نہ دے۔

کتنے ہیں جو یہاں صحت مند اور تندرست ہوتے ہوئے مرے اور کسی بیماری کے بغیر مرے۔ بس موت آئی اور چلتوں پھرتوں کو اٹھا لے گئی۔

محمود الوراق کے کچھ شعر ہیں:

کل کا دن گزرا اور تم پر گواہ بننے کیلئے آگے بڑھ گیا۔ تب آج کا دن آیا جو اس وقت گواہی اکٹھی کر رہا ہے۔ یہ بھی اپنا کام سمیٹے گا اور پھر نہ پلٹے گا۔ کل کو ایک اور گواہ آکھڑا ہو گا۔

دیکھو اگر کل تم سے کوئی برائی ہوئی تھی تو آج کے گواہ کے پاس اپنی نیکی اور احسان مندی کی شہادت روانہ کردو۔ اب بھی موقعہ ہے کہ نیکوکاروں میں نام لکھوالو۔

یہ دن جو گزر رہا ہے لوٹ کر نہیں آئے گا۔ البتہ اس میں جو تم بھیج رہے ہو وہ لوٹ آنے والا ہے۔ سو اگر کوئی اچھائی کر لوتو وہ کہیں جانے والی نہیں۔

کبھی کسی نیکی کو کل پر مت چھوڑو۔ تم جس کل کا انتظار کر رہے ہو ممکن ہے وہ کل تو آئے مگر اس کل میں تم نہ پائے جاؤ۔

 

(استفادہ از: جامع العلوم والحِکَم شرح اربعین نووی،

مؤلفہ امام ابن رجب الحنبلی ص 378- 386))

 


(1) حدیث کے لفظ ہیں: أمر العامۃ۔ جس کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ ’ہر ایک کو اپنی اپنی پڑ جائے گی‘، اور یہ بھی کہ طاقت عوامی یا بازاری لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گی۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز