عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
شریعت بذاتِ خود دستور ہے
:عنوان

:کیٹیگری
عرفان شكور :مصنف

شریعت بذاتِ خود دستور ہے

balance

تعلیق 19[1]

شریعت بذاتِ خود دستور ہے!

ابن تیمیہؒ نے مختصر جملوں میں کچھ نہایت اصولی اور بنیادی امور کی جانب ہماری راہ نمائی کردی ہے:

شرعِ آسمانی کا منصب،

امتِ آسمانی کی حقیقت، اور

زمینی وضعیman-made اشیاء کی حیثیت اور گنجائش۔

’’الجماعۃ‘‘ جوکہ زمین پر بسنے والی ایک آسمانی کمیونٹی ہے، ایک مستندترین عہدِ شریعتtestamentپاس رکھتی ہے___جس کے باعث یہ دنیا کی کسی قوم، کسی کمیونٹی اور کسی سوسائٹی پر قیاس نہیں ہوتی… اِس آسمانی جمعیت کے یہاں حلف برداری،انسانی اتفاق یا آئین نویسی کی کیا حیثیت ہے، ابن تیمیہ کی تقریر میں اسکا تعین ہوگیا:

راعی اور رعایا کے فرائض یہاں خدا کے طےکردہ ہیں؛ جن کو جاننے کےلیے انسانوں کو شرعِ خداوندی سے ہی رجوع کرنا ہوگا۔ حاکم اور پبلک کے مابین حقوق و فرائض کا انعقاد کسی کے حلف اٹھانے یا نہ اٹھانے یا کسی کے دستور وضع کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہوگا؛ یہ معاملات تو خدا نے خود نمٹا دیے ہیں اور شریعت کے ذریعے انسانوں کو اس کا علم دے دیا ہے۔[2]

نیز راعی یا رعایا کو ان فرائض کا پابند کرنا (binding) بھی راعی یا رعایا کے ’’حلف اٹھانے‘‘ یا ’’آئین بنانے‘‘ پر منحصر نہ ہوگا۔ ’’پابند ٹھہرانا‘‘(to bind) شریعت کا باقاعدہ منصب ہے۔ شریعت کا یہ منصب خدا کی شانِ فرماں روائی سے براہِ راست وابستہ ہے؛ اور خدا کی اِس شان اور حیثیت پر کائنات کا یہ پورا نظم بول بول کر گواہی دیتا ہے۔چنانچہ:

  • جس طرح خاوندی بیوی کے حقوق و فرائض خدا نے خود اپنی جناب سے طے کر ڈالے ہیں؛ لہٰذاخاوند بیوی کو اب یہ تکلیف نہیں کرنی کہ وہ اپنے تعلق کی نوعیت اور اس سے متعلقہ احکام کو خود اپنی مرضی اور مشاورت سے طے کریں،
  • جس طرح اولاد اور والدین کے باہمی حقوق و فرائض یا خونی رشتوں کے مابین حقوق و فرائض خدا نے خود اپنے پاس سے مقرر فرما دیے ہیں؛ اور اب ان کو یہ تردد نہیں کرنا کہ وہ اِس رشتے کی نوعیت اور اس کے احکام خود اپنے پاس سے وضع کریں،
  • جس طرح مالی عقد مانند بیع، اجارہ، ہبہ، رھن (گروی)، شفعہ، وقف،عاریہ، شراکت، مضاربت، مزارعت وغیرہ کے فریقین میں خدائی شریعت نے ضرورت کے سب امورطے کردیے ہیں؛ چنانچہ اِن امور سے متعلقہ احکام کو لوگ ازسرنو طے نہیں کریں گے بلکہ شریعت کے وضع کردہ احکام کو ہی اپنے لین دین میں حَکَم ٹھہرائیں گے۔علیٰ ھٰذا القیاس
  • اِن سب امور میں لوگوں کا اتفاق[3]نہیں بلکہ شریعت کا دستور چلے گا۔

