ناموس رسالت اور ہمارے دیسی لبرلز
دانشورانہ
منافقت یا منافقانہ دانشوری؟
ابوزید
abuzaid@eeqaz.org
وفاقی
وزییر غلام احمد بلور نے توہین رسالت پر مبنی فلم کے امریکی فلم سازکے سر پر ایک
لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ اس پر وفاقی حکومت کا مؤقف دیکھیں.
حکومت نے گستاخانہ فلم کے امریکی مصنف کو قتل کرنے پرانعام دینے کے
وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم
ہاوٴس کے ترجمان شفقت جلیل نے اتوار کو بتایا کہ بیان اور اعلان کے حوالے سے
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی خان سے بات
کریں گے
اب
دیکھیں کہ خیبر پختون خواہ حکومت کا کیا مؤقف کیا ہے۔
پارٹی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ یہ بیان اے این پی کی
قیادت کیلئے تشویش کا باعث بنا ہے کیونکہ یہ جماعت کی ”عدم تشدد“ کی پالیسی کے
منافی ہے۔ ”انہوں نے یہ بیان دیگر مسلمانوں کی طرح جذبات میں آکر دیا ہوگا۔ یہ ان
کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے مگر پارٹی کی نہیں۔ اے این پی کا اس سے کوئی سروکار
نہیں“
یہ بھی
دیکھ لیجئے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے ریلوے غلام
احمد بلور کے انتہا پسندانہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے
کہ غلام احمد بلور اپنے انتہا پسندانہ الفاظ واپس لیں یا اپنی وزارت سے مستعفی
ہونے کا اعلان کریں۔ ایک بیان میں رابطہ کمیٹی نے کہا کہ غلام احمد بلور نے نبی
کریم ﷺکی شان کیخلاف گستاخانہ فلم بنانے والے کے قتل اور قاتل کیلئے انعام کااعلان
کرکے پوری دنیا میں پاکستان کو تنہا اور بدنام کرنے کا گھناوٴنا عمل کیا ہے ۔
انہوں نے جن انتہا پسندانہ خیالات کااظہار کیا ہے وہ لبرل اوراعتدال پسند
پاکستانیوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ رابطہ کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ وفاقی
وزیرغلام احمد بلور پوری قوم سے معافی مانگ کراپنے انتہا پسندانہ الفاظ واپس لیں۔
یہ خبریں
ہیں مذکورہ وزیر کے توہین رسالت کے مرتکب کے قتل پر اعلان کے ردعمل سے متعلق۔ اب
کچھ اورپیچھے چلے جائیں اور یاد کریں کہ مسیحی لڑکی رمشا پر جب قرآن کے اوراق کی
توہین کا الزام لگا تھا تو کیا ہوا تھا اور کسی طرح کی خبریں اور تبصر آرہے تھے۔
کون نہیں
چاہے گا کہ توہین رسالت قانون کا غلط استعمال روک دیا جائے؟ کون نہیں چاہے گا کہ
جو لوگ اس قانون کا غلط استعمال کریں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے؟ ہمارے معاشرے
میں الحمد للہ ایسے سلیم الطبع افراد موجود ہیں جو ہر قسم کے تعصب کو پرے رکھ کر
کسی صورت حال کا تجزیہ کرکے معقول ترین بات قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔ خبریں آئیں کہ
مسیحی لڑکی جس پر قرآن کی توہین کا الزام لگایا گیا اس کی عمر صرف گیارہ سال ہے
اور پھر خبریں آئیں کہ وہ ذہنی طور پر معذور ہے، پھر خبر آئی کہ کسی مولوی صاحب نے
جان بوجھ کر کسی دینی کتاب کے اوراق رکھ کر جھوٹا الزام لگوایا۔ ایسے میں ہر
سمجھدار ، معقول اور دیندار شخص کا پریشان ہونا لازمی ہے۔ ایسی ہی خبروں کو بنیاد
بنا کر کب سے توہین رسالت کے قانون کے خلاف ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کچھ لوگوں کو ان واقعات کے پیش نظر یہ بھی غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ توہین رسالت
قانون کی مخالفت کرنے والے سچ مچ انصاف کے علمبردار ہیں اور اسی وجہ سے اس قانون
کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ابھی کچھ
عرصہ ہی گذرا کہ امریکہ میں نبی اکرم ﷺ کی توہین پر مبنی فلم بننے کی خبر
آئی اور دیکھتے ہی دیکھے سارا عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ عرب بہارئیے کی
وجہ سے اس بار کا احتجاج کچھ الگ ہی رنگ لئے ہوئے تھا، احتجاج کے ابتدائی مرحلے
میں ہی لیبیا میں امریکہ سفیر مارا گیا جس کی وجہ سے ہی توہین رسالت پر مبنی فلم
کی خبر تیزی سے پھیل گئی۔ عالم اسلام کی نئی سیاسی صف بندی کی وجہ سے امریکی صدر
اوبامہ اور خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن تک نے آزادی اظہار کے "غلط
استعمال" کی مذمت کی۔ پھر جو پاکستان میں احتجاج شروع ہوا تو ایک مخصوص طبقے
کی توجہ تشدد کو ہائی لائٹ کرنے اور لاشیں گننے تک ہی محدود رہی۔ پورا زور صرف اس
پر رہا ہے کہ احتجاج کتنا پرتشدد تھااور اس بات کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا کہ
احتجاج کتنا پرشکوہ اور پر امن تھا ۔ میڈیا کی پوری دلچسپی یہی ثابت کرنے میں رہی
کہ احتجاج کے کیا نقصانات ہوئے۔غالباً پاکستانی میڈیا کا اصل کام لاشیں گننا ہی
ہے۔
اسی
دوران خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ریلوے نے مذکورہ فلمساز کے سر
پر ایک لاکھ ڈالر کا اعلان کردیا۔ قطع نظر اس سے کہ موصوف کی نیت اس سلسلے میں کیا
تھی، برسر اقتدار سیکولر اتحاد کا رد عمل قابل دید تھا۔ فوراً اپنے مغربی آقاؤں
یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کا اس اعلان سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حکومت
اس کی مذمت کرتی ہے۔ ایک بھتہ خور مافیا جیسی سیاسی تنظیم جس کی پہچان ہی بوری بند
لاشیں ہیں نے اس اعلان کی مذمت کرنے میں تھوڑی سی بھی دیر نہیں کی۔ کہنے کو میڈیا
میں امریکی فلم کی مذمت بھی ہوتی رہی ہوگی، مگر اب جو بلور کے بیان کی مذمت سامنے
آئی اور اس پر جو آہ وفغاں سنی گئی تو معلوم ہوا، مذمت اصل میں اس کو کہتے ہیں!
اس پورے
معاملے میں دیسی لبرل کا کردار انتہائی مشکوک رہا۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ
آزادی اظہار کا قانون "حق"ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس
قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ بالکل یہی مسئلہ پاکستان کے توہین رسالت کے
قانون سے متعلق رہا ہے۔ اس قانون کے غلط استعمال کی بنیاد پراس قانون کو ہی ختم
کرنے کی بات ہوتی رہی۔ لیکن جب آزادی اظہار کے قانون کے غلط استعمال کی بات ہوتی
ہے تو مسلسل اس قانون کا دفاع کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان
میں توہین رسالت کے غلط استعمال کا تعلق انتظامیہ اور پولیس کی نالائقی ہے اور اس
کے باجود قانون پر ہی شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی ۔ مغرب
میں آزادیِ اظہار کے غلط استعمال کا تعلق ان کے اپنے نظریے میں پائے جانے والا سقم
ہے ۔ اب پتہ چلا کہ آزادی اظہار کا قانون دنیا کا واحد قانون ہے جوباقاعدہ
اس قانون کے غلط استعمال کی بھی "قانونی "اجازت دیتا ہے۔ اتنا ہی نہیں
بلکہ حکمرانوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے وہ کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے
والے کےآگے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ مغرب کی سرکردہ شخصیات نے اس قانون
کے غلط استعمال کی مذمت تو کی ہے لیکن اس قانون میں پائے جانے والے اتنے بڑے جھول
کی نہ مذمت کی ہے اور نہ اس جھول کو تسلیم کیا ہے۔
اب تک
مسلمانوں پر بحمدللہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آزادی رائے کا نظریہ اور مغرب میں اس
کی عملی شکل دراصل مغرب کے اپنے اندر پائے جانے والے کچھ تناقضات کی نتیجہ ہے۔ یہ
نظریہ تبھی چل سکتا ہے جب مغرب کو ایک محصور اور بند نظام کے طور پر دیکھا جائے جو
اپنے سے بیرونی دنیا سے تفاعل نہیں کرتا۔ اب چونکہ مغرب کے اپنے کارناموں سے یہ
دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر رہی تو مغرب اپنی سماجیات اور سیاسیات میں وہ
پختگی پیدا نہیں کر پارہا ہے جو اس بدلتی صورت حال کو سلجھا سکے۔
ڈھونڈ نے
والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے
افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
وہ اپنے
پرانے نظریات پر اسی طرح مصر ہے جس طرح یورپ کے تاریک دور میں کلیسا بائبل کی کچھ
خاص تشریحات پر مصر تھا۔ بالفاظ دیگر مغرب جو کہ ہر قسم کے مقدسات کو رد کرنے کا
عادی تھا اس کے لئے اب اپنے پرانے نظریات مقدسات کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اس
میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنا ان کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشرق کے کسی فرد
کے لئے اپنے آباء واجدا د کا مذہب چھوڑنا۔
یہ تو
رہی اصلی مغربیوں کی بات، مقامی لبرل دانشور جن کو رمشا کی گرفتاری سے شدید ذہنی
تکلیف پہونچی تھی انہیں توہین رسالت کے اس واقعے سے کوئی تکلیف پہونچتی نظر نہیں
آئی۔ اس بارے میں ہمارے دیسی لبرل شاید شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ مغرب میں
کم از کم اس نظریے اور قانون کے غلط استعمال پر ہی سہی کچھ نہ کچھ کہا گیا لیکن ان
نابغہ روزگار دانشوروں کے نزدیک غالبا مغربی نظریات کی حیثیت مقدسات کے اس باب میں
شامل ہے جن پر ایک لفظ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا
کہ مسلمانوں کے نزدیک ناموس رسالت کا مسئلہ جتنا نازک اور تقدس بھرا ہے ان کے
نزدیک حقوق انسانی اور آزادیِ اظہار کا معاملہ اس سے بھی زیادہ تقدس کا حامل ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمان اپنے تقدسات کے لئے قربانیاں دینے سے نہیں چوکتا، مغربی
ممالک اپنے ان عقائد سے روایتی لگاؤ کی خاطر بین الاقوامی سیاست میں تھوڑی بہت
قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوجاتے ہیں لیکن لبرلزم کے مقامی مجاور اپنے مقدسات
پر نذرانے وصول کرنے کی حد تک ہی وفادار نظر آتے ہیں۔
مسلمانو!
خود فیصلہ کرلو کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے اسلامی مقدسات کو مسلسل نظر انداز
کرنا اور مغرب کے مقدسات کا رونا رونا اور ان کی پائمالی پر "دینی" حمیت
کا اظہار کرنا اور سرعام کرنا اور بار بار یہی کرتے جانا اور ان مقدسات میں کسی
سقم کو تسلیم نہ کرنا قران میں بیان کردہ کس ٹولے کا طرز عمل ہے؟
ایقاظ کی
ناموسِ رسالت مہم میں حصہ لیجئے۔ اس سائٹ سے مواد اٹھائیے اور سوشل میڈیا پر
پھیلائیے۔