فص18
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
کفار کے تہوار.. اور حدیث ابوہریرہؓ و حذیفہؓ
عَنْ
أبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّﷺ یَقُوْلُ: نَحْنُ الآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، بَیْدَ أنَّہُمْ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا،
وَأوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِھِمْ ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فَرَضَ اللّٰہُ
عَلَیْہِمْ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہٗ، فَالنَّاسُ لَنَا
فَیْہِ تَبْعٌ: الْیَہُوْدُ غَداً وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ.
(متفق علیہ)
ابوہریرہ
ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺکو فرماتے سنا: ’’ہم (دنیا میں) میں آخری ہیں اور
قیامت کے روز پہلے۔باوجود اس کے کہ اُن کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہمیں اُن کے
بعد، دن اُن کا بھی یہی (جمعہ) تھا جو اُن پر فرض کیا گیا، تو اُنہوں نے اس کے
معاملے میں اختلاف کر لیا، تب اللہ نے ہمیں اس کی راہنمائی کردی۔ پس لوگ ہمارے
پیچھے ہوں گے، یہود کل، تو نصاریٰ پرسوں‘‘
وَفِیْ
حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَؓ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: أضَلَّ اللّٰہُ عَنِ
الْجُمْعَۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ
لِلنَّصَاریٰ یَوْمُ الأحَدِ، فَجَاءَ اللّٰہُ بِنَا فَہَدَانَا لِیَوْمِ
الْجُمُعَۃِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالأحَدَ، وَکَذٰلِکَ ھُمْ تَبْعٌ
لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أھْلِ الدُّنْیَا،
وَالأوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِیُّ لَہَمْ _ وِفِیْ رِوَایَۃٍ بَیْنَہُمْ
_ قَبْلَ الْخَلَائِقِ. (رواہ مسلم)
حدیثِ
حذیفہؓ: فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو روزِ جمعہ سے
بھٹکا دیا، چنانچہ یہود کا ہفتہ ہوا، نصاریٰ کا اتوار۔ تب اللہ ہمیں لایا اور ہم
کو روزِ جمعہ کی ہدایت فرما دی اور (ترتیب) رکھی: جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ ایسے ہی وہ
قیامت کے روز ہم سے پیچھے ہوں گے۔ دنیا میں ہم آخری ہیں مگر قیامت کے روز ہم مخلوق
میں وہ پہلے لوگ ہوں گے جن کے مابین فیصلہ کیا جائے گا‘‘
یہاں؛ آپ دیکھتے ہیں ہفتہ وار
تہوار کے معاملہ میں امتوں کا اختصاص باربار کس وضاحت سے بیان ہوتا ہے۔ (لامِ
اختصاص کی تکرار پر ذرا غور کرو)۔ یعنی یہود کا، ہفتہ۔ عیسائیوں کا، اتوار۔
مسلمانوں کا، جمعہ۔ لغت میں: اگر تم کہو: ’یہ کپڑا رہا زید کا، یہ رہابکر کا، اور
یہ رہا عمرو کا‘... تو اس سے زید، بکر اور عمرو تینوں میں سے ہر ایک کے لیے الگ
الگ ایک کپڑا ہونے کا معنیٰ لازم آئے گا۔ اِسی کو اختصاص کہا جاتا ہے۔
لہٰذا؛ اہل جمعہ کا، اہل سبت
یا اہل اتوار کے ساتھ ’’شامل‘‘ ہونا آپ سے آپ باطل ہو جاتا ہے ورنہ اِس حدیث کا
کوئی معنیٰ باقی نہ رہے گا۔
تو پھر اگر ہفتہ وار عید کا یہ معاملہ ہے تو سالانہ عید کا یہ معاملہ
کیوں نہ ہوگا، بلکہ سالانہ عید کے لیے تو امتوں کا جوش و خروش کہیں بڑھ کر ہوتا
ہے۔
(کتاب کے صفحات
450 تا 453)
حدیث میں مسلمانوں کی جس ہفتہ وار عید کا ذکر
ہوا، اس کی مناسبت سے عالم اسلام میں ’جمعہ‘ اور ’اتوار‘ کی کشمکش بھی ملتوں کے
تباین distinction میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس حوالہ سے دیکھئے کتاب کے آخر میں ہمارا ضمیمہ
’’ملت اسلام کی ہفتہ وار عید اور نصرانی گلوبلائزیشن‘‘۔