عین اسی طرح راعی اور رعایا کے باہمی حقوق و فرائض بھی خدا نے آپ اپنی جناب سے مقرر فرما دیے ہیں۔ اِن باہمی حقوق و فرائض سے متعلقہ کسی بات پر آدمی نے حلف اٹھایا تب نہیں اٹھایا تب، اتفاق کیا تب اتفاق نہیں کیا تب، سماجی زندگی میں ان واجباتِ شرعیہ کا اُس کو پابند ہی کیا جائے گا۔ ہاں حلف اٹھانے سے ان فرائض کی تاکیدی حیثیت اُسکے حق میں ضرور بڑھ جائے گی۔

ہاں شریعت میں یہ آفاقیت اور یہ گنجائش ضرور ہے کہ ایک خاص دائرہ یہاں انسانی عقل و خرد اور انسانی فیصلہ و ارادہ کےلیے بھی چھوڑا جاتا ہے۔ اور بلاشبہ یہ کوئی چھوٹا دائرہ نہیں۔ چنانچہ شریعت انسانی خرد و ارادہ کو معطل کرنے نہیں آئی بلکہ انسانی خرد و ارادہ کو ایک متعین راستہ بنا کر دینے آئی ہے تاکہ یہ آوارگی سے بچے اور زمینی عمل میں اول تا آخر اپنے وجود کی غایت کی ہی پابند رہے۔

یہاں سے؛ یعنی خدائے علیم و خبیر کی شریعت کا پابند ہوجانے سے؛ انسانی خِرد و ارادہ کو وہ خوبصورت بنیاد اور وہ اعلیٰ توازن میسر آتا ہے کہ زمین پر ایک حسین تہذیب تخلیق ہونے لگتی ہے۔ (اسکی دنیا و آخرت فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيَاةً طَيِّبَةً کی مصداق ٹھہرتی ہے) یعنی انسانی جوہر بھی معطل نہ ہوا اور خدائی ہدایت و دستگیری بھی میسر رہی۔ خدائی حکمت اور انسانی دانائی؛ دونوں بیک وقت تہذیب کا ہاتھ پکڑنے کو موجود رہیں۔ اِس سے یہ ملت دیگر انسانی ملتوں کے مقابلے پر اور بھی منفرد اور ناقابلِ قیاس ہوجاتی ہے۔چنانچہ اِس ملت کو جب دیگر اقوام کے پیچھے چلنے سے روکا جاتا ہے تو دراصل یہ اِس کی تکریم ہوتی ہے اور اپنے مقام کو پہچاننے کےحق میں ایک تنبیہ۔ بالکل اُسی طرح جس طرح شاہی خاندان کے بچوں کو نوکروں کے بچوںایسے طور اطوار اختیار کرنے پر ہر وقت سرزنش ہوتی ہے! یہ بات صرف ایک باذوق شخص ہی کے سراہنے کی ہے کہ: شہزادوں اور خاندانی لوگوں پر ’عام لوگوں جیسا نہ ہونے‘ کے معاملہ میں اگر کوئی ’’ڈھیروں پابندیاں‘‘ ہوتی ہیں تو اِن ’’پابندیوں‘‘ کی اپنی ایک شان اورایک لطف ہے؛ اور یہ رتبۂ بلند ہر کسی کو نصیب نہیں!

*****

امام ابن تیمیہ﷫ کے دَور تک صرف ’’قسم‘‘ یا ’’حلف‘‘ اٹھانے کا فنامنا ہی مسلمانوں کے ہاں دیکھنے میں آیا تھا، جس پر امام﷫ نے ایک نہایت اصولی بنیاد واضح فرما دی:

  1. حلف کا مضمون اگر شریعت کی کسی بات سے متصادم ہے تو ایسا حلف تو سرے سے باطل ہے اور اُس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
  2. تاہم حلف کا مضمون اگر شریعت کی مقرر ٹھہرائی ہوئی کسی بات پر مشتمل ہے تو بھی اعتبار یہاں اُس حلف کا نہیں بلکہ ’’شریعت کی مقرر ٹھہرائی ہوئی بات‘‘ کا ہوگا۔ اُس نے وہ حلف نہ اٹھایا ہوتا تو بھی شریعت کی اُس بات کا وہی حکم ہوتا اور انسان سے اُس کا ویسا ہی مطالبہ ہوتا۔ ’قانونی طور پر‘ اِس مسئلہ کو کوئی بھی فرق نہیں آیا۔ حلف نے زیادہ سے زیادہ، اُس کے اپنے حق میں ایک بات کی تاکید کو بڑھا دیا ہے؛ اور بس۔

اب یہ دوسرا پوائنٹ ہمارے آج کے پیش آمدہ موضوع کے حوالے سے نہایت متعلقہ اور نہایت اہم ہے…

کسی کا حلف یا اتفاق اگر شریعت کے مطابق بھی ہے تو حوالہ بہرحال اُس کا حلف یا اتفاق نہیں ہوگا بلکہ حوالہخود شریعت ہوگی۔ یہ ہے توحید۔یہی ہے رسالت پر ایمان کی اصل دلالت: خدا اور رسول کا بذاتِ خود مرجع ہونا؛ یہ حیثیت کسی اور کی تحویل میں نہ جانے دینا۔

بنابریں… وہ چیز جسے اِس دور کے اندر انسان ساختہ ’آئین‘ یا ’کانسٹی ٹیوشن‘ کہا جاتا ہے، اُسکو ’’وضع‘‘ کرنا صرف اُن اقوام کی ’ضرورت‘تھی جن کے پاس ’’شریعت‘‘ نہیں۔ ’’شریعت‘‘ کے ہوتے ہوئے ’آئین‘ اور ’کانسٹی ٹیوشن‘ کی ضرورت جپنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو ’’شریعت‘‘ کے معنیٰ سے ناواقف ہیں۔ ’’شریعت‘‘ کا مطلب ’’دستور‘‘، ’’آئین‘‘ اور ’’قانون‘‘ کے سوا آخر کیا ہے؟[4] وقت کی آسمانی امت کی زندگی میں ’آئین سازی‘ اور ’دستور سازی‘!؟

درماندہ قوموں کی نقالی جو ’’شریعت‘‘ سے محروم ہیں؟!

’’مسلمان‘‘ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس قوم کے ہاں ’’شرعِ خداوندی‘‘ ہر چیز سے بالاتر رہے گی…. اور شرع ہی ہر چیز میں مرجع، آئین اور حوالہ۔

چنانچہ اگر کسی ’’شریعت‘‘ پر ایمان رکھنے والے نے اقوامِ مغرب کی تقلید میں ’آئین سازی‘ کی مصیبت پال ہی رکھی ہے، تو بالفرض اگر اس میں پائی جانے والی ایک آئینی شق شریعت کے منافی نہیں ہے… تو بھی آسمانی امت کی زندگی میں حوالہ وہ آئینی شق نہ ہوگی؛ بلکہ حوالہ شریعت کا اپنا ہی فرمان رہے گا یا زیادہ سے زیادہ، شریعت سے ہی ہونے والا کوئی ایسا استنباط اور استدلال جو شریعت کے مستند فقہاء کے ہاتھوں انجام پایا ہو۔

شریعت کی یہ حیثیت کہ مسلسل یہی مرجع رہے، یہی حوالہ، یہی باربار ریفر refer ہونے والی چیز، یہی مجلسوں، محکموں اور عدالتوں کے اندر بار بار کھلنے والی دستاویز، اور یہی ہر ہر جگہ اور ہر ہر موقع پر زبانوں کو خاموش کرانے والا وثیقہ، یہی نگاہوں کا مرکز، یہی مبتدا، یہی منتہا، یہی اول، یہی آخر؛ اسکے سوا لوگوں کےلیے کوئی حوالہ اور کوئی مرجع نہ ہو اور اگر ہو تو صرف وہاں ہو جہاں[5]شریعت خاموش ہے… شریعت کی یہ حیثیت مسلم معاشروں کے اندر اس کا حق ہے؛ اور شریعت کو اِس حیثیت سے محروم کرنا جہالت یا پھر زندقہ۔

مطلوب صرف یہ نہیں کہ خدا کی ایک بات پر عمل ہو؛ مطلوب یہ بھی ہے کہ اس پر عمل کا حوالہ یہ ہو کہ ’’یہ خدا نے فرمایا ہے‘‘۔ کیونکہ حوالہ اگر ’بشر کا پاس کرنا‘ بن جائے تو بشر تو خدا کے فرمائے ہوئے کو بھی ’پاس‘ کر سکتا ہے اور مزدوروں کے پیش کردہ ایک مطالبے کو بھی۔ بشر تو فلم انڈسٹری کی ایک فرمائش کو بھی ’’آئین‘‘ میں جگہ دے سکتا ہے! ’’عبادت‘‘ اِس کو تو نہیں کہیں گے! خدا کی ’’عبادت‘‘ اور خدا کو ’’معبود‘‘ ماننا تو یہ ہوگا کہ اُس کے فرمائے ہوئے کو بجائے خود آئین اور حرفِ آخر مانا گیا ہو۔ ’’ایمان‘‘، ’’بندگی‘‘ اور ’’اِذعان‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ یہ کہ: شریعت سے ناآشنا ایک جدید جاہلی معاشرے میں کسی چیز کو ’’آئین‘‘ بن جانے کے بعد جو حیثیت حاصل ہوتی ہےآپ کے ہاںخدا کے فرمائے کو وہ ’’حیثیت‘‘آپ سے آپ حاصل ہو۔ ورنہ ایمان نہیں۔ خدا کے فرمائے کو ’’آئینی حیثیت‘‘ حاصل ہونے کی بنیاد ہی صرف یہ ہو کہ وہ خدا کا فرمایا ہوا ہے۔ یعنی خدا کا فرما دینا ہی ’’آئین‘‘ ہو۔

ذرا اندازہ تو کریں، خدا کی بات خود تو آئین نہیں اور نہ اُس کی اپنی یہ حیثیت ہے، البتہ اگر اس کو پارلیمنٹ پاس کردے تو وہ آئین ’بن جائے‘ گی اور اُتنی دیر تک آئین ’رہے‘ گی جتنی دیر تک پارلیمنٹ اُس کے اندر کوئی ترمیم نہ کرے! اب بھلا وہ کونسی بات ہے جسے پارلیمنٹ پاس کردے تو وہ ’آئین‘ نہ بنے؟ بھائی! ہر چیز ہی جس کو پارلیمنٹ پاس کردے وہ آئین ہوگی؛ تو پھر خدا کے فرمائے کی کیا خصوصیت؟؟؟

چنانچہ وہ کون ہستی ہوئی جس کے ہاں سے صادر ہونے والی بات بجائے خود ’’آئین‘‘ ہے؟ خدا یا پارلیمنٹ؟ ہمارے ہیومنسٹ اسلام پسند کہیں گے: صاف بات ہے یہ حیثیت تو اِس ’جدید سسٹم‘ میں پارلیمنٹ ہی کی ہے کہ اس کا فرمایا ہوا ’’آئین‘‘ ہو، خدا کی یہ حیثیت تو بہرحال یہاں نہیں ہے۔ ہم کہیں گے: تو شرک اور کافری اِس کے سوا کیا ہے؟

یا تو آئین نے یہ کہہ دیا ہو کہ چونکہ اب میں ایک مسلمان معاشرہ میں بھی پایا جانے لگا ہوں لہٰذا یہاں ایک چیز اور مجھ سے بھی بالاتر ہے؛ میں اسکے نیچے ہوں اور اسکی کسی واضح محکم دلالت[6]کے ساتھ ٹکرانے کی صورت میں میں ایک نرا بےحیثیت کاغذ کا ٹکڑا ہوں، اور اُس بالاترین چیز کا نام ہے شرعِ خداوندی… آئین نے غیرمبہم الفاظ میں کہیں پر یہ کہہ دیا ہو تو چلیے پھر بھی ایک بات ہے۔ لیکن ظاہر ہے آئین یہ بھی کیسے کہہ سکتا ہے (’جدید ریاست‘ کے تصور کو اِس سے غش آنے کا امکان ہے، بلکہ موت واقع ہونے کا اندیشہ ہے!)

قصہ کوتاہ: کفار اور ملاحدہ کی تقلید میں اپنے یہاں بھی…

  • ملک کی بالاترین دستاویز کا نام ہوگا ’’آئین‘‘۔
  • اِس آئین کو صادر کرنے والی ہستی کا نام ہوگا ’’پارلیمنٹ‘‘۔
  • ’’خدا کے فرمائے‘‘ کو ملک میں یہ بالاترین سٹیٹس المعروف ’’آئینی حیثیت‘‘ پانا ہو تو اُس کوپارلیمنٹ کی درگاہ سے اپنے آپ کو ’’پاس‘‘ کروانا ہوگا عین اُسی طرح جس طرح کسی بھی شخص کی بات کو پارلیمنٹ کی درگاہ سے ’’پاس‘‘ ہونا ہوتا ہے۔ خدا اور رسولؐ کی بات پارلیمنٹ سے پاس نہ ہو تو وہ محض ایک تلاوت کی چیز ہے؛ اس کی آئینی حیثیت صفر ہے۔
  • اور اگر خدا اور رسولؐ کی فرمائی ہوئی کوئی بات پارلیمنٹ سے ’’پاس‘‘ ہو کر ’’آئینی حیثیت‘‘ پالے (خوش قسمتی کی معراج!) تو بھی ملک کے طول و عرض میں اس کو قانونی و آئینی حیثیت دے رکھنے کےلیے حوالہ پارلیمنٹ ہوگی!

مسلم معاشروں کو’’آئین‘‘ کی ڈالی پر لگانے والے حالیہ رجحانات… مسلم معاشروں کواُن جاہلی معاشروں پر قیاس کروانے کا نتیجہ ہےجن کے پاس نہ خدا کے پاس سے آئی ہوئی کوئی ’’شریعت‘‘ نہ توحید، نہ رسالت،نہ آخرت کا کوئی تصور، نہ تزکیہ، نہ عبادت، نہ طہارت… اور نہ خدا کے ساتھ ان کا کوئی عہد۔ اپنے اِن حضرات کے ساتھ آخری درجے کا حسن ظن رکھ لیں تو بھی یہ مکھی پر مکھی مارنے کا ایک ایسا عمل ہے جو نہ ’’شریعت‘‘ کے مطلب سے آگاہ ہے، نہ خدا کے معبود ہونے اور نہ رسولؐ کے مطاعِ مطلق ہونے سے۔

چنانچہ ہمارا یہ ’جدید مسلم ذہن‘:

  1. نہ تو مغربی پیراڈائم سے اِس حد تک ہی جان چھڑاتا ہے کہ چلیں ’’آئین‘‘ کا لفظ جپنا کسی وجہ سے ٹھہر گیا ہے نیز ’’آئین‘‘ کو ملک میں پائی جانے والی بالاترین دستاویز قرار دینا بھی قوموں کی دیکھادیکھی ضروری ہوگیا ہے، تو چونکہ ہم ہیں تو مسلم یعنی خدا کے آگے مطلق عبادت، ذلت اور تابعداری اختیار کر رکھنے والے…لہٰذا خدا کا فرما دینا ہی بجائے خود ہمارے لیے آئین ہے۔ ظاہر ہے اگر ’’آئین‘‘ ایک ملک میں پائی جانے والی بالاترین دستاویز اور اعلیٰ ترین پروانے کا نام ہے تو ’’خدا کے فرمان‘‘ کو آپ کہاں فٹ کریں گے؟ اگر آپ کی اصطلاح میں آئین ہی سب سے اونچی چیز ہے تو’’خدا کے فرمائے‘‘ کو بجائے خود ’’آئین‘‘ ماننے کے سوا کیا آپ کے پاس کوئی چارہ رہ جاتا ہے؟ الا یہ کہ آپ نے مسلمان ہی نہ رہنے کافیصلہ کر لیا ہو۔
  2. پھر نہ ہی یہ ذہن مغربی پیراڈائم سے نکلنے کی یہ تدبیر اختیار کرتا ہے کہ ’’آئین‘‘ کا جھنجھٹ پالنا ہی ہے، توچونکہ ہم ہیں تو مسلم یعنی خدا کے آگے مطلق عبادت، ذلت اور تابعداری اختیار کر رکھنے والے… لہٰذا ہم یوں کرلیتے ہیں کہ ’’آئین‘‘ سے بالاتر ایک چیز دنیا میں متعارف کروا دیتے ہیں جس کا نام ہے ’’شریعت‘‘[7]یعنی ’’خدا اور رسول کا فرمایا ہوا‘‘۔دنیا والوں کو ہم یہ کہہ دیں کہ بھئی تمہارے پاس دو چیزیں ہیں: ایک قانون اور ایک آئین، جبکہ آئین تمہارے ہاں قانون سے اوپر ہوتا ہے۔ البتہ ہم چونکہ مالکِ ارض و سماوات کی اتاری ہوئی مستند دستاویز اپنے پاس رکھتے ہیں اور اُس کی عبادت اور اطاعت کا دم بھرنے کے بعد ہی مسلم شمار ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس دو نہیں تین چیزیں ہیں: ایک قانون، ایک آئین اور ایک شریعت؛ قانون کے اوپر دستور ہے اور دستور کے اوپر شریعت؛ جس طرح دنیا بھر میں ’’قانون‘‘ آپ سے آپ ’’آئین‘‘ کے تابع ہوتا ہے اسی طرح ’’آئین‘‘ ہمارے یہاںآپ سے آپ ’’شریعت‘‘ کے تابع ہے۔ یہ کرنے کےلیے بھی تیار نہیں!

چنانچہ آج ہم نے:

  • ’’آئین‘‘ بھی رکھنا ہے (کہ دنیا کی اب یہی ریت ہے؛ ورنہ آپ مہذب ہی نہیں کہلا سکتے!)،
  • ’’آئین‘‘ کو ملک میں پائی جانے والی بالاترین دستاویز بھی ماننا ہے،
  • ’’آئین‘‘ سے بالاتر کسی چیز (’’شریعت‘‘) کا تصور پیش کرنے سے بھی کترانا ہے،
  • خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کو آپ سے آپ اور کسی بھی اضافی شرط کے بغیر ’’آئین‘‘ بھی تسلیم نہیں کرنا۔
  • یعنی شریعت ہمارے یہاں نہ بجائے خود آئین ہوگی اور نہ آئین سے بالاتر کوئی دستاویز،
  • غرض ’’آئین‘‘ کا وہی تصور چلانا ہے جو اُن کافر معاشروں میں چلتا ہے جو ’’شریعت‘‘ کے لفظ سے ہی ناآشنا ہیں اور اسی لیے وہ ’’آئین‘‘ کے ضرورتمند ہوئے، نیز آئین کے اُسی کافرانہ تصور پر چلتے ہوئے ’’خدا کے فرمائے‘‘ کو ’’آئینی حیثیت‘‘ پانے کےلیے پارلیمنٹ سے ’’پاس‘‘ ہونے کا محتاج بھی رکھنا ہے، اور ’’پارلیمنٹ‘‘ کے عین اسی عالمی تصور اور حیثیت کو بھی بچا کر رکھنا ہے…
  • اور ’’مسلم‘‘ بھی رہنا ہے!

’’مسلم‘‘… یعنی خدا کے آگے مطلق عبادت، ذلت اور تابعداری اختیار کررکھنے والی قوم!

بت بھی رکھنے ہیں اور موحد بھی کہلانا ہے!

یہ ہے وہ اصل مخمصہ جو ’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کی تلاوت کرنے والی قوم کو زمین کے ایک وسیع و عریض خطے کے اندر بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں پیش آیا اور اب اکیسویں صدی تک برقرار ہے۔ یہ اِس مخمصے سے نکل آئے تو اِسکی عزت، شوکت، خلافت، تمکنت سب ان شاءاللہ اِسکی منتظر ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناًيَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاًوَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ                                                                        (النور: 55)

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو تمکین دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔اور جو پھر بھی ناشکری کرے تو ایسے لوگ فاسق ہوں گے۔

آیت کے آخری دو جملے خصوصی غور چاہتے ہیں…:

يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً

‘‘بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں’’۔

وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو پھر بھی ناشکری کرے تو ایسے لوگ فاسق ہوں گے۔

[1] ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل دوم، حاشیہ 19

[2]’’الجماعۃ‘‘ کو ’’مسلمین‘‘ رکھنے والی اصل چیز۔ پیش ازیں ہم دو تعلیقات(12، 18) میں اِسکا کچھ بیان کر آئے ہیں۔ حالیہ تعلیق اِس سلسلہ کی تیسری کڑی ہے۔

[3]ہمارے یہ کہنے سے کہ یہ معاملہ انسانوں کے باہمی اتفاق وعدم اتفاق نہیں بلکہ شریعت کی جانب راجع ہے، یہ مقصد نہیں کہ بیع یا اجارہ کے فریقین اتفاق نامہ نہ بھی کریں تو ان کے مابین بیع یا اجارہ کے معاملات طے پا جائیں گے! یا خاوند بیوی کے مابین عقدنامہ (ایجاب و قبول) نہ بھی ہو تو ان کے مابین شریعت آپ آ کر زن و شو کا وہ رشتہ قائم کروا دے گی!کلام کا مقصود یہ ہے کہ مرد اور عورت صرف عقد (ایجاب و قبول) کریں گے، البتہ یہ بات کہ خاوند بیوی والے اِس رشتے کی حدود وقیود کیا ہوں اور ازدواجی زندگی کے احکام اور ضوابط کیا ہوں اور کیا نہ ہوں، یہ چیزیں مرد اور عورت کے اپنے طے کرنے پر نہ ہوں گی۔ نہ ہی یہ کسی سماجی فلسفی یا کسی لیجس لیٹو پاور legislative power کے طے کرنے پر موقوف ہوں گی۔ یہ شریعت کی مقررکردہ ہیں اور رہیں گی۔ اسی طرح بیع اور اجارہ وغیرہ کا ’’عقد‘‘ (agreement) تو متعاقدین ہی کریں گے لیکن بیع، اجارہ، رہن یا شفعہ وغیرہ کے احکام اور ضوابط شریعت کے دیے ہوئے چلیں گے۔ سودی لین دین یا جوئے پر مشتمل عقود انسانوں کے ناجائز ٹھہرانے پر ناجائز نہ ہوں گے۔ غرض اِن احکام اور ضوابط کا وضع کرنا انسانی اتفاق پر نہیں چھوڑا گیا۔

[4]دیکھئے ذیلی مبحث بعنوان: ’’آج کا آئین محض انتظامی شیڈولز رکھنے کا نام نہیں ہے‘‘۔

[5]دیکھئے ذیلی مبحث بعنوان: شریعت میں ’ابہام‘ اور ’اختلافات‘‘!!!

[6]’’واضح محکم دلالت‘‘ سے یہاں مراد ہے: شریعت کی وہ بات جو فقہائے شریعت کے ہاں ایک سے زیادہ احتمال نہ رکھتی ہو۔ یعنی قطعیات۔

[7]یہاں پھر وہی اشکال اٹھنے والا ہے، دیکھئے ذیلی مبحث: شریعت میں ’ابہام‘ اور ’اختلافات‘!!!

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز