عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 18,2024 | 1445, شَوّال 8
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
نظریۂ انقلاب پر ایک نظرثانی کی ضرورت
:عنوان

بہت سے مسلم ملکوں میں یہ نظرثانی ہوچکی؛ تحریکیں وہاں’انقلاب‘ اور ’اسلامی حکومت‘ ایسےنعروں کو اب آگےنہیں رکھ رہیں۔ کچھ پیش رفت اسکےبعد ہی ان ملکوں میں ہو پائی ہے۔ اسکے بغیر آگےبڑھنےکی گنجائش ہی سردست نہیں ہے

. جہادتحريك . جہاددعوت :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

نظریۂ انقلاب پر ایک نظرثانی کی ضرورت

حامد کمال الدین

 

زیر نظر تحریر ’’نظریۂ انقلاب پر ایک نظر ثانی کی ضرورت‘‘ ہمارے ایک طویل مضمون ’’اسلامی تحریکی عمل میں چند جذری ترمیمات۔ سفارشات‘‘  کا ایک جزو ہے جو کئی سال پیشتر ایقاظ میں دیا گیا تھا۔ قارئین کے فائدہ کےلیے، مضمون کے اُن اجزاء کو ایک ایک کر کے یہاں دیا جا رہا ہے۔

انقلاب اور غلبۂ اسلام ایسی اشیاء کو دعوت کا عنوان بنانے پر اسلامی تحریکی عمل کو ایک نظرثانی کرنا ہو گی۔

 بہت سے مسلم ملکوں میں یہ نظرثانی ہو چکی؛ تحریکیں وہاں ’انقلاب‘ اور ’اسلامی حکومت‘ ایسے نعروں کو اب آگے نہیں رکھ رہیں۔ (لیکن یہ عمل  کس طریقے سے وہاں انجام پایا ہے، اس پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے، اورخود ہمارے اِس پر ملاحظات ہیں)۔ البتہ کچھ پیش رفت اِس نظرثانی کے بعد ہی اُن ملکوں کے اندر ہو پائی ہے۔ میں عرض کروں گا، اس کے بغیر آگے بڑھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس کو مؤخر کرتے جانا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والی بات ہو گی۔ یہ بلاضرورت تاخیر آپ کا ڈھیروں نقصان کروا چکی۔ ایک چیز ہونی تو بہرحال ہے؛ البتہ اس میں دیر کرنا وقت کے فیکٹر کو آپ کے خلاف کرتا چلا جاتا ہے؛ بالآخر آپ زیادہ قیمت دے کر وہی کام کرتے ہیں!

جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم پہلے دن سے انقلابی منہج کو کوئی صائب طریق نہیں جانتے۔ (البتہ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر، حالیہ شمارہ میں ہم نے الگ سے ائمۂ سنت کے کلاسیکل منہج اور دورِحاضر کے انقلابی منہج کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اس موضوع کی تفصیلات کےلیے وہیں سے رجوع کیا جائے)۔  اِس نظرثانی سے متعلقہ چند پہلوؤں کے حوالہ سے، ہم تین سال پہلے ایک طویل اداریہ قلمبند کر چکے ہیں بہ عنوان پیراڈائم شفٹ اپنے پختہ تر مراحل میں۔ اُس مضمون سے بھی ہمارا مقصود کچھ واضح ہو سکتا ہے۔ اُس کا مکمل اِعادہ یہاں ممکن نہیں۔ مختصراً:

1.          پیراڈائم (یعنی تصورات) کے اندر تو ایک شدید درجہ کا ٹھیٹ پن رکھنا۔ دورِحاضر کی فکری اھواء کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت conciliation  قبول نہ کرنا؛ اور یہاں پر چیزوں کو خالص سے خالص رکھنا۔ اِسی ٹھیٹ دین پر جینا، اسی پر مرنا، اسی کو پیچھے والوں کےلیے چھوڑ کر جانا (كلمةً باقيةً)، اسی پر حشر کی آرزو۔ سلف کی تفاسیر دیکھیں تو یہی معنیٰ قوی تر ٹھہرتا ہے کہ اہل باطل کے ساتھ تَوَلِّی (رفاقت) اور ان کی جانب رُکُون (جھکاؤ کر لینا) جس پر شدیدترین وعیدیں آئی ہیں، وہ اصل میں نظریات کے اندر ہوتا ہے، جن میں ٹھیٹ پن رکھنا آپ کی خصوصی ترجیح اور محنت ہونی چاہئے۔ داخلی کھپت internal consumption (خود اپنے لوگوں کے حوالہ کےلیے) اصطلاحات تک کافروں سے لینے کا روادار نہ ہونا۔

2.          البتہ عمل اور پیش قدمی کے اندر منہجِ استطاعت اختیار کرنا۔[1] اسی کو ہم دستیاب مواقع کو اختیار کرنا بھی کہتے ہیں۔ جس کی صورت ظاہر ہے ہماری طرف سے پیشگی طے نہیں ہوتی (کہ ہم واقعات کی ایک خاص ترتیب کو منہج کہہ ڈالیں) بلکہ اس کی صورت دستیاب مواقع خود طے کریں گے جو مختلف حالات میں اور مختلف ممالک کے اندر مختلف ہو  سکتی ہے۔ یہاں سے؛ اپنے آگے بڑھنے کے راستے بنانے کےلیے آپ کو ایک ڈائنامزم ملتا ہے۔ یعنی مواقع پر آپ اپنی پیشگی شروط عائد کر کے اپنے راستے تنگ نہیں کر لیتے (کہ مواقع اگر آپ کی شرطیں پوری نہیں کرتے تو آپ کو بیٹھ رہنا ہے اور انتظار کرنا ہے کہ وہ آپ کی شرطوں پر آئیں ’کیونکہ منہج یہی ہے‘!) بلکہ مواقع کے اندر، وہ جیسے ہیں، خود اپنے راستے بناتے ہیں اور بالآخر ان کو اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں (بشرطیکہ پیراڈائم میں آپ آخری درجے کے ثابت قدم stubborn   واقع ہوئے ہوں؛ جوکہ آپ کی اصل قوت ہے اور اسی پر آپ کو بہت سی توجہ دینا ہوتی ہے؛ بصورتِ دیگر یہ ’میلہ‘ دیکھنا بےحد مہنگا پڑ سکتا ہے، اس سے ہم آپ کو پیشگی خبردار کیے دیتے ہیں)۔ البتہ اس ساری پیش قدمی کو ضبط میں رکھنے کےلیے ہمارے پاس ایک قاعدہ رہتا ہےاور وہ ہے مصالح اور مفاسد کا شرعی موازنہ۔ یعنی ایک عمل میں پائی جانے والی مصلحت اور مفسدت میں سے جو چیز بھاری ہو اس کا اعتبار کیا جائے[

سب سے اہم بات دعوت کا مضمون اور عنوان ہے۔ انقلاب کو دعوت کا مضمون و عنوان بنانے والے حضرات بالعموم ’مکی مرحلے‘ سے استدلال بھی فرماتے ہیں۔ ہم عرض کریں گے: چلیے اس ’مکی مرحلے‘ کو ہی لے لیں اور مکی قرآن کو ہی لے لیں، اس کے موضوعات میں انقلاب کا ذکر کہاں ہے؟ اپنے زمانے کے شرک کی ایک جابجا نفی ہے اور اس کا شدید ابطال ہے۔ خدا کی تعظیم اور تنہا اُسی ایک کی عبادت کا جابجا اِثبات ہے۔ ’حکومت‘ یا ’ریاست‘ حاصل کرنے کا تو کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ (آپ قرآن و سیرت کا وہ سارا مکی بیان پڑھ جائیے)۔  شرک اور توحید کے اُس بیان سے جو مکی قرآن میں ملتا ہے، نیز جو نبیﷺ کے مکی مضامین میں ملتا ہے، اسلام کی ایک حکومت ہونے کا لزوم کسی حد تک ’ذہنوں‘ کے اندر آتا ہے۔ یہ ہم مانتے ہیں۔ لیکن ہم کہیں گے: یہاں قرآن اور سیرت کی بہترین اتباع یہی ہو گی کہ وہ چیز جو ’ذہنوں‘ میں خودبخود آتی ہے اس کو آپ بھی ’زبان‘ پر مت لائیے اور ’خودبخود‘ ہی ذہنوں میں آنے دیجئے۔ مکی قرآن اور مکی سیرت کی صحیح تطبیق تو یہ ہو گی۔ ’زبان‘ پر البتہ آپ کے وہی موضوعات ہوں جو وہاں ’زبان‘ پر تھے: صرف شرک کا ابطال۔ توحید کا اِثبات۔ سب معاملات خدا کی جانب لوٹانے کی تاکید۔ اور قلوب کو خدا کے ساتھ جوڑتے اور نفوس کو آخرت کے ساتھ وابستہ کرتے پل پل پر دہرائے جانے والے بیانات۔ خدا کو نفسِ انسانی میں مرکزی ترین حیثیت دلوانا۔ ایک بات کو دعوت کا موضوع بنانے سے ہماری یہی مراد ہے۔  ورنہ غلبۂ اسلام پر ایمان ہم بھی رکھتے ہیں۔ البتہ زیرِبحث مسئلہ آپ کی پریزنٹیشن presentation   کا ہے کہ وہ کیا ہو۔  یہ جگہ ’انقلاب‘ کے پاس چلی جانا بلکہ دعوت کا عنوان ہی یہ بن جانا نہ تو کوئی ’مکی‘ مرحلہ ہے اور نہ ’مدنی‘۔  جو چیز لزوم کے زمرے میں آنی چاہئے اس کو عنوان مت بنائیے۔ اور جو چیز عنوان ہونا چاہئے اس کو لزوم کے خانے میں مت جانے دیجئے۔

اسی چیز کو ایک دوسرے پہلو سے ہم ’تنظیمی عمل‘ کی بجائے دعوتی عمل بھی کہتے ہیں۔  (تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو ہمارے اِسی شمارہ میں شامل مضمون متقدمین ڈسکورس کا انقلابی ڈسکورس سے فرق پوائنٹ 8)۔  یہاں آپ ’تنظیمی‘ کی بجائے دعوتی فارمیٹ اپنے عمل میں لے آئیے؛ بفضلِ خدا آپ ایک طوفان برپا کر سکیں گے؛ کیونکہ جو قوت دعوت میں ہے وہ تنظیم میں ہے اور نہ کسی چیز میں۔ کون ہماری تنظیم میں آ رہا ہے اور کون ابھی ہماری تنظیم میں آنے کےلیے تیار نہیں، اِس اپروچ ہی کو اپنے یہاں سے ختم کر دیجئے (’’دعوت‘‘ کے اندر)۔  کس کا ایک چیز پر ایمان ہے اور وہ اس کو اپنی تواصی کا موضوع بنانے پر آمادہ ہے اور کون اس چیز کو ماننے سے پس و پیش کرتا ہے، سارا فوکس اِس پوائنٹ پر چلا جانا چاہئے۔ (’’دعوت‘‘ بہرحال اِسی چیز کا نام ہے)۔ معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دینے والی چیز کچھ واضح شرعی حقائق کو ماننا یا انہیں ماننے میں پس و پیش کرنا ہو جائے؛ اس کا نام ہے دعوتی اپروچ، جس پر ہم بےحد زور دیں گے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور معاشرے کے ثقافتی مراکز میں اسلام کی کچھ بنیادی باتوں کو منوانے اور جاہلیت کے کچھ مرکزی مضامین کا انکار کروانے پر کُل زور ہو جائے (دعوتی اپروچ) بہ نسبت اس بات کے کہ ’ہمارے نظم میں آئیے‘ (تنظیمی اپروچ)۔ یہاں سے؛ معاشرے کی ایک خالص نظریاتی تقسیم عمل میں آئے گی؛ جو بےحد ضروری ہے۔ معاشرے میں ایک خالص نظریاتی اختلاف کھڑا کیا جائے گا؛ جوکہ دعوت کا ایک بڑا مطلوب ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا بہت سے علماء، مشائخ، پروفیسر، دانشور، سماجی، سیاسی، ثقافتی اثر ور رسوخ کی مالک شخصیات ایک نظریے سے وابستہ ہونا حتیٰ کہ اس نظریے کا عَلَم اٹھانا بآسانی قبول کرتی ہیں بہ نسبت ایک تنظیم سے وابستہ ہونے کے۔  لیکن یہاں غلطی سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چونکہ ’منہج‘ ہی یہ ہے کہ لازماً لوگوں کو ایک تنظیم میں لایا جائے، جبکہ تنظیم میں آنے کےلیے اکثر سربرآوردہ لوگ تیار ہی نہیں ہوتے، اس لیے معاشرے میں آگے بڑھنے اور مؤثر افراد کو دعوت کا عَلَم اٹھوانے  کے معاملہ میں اپنا کام غیرضروری طور پر مشکل کر  رکھنا ہماری ایک ’منہجی‘ مجبوری ٹھہری! یعنی کام ہو تو پورا ہو (اور وہ یہ کہ ہر بڑے سے بڑا آدمی سیدھا سیدھا ہماری اطاعت میں آئے اور ہمارے تنظیمی احکامات کی تعمیل کرنے لگے)؛ نہیں تو نہیں! ایسا کام بھلا کب آگے بڑھے گا؟ وہ تو تنظیم ہی کے پوائنٹ پر کھڑا رہے گا۔ (نہ بڑےبڑے لوگ تنظیم میں آئیں اور نہ بات آگے بڑھے!) حیرت یہ کہ اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ سب لوگ تنظیم میں آنے پر آمادہ نہیں ہوتے کچھ جماعتوں کے ہاں ’حامی‘ یا ’ہمخیال‘ ایسا خانہ رکھا گیا تو وہ بھی ’تنظیم‘ کا حامی یا ہمخیال! بھائی ’تنظیم‘ کو بالکل ہی پیچھے لے جائیے۔ اصل مسئلہ بنا دیجئے کچھ نظریات (عقیدہ) پر ایمان رکھنے اور نہ رکھنے کو۔  معاشرے میں ہلچل اسی بنیاد پر ہونی چاہئے (اور ہو سکتی ہے) کہ فلاں بات حق ہے اور فلاں بات باطل۔ کُل محنت اسی پر ہو۔ یہاں کوئی مضمون ہو جس کو منوانے پر کُل زور صرف ہو رہا ہو؛ اور بس۔ گلی گلی، محلے محلے، کچھ ایشوز ہوں (اور وہ بھی ایمانی انداز کے) جو لوگوں کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑ رہے ہوں (دوبارہ واضح کردیں: وہ ’’عقیدہ‘‘ کے ایشوز ہوں نہ کہ ’انقلاب‘ کے) تاآنکہ لوگوں کےلیے ان (ایمانی) ایشوز کے معاملہ میں غیرجانبدار رہنا دشوار کر دیا جائے۔ اسے ہم کہتے ہیں دعوتی اپروچ؛  جو ایک طویل محنت چاہتی ہے۔  ہاں دعوت جب معاشرے میں ایک راستہ بنا لیتی ہے، ذہنوں کو متاثر کر لیتی ہے، ایک جاندار اختلاف یہاں کی ایک ایک بیٹھک ایک ایک چوپال میں برپا کر لیتی ہے، ایک صحتمند ڈیبیٹ debate  جگہ جگہ کھڑا کر لیتی ہے، جس پر خوب وقت لگتا ہے... اور اس کے نتیجے میں ایشوز یہاں بچے بچے کی زبان پر بولنے لگتے ہیں، حمایت اور مخالفت کی بنیاد کچھ ایمانی موضوعات ہوتے ہیں، اور ان (موضوعات) کے حق میں ایسےایسے لوگ ایسی ایسی جگہوں پر آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں جو آپ کے نظم میں تو کیا، آپ کے عِلم اور آپ کے سان گمان میں نہیں ہوتے۔ (دعوت اصل میں کہتے ہی اس نامیاتی organic    چیز کو ہیں جو اپنا عمل خود کرتی ہے؛ آپ کو صرف اس کا بیج ڈالنا اور ایک تسلسل کے ساتھ اُس کو سیراب کرنا ہوتا ہے؛ باقی کا کام خود اسی پر چھوڑنا ہوتا ہے)... غرض کچھ ایمانی موضوعات معاشرے میں جب ایک صحتمند اختلاف پیدا کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک صحتمند تقسیم معاشرے کے اندر انجام پا لیتی ہے... تو تب یہ ہوتا ہے کہ ان ایشوز (ایمانی موضوعات) کےلیے معاشرے میں جو شخصیات اور تنظیمیں اور فورَمز سب سے زیادہ سرگرم رہے ہوں وہ بھی توجہ کا مرکز بنیں۔ تب ایک الگ محور پر لوگ ان شخصیات اور تنظیموں اور فورَمز سے جڑتے بھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایک عقیدت کی صورت میں اور کچھ لوگ باقاعدہ راہنمائی لینے کی صورت میں۔ البتہ ایک بڑی تعداد کی وابستگی تب بھی صرف اُس کیس کے ساتھ ہوتی ہے جس کی آپ نے معاشرے میں ایک گونج اٹھائی تھی (نہ کہ آپ کی تنظیم یا آپ کی شخصیت کے ساتھ)۔ خصوصاً سربرآوردہ لوگوں کی وابستگی؛ جن کے بولنے سے واقعتاً معاشرے کو کچھ فرق آتا ہو۔ (یعنی تنظیموں اور شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہونے والے لوگ کبھی بھی بہت بڑی تعداد میں نہ ہوں گے؛ ابھی کی تو سوچیے ہی مت!) البتہ تب یہ ہوتا ہے کہ تنظیمیں یا شخصیات یا فورَمز دعوت کے لیور lever   سے معاشروں ایسی بھاری چیز کو ہلا لیتے ہیں۔ اس کے بغیر البتہ معاشرے ہِل کر دینے کے نہیں۔

سو دعوت ایک نرسری ہے۔ یہ آپ کا اصل ہے۔ یعنی بنیاد۔ اس کا رنگ ہرگز نہ تو تنظیمی ہونا چاہئے اور نہ مسلکی۔ تنظیمیں اور مسلک وغیرہ یہاں سو فیصد پس منظر میں چلے جائیں۔ یہاں؛ دین کے حقائق خود ہوں جو براہِ راست لوگوں سے مخاطب ہوں (دین کے حقائق جو وقت کی جاہلیت کو چیلنج کریں)۔ دین کے بنیادی ایشوز ہوں جو لوگوں سے بول بول کر بات کر رہے ہوں۔ ’اپنی‘ طرف آپ کسی بھی حیثیت میں لوگوں کو نہ بلا رہے ہوں۔ (یہاں کسی بھی حیثیت میں خود کو ’نبی‘ کی جگہ پر رکھنے کا قیاس تباہ کن ہے؛ وہ حیثیت بس نبی کی ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ خاص)۔ دعوت یوں بولے گویا خدا اپنی طرف بلا رہا ہے اور بیچ کے لوگ بولنے کے باوجود بیچ سے غائب۔ یوں گویا ہر آدمی کو براہِ راست خدا ہی کو ’ہاں‘ یا ’ناں‘ میں جواب دینا ہے۔ یہاں؛ جتنا آپ بیچ سے غائب ہوں گے اور خدا، آخرت اور رسالت کو جتنا بولنے دیں گےاتنا ہی اس عمل پر دعوتی رنگ آتا چلا جائے گا۔

] براہِ کرم نوٹ کیا جائے یہ بات ہم خاص اخلاصِ نیت کے حوالے سے نہیں کر رہے؛ کیونکہ اخلاصِ نیت (خدا کو راضی کرنے کا سچا جذبہ) تو ایک تنظیمی دعوت میں بھی ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں باقاعدہ ایک منہج کی کہ خود اسی کے اندر دین بول رہا ہو اور دین کے سوا کچھ نہ بول رہا ہو، باقی ہر چیز اس میں پیچھے کر دی گئی ہو۔ دعوت نام ہے اس چیز کا[۔

پس دعوت آپ کی نرسری ہے۔ یہی آپ کی اصل سرمایہ کاری۔ باقی سب کچھ آپ کے ’پراجیکٹ‘ ہیں، جو متنوع ہو سکتے ہیں۔ ’پراجیکٹس‘ چلیں گے ایک بالکل الگ محور پر، لیکن اپنی کامیابی کےلیے انحصار اِسی نرسری پر کریں گے۔ یہاں اگر جان ہو گی تو ہی آپ کے پراجیکٹس میں جان ہو گی، خواہ وہ سیاسی ہوں، خواہ سماجی اور خواہ انتظامی۔ دعوت وہ پانی ہے کہ جیسےجیسے اس کی سطح بلند ہو گی، ویسےویسے آپ کی سب کشتیاں اوپر ہوتی چلی جائیں گی اور جیسےجیسے اس کی سطح نیچی ہو گی ویسےویسے آپ کی سب کشتیاں زمین سے لگتی چلی جائیں گی، یہاں تک کہ اکثر پر ’تیرنے‘ اور ’حرکت کرنے‘ کی نوبت ہی نہ آئے گی اور یہ مسلسل ’حالات‘ کو کوستی رہیں گی۔ صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ’کشتیاں‘ اب بھی آپ کے پاس کم نہیں لیکن ان میں سے اکثر زمین میں دھنسی پڑی ہیں۔ ان کو اوپر اٹھانے کےلیے آپ کو پانی کی سطح ہی بلند کرنی ہے۔ مراد ہے: دعوت کے اندر ایک بھاری سرمایہ کاری۔

غرض دعوت نام ہو گا یہاں تنظیمی اور مسلکی لہجوں سے اوپر اٹھ آنے کا۔ جبکہ سرِدست یہاں اِلاماشاءاللہ دو ہی لہجے پائے جاتے ہیں، تنظیمی یا مسلکی۔  دین کی خدمت کے یہی دو ڈھب modes   مانے جارہے ہیں فی الحال! جبکہ اِنہی دو کو پیچھے کرنا دین کے سامنے آنے کے حق میں مطلوب ہے۔ تاکہ فی الواقع یہاں دعوت پنپ سکے۔ جس سے؛ ہمارے سبھی پراجیکٹس میں جان پڑے۔ دین اور بےدینی ہی کے مابین ایک صاف مڈھ بھیڑ ہو؛ اور یہاں کے ایک ایک انسان کو اس میں اپنی پوزیشن طے کیے بغیر چارہ نہ رہے۔ ایسی ایک کیفیت بنانا اپنے سب سیاسی و سماجی منصوبوں میں جان ڈالنے کےلیے ناگزیر ہے۔ گو ہمارے نزدیک یہ آپ اپنی ذات میں مطلوب ہے۔

چنانچہ دعوت ہوا اِس پورے عمل کا وہ پیندا جسے آپ کے تمام پراجیکٹس کا بوجھ سنبھالنا ہے۔ پراجیکٹس اس پر سہارا کریں گے لیکن ہوں گے ایک الگ تھلگ چیز۔


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
"اصلاح" "انقلاب" سے ہٹ کر ایک طرز فکر ہے
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ
احوال-
جہاد- مزاحمت
حامد كمال الدين
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ تحریر: حامد کمال الدین یاسین ملک تم نے کسر نہیں چھوڑی؛&nb۔۔۔
صلیبی قبضہ کار کے خلاف چلی آتی ایک مزاحمتی تحریک کے ضمن میں
جہاد- مزاحمت
جہاد- قتال
حامد كمال الدين
صلیبی قبضہ کار کے خلاف چلی آتی ایک مزاحمتی تحریک کے ضمن میں حامد کمال الدین >>دنیا آپ۔۔۔
یہ "سیزفائر" یا "جان بخشی" کی خوشی نہیں، دانش گرو!
جہاد- مزاحمت
احوال-
حامد كمال الدين
یہ "سیزفائر" یا "جان بخشی" کی خوشی نہیں، دانش گرو! حامد کمال الدین فلسطینی قوم کی خوشیوں پر ۔۔۔
سلفی دیوبندی جماعتی خلافتی "معارک" کے چند ایس او پیز
جہاد- تحريك
حامد كمال الدين
سلفی دیوبندی جماعتی خلافتی "معارک" کے چند ایس او پیز حامد کمال الدین ایک کام کر لیں، میرا خ۔۔۔
كامياب داعيوں كا منہج
جہاد- دعوت
عرفان شكور
كامياب داعيوں كا منہج از :ڈاكٹرمحمد بن ابراہيم الحمد جامعہ قصيم (سعودى عرب) ضرورى نہيں۔۔۔۔ ·   ضرور۔۔۔
’دوحہ‘ اہل اسلام کی ’جنیوا‘ سے بڑی جیت، ان شاء اللہ
جہاد-
احوال-
حامد كمال الدين
’دوحہ‘ اہل اسلام کی ’جنیوا‘ سے بڑی جیت، ان شاء اللہ حامد کمال الدین ہمیں ’’زیادہ خوش نہ ہونے۔۔۔
اسلامی تحریک کا ’’مابعد تنظیمات‘‘ عہد؟
جہاد- تحريك
تنقیحات-
حامد كمال الدين
اسلامی تحریک کا ’’مابعد تنظیمات‘‘ عہد؟ Post-organizations Era of the Islamic Movement یہ عن۔۔۔
کشمیر کےلیے چند کلمات
جہاد- مزاحمت
احوال- امت اسلام
حامد كمال الدين
کشمیر کےلیے چند کلمات حامد کمال الدین برصغیر پاک و ہند میں ملتِ شرک کے ساتھ ہمارا ایک سٹرٹیجک معرکہ ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز