فصل 15
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
اہل جاہلیت کے تہوار بطور ’کلچر‘.. اور حدیثِ انس
عَنْ أنَسٍ قَالَ: قَدِمَ
النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ
فِیْھِمَا فَقَالَ: مَا ھٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ
فِیْہِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بھِمَا خَیْراً مِنْھُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ
الْفِطْرِ۔
(أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم 1134۔
والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم 1556، وأحمد رقم 13622، وصححہ الألبانی فی تخریج
مشکاۃ المصابیح رقم 1439، وصحیح أبی داود رقم 1039)
روایت انس سے، کہا: نبیﷺ
مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے
فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں
ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید
الاضحی اور عید الفطر۔
(یہ بات نوٹ کی جائے: حدیث میں اہلیانِ مدینہ نے
اپنے ان دو تہواروں کی کوئی ’مذہبی‘ مناسبت religious significance سرے سے ذکر
نہیں کی؛ بلکہ بتایا: یہ ان کے کھیل تفریح کے کچھ مخصوص ایام جدی پشتی چلے آئے
ہیں۔ جدید زبان میں کہیں تو: ایک ’کلچرل‘ تہوار۔
بقیہ گفتگو اس حدیث پر اب ہم ابن تیمیہ سے سنتے ہیں):
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے
بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پورا اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا
اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ
نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر
چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپﷺ نے
لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ
بِھِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے
بہتر تہوار دے دیے ہیں‘‘۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے،
جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے
پچھلی چیز کا ترک خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی
چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا
پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور
احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر
نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر
اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انس کی حدیث میں جن دو
جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبیﷺکے یہ فرمادینے کے بعد
ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف
ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہواروں کا یکسر نابود ہو
جانا! ان کا کوئی ادنیٰ تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے
چلی آتی ایک چیز معاشرے میں یوں ختم ہوکر رہ جائے، کیا کوئی آسان بات ہے؟ ’تہوار‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں
اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال اس کا
انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک
نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے
دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر سوچو، اہل مدینہ نے نبیﷺکے الفاظ إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِهِمَا سے اگر ’’ممانعت‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ
کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک
چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت
کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ (یعنی نفوس میں ان جاہلی اشیاء کی بابت ایک قطعی ناگواری
پیدا کرا دینے کا ہی نتیجہ ہو سکتا تھا)؛ ورنہ ایسا معجزہ ایک معاشرے میں
بیٹھےبٹھائے یوں ہو جانا تو ممکن ہی نہیں۔
اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت
نہیں ہوتی، تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ نہ صرف شریعت سے ناواقف اور مقاصدِ شریعت سے نابلد
ہے بلکہ سماجیات سے بھی بالکل بےبہرہ ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا
سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک چیز اور سمجھ لو۔ مسلم
معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بےشک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن
ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں
احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر
کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا
سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد
زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا
خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے
لگیں۔
یہود و
نصاریٰ کی سنتیں یعنی انکے امتیازی طورطریقے (یہود و نصاریٰ کی تہذیب "طَرِيْقَتُكُمُ
الْمُثْلٰى") اور ان کے شعائر۔ ساری تنبیہ تو (احادیث میں)
اس سے ہوئی ہے!
(کتاب کے صفحات 432 تا 436)