عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
جوازِ اقتدار (لیجی ٹی میسی) اور ہیومنسٹ جاہلیت
:عنوان

فرمایا: ’’وہ تمہیں مبغوض ہوں اور تم ان کو مبغوض ہو‘‘۔ یعنی ایک سو فیصد ’غیرجمہوری حکمران؛ (اَن پاپولر) جولوگوں کو پسند ہی نہیں؛ اور جو اُن پر ظلم زیادتی تک کر لیتا ہے؛ مگر شریعت کی رِٹ اس کے ہاتھوں قائم ہے

. باطلنظام :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ابن تیمیہ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پر تعلیق 29[1]

جوازِ اقتدار legitimacy  اور ہیومنسٹ جاہلیت

یہاں ہم ابن تیمیہؒ کے متن[2] میں وارد اُن دو حدیثوں پر جو غیر مقبول unpopular  اُمراء کی اطاعت فرض ٹھہراتی ہیں، قاری کی توجہ چاہیں گے:

وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِﷺ بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَقُولُ: وَلَوْ اسْتَعْمَلَ عَبْدًا يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا۔

صحیح مسلم میں ام الحصین سے روایت ہے، کہ انہوں نے رسول اللہ کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگرچہ تم پر ایک غلام[3]    کو والی کیوں نہ بنایا گیا ہو جو تم کو کتاب اللہ کے مطابق چلائے، تو سمع و اطاعت ہی کرو۔

یہ ہے ’’يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کی آئینی حیثیت: سمع و اطاعت۔ اسلام میں ’’جواز‘‘ legitimacy  کی اصل بنیاد یہ ہے، یعنی شریعت کی رِٹ قائم ہونا۔ چنانچہ آپ یہاں حدیث میں دیکھتے ہیں... اگر ’’يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کی شرط پوری ہو رہی ہے تو مسلم والی کی اطاعت سردست فرض ہے۔ وہ والی کس طرح اقتدار میں آیا، یہ بات اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود ایک ثانوی مسئلہ ہےجس کی شریعت میں اپنی جگہ تفصیل ضرور ہے (شریعت میں زبردستی حکمران بننے کی باقاعدہ ممانعت ہے اور خاص حدود اور قیود کے تحت امت کے علماء، اصحابِ رائے اور قضاۃ وغیرہ اُس والی کو ہٹا بھی سکتے ہیں، یا امت کو اس معاملہ میں کوئی ہدایات بھی جاری کرکے دے سکتے ہیں) [4]  مگر ’’يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کے مقابلے پر ہے وہ ایک ثانوی مسئلہ۔ کیونکہ جماعتِ مسلمہ کا اصل دردِ سر ہی یہ ہے یعنی اجتماعی امورِ زندگی کتاب اللہ کی رُو سے چلیں؛ کیونکہ اِس کے بغیر جماعت کی موت ہے اور بطور ’’آسمانی امت‘‘ اس کا امتیاز ہی چلا جاتا ہے۔ اِدھر ہمارے اِس جدید ملغوبے میں جو اِس وقت عام جپا جاتا  ہے  legitimacy   کا سرچشمہ عوامی ہڑبونگ سے منتخب ہوکر آنا ہے، ’’يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ ثانوی مسئلہ ہے (اگر ہے!)۔ ’جائز حکومت‘ اور ’ناجائز حکومت‘ کا تمام تر تعلق اس کے ’منتخب‘ یا ’غیرمنتخب‘ ہونے سے ہےنہ کہ اس بات سے کہ کتاب اللہ کی جانب اُس حکومت کا رخ ہے یا اُس کی پشت! یہ وجہ ہے کہ ’’غیرمنتخب‘‘ ہونے کی صورت میں حکمران کے حقِ حکمرانی کو کالعدم ٹھہرانے کی رِٹ تو لوگوں کو (بلکہ خود اسلام پسندوں کو!) بآسانی سمجھ آ سکتی ہے لیکن یہ رِٹ کہ کتاب اللہ کو قائم نہ کر رکھنے کے باعث حکمران معاشرے میں اپنا جوازِ اقتدار  legitimacy سوفیصد  کھو چکا ہے، ایک ہکابکا ہوکر سنی جانے والی چیز ہے، حتیٰ کہ اچھے اچھے فضلاء کے ہاں بھی! کتاب اللہ کی یہ حیثیت تھوڑی ہے کہ یہ  legitimacy  ہی کی بنیاد ہوجائے...!

عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں...!

*****

 وَفِي رِوَايَةٍ: عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ۔

ایک روایت میں الفاظ ہیں: نکٹا حبشی غلام کیوں نہ ہو

ایک بڑی آفت یہ ہے کہ آپ اپنے دور کے رجحانات کی ’روشنی‘ میں نصوصِ کتاب وسنت کا مقصود متعین کریں!

اوپر ’’نکٹے حبشی غلام‘‘ کا ذکر ہوا.. جو اگر کسی وقت امیر مقرر کر دیا جائے تو ایک خاندانی مسلمان کو بھی اس کی اطاعت ہی کرنا ہوگی۔ اِدھر  دورِحاضر کے ’جمہوری‘ ذہن کی کارفرمائی دیکھئے: حبشی غلام والی اِس حدیث کے اصل مدعا کو پیچھے کر کے اِس کے چند فرعی مطالب ہی کو حدیث کا اصل مضمون ٹھہرا دیا! احادیث سے ’جمہوریت اور مساوات‘ کشید کرنے والے جدت پسند اِس حدیث کو صرف ’انسانی برابری‘ کی  دلیل ٹھہراتے رہے کہ دیکھو کس طرح شریعت نے ’طبقاتی فرق‘ کو ختم کر ڈالا[5]؛ یہاں تک کہ ایک حبشی غلام بھی قریشی سردار کی طرح امیر ہوسکتا ہے! (یا قریش کے مقابلے پر ’الیکشن‘ لڑسکتا ہے؛ کیونکہ خلافت میں اصل چیز ’الیکشن‘ ہے!!!) حالانکہ حدیث کا اصل مضمون ’’کتاب اللہ‘‘ کو لاگو کر رکھنے کی دھاک بٹھانا ہے؛ اور خاص اِس بنیاد پر اطاعتِ نظم کی اہمیت اجاگر کرنا۔ یعنی کسی بھی نظم کی اطاعت نہیں بلکہ اُس نظم کی اطاعت ’’جو تمہیں کتاب اللہ کی رُو سے چلائے‘‘ (روایت کے الفاظ پیش نظر رہیں: وَلَوْ اسْتَعْمَلَ عَبْدًا يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا)۔  ہاں جس نظم میں ’’تمہیں کتاب اللہ کی رُو سے چلایا‘‘ جائے، اُس کی ناگوار سے ناگوار صورت کی بھی تمہیں پروا نہیں کرنی؛ بلکہ فریضۂ شرعی جان کر اُس کی اطاعت کرنی ہے۔

اب ان ’’ناگوار‘‘ صورتوں کی بعض مثالیں دی جا رہی ہیں، ایک اِس حدیث میں:

’’وہ نکٹا حبشی غلام کیوں نہ ہو‘‘۔

اسی حدیث کی ایک روایت میں: ’’خواہ اس کا سر منقے جیسا کیوں نہ ہو‘‘۔

یعنی ایک غیر مقبول unpopular  معاملے کی آخری ترین صورت، جس کو بدلنا بیچارے غلام کے بس میں بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایک ایسا شخص عربوں کے ہاں بطورِ حکمران کبھی پسندیدہ نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ عرب معاشرہ خاندانی بندھنوں پر قائم ایک معاشرہ تھا؛ اور جبکہ کسی قوم کی سماجی بُنتی social fabric کو چھیڑنا اسلام کے اصولوں میں شامل نہیں۔ سماجی عمل میں اَنساب کو اپنی جگہ ایک اہمیت حاصل ہونا (گو وہ ’’دین‘‘ پر مقدم نہیں ہے)، ایک مضبوط خاندانی پس منظر کا اعتبار کرنا اور خاندانی وجاہت کا امیر کے قابل قبول ہونے میں ایک درجہ مؤثر ہونا اُن معلوم سماجی حقیقتوں social realities   میں سے ایک ہے جن کا اسلام نے باقاعدہ اعتبار کیا ہے... ؛ خلیفۂ اول نے خلافت کو قریش میں محصور ٹھہرانے کے موضوع پر انصار کو جہاں حکمِ نبوی سنایا کہ ’’امراء قریش سے ہی ہوں گے‘‘، وہاں اس کی یہ توجیہ بھی ذکر فرمائی کہ قریش کے سوا کسی کو عربوں میں یہ حیثیت حاصل نہیں کہ وہ سب کے سب خوشدلی کے ساتھ اس کو اپنے حکمران کے طور پر قبول کرلیں۔[6]

یہ ہوئی ناقبول حکمران unpopular ruler  کی ایک مثال۔

ایک دوسرے انداز کی ناقبول صورت اس سے اگلی حدیث میں آتی ہے (متن ابن تیمیہ):

 وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ قَالَ: خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا؛ مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ لَا؛ مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ أَلَا مَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةٍ فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ۔                    (رقم 1855)

صحیح مسلم میں عوف بن مالک سے روایت ہے، کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’تمہارے بہترین ائمہ (والی) وہ ہوں گےجو تمہیں محبوب ہوں اور تم ان کو محبوب ہو، تم ان کےلیے دعاگو رہو اور وہ تمہارے لیے دعاگو رہیں۔ جبکہ تمہارے بدترین ائمہ (والی) وہ ہوں گے جو تمہیں مبغوض ہوں اور تم ان کو مبغوض ہو، تم ان پر لعنتیں کرو اور وہ تم پر لعنتیں کریں‘‘۔ ہم نے عرض کی: اگر ایسا وقت آجائے تو کیا ہم تلوار کے ساتھ ان کے مقابلے پر نہ آجائیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تاوقتیکہ وہ تم میں نماز قائم کیے رکھیں تب تک نہیں۔ نہیں، تاوقتیکہ وہ تم میں نماز قائم کیے رہیں تب تک نہیں۔ خبردار! تم میں سے جس پر کوئی ایسا والی مقرر ہو اور وہ دیکھے کہ والی خدا کی نافرمانی کا کوئی کام کرتا ہے تو اُسے چاہئے کہ والی کے اُس کام کو جو خدا کی نافرمانی ہے ناپسند ہی جانتا رہے، مگر (اس کی) اطاعت سے ہرگز ہرگز ہاتھ نہ کھینچے‘‘۔

چنانچہ یہ ناقبول صورت یہ ہے کہ امراء کی کچھ بری خصلتوں کے باعث لوگ ان کو ناپسند کریں۔ فرمایا: ’’وہ تمہیں مبغوض ہوں اور تم ان کو مبغوض ہو‘‘۔ یعنی ایک سو فیصد ’غیرجمہوری‘ unpopular   حکمران؛ جولوگوں کو پسند ہی نہیں؛ اور جو اُن پر ظلم زیادتی تک کر لیتا ہے؛ مگر شریعت کی رِٹ اس کے ہاتھوں قائم ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک برا امیر ہے۔ خود اُس کے حق میں یہ گناہ ہی ہے کہ وہ مسلمانوں کا امیر رہے جبکہ وہ اُسے ناپسند کرتے ہوں۔  تاہم لوگوں کے حق میں اِس حدیث کی رُو سے پھر بھی اُس کی اطاعت کرنا ہی فرض ہے، جب تک کہ ’’وہ تمہارے مابین نماز قائم کرواتا رہے‘‘۔

چنانچہ آپ دیکھتے ہیں’جمہوری کلچر‘ کی درآمد نے ہمارے تصورات بلکہ ہماری تفسیراتِ دین تک کو مسخ کر ڈالا۔ یہاں ہمارے ’جدید اسلامی ڈسکورس‘ کی رُو سے:

à     ایک ’غیر جمہوری‘ حکومت تو ہر حال میں ناقابل قبول ہے؛ اور اس کے خلاف تو لازماً اٹھ کھڑے ہونا چاہئے (کس دلیل سے؟ معلوم نہیں؛ شاید اس پر کوئی ’اجماع‘ وغیرہ ہو!) اگرچہ وہ ’غیرجمہوری‘ حکومت نورالدین زنکیؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، ارنگزیب عالمگیرؒ یا دیگر بہت سے نیک سیرت و عادل مسلم حکمرانوں کی طرح (مجموعی طور پر) شریعتِ محمدیؐ  کو نافذ کیے ہوئے کیوں نہ ہو}کیا کریں جب وہ ایک ناجائز illegitimate حکومت ہے (عوام کا مینڈیٹ لے کر نہیں آئی)!{۔

à     البتہ ایک ’جمہوری‘ حکومت حق ہے اور واجبِ اطاعت ہے اگرچہ وہ شریعتِ انگریزی کو نافذ کیے ہوئے کیوں نہ ہو! } کیا کریں جب وہ ایک جائز legitimate حکومت ہے (یعنی اُسے عوام کا ووٹ حاصل ہے) تو وہ شرعِ خداوندی کے ساتھ جو بھی کرے ہم اُس کو ’ناجائز‘ کیسے کہہ دیں؟ زیادہ سے زیادہ، ہم اُس سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرلیں گے اور وہ ہم کرتے ہیں لیکن اس کے ’جواز‘ ہی کو چیلنج کردیں، اس کی کیا دلیل ہے؟ اُس کو ’’ناجائز‘‘ تو ہم اُسی وقت کہہ سکیں گے نا جب اُس کے ہاتھ میں عوام کی پرچی نہ ہو!{

یعنی  legitimacy  کی وہ اصل بنیاد کیا ٹھہری (جس کے آگے جوازِ اقتدار کی باقی ہر بنیاد ہیچ ہو)؟

à     ہمارے جدید اسلام پسند اس کا جواب دیں گے: ’’عوام کے ہاتھوں منتخب ہوا ہونا‘‘۔ عوام سے ملی ہوئی سند پاس رکھنا۔

à     جبکہ ہمارے فقہاء کا روایتی اسلامی ڈسکورس اس کا جواب دے گا: مسلم شیرازہ کو مجتمع، اسلامی حرمتوں کو قائم اور شرعِ اسلام کو حکمران رکھنا۔ (يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ)

(فقہاء کے کلام کی صحت پر اوپر شروع میں مذکور حدیث بذاتِ خود شاہد ہے)۔

شرعِ انگریز کی اقامت کو ہمارے ماڈرنسٹ اسلام پسند آج کی حکومتوں کا ایک ’بہت بڑا عیب‘ شمار کرلیں گے (جس طرح زبردستی حکمران بننے کو فقہائے اسلام ماضی کی حکومتوں کا ایک ’’بہت بڑا عیب‘‘ شمار کرتے رہے ہیں)۔ لیکن اصل سوال یہی رہے گا کہ وہ ایک اصل چیز کیا ہے جو ہر مفاہمت سے بالاتر مانی جائے؟

اس ’’ایک اصل چیز‘‘ کا تعین کرنے کے سوال پر:

à     ہمارا جدید ڈسکورس کہے گا: عوامی مینڈیٹ۔

à     جبکہ ہمارا روایتی فقہی ڈسکورس کہے گا: اقامتِ دین۔

یہ ہے وہ اصل نکتہ جہاں سے ہردو فریق کے کانٹے الگ ہوتے ہیں؛ ورنہ نہ تو ہمارے ماڈرنسٹ اسلام پسند شرعِ اسلام کی پامالی کو کبھی ’اچھا‘ کہیں گے اور نہ ہمارے دورِ قدیم کے فقہاء نے لوگوں پر زبردستی حکمران بن بیٹھنے کو کبھی ’اچھا‘ کہا ہے! [7]

 

 



[1]   ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل دوم، حاشیہ  29، 30، 31، 32۔

[2]   ابن تیمیہ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ سے متعلقہ عبارت کا متن:

نبیﷺ نے ولی الامر کی اطاعت میں رہنے کا حکم دیا ہے اگرچہ حبشی غلام کیوں نہ ہو، جیساکہ صحیح مسلم میں نبیﷺ کا حکم ہے:

اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔

سمع و اطاعت پر کاربند رہو اگرچہ ایک حبشی غلام جس کا سر منقے جیسا ہو تم پر والی مقرر کیا گیا ہو۔

وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا؛ وَلَوْ كَانَ حَبَشِيًّا مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ۔

ابو ذر سے روایت ہے، کہا: میرے پیارےﷺ نے مجھے تلقین فرمائی تھی کہ: ’’سمع و اطاعت کا پابند رہنا، اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہو جس کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں‘‘

وَعَنْ الْبُخَارِيِّ: وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔

بخاری کی روایت میں: ’’اگرچہ ایسے حبشی (کی اطاعت کرنی پڑے) جس کا سر منقے جیسا ہو‘‘

[3]   فقہاء کے بیان میں آپ بکثرت دیکھتے ہیں، ایک غلام کا والی بننا ویسے شرعاً نادرست ہے۔

[4]   یعنی ایسا نہیں کہ زبردستی حکمران بن بیٹھنے پر شریعت کو اعتراض نہیں ہے، یا زبردستی حکمران بننے والے شخص کے خلاف امت اور اس کے اہل حل و عقد اصولاً کوئی کارروائی کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور اس کو لازماً قبول ہی کیا جانا ہے۔  مقصد صرف یہ  ہے کہ ہر سیاسی نظام میں اُس ’’سب سے بڑی اور مرکزی‘‘ چیز کا تعین کیا جاتا ہے جس پر دوسری اشیاء کسی نہ کسی درجے میں قربان کی جاسکتی ہوں لیکن اُس پر کوئی آنچ آنا کسی قیمت پر قبول نہ ہو۔ اسلام میں یہ حیثیت ’’شریعت کی رِٹ‘‘ کو حاصل ہے، جبکہ ماڈرن سٹیٹ میں یہ حثییت ’’عوام کی رِٹ‘‘ کو۔

[5]   حالانکہ اگر آپ حدیث کا مطالعہ کریں تو اس کا سیاق ہی یہ نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ یہاں عرب نخوت پر ایک چوٹ بھی پڑتی ہے ؛ لیکن یہ بات حدیث کے فرعی مطالب میں آئے گی۔

[6]   بخاری میں حضرت ابوبکر﷛ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں:

وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ العَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا

جبکہ مصنف ابن عبد الرزاق اور صحیح ابن حبان کے الفاظ ہیں:

وَلَنْ تَعْرِفَ الْعَرَبُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا۔

مراد ہے:

اِس امارت کو عرب کسی اور کےلیے مان کر نہیں دیں گے سوائے اِس قریش کے قبیلے کے؛ یہ عربوں میں سب سے چنیدہ ہیں بطورِ نسب اور بطورِ قبیلہ۔

بخاری کی شرح میں ابن بطالؒ نے ابوبکر﷛ کے استعمال کردہ لفظ ’’وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الأَمْرُ‘‘ کے حوالے سے نوٹ کروایا ہے کہ:

والمعروف هو الشىء الذى لا يجوز خلافه. وهذا يدل أنه لم يختلف فى ذلك على عهد النبى ولو اختلف فيه لعُلم الخلاف فيه، والمعروف ما عرفه أهل العلم وإن جهله كثير من غيرهم كما أن المنكر ما أنكره أهل العلم

معروف وہ چیز ہے جس کے خلاف چلنا جائز نہ ہو۔ اور یہ (ابو بکرؓ   کا لفظ  يُعْرَفَ  استعمال کرنا) اس بات پر دلیل ہے کہ عہدِ نبوت میں یہ مسئلہ ہرگز اختلافی نہ تھا؛ اگر اِس پر اختلاف ہوتا تو وہ معلوم ہوجاتا۔ معروف اُس چیز کو کہیں گے جو اہلِ علم کے ہاں معروف ہو اگرچہ بہت سے غیر اہل علم اس سے جاہل ہوں، جس طرح منکر اُس چیز کو کہیں گے جو اہل علم کے ہاں منکر ہو۔

[7]   نوٹ: سلطانِ متغلِّب (زبردستی اقتدار میں آنے والے) کی بابت زیادہ تفصیلی گفتگو فصل 39 میں کی گئی ہے (تاحال شائع نہیں ہوئی)۔

Print Article
  سیاسۃ شرعیۃ
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز