عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2013-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’درمیانی مرحلے‘ کے بعض احکام
:عنوان

بنابریں... یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں کہ ایک نظام جیسے ہی ’غیراسلامی‘ ثابت ہوا اس سے ہر قسم کا تعامل موقوف ہوگیا اور آپ پر اُس کے تمام اداروں کو چھوڑ کر فوراً باہر آجانا واجب ٹھہرا۔

. اصولمنہج . تنقیحات :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
 درمیانی مرحلے کے بعض احکام
 
 
دورِحاضر کے کثیر مسائل ایسے ہیں جن میں آپ کو مسئلہ کے نظریاتی (عقائدی) اور فقہی جوانب کو ایک ساتھ لےکر چلنا ہوتا ہے۔ مسئلہ کو کسی ایک ہی طرف لےکر لڑھک جانا بسااوقات عظیم نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ مسئلہ کے کسی ایک جانب کو نظرانداز کربیٹھنا بڑے بڑے خلطِ مبحث پیدا کراتا ہے۔’’توازن‘‘ ہمارے دین کی ایک نہایت اہم خاصیت ہے اور یہ کسی بھی وقت قربان نہیں کی جاسکتی۔
اس کی محض ایک مثال دیتا چلوں۔ یہودونصاریٰ کے ساتھ تعامل کے کچھ بنیادی امور آپ کو ’’عقیدہ‘‘ سے ہی سیکھنے ہوتے ہیں؛ بصورتِ دیگر آپ میں وہ کردار جنم ہی نہیں لےسکتا جو دوزخی ملتوں کے مقابلے پر سامنے آنا ضروری ہے۔ تاہم یہودونصاریٰ کے ساتھ تعامل کے کچھ ابواب آپ نے اسلامی فقہ سے لینے ہوتے ہیں؛ کیونکہ اس کے بغیر آپ میں زندگی کے روزمرہ مسائل کے ساتھ پورا اترنے کے عوامل غیرموثر ہوجاتے ہیں اور ’’عقیدہ‘‘ آپ کےلیے بڑی حد تک عزلت اور گوشہ نشینی کا ہم معنیٰ ہوکر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ ’’ولاء اور براء‘‘ (اہل ایمان کے ساتھ محبت اور نصرت کا رشتہ استوار رکھنا اور اہل کفر سے براءت وبیزاری کرنا) ہمارے دین کا ایک نہایت عظیم باب ہے اور آج ہمارے نوجوانوں کی ایک عظیم ضرورت۔ تاہم ہمارا ایک نوجوان اگر ولاء اور براء کے عقیدے سے تو سرشار ہے مگر مسئلہ کے فقہی جوانب سے نابلد ہے تو ممکن ہے ایسے نوجوان کے ساتھ کچھ بڑے بڑے فکری حادثے ہونے لگیں۔ بہت ممکن ہے اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورت کے ساتھ رشتۂ ازدواج کا مسئلہ ایسے نوجوان کو اچھا خاصا پریشان کرے اور اُس کے کسی خانے میں فٹ ہوکر نہ دے۔ ’یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک کافر عورت کے ساتھ آدمی کا رشتۂ محبت ومودت ہو جو عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا کہتی ہے؛ زوجیت سے زیادہ اُنس اور قربت بھلا کونسے تعلق میں ہوگی‘! (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً)(۱) ۔ ہمارا یہ نوجوان قرآن میں اس رشتے کے جواز (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ)(۲) کا ذکر پاکر خاموش یقیناً ہوجائے گالیکن متردد ضرور رہے گا کہ ’یہ کیا ہے؟‘؛ وجہ یہی کہ وہ مسئلہ کی عقائدی اور فقہی (سماجی) جہتوں کو اکٹھا لےکر نہیں چل رہا۔ حق یہ ہے کہ مسئلہ کی بےشمار سماجی وعمرانی جہتیں فقہاء کے اعتبارکردہ امور میں بدرجۂ اتم کارفرما رہتی ہیں اور ہمارے فقہاء ہمیشہ وقت کے سوشل سائنٹسٹ ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم آج آپ دیکھتے ہیں عقیدہ اور فقہ دو الگ دنیائیں ہوگئی ہیں۔ حق یہ ہے کہ ایسے رجال یہاں بہت کم ہیں جن کا گزر ہردو دنیا میں ہو؛ عقیدہ اور فقہ ایک ہی عالم میں مجتمع ہوں۔ آج جب یہ دو دنیائیں بہت بڑی حد تک الگ الگ ہیں، اور جوکہ اِس دور کا ایک عظیم سانحہ ہے؛ لہٰذا یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم دیکھیں کہ کہاں سے ہمیں کیا لینا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو وقت کے باطل نظریات اور نظاموں پر ایک اچھی نظر رکھتے ہیں تاہم فقہ میں کوئی راسخ قدم نہیں رکھتے۔ ان سے ہم نظریاتی جوانب میں ہی استفادہ کریں گے، البتہ جدید مسائل میں مطلوبہ ’احکام‘ کے معاملہ میں پھر بھی ہم ان پر اکتفاء نہیں کریں گے۔ دوسری جانب بہت سے اہل علم ایسے ہیں جو فقہ کے مردِمیدان ہیں مگر موجودہ دور کے باطل نظاموں اور گمراہ نظریوں سے ان کا برسرجنگ ہونا تو درکنار ان سے بری وبیزار ہونا بھی شاید پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتا ہو؛ بلکہ جدید گمراہیوں پر ان کو نظر بھی شاید حاصل نہ ہو۔ ان سے کسی حد تک فقہی استفادہ ہی ممکن ہے اور وہ بھی زیادہ تر روایتی مسائل میں ہی، تاہم دورحاضر کے بہت سے امور میں فقہی احکام ان روایتی حضرات سے لینا ایک بڑے نقصان کا موجب ہوسکتا ہے؛ کیونکہ بہت ممکن ہے یہ اپنے روایتی فقہی ابواب کو ایک ایسی دنیا میں لاگو کررہے ہوں جس کے مالہٗ وماعلیہ سے یہ بہت کم واقف ہوں۔ نتیجتاً ایسے علماء بہت کم رہ جاتے ہیں جو عقیدہ اور فقہ کو بیک وقت لےکر چل رہے ہوں۔ وقت کے باطل سے ان کا نبردآزما ہونا بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہو اور ان کا علمی رسوخ اور فقہی نظر بھی مسلم ہو۔
ہمارے برصغیر میں یہ مسئلہ کچھ یوں بھی مشکل ہے۔ یہاں معاملات کو اہل علم اور اہل اختصاص کی جانب لوٹانے کا رجحان تقریباً نہیں ہے۔ نماز روزہ کے مسائل میں ابھی پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو معاملات کو علماء کی طرف لوٹاتا ہے، البتہ ’معاملاتِ دنیا ‘ کی بابت ہر شخص خود کسی رائے کو اختیار کرنا بہتر سمجھتا ہے۔ جبکہ ایک طبقہ ہمارے برصغیر میں ایسا ہے جو نمازروزہ ایسے مسائل تک کو اپنے ہاتھ میں لیتا، ان میں خود ہی ’’دلائل‘‘ کی چھان بین کرتا اور آپ ہی کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری جانتا ہے؛ تو پھر اس سے پیچیدہ تر مسائل یہ کب کسی دوسرے پر چھوڑنے والا ہے!
ایک ایسے ماحول میں ہماری مشکل دوچند ہوجاتی ہے۔ یہاں اس بات کا امکان بےحد زیادہ ہے کہ جس شخص پر مسئلے کا جو پہلو واضح ہو وہ اُسی پہلو کو مسئلے کا ’کل حجم‘ سمجھے اور اسی پر کوئی موقف اختیار کرتے ہوئے معاملے کو سرے لگا دے۔
مسئلہ کے تمام جوانب کو سامنے رکھنا اصحابِ نظر کا کام ہے۔ ایک باشعور آدمی کا کام ہے وہ ایسے اصحابِ علم اور اصحابِ نظر کی تلاش کرے جو مسائل کو اُن کی سب قدیم وجدید جہتوں سے جاننے والے ہوں، تقویٰ، خداخوفی، پرہیزگاری، صاف گوئی، حق پرستی، حرمتِ علم کا پاس اور سلاطین سے استغناء رکھنے میں ایک معلوم شہرت رکھتے ہوں اور امت کا درد رکھنے میں بھی قابل لحاظ حد تک معروف ہوں۔ وقت کے باطل نظاموں کے ساتھ ان کی جنگ اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ ان کی محاذآرائی زبان زدِعام ہو۔ ایسے علماء نے وقت کے ان جدید مسائل پر یا تو اتفاق کررکھا ہوگا، اس صورت میں ان کے اتفاق کی پابندی ہونی چاہئے۔ یا ان میں اختلاف ہوگا، ایسی صورت میں ان کے اختلاف کو معتبر جاننا چاہیے۔ (اختلاف کو معتبر جاننے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ان میں سے کسی ایک رائے کا قائل ہونے کے باوجود اس کے مخالف رائے کو ’گمراہی‘، ’جہالت‘، ’ظلم‘ یا ’انحراف‘ قرار نہیں دےگا، بلکہ اُس رائے پر چلنے والے کو اپنا بھائی اور اپنا حلیف سمجھےگا اور اس اختلافِ رائے کے باوجود امت کی شیرازہ بندی میں بلاتردد اُس کا ساتھ دےگا اور کفر کے خلاف اپنی اور اُس کی جنگ میں اس کو تعاون دے گا اور اس سے تعاون لےگا)۔
بنابریں... اس بات کا خاصا امکان ہے کہ اِن مسائل میں ’دل کے دریا‘ کا تعاقب کرنے والے حضرات موضوع کے فقہی جوانب کو اِن بنیادوں پر لینے میں ہم سے اتفاق نہ کریں۔ اِن امور میں ’’علماء کے اختلاف‘‘ کا ذکر ہونا ان کو کچھ خاص پسند نہ آئے۔ بہت سے تو شاید یہ بھی چاہیں گے کہ ان امور میں فقہی زبان پر مشتمل جو احکام درکار ہیں، اور بلاشبہ دین کو اِن سب مسائل میں احکام صادر کرنے ہی ہیں، وہ احکام ہم ہی اپنے علم اور اندازے کے مطابق جاری کرکے دے دیں! ایقاظ کے قارئین جانتے ہیں، ایقاظ نے آج تک ’’احکام‘‘ میں کوئی قول جاری کرنے کی جسارت نہیں کی اور نہ ان شاء اللہ کبھی آئندہ کرنے والا ہے۔ ایقاظ کو اپنی قدر معلوم ہے اور وہ اس سے تجاوز کرنے والا نہیں۔ دین میں حلال اور حرام کا تعین ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے؛ بجائے اس کے کہ ہر شخص یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے، یہ کام اُن لوگوں پر چھوڑنا چاہئے جو اس کے اہل ہوں۔
یوں بھی ایقاظ اپنے تئیں یہاں کے تحریکی عمل کی فکری وفقہی ضرورتیں پوری کرنے کا جو مشن رکھتا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ایک بات اگر آج یہاں نہیں سمجھی جارہی تو بھی لوگوں کی وہ امانت لوگوں تک پہنچادی جائے، آج نہیں تو کل اس کو سمجھنے والے بلکہ لےکر چلنے والے ان شاء اللہ سامنے آجائیں گے۔ ہمیں معلوم ہے یہاں کے تحریکی مباحث میں ابھی بہت سی پختگی آنا باقی ہے۔ ایک کثیر طبقہ ایسا ہے جو ان اشیاء کو ان کے تمام جوانب سے سمجھنے میں ابھی خاصا وقت لےگا البتہ فی الحال وہ ہم سے تقاضا یہی کرے گا کہ ہم بھی وہیں پر رک جائیں جہاں تک اپنے اس فکری سفر میں وہ پہنچ پائے ہیں! ہم بھی اتنی سی بات کریں جتنی ان کی سمجھ میں آتی ہے اور اس سے آگے کی کوئی بات نہ کریں! (بہت سے حضرات تو ایسے ہیں جو اپنے تحریکی سفر میں ہر اُس نئی بات کو جو انہوں نے اب جاکر سمجھی ہے اِس ٹرین کا آخری سٹیشن سمجھتے ہیں؛ جبکہ حال یہ ہے کہ اِس سے پچھلے سٹیشنوں کو بھی بڑے بڑے عرصےتک وہ اپنا آخری سٹیشن ہی سمجھتے رہے تھے!)۔ یہ حضرات ہم سے توقع رکھیں گے کہ اِن مسائل کے جس ایک آدھ پہلو کو انہوں نے سمجھ کر اس باب میں کوئی ’قولِ فیصل‘ اختیار کررکھا ہوا ہے ہم بھی اُسی ایک پہلو کو اِس مسئلہ کا ’’کل حجم‘‘ قرار دیں اور اسی بنیاد پر مسئلے کا فیصلہ کرڈالیں۔ مگر ’’راہنمائی‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ یہ نہیں۔ راہنمائی کا حق ادا کرنا ہماری نظر میں یہ ہے کہ ایک بات کے آج سمجھے جانے کا امکان اگر کم ہے تو بھی اِس امید کے تحت کہ کل وہ بات سمجھ لی جائے گی آج وہ بات یہاں کے سمجھداروں کے گوش گزار کردی جائے اور حق حقدار کے سپرد بہرحال کرڈالا جائے۔
ہاں وہ حضرات جو سمجھتے ہیں کہ وہ اِن موضوعات کے تمام یا بیشتر جوانب کا احاطہ کرچکے ہیں وہ اپنا موقف اختیار کرنے میں یا ہمیں غلط ٹھہرانے پوری طرح آزاد ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں ہمارے قارئین کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ان موضوعات میں مطلوبہ پختگی کی جستجو میں ہی ایقاظ کو توجہ دیتا ہے۔ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے یہی قارئین ہیں اور انہی کی ضرورت ہماری نظر میں سب سے بڑھ کر مقدم رہتی ہے۔
*****
چنانچہ یہ واضح کرتے چلیں... اس موضوع پر ہم اگر کوئی ’’حرام اور حلال‘‘ سے متعلق احکام بیان کریں گے تو کچھ ایسے علماء پر علمی وفکری انحصار کرتے ہوئے اور ان کے اتفاق یا اختلاف کو مسئلہ کی بنیاد بناتے ہوئے، جو اوپر ہمارے بیان کردہ معیار پر ہماری نظر میں پورا اترتے ہیں۔ ناموں کے ذکر کے حوالے سے، ہمارا مقصد دیگر علماء کی ناقدری نہیں تاہم زیادہ واضح ہونے کےلیے ہم یہ ذکر کریں گے کہ ہمارے اِس مضمون میں بیان ہونے والے فقہی احکام وقت کے ان معروف علماء کے مواقف سے مستفاد ہیں: قارئین ایقاظ جانتے ہیں، تحریکی امور میں ہمارا فکری انحصار بالعموم انہی علماء پر رہتا ہے: سفر الحوالی، جعفر شیخ ادریس، محمد قطب، صلاح الصاوی، ابو اسحاق الحوینی، البانی، ابن باز، ابن عثیمین، حمود الشعیبی، عبداللہ عزام، ناصر العمر، حامد العلی ودیگر۔ ہمارے نزدیک یہ اہل علم اُس معتدل راہ کی ترجمانی کرتے ہیں جو افراط اور تفریط سے بچا ہوا ہے۔ ہماری نگاہ میں، اس سے ایک جانب انتہا پر وہ فریق ہے جو مغربی افکار اور نظاموں کے ساتھ ری کونسائل کی راہ اختیار کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب انتہا پر وہ فریق ہے جو وقت کے ان مسائل سے معاملہ کرنے میں ایک گونہ شدت اور تحجر کی راہ اختیار کرتا ہے۔ یہ ہمارا طالبعلمانہ تجزیہ assessment ہے اور ہمارے اپنے استفادہ کےلیے ہے یا ان طالبعلموں کےلیے جو ہم سے کچھ فکری مدد پاتے ہیں۔ کوئی تحریکی حلقہ اگر کچھ دیگر تحریکی ناموں پر انحصار کرتا ہے تو ظاہر ہے ہمیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمیں مسئلہ ہے تو اِن دو چیزوں کے ساتھ:
1. ’’ڈیموکریسی‘‘ نام کی آفت کو ’اسلامی‘ کہنا، یا اسلام میں اس کو درآمد کرنا، یا پہلے سے اسلام میں ’ڈیموکریسی‘ پائے جانے کا انکشاف کرنے ، یا جمہوریت میں ’اسلام‘ کی نشاندہی کرنے کا منہج اختیار کرنا۔ درحقیقت یہ مغرب کے ساتھ ری کونسائل ہے اور دو ملتوں کا فرق مٹانے کی ایک اندوہناک کوشش، جوکہ ہرہر پہلو سے رد ہونی چاہئے۔
2. ڈیموکریسی کی امپورٹ پر مبنی نظاموں کو، جوکہ کئی ایک مسلم ملکوں میں ’ڈسپلے‘ کیے گئے ہیں ’اسلامی‘ یا ’اسلام سے ہم آہنگ‘ ماننا، اہل اسلام سے ان نظاموں کےلیے وفاداریاں حاصل کرتے پھرنا اور شرک سے ان کی نسبت کرنے کو ’انتہاپسندی‘ قرار دینا۔
یہ دو آفتیں ہمارے نزدیک، (درحقیقت ہمارے معتمد علماء کے نزدیک) ’’اختلافِ سائغ‘‘ میں نہیں آتیں (یعنی وہ اختلاف نہیں جس کےلیے گنجائش تسلیم کی جائے)۔ یہ ایک بنیادی اور اصولی اختلاف ہے نہ کہ کوئی جزوی اختلاف یا فرعی اختلاف۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس میں گرفتار کسی شخص یا جماعت کےلیے ہم تاویل یا جہل کا عذر پھر بھی تسلیم کریں اور ان کےساتھ اپنا رشتۂ محبت و اخوت ان کے جمہوری منہج کو اختیار کررکھنے کے باوجود (ان کی تاویل کا اعتبار کرتے ہوئے) برقرار جانیں اور بےشمار معاملات میں ان کے ساتھ مل کر تعمیر امت کے منصوبوں میں شریک ہوں یا دشمنانِ ملت سے نبردآزمائی کے محاذوں پر کوئی ڈیوٹی کریں، مگر جہاں تک ان کے اس موقف کا تعلق ہے (جوکہ اوپر مذکور دو نقاط میں بیان ہوا) تو اس کو ہم کسی ’قابلِ قبول اختلاف‘ کی صنف میں کبھی نہیں گنیں گے۔
ہاں کوئی ان دو آفتوں سے بچا ہوا ہے، اور اس درمیانی مرحلہ کےلیے اس نظام کے ساتھ تعامل کرنے میں کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، خواہ اُس کے اختیارکردہ راستے میں نرمی پائی جاتی ہے یا سختی... تو وہ ہمارے نزدیک اختلافِ سائغ میں آئے گا، یعنی وہ اختلاف جس میں اہل توحید کے مابین دو رائے ہوجانے کی گنجائش ہے۔
*****
اس سلسلہ کی ایک نہایت اہم بات مقدمہ کے طور پر ذکر کرتے چلیں... اکثر جدید مذاہب مانند ڈیموکریسی، سوشلزم وغیرہ، جن کو بجا طور پر ہم ’مذاہب‘ کے نام سے ہی ذکر کرتے ہیں... ’’سماجیات‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یہ اپنی پشت پر ’’مابعدالطبیعیات‘‘ کا بھی پورا ایک پلندہ رکھتے ہیں، اور اس لحاظ سے ان کا کفر بھی بےشمار جوانب اختیار کرجاتا ہے اور اس کی جڑیں بھی پیچھے بہت گہری ہیں، مگر ان کا براہِ راست مضمون ’’سماجیات‘‘ ہی سے متعلق ہے۔ اب جہاں تک ہماری شریعت کا تعلق ہے تو وہ چیز جسے جدید دور میں ’’سماجیات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ہماری فقہی تقسیمات میں خاصی حد تک ’’معاملات‘‘ کی صنف میں آتی ہے۔ ’’معاملات‘‘ بلاشبہ دین میں سے ہیں، تاہم ’’معاملات‘‘ سے متعلقہ احکام کے استنباط اور استدلال کا ایک خاص طریقہ ہے جوکہ دین کے دیگر احکام کے استنباط کی نسبت قدرے مختلف ہے...
بالعموم ہمارے ہاں اشیاء کی تقسیم یوں ہوتی ہے: عقائد۔ عبادات۔ اخلاق۔ اور معاملات۔ ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کو فقہاء کے ہاں ’’توقیفی‘‘ کہا جاتا ہے؛ اور ان کے ثبوت کے معاملہ میں جو طریق اختیار کیا جاتا ہے وہ ’’معاملات‘‘ کی نسبت خاصا مختلف ہے: ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ میں ہر چیز شریعت خود بتائےگی اور جب تک شریعت نہ بتائے کوئی چیز ثابت ہی نہیں ہوگی؛ یہاں اصل تحریم ہے۔ جبکہ ’’معاملات‘‘ میں اصل اِباحت ہے؛ یہاں بہت کچھ شریعت خود بتائے گی اور ایک مجموعی فریم بھی خود دے گی البتہ بہت کچھ ایسا ہے جسے شریعت انسان کے اپنے عقل وفکر و اختراع پر بھی چھوڑ دے گی (ایسے انسان کے عقل وفکر پر جو اہل فقہ واجتہاد ہو اور جو توحید اور اصولِ شریعت کی بنا پر ایک قلبی وعقلی تزکیہ پاچکا ہو نہ کہ کسی بھی انسان کے عقل وفکر پر)۔ غرض ’’معاملات‘‘ میں (خاص حدود کے اندر) شریعت ازخود ایک ایسی لچک flexibility فراہم کرتی ہے جو ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کے اندر بہرحال نہیں ہے۔ جبکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ شرک کا ارتکاب ’’عقائد‘‘ کے اندر بھی ممکن ہے، شرک کا ارتکاب ’’عبادات‘‘ کے اندر بھی ممکن ہے اور شرک کا ارتکاب ’’معاملات‘‘ کے اندر بھی ممکن ہے(۳) اور دورِحاضر میں یہی سب سے زیادہ عام ہے۔
پس یہ بات تو درست ہے کہ مسئلۂ شرک و توحید کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ سے؛ کیونکہ ’’دین‘‘ سے کوئی چیز باہر ہے ہی نہیں۔ ہاں مگر ’’معاملات‘‘ میں شرک کا اطلاق کرنے کےلیے جو ایک علمی پراسیس ہوگا وہ اُس پراسیس کی نسبت کسی حد تک مختلف ہوگا جو ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کے معاملہ میں اختیار کیا جائے گا۔ یہ بہرحال طے ہے کہ ’’معاملات‘‘ کے باب میں ’’عقائد‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کی نسبت ایک گونا وسعت موجود ہے۔ ہمارے علمائے توحید کے ہاں ان سماجی ادیان (مانند اشتراکیت یا جمہوریت وغیرہ) پر قائم ایک باطل کے ساتھ معاملہ کرنے میں __ روایتی ’مذہبی‘ ادیان پر قائم ایک بت خانہ کے ساتھ معاملہ کرنے کی نسبت __ ایک گونہ فرق پایا جاتا ہے... تو اس کا سبب اصل میں یہ ہے۔
اب مثلاً مصر کا جو ایک ’’نظام‘‘ ہے (قصۂ یوسف علیہ السلام کے سیاق میں) وہ شرک تو بےشک ہے (اور اِسی وجہ سے قرآن اُسے ’’دین الملک‘‘ کہتا ہے)(۴) لیکن یہ نظام شرک ہونے کے باوجود اگر عین اسی طرح لیا جائے جس طرح کہ عقائد یا عبادات کے باب میں آپ ایک ظاہری بت خانے کو لیتے ہیں تو آپ کو علم ہے معاملہ ایک اور رخ اختیار کرجاتا ہے؛ تب یوسف علیہ السلام کسی بھی صورت میں اور کسی بھی حیثیت میں یہاں قدم دھرنا گوارا نہیں کرتے۔ یوسف علیہ السلام کو اس نظام کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے کتنا ہی بااختیار مان لیا جائے لیکن اس نظام کو (اس کی اصل اور اساس میں شرک ماننے کے باوجود) ہر ہر پہلو سے ’بت خانے‘ کے احکام بہرحال نہیں دیے جائیں گے۔ وجہ یہی کہ ’’عبادات‘‘ اور ’’معاملات‘‘ میں اشیاء کے تعین اور اس سے لازم آنے والے امور میں ایک فرق باقی رکھا جاتا ہے۔ بنابریں؛ نہ تو یہ درست ہے کہ :
ý ان اشیاء کو ’’معاملات‘‘ یا ’’سماجیات‘‘ کہہ کر شرک کے دائرے سے ہی باہر کردیا جائے (ہمارے ملک میں دبستان ’المورد‘ اور اس کے فلک میں گردش کرنے والے طبقوں کا رجحان بالعموم اسی طرف کو ہے؛ چنانچہ یہ حضرات اپنے فکری تانوں بانوں سے سیکولرزم کے شرک کو ہی کچھ مضبوط بنیادیں دےکر دنیا سے رخصت ہونے کی فکر میں ہیں) اور کوئی جیسے مرضی تشریع کرےاور خلق خدا کےلیے جائزوناجائز کے پیمانے صادر کرے اس کو شرک اور توحید کے مسئلہ سے قطعی الگ رکھا جائے (بلاشبہ یہ ایک عظیم گمراہی ہے؛ دورِحاضر کے سماجی شرکیات کو عالم اسلام سے فی الوقت اس سے بڑھ کر کسی چیز کی طلب نہیں)...
ý اور نہ البتہ یہ درست ہے کہ اس شرک کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہرہر پہلو سے ویسا ہی طریق اختیار کیا جائے جیسا ’’عبادات‘‘ (پوجاپاٹ) کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا ہے (یہ بھی بہرحال افراط ہے)۔
قصۂ موسیٰ علیہ السلام میں ’’ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ‘‘(۵) کا ذکر آتا ہے۔ سیاق سے واضح ہے کہ وہ دربار میں ایک اچھی پوزیشن پر ہے اور ’’ملأ‘‘ کی گفتگو میں باقاعدہ شریک ہے۔ اس کے باوجود قرآن اس کے ایمان کی گواہی دیتا ہے (کہ یہ بڑی دیر سے اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے ہے مگر اب موسی علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ باقاعدہ فلور پر پیش ہوجانے کے بعد اس کے لیے یہاں خاموش رہنا ناممکن ہوگیا ہے، اور یہ اپنی اِس ’حرکت‘ کے ممکنہ نتائج سے بےپروا ہوکر یہاں اپنے مومن ہونے کا راز فاش کردیتا اور دلوں کو ہلادینے والا ایک بلیغ خطاب کرتا ہے، جس کے اختتامی الفاظ سے عیاں ہے کہ اس کے تئیں یہ اس مقام پر اس کا آخری خطاب ہوسکتا ہے)۔ظاہر ہے ’’دربار‘‘ کا حکم اگر ہرہر پہلو سے ظاہری ’بت خانے‘ والا ہی ہو تو بت خانے میں پوزیشن رکھنے والے ایک شخص کو ’’ایمان‘‘ کی سند نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ یہ شخص موسی علیہ السلام پر اور آپ کے لائے ہوئے پیغامِ توحید پر درپردہ ایمان رکھتا تھا مگر دربارِسیاست میں ایک اعلیٰ عہدے پر بھی فائز تھا۔ پھرجب اس نے دیکھا کہ دین خداوندی کو ایک بڑے نقصان سے بچانے کے لیے کوئی ممکنہ اقدام کرگزرنا اب اس کے حق میں ناگزیر ہے تو اُس نے ایوان کی رائے کو بدلنے یا منقسم کردینے کےلیے اپنی طرف سے پورا زور صرف کردیا۔ ایسے شخص کی مطلق وفاداری جب تک اپنے دین اور اپنے نبی کے ساتھ ہے اور اس کی باقی ہر وفاداری عین اِسی وفاداری کے تابع ہے، اور وہ اپنی بہترین صوابدید سے کام لیتے ہوئے کسی دستیاب موقع کو مقاصدِحق کی مدد و نصرت کےلیے اختیار یا رد کرتا ہے... ان شاء اللہ اس پر کوئی ملامت نہیں۔
چنانچہ اس باب میں علماء کے ہاں ادلہ شرعیہ کا جو باب سب سے زیادہ پیش نظر رہتا ہے وہ ہے: مصالح اور مفاسد کا درست موازنہ۔ اس کی بنیاد پر کسی وقت (کسی خاص صورتحال میں) ایک عمل یا ایک اقدام جائز ہوگا تو کسی وقت (اس سے کسی مختلف صورتحال میں) وہی عمل یا وہی اقدام ناجائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ البانی اور محمد قطب ایسے معروف فکری نام جو عالم اسلام میں جاری سیاسی عمل سے دوری اختیار کررکھنا عمومی حالات میں واجب اور توحید کا مقتضا قرار دیتے ہیں (1992 میں) الجزائر کی صورتحال میں وہاں پر جاری ایک سنسنی خیز صورتحال میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے حق میں ایک بھرپور کردار ادا کرنے کو جائز اور دین کا اقتضاء قرار دیتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ اصول ان چند علماء ہی کے نزدیک نہیں بلکہ علم اور اصلاح سے منسلک ایک بڑی تعداد کے ہاں پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں مصر میں جو صدارتی انتخاب ہوا، اور امکان پیدا ہوا کہ ملک کی ایک نہایت قابل احترام سلفی شخصیت شیخ حازم صلاح ابو اسماعیل (۶)کو صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی، اور یہ واضح امکان دیکھتے ہوئے کہ ملک کے بیشتر صالح طبقے ان شاء اللہ العزیز اس شخصیت کی چھتری تلے اکٹھے ہوجائیں گے بڑے بڑے ’شدت‘ کی شہرت رکھنے والے حضرات نے اس موقع پر شیخ حازم صلاح کے ساتھ کھڑے ہونے کےلیے امت سے اپیل کرڈالی۔ ان میں ایک قابل ذکر نام جناب ابوبصیر طرطوسی کا ہے(۷) جوکہ ہمارے جہادی نوجوانوں کےلیے محتاجِ تعارف نہیں۔ شیخ حازم صلاح کے علاوہ بھی مصر میں اس بار جس طرح ایک چیلنج کن صورتحال سامنے آئی تھی اور کچھ صالح دینی طبقوں کے مل کر لبرل ایجنڈا کو پچھاڑ دینے کے امکانات جس طرح یک لخت سامنے آگئے تھے، اس کے پیش نظر عالم اسلام کی وہ بہت سی علمی وفکری شخصیات جو ایک عمومی حکم کے لحاظ سے جمہوری سیاسی عمل سے کنارہ کش رہنے کی ہی دعوت دیتے ہیں، مصر کے معاملہ میں اس بار معمول سے ہٹ کر فتویٰ دیتی رہی ہیں۔
*****
یہ جو فرق ہے ’’عبادات‘‘ اور ’’معاملات‘‘ کے مابین ادلہ شرعیہ کو لاگو کرنے کے حوالے سے، نیز مصالح ومفاسد کے موازنہ کو ایک قوی شرعی اعتبار جاننے کے حوالے سے (کہ جس کی بنیاد پر ایک چیز کسی صورتحال میں شریعت کا اقتضاء ٹھہرے گی تو کسی دوسری صورتحال میں شریعت کا اقتضاء نہیں ٹھہرے گی)... یہ فرق کسی سیاسی یا سماجی عمل میں باطل کو اصولی بنیادوں پر قطعی مسترد کردینے کے باوجود، اہل حق کو کسی خاص ماحول کے اندر ایک ڈائنامک کردار ادا کرجانے کی ایک نہایت اہم بنیاد فراہم کرتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اسلامی تحریک جس جس ملک میں اس باب کو سمجھنے میں کامیاب رہی وہاں وہاں وہ دینی سیکٹر کو نہایت خوب پیش قدمی کرکے دینے لگی ہے۔ مصالح اور مفاسد کا موازنہ پس ایک نہایت صالح باب ہے اور ہمارے تحریکی عمل کی ایک بہت بڑی ضرورت۔ یہ ہمارے تحریکی عمل کو کسی ایک ہی لگی بندھی شکل میں محصور نہیں رکھتا بلکہ صورتحال کے ساتھ پورا اترنے کےلیے بہترین راہنمائی دیتا ہے۔
بنابریں... ہم اپنے آپ کو نہ تو امام مودودیؒ کے اُس منہج سے کلی متفق پاتے ہیں جو تقسیمِ ہند سے پہلے ان کے ہاں اپنایا گیا اور نہ اُس منہج سے جو تقسیم ہند کے بعد ان کے ہاں اختیار کیا گیا۔ مثلاً ہمیں ان کے بیانات میں سننے پڑھنے کو ملتا ہے کہ جب تک وہ ہند کے دستور کو کافرانہ دستور سمجھتے رہے تب تک ان کے کارکن ریاست کی کسی چھوٹی سے چھوٹی نوکری کو بھی اپنے لیے تقریباً حرام کے حکم میں جانتے رہے (روایت بالمعنیٰ)۔چنانچہ یہاں آپ وہ سختی دیکھتے ہیں جو چند ماہ یا چند برس تک اور وہ بھی چند نفوس کے حق میں تو جاری رکھی جاسکتی ہےلیکن ایک بڑی سطح پر اور ایک مدتِ دراز کےلیے اس کا اختیار رکھا جانا تقریباً محال ہے؛ اس کے نتیجے میں اسلام کا تحریکی عمل جس تیزی کے ساتھ معاشرے سے آؤٹ ہوگا(۸) وہ ناقابل اندازہ ہے۔ عام دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک غیرطبعی سختی کے اختتام پر جب آپ کے بند ٹوٹتے ہیں تو سبھی کے سبھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہاں بھی خاصی حد تک یہی ہوا؛ جب یہ بند ٹوٹے تو جمہوری ریلہ اپنی پوری طغیانی کے ساتھ جماعت کے فکری پیراڈائم میں ہجوم کرآیا اور شاید کوئی خشک ٹیلہ یہاں باقی نہ رہا۔ ہمارے خیال میں یہ کمال کا ایک اتفاق ہے کہ عین اس موقع پر دستور نے ’کلمہ‘ بھی پڑھ دیا اور جمہوری سیلاب کے راستے میں بند ڈھنے کا یہ بھرم رہ گیا، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ سختی جو پہلے منہج کے اندر اختیار کی گئی تھی بڑی دیر تک جاری رہ ہی نہیں سکتی تھی اور اس کو لازماً کوئی ایسی کارروائی درکار تھی جو اِس ناگزیر تبدیلی کے لیے کوئی ’معقول‘ بنیاد فراہم کرجائے! جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب یہ نرمی اختیار کرلی گئی تو اس کو ایک آفاقی منہج کے طور پر ہی چلایا گیا۔ ورنہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ ممالک جہاں دستورِپاکستان کی طرح ’کلمہ‘ پڑھنے کی کارروائی عمل میں نہیں آئی وہاں کی تحریکِ اسلامی کو اُسی پرانے منہج کا پابند کیا جاتا یا کم از کم اس کی برادرانہ تلقین کی جاتی، لیکن ہم جانتے ہیں ہر مسلم وغیرمسلم ملک میں یہی ’نرمی‘ کا منہج اب روبہ عمل ہے؛ گویا ایک زمانہ تھا سو بیت گیا جس کا تعلق ’’دلائل‘‘ کے ساتھ اتنا نہیں جتنا ’’ہمت‘‘ اور ’’قوتِ ایمانی‘‘ کے ساتھ۔ ورنہ ملک تو اب بھی بہت ایسے ہیں جہاں دستور ’کلمہ‘ کے بغیر زندگی گزارتا ہے مگر نیچے سے لے کر اوپر تک سبھی اداروں میں شرکت متاثر ہونے کا کوئی شرعی سوال نہیں اٹھتا بلکہ کوئی یہ سوال اٹھا دے تو شاید اُسے حیران ہوکر دیکھا جائے اور بہت سے کارکن سن کر بھی یہ یقین نہ کریں کہ ریاست کے اداروں میں کام کرنے کی بابت کبھی شریعت کا ایسا سخت حکم بھی تھا!
*****
پس باوجود اس اعتقاد کے کہ کفار کے تمام اعمال اپنی عمومی حیثیت میں باطل ہیں؛ خواہ وہ ان کے ’’عقائد‘‘ ہیں یا ان کی ’’عبادات‘‘ اور خواہ ان کے ’’معاملات‘‘؛ اور کسی ایک بھی چیز میں ان کو سندِاعتبار نہیں دی جائےگی اور ’’ہدایت‘‘ کےلیے ان جملہ امور میں صرف اور صرف رسولؐ کی لائی ہوئی حقیقت میں ہی ہر چیز کی تلاش اور جستجو کی جائےگی؛ رسولؐ کی لائی ہوئی ہدایت ہی ہمارا واحد مرجع ہوگا اور رسول کی لائی ہوئی ہدایت ہی ہمارا واحد حوالہ reference ... پھر بھی کفار کے ساتھ معاملہ کرنے میں ان کے ’’عقائد‘‘ اور ان کی ’’عبادات‘‘ کی نسبت اُن کے ’’معاملات‘‘ میں ایک گونہ مختلف طریق اپنایا جائے گا۔ یہ چیز اگر واضح ہوجاتی ہے تو کفار کے قائم کردہ سماجی نظاموں میں مینوورنگ maneuvering کےلیے ایک رینج ہمیں حاصل ہوجاتی ہے۔ ایک نظام کو صاف باطل سمجھتے ہوئے بھی، اور اس کو کوئی سندِاعتبار دیے بغیر بھی، ہم اس کے اندر اشیاء کو ہلاجلا سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ، جیساکہ ہم نے کہا، مصالح اور مفاسد کے موازنہ سے متعلق ہے۔ اب مثال کے طور پر مشہور ہے کہ شہیدِامت اسامہ بن لادنؒ نے کسی وقت پاکستانی سیاست کے چند گھوڑوں پر (جو اَب شیر ہوتے ہیں) کچھ پیسہ لگایا تھا، جس سے ان کا مقصد افغان جہاد کے کچھ مصالح کو محفوظ بنانا اور پاکستان میں امریکی ایجنڈا کی راہ میں کچھ فوری فوری رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا۔ ہماری نظر میں یہ یقیناً ایک صالح اعتبار ہے؛ اگر کسی مسلمان لیڈر نے ایسا کیا ہے تو یہ اس کے صاحبِ بصیرت اور دیگر اسلامی تحریکوں سے بہت آگے ہونے کی دلیل ہے۔ اس کا مطلب دور نزدیک سے یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک نظام کو اون کرتے ہیں یا اُس پر ایمان رکھتے اور اس کےلیے فدا ہوہو جاتے یا اس کو ’اسلام‘ کے مطابق ہونے کی سند عطا کرتے ہیں یا اُس کے جیت ہار کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ سفر الحوالی بارہا کہہ چکے ہیں کہ مسلمان اگر منظم ہوجائیں اور ان کے کچھ ادارے اور تنظیمیں اپنی سیاسی وانتظامی صلاحیتیں پروان چڑھا لیں اور دستیاب فیکٹرز کے ساتھ کھیلنے کی مہارت پیدا کرلیں تو وہ امریکی انتخابات تک میں اچھے خاصے مہرے ہلاسکتے ہیں، نیز یورپی ملکوں کی سیاست میں بہت سے پینترے ہلا سکتے ہیں۔ (حق یہ ہے کہ یورپ کی جمہوریت اپنے ایک خاص رخ پر چلنے میں صرف اس وجہ سے کامیاب ہے کہ وہ بیرونی عناصر کی دخل اندازی سے تاحال اچھی خاصی حد تک محفوظ ہے؛ کیونکہ ’بیرونی عناصر‘ تاحال قوی اور منظم نہیں ہیں۔ جس دن ان شاء اللہ مسلمانوں نے کچھ بھی تنظیم اور طاقت حاصل کی اُس دن یورپ کی جمہوریتیں ریت کے گھروندے یا شیش محل کی تصویر پیش کرنے لگیں گی اور یورپ کے تحفے جو وہ عالم اسلام کو دیتا رہا ہے یورپ کو واپس ہونے لگیں گے) بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک کی سیاست میں متحارب فیکٹر اپنے حجم اور تاثیر میں اس حد تک ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں کہ ان کی نسبت کوئی ضعیف سا فیکٹر بھی مسئلہ کے توازن کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتا ہے؛ اور یہاں سے آپ کو اُس ملک میں کھیلنے کی ایک اچھی خاصی رینج میسر آجاتی ہے۔ اور یہ بالکل ایک مختلف اپروچ ہے بہ نسبت اُن جماعتوں کے جو مسلمانوں کو ہر حال میں جمہوریت کے کولہو کا بیل بنانے پر تُلی رہتی ہیں۔ غرض کسی ملک کے سیاسی، یا انتظامی، یا معاشی سیناریو پر اثرانداز ہونے کے بےشمار طریقے ہیں اور بغیر اس بات کا پابند ہوئے کہ آپ اُسے ’’حقانیت‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ ہونے کی سند عطا کرکے آئیں۔ یہاں قاعدہ یہ ہوگا کہ جب تک آپ کی اُس سے ایک اصولی، نظریاتی اور سماجی بیزاری ثابت ہے، تب تک آپ کا اُس کے اندر دستیاب فیکٹرز کو ہلانا جلانا اور ان پر اثرانداز ہونا __ اس اصل شرط کے ساتھ کہ شرعی مصالح ومفاسد کا درست موازنہ کیا گیا ہو اور ہر وقت یہ موازنہ ہی آپ کے پیش نظر رہا ہو __ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں رہتا۔
*****
باطل کے سماجی ادارے جس بنیاد پر قائم ہیں یقیناً وہ شرک ہی ہے اور اس کو شرک ہی سے موسوم کرنا چاہئے جب تک کہ وہ شرعِ محمدﷺ کا قلادہ اپنی گردن میں نہ ڈال لیں اور اپنی کسی ایک بھی بات کو شرعِ محمدﷺ سے مستثنیٰ نہ رہنے دیں۔ البتہ اس کے ساتھ روزمرہ تعامل میں آپ نسبتاً ایک مختلف بنیاد اختیار کرتے ہیں۔ اور یہ بات ایک خاص سطح پر جاکر سخت سے سخت موقف رکھنے والی جماعت کے ہاں بھی مقرر ٹھہرتی ہے۔ اس معاملہ میں خوامخواہ بال کی کھال اتارنا اور لوگوں کی زندگی اجیرن کرنا درست نہیں۔ آپ کے سامنے یہ جو معاصر بینک ہے یہ محض ’سودی لین دین‘ کا ادارہ نہیں؛ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ مسئلے کو ایک نہایت چھوٹے اور غیرحقیقی حجم میں لیتا ہے۔ یہ بینک سرمایہ داری Capitalism نظام کا ایک طرح سے باقاعدہ معبد ہے۔ ’’پیسے کی خدائی‘‘ اگر دنیا میں کوئی عقیدہ ہے تو یہ اس عقیدہ کا عملی مظہر ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہمارا صالح طبقہ سرمایہ داری شرک کے اِن آؤٹ لیٹس سے براءت و بیزاری کے عمل اور رویے پر اچھی خاصی حد تک قائم ہے۔ اس کے باوجود، کون ہے جو اپنی کچھ خاص شرعی حدود اور قیود کا پابند رہتے ہوئے ان بینکوں کے ساتھ ’کچھ نہ کچھ‘ لین دین نہیں کرتا؟ اصولاً تو ان سرمایہ داری اداروں کی شکل دیکھنا تک غلط ہے، اور بلاشبہ ان سے نفرت اور عداوت اِسی درجے کی ہی ہونی چاہئے۔ لیکن وہی اصول کہ شرک کے سماجی مظاہر کے ساتھ تعامل میں جو رویہ رکھا جاتا ہے وہ اصولاً اُس رویے سے مختلف ہے جو شرکیہ عقائد beliefs اور شرکیہ شعائر rituals کے ساتھ بغیر کسی استثناء کے رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں کا صالح سے صالح شخص بھی جاہلیت کے اِن مالی اداروں کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعامل بہرحال کرلیتا ہے۔ اب یہ تو ہر شخص پر واضح ہے کہ جاہلیت کے سیاسی ادارے جاہلیت کے مالی اداروں سے بلحاظِ حقیقت کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
اِسی طرح ’نیشن سٹیٹ‘ ہے۔ جوکہ ایک باطل تصور ہے اور اپنے پیچھے کارفرما عقیدہ کے لحاظ سے شرک ہی ہے۔ اسلام میں اس کی درآمد کو جرم ہی مانا جائے گا۔ تاہم آپ جانتے ہیں ’نیشن سٹیٹ‘ کا وثیقہ اٹھا کر پھرنا، اور جسے عرفِ عام میں ’شناختی کارڈ‘ کہتے ہیں محض کوئی ’شناختی عمل‘ نہیں۔ ایسا سوچنا ایک رائج فلسفے اور نظام سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ صاف سی بات ہے یہ اس باطل کے عملی ظہور کی صورتیں ہیں۔ آپ کا ’پاسپورٹ‘ اٹھا کر پھرنا، ’ویزے‘ لیتے یا بیچتے پھرنا سب کچھ ایک نظام کے مظاہر میں آتا ہے اور اس کی تہہ میں ایک ہی باطل ہے۔ مگر کون شدت پسند سے شدت پسند ہے جو اِن اشیاء کے ساتھ معاملہ نہیں کرتا؟ یہاں تک کہ ’ٹیکس‘ دینا بنیادی طور پر اس فلسفے کی عملی تطبیق ہے کہ وسائل کی اصل مالک ریاست ہے اور وہ اموال میں تصرف کا مطلق حق رکھتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے شدت پسند کیا غیرشدت پسند صرف ’اضطرار‘ کے باب سے نہیں کرتے بلکہ زندگی کو آسان کرنے اور آسان رکھنے کےلیے بھی ان اشیاء کو اختیار کرتے ہیں، حتیٰ کہ ’کاروباری‘ ضرورتوں تک کےلیے اختیار کرتے ہیں۔ اصولاً ان سب اشیاء کی ایک ہی بنیاد ہے۔ ’ووٹ‘ کا عمل بھی اِن باقی اعمال سے کچھ ایسا مختلف اور الگ تھلگ نہیں ہے۔ جہاں بچا جاسکتا ہو اور جہاں کوئی شرعی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو اور کوئی مفسدت واقع نہ ہوتی ہو وہاں اِن سب اشیاء ہی سے بچ لینا ضروری ہے۔ البتہ جہاں مفسدت کا پلہ مصلحت پہ بھاری ہو؛ یعنی مسلمانوں کے دین و دنیا کا کوئی نقصان ہوجانے کا احتمال قوی تر ہو وہاں ان اشیاء سے بچنے کا وہ حکم باقی نہیں رہے گا۔ وجہ یہی کہ ان امور کو دیکھنے کے بہت سے زاویے اور بہت سے اعتبارات ہیں؛ کسی وقت کوئی اعتبار راجح تر ہوگا تو کسی وقت کوئی۔ مصالح اور مفاسد علماء کے دیکھنے اور طے کرنے کا باب ہے، اور علماء بھی وہ جو اصولِ شریعت میں راسخ ہوں، مقاصدِ شریعت کے علم میں طاق ہوں، شرک سے مخاصمت اور باطل سے نبردآزمائی کےحوالے سے معاشرے میں ایک کردار رکھتے ہوں اور حق گوئی اور خداخوفی کے معاملہ میں صالحین کے ہاں محلِ اعتماد جانے جاتے ہوں۔
*****
بنابریں... یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں کہ ایک نظام جیسے ہی ’غیراسلامی‘ ثابت ہوا اس سے ہر قسم کا تعامل موقوف ہوگیا اور آپ پر اُس کے تمام اداروں کو چھوڑ کر فوراً باہر آجانا واجب ٹھہرا۔ پاکستان کے نظام ہی کی کیا بات، بھارت کے نظام کی بابت تو کوئی اختلاف نہیں کہ وہ ایک غیراسلامی نظام ہے! مگر یہ چیز وہاں بھی واجب نہیں کہ مسلمان اُس کے تمام اداروں کو فی الفور ترک کرکے باہر آجائیں الا یہ کہ کچھ شرعی مصالح ہی کسی وقت اس بات کا تقاضا کریں۔ کوئی انصاف پسند اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گاکہ: اسدالدین اویسی کا انڈین پارلیمنٹ میں پایا جانا دین اسلام کی تقویت اور مسلمانوں کو اٹھانے کا بہت قوی موجب ہوسکتا ہے... جبکہ فضل الرحمن کا پاکستانی پارلیمنٹ میں پایا جانا دین اسلام کے نقصان اور مسلمانوں کو پست کرنے کا ایک قوی موجب ہوسکتا ہے۔ ان معاملات میں ایک ہی قاعدہ کلیہ تیار رکھنا اور بغیر صورتحال کو کچھ دقیق شرعی پیمانوں کی مدد سے جانچے پرکھے ہر جگہ اسی ایک قاعدہ کا اطلاق کردینا ان اشیاء کے ساتھ معاملہ کرنے کی کوئی صحیح صورت نہیں۔
*****
حضرات ہماری یہ سب گزارشات جو اِس پورے شمارے میں پیش کی گئیں... اگر یہاں درکار موقف اور تحریکی پیش رفت کی کوئی تصویر بناکر دیتی ہیں... اور اس کا کوئی وزن لگاتے ہوئے آپ سمجھتے ہیں کہ کچھ مخلص دینی جماعتیں خواہ وہ اس نظام میں شریک ہیں یا اس نظام سے باہر ہیں مل کر یہاں مطلوبہ پیش قدمی کے لیے آگے بڑھ سکتی ہیں اور ان حقائق کی روشنی میں جو یہاں پیش ہوئے یہاں کے تحریکی عمل کو اب کوئی زوردار لائحۂ عمل دے سکتی ہیں... تو حضرات آئیے اِن مباحث کو مزید نکھارنے اور کسی عملی پیش قدمی کی بنیاد بنانے کےلیے مل بیٹھیں۔ یہاں کی کسی بھی تحریکی جماعت کے ہاں اگر ان امور کو زیادہ تفصیل اور گہرائی میں جاکر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہےاور وہ جماعت اس معاملہ میں ہمارے ساتھ تبادلہ آراء کو کسی بھی انداز میں مفید پاتی ہے تو ہم اس کےلیے چشم براہ ہیں۔ یہ سب محنت ہم یہاں مطلوب ایک جاندار تحریکی عمل کو اٹھانے کےلیے ہی اپنا حصہ ڈالنے کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ جماعتیں جو خدا کے فضل سے یہاں افراد اور وسائل کی بہتات رکھتی ہیں اگر وہ ہمارے پیش کردہ ان افکار کو درخورِاعتناء جانیں یا ان خطوط پر وہ ہم سے کسی بھی قسم کی مدد اور تعاون چاہیں چاہے وہ صلاح مشورے اور منصوبہ بندی کے باب میں ہو یا نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کے باب میں... تو ہم اس بات کو اپنے لیے لائقِ سعادت جانیں گے۔
اللّٰھم ھل بلَّغت؟
_________
(۱) (الروم: 21) ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون پاؤ، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی ‘‘
(۲) (المائدۃ: 5) ’’اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں انکی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو‘‘
(۳) ترمذی میں حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت آتی ہے کہ سورت توبہ کی آیت 31 (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ’’انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کےماسوا رب بنالیا ہے‘‘) کی تفسیر میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه ’’یقیناً وہ ان کو پوجتے نہیں تھے، مگر جب وہ ان کےلیے کسی چیز کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال ٹھہرا لیتے، اور جب کسی چیز کو ان پر حرام کردیتے تو وہ انہیں اپنے اوپر حرام ٹھہرالیتے‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر رقم الحدیث 3095 http://hadith.al-islam.com/Page.aspx?pageid=192&BookID=26&PID=3020
) تفسیر ابن کثیر میں بھی سورت توبہ آیت 31 کے تحت یہ روایت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(۴)كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُف مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ (یوسف: 76)
’’ ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی۔ اس بادشاه کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو‘‘ (ترجمہ جوناگڑھی)۔
(۵) (سورت مومن: 28) ’’آل فرعون میں سے ایک آدمی جو (ابھی تک) اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا‘‘۔
(۶) مصر کی اس ہردلعزیز اسلامی شخصیت کے تعارف کےلیے ملاحظہ فرمائیے ایقاظ کا مضمون: ’’اسلامیانِ مصر کے دلوں کی دھڑکن... حازم صلاح ابواسماعیل‘‘ اپریل 2012۔
http://www.eeqaz.org/index.php/bazyaft/salaf-mashaheer/182-hazimsalah
(۷) افادۂ عام کیلئے شیخ طرطوسی کا یہ پیغام مصر کے مسلمانوں کے نام متن کے ساتھ دے دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا (جوکہ انکے اپنے ویب سائٹ سے لیا گیا ہے http://www.altartosi.com/hadath/hadth088.html اردو مفہوم: بعد از خطبہ:
مصری بھائیوں کی جانب سے مجھے بہت سے سوالات موصول ہوئے ہیں جن میں پوچھا جارہا ہے کہ استاد حازم صلاح ابواسماعیل کے مصر کی صدارت کےلیے نامزد کیا جانے کے حوالے سے درست ترین موقف کیا ہے؟
اس پر میرا جواب یہ ہے کہ: مسلمانوں کے مابین جو خیرخواہی اور حق کےلیے یک آواز ہونا فرض ہے اس کی رو سے، نیز اس باب سے کہ ایک بھائی کو اپنے بھائی کو جہاں وہ نصرت کا حاجتمند ہے نصرت دینی چاہئے... میں مصر میں اپنے تمام لوگوں اور ان تمام بھائیوں سے جو ہمیں جانتے اور ہم پر اعتماد کرتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ وہ مصر کی صدارت کےلیے نامزد شیخ استاد حازم صلاح ابو اسماعیل کے ساتھ کھڑے ہوجائیں ۔
اگر آپ لوگ اپنے اس مبارک انقلاب کے ثمرات کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کے بعض ثمرات کو سمیٹنا چاہتے ہیں تو استاد حازم صلاح ابواسماعیل کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور ان کو بےیارومددگار مت چھوڑیں۔
اس شخص میں، اللہ اعلم، بہت خیر ہے۔ تاہم وہ اکیلا، تمہاری مدد کے بغیر، مصر کےلیے کچھ نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ اس کے ساتھ کھڑے ہوکر اور اس کے شانہ بشانہ ہوکر تم اسے نصیحت بھی کرسکتے ہو اور اس کی مدد بھی کرسکتے ہو۔ آپ اور وہ مل کر مصر اور اہل مصر کےلیے، اور ان کے پیچھے عربوں اور مسلمانوں کےلیے، اللہ کے حکم سے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اللہ آپ لوگوں کو توفیق دے، اور حق اور خیر کے راستے میں آپ کے اقدامات کو راست رکھے۔
عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر طرطوسی 25 نومبر 2011
(۸) ہماری یہ گفتگو ایک ایسی جمعیت سے متعلق ہے جو اعلی سماجی صلاحیتوں کی مالک ہو اور معاشرے پر اثرانداز ہونے کی ایک قوی استعداد رکھتی ہو، اور جوکہ ہمارے خیال میں سید مودودیؒ کو بدرجۂ اتم حاصل تھی اور جوکہ تھوڑی دیر میں معاشرے کے سب موثر فورمز پر بولنے لگی تھی مگر رفتہ رفتہ اس میں باطل کے خلاف اختیار کیے گئے زوردار لہجے (منہج کی اُس تبدیلی کے باعث) دھیمے پڑتے چلے گئے اور بالآخر دم توڑ گئے۔ ایک ایسا تحریکی عمل بڑی دیر تک معاشرے کے موثر فورمز سے دوری اور گوشہ نشینی نہیں رکھ سکتا اور اس کےلیے لازم ہے کہ وہ معاشرے کے ہر شعبے ہر ادارے کے اندر پایا اور محسوس کیا جائے۔ ایسی باصلاحیت جمعیت کی بابت ہم نے کہا کہ وہ زیادہ عرصہ اداروں سے دور رہے گی تو معاشرے سے آؤٹ ہوجائے گی؛ جس کی وہ کبھی متحمل نہیں ہوتی۔ رہ گئے دینداروں کے وہ چھوٹے چھوٹے مردم بیزار ٹولے جو معاشرے پر اثرانداز ہونے کی ابجد سے ہی واقف نہیں اور ان کے سب فکری مباحث کھلتے ہی کونوں کھدروں اور ڈرائنگ روموں میں ہیں اور اپنی اسی دنیا میں ملنے والی ’ترقی‘ پر وہ بےحد خوش ہیں...، تو اس سیاق میں وہ ہمارے زیربحث نہیں۔ یہ، معاشرے میں کبھی ’اِن‘ ہی نہیں ہوئے اور نہ شاید کبھی ہوں گے ان کے ’آؤٹ‘ ہونے کا کیا سوال!
حضرات! سماجی صلاحیت ایک نہایت اہم چیز ہے اور تحریکی عمل کا ایک اساسی ترین عنصر؛ ہمارے تحریکی علماء بلاوجہ اس پر اتنا زور نہیں دیتے۔ خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا (مسند احمد رقم الحدیث 9922) ’’جاہلیت میں تم میں سے جو چنیدہ ہوں گے وہی تمہارے مابین اسلام میں چنیدہ ہوں گے، بشرطیکہ وہ (اسلام کی حقیقت جاننے میں) گہرے چلے جائیں‘‘
 
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
فرد اور نظام کا ڈائلیکٹ، ایک اہم تنقیح
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل، ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز