عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2013-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
جمہوریت کی درآمد!
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف
 

 مستعار
جمہوریت کی درآمد!
بشکریہ ماہنامہ ساحل۔ کراچی
 
مستعار سیکشن کے مضامین عمومی فائدے کی غرض سے دیے جاتے ہیں، ادارہ کا ان کے مندرجات یا اسلوب سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نوٹ: اس مضمون کا عنوان ہمارا اپنا دیا ہو ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک طویل مضمون سے اقتباس ہے۔
 
جو لوگ جمہوریت کے حق میں اسلامی تاریخ سے بیعت خلافت کے واقعات کو پیش کرتے ہیں اس پر مغرب کے سیاسی مفکرین صرف ہنس سکتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا نظام حکومت جس میں تمام انسان مکمل طور پر مساوی ہوں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہ ہو اور ہربالغ شخص مرد و عورت الیکشن میں آزاد انہ طور پر حصہ لے سکتا ہو انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں کو کسی پیمانے پر جانچانا نہ جائے جیسے ایران میں امیدواروں کی منظوری رہبر کونسل دیتی ہے یہ جمہوریت نہیں ہے ہر عاقل بالغ جو جمہوری قواعد و ضوابط پورے کرے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ انبیاء کرام کی اولادوں میں ملوکیت چلتی تھی۔ انبیاء کرام نے اپنی اولاد کے لیے بادشاہت کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منع نہیں فرمایا یہ نہیں کہا کہ تمہاری اولاد کو دوسرے بندوں پر کیوں فوقیت دوں صرف یہ شرط عائد کی کہ تمہاری اولاد میں سے جو نیک ہو ں گے ان کو ملوک بنا ؤں گا لہٰذا انبیاء کی سلطنتوں میں تو ہمیں عوامی حاکمیت جمہوریت کا کوئی سراغ نہیں ملتا وہاں تو صرف نامزدگی ہی نظر آتی ہے۔ حتی کہ عزیز مصر کے کافرانہ نظام زندگی میں بھی حضرت یوسفؑ کا ریاست کے سب سے اہم عہدے پر تقرر عوام کی مرضی سے جمہوریت کے ذریعے نہیں ہوا۔جب عزیز مصر کے خواب کے درست جوابات اسے مل گئے تو اس نے تمام اختیارات و اقتدار بغیر کسی مشورے کے حضرت یوسف ؑ کے مطالبے پر حضرت یوسفؑ کے سپرد کردیے علم اور کردار کی طاقت کے آگے لوگ سر نیاز جھکادیتے ہیں بشرطیکہ وہ علم و کردار حقیقی ہو جعلی نہ ہو صرف الفاظ کی شعبدہ بازی نہ ہو جمہوریت صرف انبیائے کرام کے معاشروں میں ہی نہیں بلکہ ماضی میں غیر نبوی تہذیبوں میں بھی موجود نہیں تھی بادشاہت ملوکیت کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تمام ملوک بادشاہ اپنی فوج کے سربراہ بھی ہوتے تھے وہ عموماً علم اور جسم کی صلاحیتوں کے جامع ہوتے تھے وہ اپنی افواج کے سربراہ ہوتے وہ اپنی زمین، عقیدے ، نظریے اور سلطنت کا تحفظ میدان جنگ میں اپنے خون سے کرتے تھے صرف اپنے خون سے نہیں بلکہ ان کے خاندان کے تمام لوگ ان کے بیٹے عزیز رشتہ دار قبیلہ اپنے لہو سے اپنی سلطنت سے وفاداری کا چراغ روشن رکھتا تھا صلیبی جنگوں میں یورپ کے تمام بادشاہوں اور ان کے بیٹوں اور شہزادوں نے بھر پور حصہ لیا اور صف اول میں جنگ لڑی۔جدید جمہوری ریاست کے کسی وزیر اعظم کو آپ نے کبھی میدان جنگ میں لڑتے ہوئے دیکھا ہے؟ وہ اسمبلی کے ایوان میں الفاظ کی جنگ زور و شور سے لڑتا ہے افواج کے کمانڈر کا تقرر نامہ جاری کرتا ہے لیکن خود میدان جنگ سے کوسوں میل دور رہتا ہے کیوں؟ ملکہ برطانیہ کا ولی عہد شہزادہ فلپ فوج سے وابستہ رہا اس کا بیٹا ولیم بھی فوج سے تربیت یافتہ ہے یعنی بادشاہت جمہوریت سے تال میل کے باوجود آج بھی اپنے وطن کے دفاع کو اپنی منصبی ذمہ داری سمجھتی ہے آخر کیوں؟ یہ ہے اہم سوال جس کا جواب ضروری ہے؟ عہد حاضر جمہوریت کا عہد ہے تقریباً تمام ریاستیں جمہوریت کی کسی نہ کسی شکل کو تسلیم کرتی ہیں خواہ وہ سعودی عرب ہو، اردن ہو، کویت ہو، ایران ہو، چین ہو ،یا روس ہو ان جمہوریتوں کو ہم نا مکمل جمہوریت، غیر لبرل ڈیموکریسی کہہ سکتے ہیں مگر اصلاً وہ ہیں جمہور یائیں۔ تمام ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو ایک عالمی آفاقی قدر کے طور پر قبول کرتی ہیں خواہ وہ لبرل سرمایہ داری ہو فری مارکیٹ یا غیر لبرل سرمایہ داری ہو پلاننگ لہٰذا دنیا کی تمام ریاستوں کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ ان کے اہداف و مقاصد بھی یکسا ں ہیں۔ یعنی پروگریس ، ڈیولپمنٹ۔ GDP GNP اور معیار زندگی میں مسلسل اضافہ اسلامی ریاست ہو اسلامی ماہرین معاشیات ہو ںیا کافر ریاست اور اس کے ماہرین دونوں کے اہداف یہی ہیں دونوں سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر الحق کا حصول ممکن نہیں یہ خیر مشترک ہے غیر اقدار ی خیر[Value nutral Good] ۔ تمام جدید ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن ہیں۔ یہ تمام ریاستیں مذہب منشور بنیادی حقوق کی دستخط کنندہ ہیں تمام ریاستوں کے بنیادی مقاصد اہداف یکساں ہیں کہیں کہیں طریقہ کار کا فرق ہے سب آزادی کی بے کراں دنیا کی خاطر معیار زندگی میں اضافے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں روس چین ایران سعودی عرب جو نظریاتی ریاستیں سمجھے جاتے ہیں ان کا بنیادی نظریہ بھی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سرمایہ داری کے فروغ کے کئی مناہج ہیں کہیں جمہوریت پہلے آتی ہے پھر سرمایہ داری، پھر بنیادی حقوق، کہیں قوم پرستی [Nationalism] پہلے آتی ہے جس کے نتیجے میں قومی جمہوری ریاست بنتی ہے پھر یہ سرمایہ دارانہ ریاست میں ڈھل جاتی ہے سرمایہ داری اور نیشنل ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں قوم پرستی ہو وہاں قومی عصبیت کے باعث سرمایہ داری زبردست ترقی کرتی ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے فروغ ، بقاء، ارتقاء، استحکام، کے سلسلے میں مذاہب پروٹسٹنٹ ازم، کیلون ازم، پیورٹن ازم، انیوجیکل ازم نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ برطانیہ میں کرامویل کی حکومت میں پیورٹن عیسائیت نے سرمایہ داری کی مذہبی تعبیریں پیش کیں مذہبی ریاست نے سرمایہ داری کو فرو غ دیا جرمنی میں مارٹن لوتھر نے سرمایہ داری کی مذہبی تعبیریں پیش کیں یہی صورت حال اسکاٹ لینڈ میں ہوئی جس سے اسکاٹش انلائٹنمنٹ کا ظہور ہوا جس کے نتیجے میں ماڈرن اکنامکس نے پوری دنیا کو سرمایہ دارانہ طرز زندگی کا تعقل پیش کرکے انھیں ہمنوا بنالیا۔لیکن کرامویل کی جمہوری حکومتوں کے نتیجے میں مذہبی ریاست طاقت ور ہونے کے بجائے ختم ہوگئی چونکہ سرمایہ داری اور جمہوریت مذہبیت کو اپنے اندر تحلیل کرلیتی ہے جس طرح جونک پر آپ اگر نمک کا چھڑکاؤ کردیں تو جونک چند لمحوں میں پانی بن کرتحلیل ہو جاتی ہے قبرص میں آرچ بشپ میکاریوس کئی سال تک صدر اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے وہ ایک خالص مذہبی شخصیت تھے مگر قبرص ایک جمہوری لبرل ریاست ہی رہا آرچ بشپ کی روحانیت سرمایہ داری پر غالب نہ آسکی بلکہ آرچ بشپ کا کردار بھی جمہوری ریاست نے بدل کر رکھ دیا تفصیلات کے لیے آریانا فلاسی کی کتاب Interviews with history and conversation with power میں فادرمیکاریوس کا انٹرویو پڑھ لیجیے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کبھی قوم پرستی کے ذریعے آتا ہے، کبھی مذہبیت کے ذریعے ،کبھی براہ راست سرمایہ داری کے ذریعے، کبھی لاکھوں لوگو ں کے قتل عام کے ذریعے، کبھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے بعد، کبھی مذہبی ریاست کے قیام کے نتیجے میں جیسے کرامویل اور کیلون کی مذہبی سیاسی انقلابی ریاستیں یا پاکستانی ریاست جو مسلم قوم پرستی کے نعرے پر تخلیق کی گئی اور جیسے ہی ملک آزاد ہوا سرحدیں ان مسلمانوں کے لیے بند کردی گئیں جن کے نام پر آزادی حاصل کی گئی تھی ہندوستان کو دارالحرب کہہ کر تمام مسلمانوں کو دارالاسلام پاکستان کا خواب دکھایا گیا تھا۔ لہٰذا کبھی آمریت آتی ہے تو وہ بھی سرمایہ داری لاتی ہے اسی کے اندر سے پہلے غیر لبرل جمہوریت نکلتی ہے،پھر قوم پرستی نکلتی ہے، پھر لبرل جمہوریت نکل آتی ہے یا یہ ترتیب بدل جاتی ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں مصر، تیونس، لیبیامیں سرمایہ دارانہ قوم پرستانہ انقلاب کے مراحل مکمل ہوگئے تو اب اس میں سے جمہوریت نکل رہی ہے جمہوریت، قوم پرستی، بنیادی حقوق، مذہبی قوم پرستی، سرمایہ دارانہ نظام زندگی یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی نظام آجائے آخر کار سرمایہ داری اور جمہوریت ہی غالب ہوں گے قوم پرستی اور مذہب کی تلچھٹ سرمایہ دارانہ نظام زندگی خود نکال کر باہر پھینک دے گا جس طرح ایک پاکیزہ معدہ مکھی کا وجود برداشت نہیں کرتا الٹی کرکے مکھی کو باہر نکال دیتا ہے کاسموپولیٹن نیشنل ازم اس کی جگہ لے لے گا جہاں تمام تفرقے مٹ جائیں گے لوگ صرف سرمایے کے لیے کام کریں گے سرمایہ سے تحریک حاصل کریں گے اور سرمایہ کے لیے ہی زندگی وقف کردیں گے لہٰذا تمام اختلافات، تنازعات، جھگڑے ختم ہو جائیں گے ہر شخص عہد جدید کے معبد میں سرمایہ کے خدا کی پرستش کرے گا جس کا کوئی حریف نہ ہوگا خیر و شر کے معرکے ختم ہو جائیں گے بس ایک خیر ہوگا سرمایہ پرستی لوگ انسان پرستی کے لیے سرمایہ پرستی ہی کریں گے اس کے سوا تمام الخیر تمام الحق نیست و نابود ہو جائیں گے۔ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔جب انسان صرف سرمایہ کمانے کو اصل زندگی سمجھے مقصد حیات محض سرمایہ میں اضافہ رہ جائے تو جمہوریت مضبوط ہوگی اور سرمایہ داریت پھیلتی جائے گی۔ روس چین میں بھی یہی ہورہا ہے لبرل سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی کم زورترین شکل کمیونزم اور سوشل ازم کی جگہ لے لی ہے جعلی کم زور پلاننگ مساوات والی سرمایہ داری کی جگہ لبرل سرمایہ داری چھا گئی ہے اور زبردست ترقی ہورہی ہے روسیوں اور چینیوں کو سوشلسٹ سرمایہ داری پسند نہ آئی تو وہ لبرل سرمایہ داری کی آغوش میں آگئے جہاں مزے زیادہ ہیں دونوں سرمایہ دارانہ نظاموں کے مقاصد ایک ہیں آزادی مساوات ترقی معیار زندگی میں اضافہ قوم پرست ریاستیں سرمایہ داری کی زیر دست خادم ہوتی ہیں کیونکہ قومی ترقی کے نام پر قومی ریاست سرمایہ دارانہ اہداف کو نہایت تیزی سے حاصل کرتی ہے اور سرمایہ داری قوم پرستی کے نقصانات کا ازالہ کاسموپولیٹن قوم پرستی کے ذریعے کردیتی ہے۔ جب ہر قوم کا مطمح نظر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا بن جاتا ہے لہٰذا وزیر اعظم کو جنگ لڑنے کی کیا ضرورت وہ تو سرمایہ دارانہ نظام کا خادم اور کارندہ ہے سرمایہ سیال ہے آفاقی ہے ادھر سے ادھر منتقل ہوجاتاہے لہٰذا عصر حاضر کی تمام ریاستیں جنھوں نے مذہب حقوق انسانی کے منشور پر دستخط کردیے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت و معاشرت کے فروغ و ارتقاء میں مصروف ہیں سب کا مطمح نظر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانا ہے لہٰذا مشترکہ اساس، سرمایہ میں اضافہ بذریعہ ’’مذہب حقوق انسانی‘‘ بذریعہ لبرل جمہوری یا غیر لبرل جمہوریت عہد حاضر کی تمام ریاستوں کا ہدف ہے طالبان کی ریاست اس میں واحد استثنیٰ ہے جس کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا۔
چونکہ تمام مملکتوں کے مقاصد ، اہداف ایک ہیں لہٰذا تمام بنیادی اختلافات ختم ہوگئے اسی لیے امریکہ روس کو قرض دے رہا ہے، چین امریکہ کو قرض دے رہا ہے، امریکہ پاکستان کو قرض دے رہا ہے، ایران افغانستان کی امریکہ نواز غریب حکومت کی ہر سال بھاری مالی امداد کرتا ہے فلسطین اتھارٹی میں الفتح کی حکومت ہو یا حماس اس کے اخراجات یوروپی یونین برداشت کرتی ہے کیوں؟۔کیا آپ نے تاریخ کی کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ خلافت عثمانیہ نے ایران سے قرضہ لیا ہو خلافت اسلامی نے روم ایران سے ادھار مانگا ہو امداد لی ہو۔ یونان نے ایران کو قرضہ دیا ہو ، سلطنت روما نے سلطنت چین کو قرضہ دیا ہو، ہندوستان کی حکومت نے عراق کی سلطنت سے ادھار لیا ہو۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اگر یہ سب نظریاتی ریاستیں ہیں ان کے مقاصد زندگی اہداف ما بعد الطبیعیات الگ ہے تو یہ سب ایک دوسرے کو قرضے کیوں دے رہے ہیں ؟ایک دوسرے سے قرضے کیوں لے رہے ہیں؟ دشمنوں کی مالی مدد کیوں کررہے ہیں؟اپنے دشمن کو اپنے مال و دولت سرمایے سے مضبوط بناتے ہوئے تاریخ میں کسی حریف فریق کو نہیں دیکھا گیا لیکن عصر حاضر کی تاریخ ہمیں کیادکھارہی ہے؟ یہ بھی عجیب بات ہے کہ سعودی عرب کے سرمایہ دارانہ امراء، حاکم ، شاہی خاندان کے لوگ اپنا سرمایہ اپنے ملک میں نہیں امریکہ یورپ کے بینکوں میں رکھتے ہیں جن کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اپنے مال کو سب سے زیادہ محفوظ دشمن کے ہاتھوں میں کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ ہے اصل سوال ؟پاکستان کے امراء امریکہ ، یورپ میں جائدادیں بناتے ہیں گھر خریدتے ہیں فارم ہا ؤس لیتے ہیں کیوں؟ اقبال نے شاید اسی لیے کہا تھا ؂ گھر اس کا بخارا نہ بدخشاں نہ سمر قند تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے لہٰذا عصر حاضر کا انسان موج بے کراں ہے جو اس بے کراں دنیا کے ہر حصے میں بغیر کسی خوف و خطر کے اپنے گھر تعمیر کررہا ہے، جائیدادیں خرید رہا ہے ، عشرت کدے بنارہا ہے ظاہر ہے کسی کو کسی سے کوئی خطرہ ہی نہیں ہے۔عہد حاضر کا انسان عالمی انسان [Global man] ہے یہ دنیا عالمی گاؤں [Global village] ہے اور ہر شخص سرمایے کے بل پر اس گاؤں کے کسی بھی دیہہ میں بس سکتا ہے اصل شرط ہے سرمایہ [Capital] عہد حاضر کا اصل مذہب سرمایہ داری ہے جو انسانی حقوق کے منشور کے ذریعے، جمہوریت کے ظہور سے اپنے آپ کو مضبوط کرتا اور اپنی وسعتوں میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان نے کارگل پر حملہ کیا بھارت نے طاقت کے باوجود جوابی کارروائی نہیں کی اس سے پہلے بھارت نے سیاچین پر قبضہ کیا پاکستان نے کوئی خاص جوابی کارروائی نہیں کی جنرل ضیاء الحق نے کہا وہاں تو پتّی بھی نہیں اُگتی تائیوان کی چین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں مگر چین نے تائیوان پر قبضے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ اس نے ہانگ کانگ پر قبضے کے لیے بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی آخر کیوں؟ عموماً جنگیں سرمایہ داری کے مفادکے خلاف ہیں بھارت، چین ،تائیوان میں امریکی صنعت کاروں کے اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہے لہٰذا جنگ اس سرمایے کے لیے ٹھیک نہیں ہے لہٰذا جنگ کی ضرورت نہیں ہے جنگ کا امکان ہوگا تو رکوادی جائے گی لیکن اگر جنگ سے معاشی ترقی میں اضافے کا امکان ہوگا توجنگ جبراًکرادی جائے گی جنگ سرمایے میں اضافے ، سرمایے کے تحفظ، سرمایے کے پھیلا ؤ کے لیے ہوتی ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ ہو یا مستقبل میں کسی موہوم خطرے کا امکان ہویا سرمایہ داری کو فروغ دینا ہو تو وہاں خطرہ ابھرنے سے پہلے ہی جنگ مسلط کردی جاتی ہے۔ افغانستان اور عراق اور لیبیا اس کی مثال ہیں یہاں جنگ کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ تینوں ریاستیں بہت طاقت ور ریاستیں نہیں تھیں مگر خطرات محسوس ہوتے تھے۔برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کی تعمیراتی کمپنیوں کو اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ہدایت کی ہے کہ وہ لیبیا میں سرمایہ کاری کریں جہاں ہم نے سرمایہ کاری کے امکانات پیدا کیے ہیں اس سے پہلے لبنان و بیروت میں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا کیے گئے تھے جنگیں سرمایہ کے امکان کو پیدا کرنے سرمایے کی توسیع کرنے اور سرمایہ داری کے راستے میں حائل خطرات دور کرنے کے لیے متنوع کثیر المقاصد حکمت عملی کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں سلامتی کونسل کے پانچ ممالک جو ویٹو کی پاور رکھتے ہیں دنیا کا اَسّی فی صد اسلحہ بناتے ہیں امن کے نام پر اسلحہ کیوں بنایا جاتا ہے سرمایہ دارانہ امن پیدا کرنے لیے [۱۲۹]اسلامی جمہوریت کی اصطلاح ۱۹۶۰ کے عشرے میں سامنے آئی جب رئیس احمد جعفری کی کتاب سرکاری ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہورکے تحت اسی نام سے شائع ہوئی ۷۰ کے عشرے تک پاکستان کی ہر سیاسی مذہبی جماعت کا نعرہ اسلامی جمہوریت تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی علمیت کی امہات کتب، فقہ کے ذخیرے میں یہ اصطلاح کیوں نہیں ملتی؟ اگر اسلامی جمہوریت فی الحقیقت کوئی شے ہے کوئی نظام سیاسی ہے تو کسی کتاب میں اس اصطلاح کا ذکر کیوں نہیں ہے ووٹ کی شرعی حیثیت پر فقہ کی کتب میں ابواب کیوں نہیں ہیں؟اگر اسلامی جمہوریت پندرہ سوسالہ اسلامی تاریخ میں کہیں نافذ رہی تو اس ریاست اس سلطان اس حاکم کا نام تو بتایا جائے جو اسلامی جمہوریت کے ذریعے اپنی ریاست چلا رہا تھا عباسی سلطنت کو تاتاریوں نے شکست دی تواس کے بعد دنیا کے نقشے پر تین مسلمان سلطنتیں وجود میں آئیں ایران میں صفوی حکومت، ہندوستان میں مغل حکومت ترکی میں عثمانی سلطنت مگر کسی جگہ اسلامی جمہوری نظام نافذ نہیں تھا آخر یہ اصطلاح کہاں سے اخذ کی گئی ہے؟
اگر اسلامی جمہوریت کی اصطلاح اسلامی ہے تو اسے اسلامی علمیت کے ذخیرے میں تلاش کرنا چاہیے اور اسلامی تاریخ میں اس جمہوریت کو روبہ عمل آتے ہوئے دیکھنا چاہیے لیکن ہمیں یہ کہیں نہیں ملتی بیعت کی اصطلاح ملتی ہے ووٹ کی نہیں ووٹ بیعت کا مترادف مساوی نہیں ہے ووٹ دینے والا قانون ساز، آزاد، الحق ہے بیعت کرنے والا صرف عبد ہے اور اللہ و نبیؐ کے حکم پر عمل کررہا ہے بیعت اطاعت کا اعلان ہے اللہ رسول اور اولی الامر کی اطاعت معروف میں کرنے کے فریضے کا اظہار ہے بیعت ایک فرض[Duty] ہے ذمہ داری ہے حق[Right] نہیں ہے مولانا مودودی مرحوم کے یہاں بھی اس اصطلاح کا استعمال کثرت سے ملتا ہے لیکن یہ مولانا کا تفرد ہے اسی تفرد کی علمی بنیادیں انھوں نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں بیان کیں اس تفرد کی کم زور علمی توجیہات ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ مرتبہ پروفیسر خورشید میں بھی کثرت سے ملتی ہیں لیکن اسلامی جمہوریت کی تمام دلیلیں نہایت کم زور ہیں ان کے سامنے مغرب کا منہاج جمہوریت ہے اسے وہ معیاری سمجھتے ہیں وہ اسی سے متاثر ہیں لہٰذا انھوں نے اسلامی تاریخ کی بعض جزئیات میں مغرب کی جمہوریت کے کلیات کا عکس دیکھا تو اسے اسلامی جمہوریت کا نام دے دیا جمہوریت کو درست نظام زندگی ثابت کرنے کے لیے انھوں نے خلفائے راشدین کے دور کے سوا پوری اسلامی تاریخ کو بد ترین ملوکیت قرار دے دیا حالانکہ رسالت مآبؐ سے پہلے آنے والے انبیاء کی تاریخ بھی ملوکیت کی ہی تاریخ ہے لیکن جمہوریت ، عوام کی طاقت کاتعقل غالب [Dominant Discourse] جو مغرب کی علمیت کے غلبے کے باعث ہم پر مسلط ہے اس سے ہم آہنگ رویہ اور طرز فکر اختیار کرنا ہی عہد حاضر میں مولانا مودودی کو بہتر نظر آیا لہٰذا اسلامی تاریخ پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا اوراسلام میں ملوکیت کے رد کے لیے دلیل یہ دی گئی کہ ایک توہے اسلام کی تاریخ اور یہ ہے مسلمانوں کی تاریخ دونوں کو خلط ملط کرنے سے گریز کیا جائے؟ مگر یہ دلیل نہایت کم زور دلیل ہے اس معصوم بچی کی دلیل کی طرح جس کے دو بھائی تھے اور وہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی اور اپنے ماں باپ سے بار بار پوچھتی کہ امی میرے تو دو بھائی ہیں لیکن بھائی جان کا صرف ایک بھائی ہے آخر کیوں؟مولانا بہت بڑے آدمی تھے لہٰذا ان کی غلطی بھی بہت بڑی ہے مگر مولانا کی غلطی کسی کے لیے حجت نہیں حضرت مجدد الف ثانی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ہم نص کے مقابلے میں فص [مراد فصوص الحکم ہے] کو رد کردیں گے کیونکہ کسی بڑے آدمی کی رائے جو ماخذات دین، تعامل امت اور اجماع امت کے خلاف ہو کسی کے لیے حجت نہیں ہر بڑے آدمی کی رائے اس کے تسلیم کردہ اصولوں کی روشنی میں پرکھی جائے گی مولانا مودودی ؒ امت کے اجماعی ماخذات دین کو اصولی طور پر تسلیم کرتے ہیں لہٰذا ان کی یہ رائے ان کے اصولوں کے منافی ہے یہ سہوا ہے اسے اجتہاد نہیں کہا جاسکتا اجتہاد کے لیے ماخذات دین سے حوالہ پیش کرنا ہوگا مغرب کی سیاسی تاریخ دین کے ماخذ میں شامل نہیں نہ مغرب کا علم ، فلسفہ ، ادارے ماخذات ہیں نہ علم استقراء و استخراج ماخذات میں شامل ہیں۔ڈاکٹر اسرار احمد سے انٹر ویو کرتے ہوئے ہفتہ روزہ وجود نے نے سوال کیا تھا کہ آپ اسلامی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس اصول کے تحت یزید کی خلافت تو خالص جمہوری تھی کیونکہ حضرت امیر معاویہؓ کی زندگی میں سوائے چار صحابہ کے تمام صحابہ نے یزید کی بیعت کرلی تھی اور حضرت معاویہؓ کے انتقال کے بعد بقیہ دو صحابہ نے بھی بیعت کرلی اور صرف دو صحابہ حضرت عبداللہؓ ابن زبیر اور حضرت حسینؓ نے بیعت نہیں فرمائی تو جمہوری طریقے سے تو خلافت یزید منعقد ہوگئی کیونکہ صرف دوصحابہ کے سوا امت کی اکثریت تو یزید کے ساتھ تھی تو ڈاکٹر صاحب کی اسلامی جمہوریت خطرے میں پڑ گئی وہ کوئی جواب نہ دے سکے رسالے نے آخری سوال پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اگر حضرت معاویہؓ اپنی زندگی میں لوگوں کے مشورے سے یزید کو خلیفہ مقرر کردیں جس سے امت کے صرف چار بڑے لوگ اختلاف کریں تو وہ ملوکیت ہو جاتی ہے لیکن ڈاکٹر اسرار اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اپنی جماعت کا امیر نامزد کردیں تو یہ جمہوریت کہلاتی ہے تو ڈاکٹر صاحب سکتے میں آگئے تھے ڈاکٹر صاحب کے رسالہ جات ’’میثاق‘‘ ، ’’حکمت قرآن‘‘، ’’ندائے خلافت‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کا ہر انٹر ویو شائع کیا جاتا ہے لیکن مذکورہ انٹر ویو ڈاکٹر صاحب کے کسی رسالے میں آج تک شائع نہیں ہوا۔ یہ ہے اسلامی جمہوریت کے خلاف کیے جانے والے نقد کی طاقت۔
تاریخ انسانی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چین، ایران، یونان، ہندوستان، روما کے بادشاہوں نے دوسری بادشاہتوں میں زمینیں خریدی ہوں وہاں اپنے گھر بنائے ہوں خصوصاً ان سرزمینوں میں جو ان کے حریف و دشمن رہے ہوں جہاں سسرالی تعلقات ہوگئے ان کا ذکر ہم نہیں کررہے عصر حاضر کے دشمن عجیب دشمن ہیں جو اپنے دشمنوں کی سرزمین میں سکون اور طمانیت محسوس کرتے ہیں مذہب سرمایہ داری اور مذہب انسانی حقوق کے عام ہونے کے بعد دنیا کے کئی ملکوں کی فوج ہی نہیں ہے جاپان جیسا ملک فوج کے بغیر ترقی کررہا ہے اس کو کسی سے خطرہ نہیں کیوں کہ وہ کسی کا دشمن نہیں سارا دفاعی بجٹ معیشت کی ترقی میں لگ رہا ہے اس کا نظریہ، اصول، مقصد صرف سرمایہ داری کی شب و روز حدمت ہے ہے لہٰذا اسے کسی سے ڈر نہیں۔سرمایہ داریت جیسے جیسے عام ہو گی اس صورت حال میں مزید اضافہ ہوگا لہٰذا یہ بات اب عام ہورہی ہے کہ سرمایہ داریت تمام اختلافات کے خاتمے کا سبب بن جائے گی اور لوگ صرف ایک خدا سرمایہ کی پرستش کریں گے لہٰذا دنیا پرامن ہو جائے گی۔حالانکہ یہ بھی ایک افسانہ ہے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم مذہبی ریاستوں نے نہیں لڑی یہ سرمایہ دارانہ قوم پرست ریاستوں کے درمیان لڑی گئی کیک کے حصول پر اتفاق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کیک کے حصول کی تقسیم پر بھی اتفاق ہو جائے گا زیادہ بڑا حصہ لینے پر بھی جنگیں ہوسکتی ہے سرمایہ داری کا ترجمہ ہے حرص و حسد و ہوس کی عالمگیریت حرص و حسد ہوس بڑی بڑی جنگوں کا سبب بن سکتے ہیں۔دنیا کی ہر قوم کا ایک ہی مقصد ہے غربت پسماندگی کا خاتمہ موجود اور میسر پر عدم اطمینان ، نئے افق کی تلاش، معیار زندگی کے نا معلوم خدا کی پرستش، حاضر وموجود کو ناکافی سمجھ کر پروگریس اور ڈیولپمنٹ کی آرزو، ایرانی انقلاب کے اہم ترین رہنما شہید باقر الصدر کے دور سائل ’’اسلامی جمہوریہ کا دستوری ڈھانچہ اور اس کے مصادر قوت‘‘ کے نام سے محرم الحرام ۱۴۰۴ھجری میں مرکز تبلیغات پنجمین سالگرد پیروزی انقلاب اسلامی ایران‘‘ نے شائع کیے تھے ان رسائل کے پیش لفظ میں حکومت کے ناشر لکھتے ہیں’’ اسلام کے پاس وہ کونسی قوت ہے جس کے بھروسے پر پسماندگی اور زبوں حالی کا خاتمہ کیا جاسکے اور معاشرے کی ایک ایسی تشکیل کی جاسکے جسے صحیح معنوں میں ترقی یافتہ انسانی معاشرہ کہا جاسکتا ہے آیت اللہ شہید نے اسی اشکال کا جائزہ لیا ہے اور ان تمام قوتوں کی نشان دہی کی ہے جس کی بنیا دپر اسلام تعمیر نوکا فریضہ انجام دے سکتا ہے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور اس کام کو انجام نہیں دے سکتا‘‘ دوسرے معنوں میں اسلامی انقلاب کا مقصد محض پسماندگی اور زبوں حالی کا خاتمہ اور ترقی یافتہ انسانی معاشرہ تشکیل دینا ہے اسلامی علمیت کا ذخیرہ اورپیغمبروں کی بعثت کے مقاصد ۔ ان مقاصد کے ذکر سے خالی ہیں۔ یہ خیالات خالص جدید اصطلاحات ہیں جن کا تعلق جدیدیت کے مادہ پرست فلسفے سے ہے قصص القرآن ہمیں انبیاء کی آمد اور ان کی دعوت کے ضمن میں ان اہداف سے آگاہ نہیں کرتے لہٰذا قرآن کے نصوص کے مقابلے میں حکومت ایران کا موقف قبول نہیں کیاجاسکتا اس کی اصلاح ضروری ہے؟ [۱۳۰]اسلامی تہذیب و تاریخ میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے سخت شرائط ہیں۔ وہ متقی، عالم ،فاضل ،صائب الرائے اور عہدے کا طالب نہ ہو ارباب حل و عقد خلیفہ چنتے ہوئے اس کی شخصیت کو ہر پہلو سے دیکھتے ہیں پھر اسے خلافت کے لیے نامزد کرتے ہیں لیکن جمہوریت میں صدر وزیر اعظم بننے کے لیے سرے سے کوئی قابلیت ، کوئی اہلیت، کوئی علمیت، استعداد، ضروری نہیں ایک بھنگی موچی نائی جو علم والا نہ ہو [ان پیشوں میں بہت سے لوگ علم والے بھی ہوتے ہیں]صرف عاقل بالغ ہوانتخابی مہم کے بھاری اخراجات اٹھا سکتا ہو یعنی طاقت کے حصول کے لیے اپنے مال سے یا سرمایہ داروں کے مال سے سرمایہ کاری کرسکتا ہو تو وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے ملک کا صدر بھی بن سکتا ہے صدر ریگن ہالی ووڈ کے ایکٹر، امریکہ کے صدر بن سکتے ہیں کوئی مسخرہ بھی صدر وزیر اعظم بن سکتا ہے کیونکہ جمہوریت میں شرط عوامی مقبولیت ووٹ حاصل کرنا ہے قابلیت تو سرے سے عوامی نمائندوں کے لیے رکھی نہیں گئی ہے جو لوگ ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے کریں ان کا کوئی معیار کوئی پیمانہ نہ ہو یہ ایک غیر عقلی بات ہے لیکن دنیا نے اس کو عقل کے نام پر قبول کرلیاہے کیونکہ جمہوریت میں اصل طاقت ان کے پاس نہیں ہوتی لہٰذا ان کو قابلیت پیدا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا ۔ پاکستان میں بیوروکریٹ بننے کے لیے سول سروس [CSS] کے مشکل ترین امتحان میں کامیاب ہونا لازمی ہے پھر سول سروس اکیڈیمی میں اس کی تربیت کی جاتی ہے پولیس میں جانے والے کو بھی پولیس ٹریننگ سینٹر میں دو سال کا کورس کرنا پڑتا ہے آرمی میں میجر سے اوپر کے عہدے کے لیے اسٹاف کالج کوئٹہ کے کورسز میں کامیابی ضروری ہے عدلیہ کے ججوں کو جوڈیشل اکیڈیمی میں تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے صرف پارلیمنٹ دنیا بھر میں اور پاکستان میں واحد یتیم ادارہ ہے جس میں جانے والے کو نہ انگریزی آتی ہو نہ قانون جانتا ہو نہ لکھنے پڑھنے سے تعلق ہو بس انگوٹھا لگانے کا عادی ہو اُسے صدر وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے آخر کیوں؟ پارلیمنٹ کے رکن کے لیے کسی اہلیت و قابلیت کی شرط کا عائد نہ ہونا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل اختیارات ان جاہلوں کے پاس ہوتے ہی نہیں اختیارات تو عالمی اداروں، عدلیہ ، ٹیکنو کریسی، بیوروکریسی ، فوج ، سرمایہ دارانہ اقلیت کے پاس ہوتے ہیں ان انگوٹھا چھاپ لوگوں کا کام تو صرف مختلف قوانین، بلوں کو منظور کرنا ہے جو چھ غیر منتخب اداروں کی مرضی سے بنتے ہیں لیکن تاثر عوام کو یہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے نمائندوں کی منظوری سے یہ تمام قوانین نافذ ہورہے ہیں اور تمہارے مفاد کے بارے میں تم سے بہتر تمہارے نمائندے ہی سوچ سکتے ہیں اور اگر بالفرض یہ تمہارے مفاد میں سوچنے سے عاری ہیں مفاد پرست ہیں تمہارے دشمن ہیں تو کوئی بات نہیں تم صبر سے کام لو احتجاج مظاہرے جلسے جلوس کرو اگلے پانچ سال کا انتظار کرو پھر ان جاہلوں کو ووٹ نہ دینا کسی اور جاہل کو منتخب کرلینا کیوں کہ تمہارے مقدر میں یہی جاہل آئیں گے جاہلوں کے مقدر میں جاہلوں کے سوا کیا آسکتا ہے لہٰذا عوام اگلے پانچ سال تک انتظار کرتے رہیں پھر نئے جاہل کو منتخب کرکے اگلے پانچ سال تک اسے برطرف کرنے شکست دینے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں حتی کہ خواب دیکھتے دیکھتے زندگی بسر ہو جاتی ہے اسی کا نام جمہوری عمل ہے جسے لوگ عوام کی طاقت سمجھتے ہیں دنیا کی تاریخ میں ہر حکومت علمی استعداد رکھنے والی اشرافیہ چلاتی ہے اشرافیہ نیک لوگوں پر مشتمل ہو تو حکومت کا کاروبار اچھا چلتا ہے اس اشرافیہ کو پیدا کرنا ہر تہذیب کی بنیادی ذمہ داری ہے امت مسلمہ میں یہ ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوتی ہے انھوں نے کئی سو سال اس ذمہ داری کو نبھایا ہے جب تک وہ یہ ذمہ داری اٹھانے پر تیار نہ ہوں گے امت بھٹکتی رہے گی ۔ جمہوریت کے ذریعے صرف اور صرف جہلاء نہیں پڑھے لکھے اور عالم فاضل بھی منتخب ہوسکتے ہیں مگر عملاً منتخب نہیں ہوتے اگر منتخب ہو جائیں تو سرمایہ دارانہ نظام انہیں چلنے نہیں دیتا غیر جمہوری نظام میں خلیفہ بادشاہ کے لیے سخت شرائط اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ ہی ریاست کو چلانے کے فیصلے کرتا ہے لہٰذا اس کا اہل ہونا ضروری ہے جمہوریت میں تمام فیصلے معاملے پارلیمان صدر اور وزیر اعظم طے نہیں کرتے وہ فیصلے غیر منتخب اشرافیہ کرتی ہے مگر منظر پر عوامی نمائندے ہوتے ہیں غیر جمہوری فیصلے جمہوری نمائندوں کے ذریعے عوام پر مسلط کرکے انھیں دھوکہ دیا جاتاہے کہ وہ اقتدار اختیار اور حکومت کے فیصلوں میں شریک ہیں یہ جمہوری نظام کا کمال ہے لوگ دھوکہ بھی کھالیتے ہیں اور کسی کو دھوکے کا پتہ بھی نہیں چلتا قاضی حسین احمد ایم ایم اے وغیرہ نے سترہویں ترمیم کے مسئلے پر پرویز مشرف سے معاہدہ کیا معاہدہ انگریزی میں لکھا گیا مسودے میں پرویز مشرف نے کوئی تکنیکی ترمیم کردی جس کو قاضی صاحب نہیں سمجھ سکے ترمیم منظور ہوگئی بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ دھوکہ ہوا ہے غلطی ہوگئی ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ووٹر لسٹ کے اندر ڈھائی کروڑ جعلی ووٹ درج ہوئے کسی مذہبی سیاسی جماعت کو اس کا پتہ نہ چل سکا جماعت اسلامی نے بعض وجوہات کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا مگر بعد میں ضمنی انتخابات میں حصہ لیا مگر اس الیکشن کی حیثیت کیا ہے؟
[۱۳۱] قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی تحریک استحقاق [Previlage motion] پیش کرتا ہے میرا استحقاق مجروح ہوا فلاں دفتر میں گیا اس کے افسر نے میری بے عزتی کی فلاں پولیس والے نے مجھے دفتر سے نکال دیا، کسی سرکاری افسر نے میری نہیں سُنی یا کسی لنگڑے لولے مسئلے پر توجہ دلاؤ نوٹس پر کھڑے ہو جاتے ہیں یا کوئی تحریک التواء پیش کردیتے ہیں اور کوئی مسئلہ ایوان کے سامنے اٹھادیتے ہیں اگر کچھ پڑھے لکھے ہیں تو کوئی پرائیوٹ بل تیار کرکے اسمبلی میں لے آتے ہیں اگر کچھ سمجھدار ہیں عقل مند ہیں تو اخبارات پڑھ پڑھ کر یا ذہن سے گھڑ گھڑ کر سوالات تیار کرکے وقفہ سوالات میں سوالات کے جوابات حاصل کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی ان بے کار سرگرمیوں کے باعث ان کا نام بار بار اخبار میں آیا بار بار ٹی وی پر ان کی خبر چلی تصویر نکلی اور اپنی جماعت کے کسی اخبار یا رسالے میں اعداد و شمار کا جدول کہ ہماری جماعت کے اراکین اسمبلی نے اتنے سوالات ، اتنے توجہ دلاؤ نوٹس ، اتنی تحاریک التواء، اتنے بل، اتنے نکتہ ہائے اعتراض پیش کرکے عوام کی بھر پور نمائندگی کی لہٰذا آئندہ انتخابات میں ہم کو دوبارہ منتخب کرلیجیے اسلامی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بھی بس یہی ہوتی ہے اس اچھل کود سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے ہماری سنی جارہی ہے مسائل حل ہورہے ہیں حالانکہ جمہوری نظام میں تنقید سنی جاتی ہے تاکہ آپ اس سے جڑے رہیں اسی کے ساتھ چمٹے رہیں اور امید میں زندہ رہیں مگر یہ پورا عمل نظام حاضر و موجود میں تحلیل ہونے کا عمل ہے اس رویے سے آپ اس نظام پرمکمل اعتماد و یقین کا اظہار کرتے ہیں اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ ساتھ چہرے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کی تمام تر جدوجہد کا مرکز صرف چہرے بدلنا ہے تو یہ بات خود بخود پا یۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آپ کو موجودہ نظام جمہوریت و سرمایہ داریت سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے صرف ضیاء الحق ، پرویز مشرف ، نواز شریف ، آصف زرداری کے چہرے آپ کو پسند نہیں ہیں آپ کو صرف اپنی جماعت کے لوگوں کے ہی چہرے پسند ہیں یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی! موجود و حاضر جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کے اندر شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس مغربی جدیدیت پسند نظام کے اصولوں ، اقدار، روایات، رویوں، ما بعد الطبیعیات ، اخلاقیات ، مقاصد، اہداف، تاریخ اہداف، سے کوئی اختلاف نہیں اس نظام کا سانچہ ، ڈھانچہ ، بنیادیں ، قبلہ ، اصول ، طریقے سب ٹھیک ہیں بس نظام جس فرد یاپارٹی کے ہاتھ میں ہے آپ اس کو ہٹانا چاہتے ہیں صرف اس کو ٹھیک نہیں سمجھتے سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومت نہ کبھی جدید تھی نہ جمہوری نہ سرمایہ دارانہ تو آپ نے کافرانہ نظام زندگی میں اسلام کی تخم کاری کرنے کا کیسے سوچ لیا چھاچھ سے مکھن نہیں نکل سکتا، ایلوے کے درخت پر شہتوت نہیں اگ سکتے اگر اگیں گے تو یقیناً کڑوے ہوں گے
اس سلسلے میں ایک دوسرا نقطہ نظر ممکن اور وہ یہ ہے کہ ہم اضطراری حالت کے تحت نظام کے اندر شامل ہو کر یہ کام کررہے ہیں موجودہ حالات میں جمہوریت کے سوا کام کرنے کا، کامیابی حاصل کرنے کا، عوام کو ہم خیال بنانے کا، قوت کے مراکز پر قبضہ کرنے کا کوئی دوسرا موثر طریقہ نہیں ہے لہٰذا یہ مجبوری ہے مگر ہم اس جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کو درست نہیں سمجھتے حکمت عملی کے تحت اس نظام کا حصہ بن گئے ہیں جب موقع ملے گا اسے الٹ دیں گے یہ ایک بہتر نقطۂ نظر ہے اس کو حالات کے تحت قبول کیا جاسکتا ہے لیکن اس نقطۂ نظر کو اختیار کرتے ہوئے ایرانی انقلاب کو پیش نظر رکھا جائے کہ جمہوریت میں شرکت کے بغیر زیادہ بہتر اور موثرکامیابی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن ستر سال انتظار کرنا پڑتا ہے ہتھیلی پر سرسوں جمانے سے نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی ہے جو اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ہم جمہوریت کو اصولی، اخلاقی، دینی، اسلامی، مذہبی طور پربالکل درست نظام تسلیم نہیں کرتے مگر ہم جمہوریت کو ایک آلے ہتھیار حکمت عملی کے تحت عارضی طو رپر اختیار کررہے ہیں تاکہ جمہوریت کے ذریعے ہی جمہوریت کا خاتمہ کردیا جائے جیسا کہ ہٹلر نے جرمنی میں اور کمیونسٹ پارٹی نے روس میں کیا ایک مرتبہ منتخب ہو کرانھوں نے اس نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جس کے ذریعے وہ آئے تھے ۔یہ حکمت عملی کا مسئلہ ہے او ر اگر کوئی مذہبی ،سیاسی جماعت حکمت عملی کے تحت جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں شرکت کرتی ہے شراکت اقتدار کرتی ہے تو اس میں قطعاً کوئی ہرج نہیں مگر حالت اضطرار کب تک رہے گی اس کا تعین بھی ضروری ہے اس عمل کے اہداف کا تعین بھی ضروری ہے اور اس کے متبادل نظا م کا خاکہ موجود ہونابھی ضروری ہے اس طریقے سے اگر جمہوریت کو عارضی طور پر قبول کیا جائے عارضی طور پراس نظام کاحصہ بناجائے تو اس میں یقیناً کوئی ہرج نہیں ہے۔لیکن جمہوریت کو ایک اصول، ایک آفاقی حقیقت، اسلامی علمیت سے اخذ کردہ نظام زندگی، انقلاب اور اقتدار کی تبدیلی کا واحد اسلامی دینی مذہبی طریقہ کار تصور کرنا درست طریقہ رویہ نہیں ہمیں اس رویے اور نقطۂ نظر سے شدید اختلاف ہے۔
اگر اسلامی تحریکیں ان اصولوں کے تحت جمہوریت میں شرکت کررہی ہیں تو ان کا یہ کام قابل تعریف ہے اور ایسی تحریکوں کے ساتھ دنیا کے ہر خطے میں ہر سطح پر تعاون کرنا چاہیے لیکن کیا آپ ایسی تحریکوں کے نام انگلیوں پر گن سکتے ہیں؟ عالم اسلام میں عموماً دینی تحریکیں جمہوری نظام کو اسلامی جمہوریت، شورائیت، وغیرہ کے ناموں سے پیش کرتی ہیں وہ جمہوریت کو ایک آفاقی اصول ،نظام ،قدر سمجھتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کی حقیقت کی علمی بنیادوں سے واقف نہیں ہیں یا وہ کسی خفیہ حکمت عملی کے تحت ایسے دلائل دیتی ہیں کہ لوگ خوش ہو جائیں کیونکہ حدیث میں حالت جنگ میں دھوکہ دینے کی اجازت ہے امت خلافت عثمانیہ کے خاتمے بعد سے آج تک مسلسل اغیار کی جانب سے مسلط کردہ صلیبی جنگ کے سائے میں زندگی بسر کررہی ہے لہٰذا یہ جہادی حکمت عملی کہ دشمن کو دھوکہ دو جائز ہے لیکن کیا فی الحقیقت صورت حال یہی ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں؟
الشیخ یوسف قرضاوی، مصر کی اخوان المسلمون، مصر کی جدیدیت پسند اسلام کی نمائندہ ’’حزب وسط‘‘ علامہ اقبال، جاوید غامدی، وحید الدین خان اور جماعت اسلامی پاکستان سے اگر کوئی مستشرق صرف یہ پوچھ لے کہ حضرات محترم آپ اسلامی جمہوریت کی مستقل باتیں کرتے ہیں تو یہ بتائیے کہ جمہوریت میں سب لوگ عورت مرد برابر ہوتے ہیں یا نہیں ظاہر ہے ہاں ۔ مگر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ آپ کی پہلی اسلامی جمہوریہ [First Islamic Republic]میں تمام عوام تو کیا صحابہ کرام بھی برابر نہ تھے سنّی حضرت ابو بکرؓ کو سب سے افضل سمجھتے ہیں شیعہ حضرت علیؓ کو عشرہ مبشرہ کو تمام صحابہ میں برتری حاصل ہے باقی ان سے کمتر ہیں اصحاب بدر ۳۱۳ صحابہ سابقون الاولون ہیں ان کا درجہ تمام صحابہ سے برتر ہے خالدؓبن ولید حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ جیسے تجربہ کا رکہنہ عمر سپہ سالاروں کی موجودگی میں بیس سال کے لڑکے اسامہؓ بن زید کو سالار لشکر بنادیا جاتا ہے ایک صحابی کو عشرہ مبشرہ پر بھی فوقیت مل جاتی ہے اور ان کی ایک تنہا گواہی دو لوگوں کی گواہی کے برابر تسلیم کی جاتی ہے فتح مکہ سے پہلے ایک صحابی حاطبؓ ابی بلتعہؓ اپنے رشتہ داروں کو خفیہ پیغام بھجواتے ہیں کہ مکہ پر حملہ ہونے والا ہے رسالت مآبؐ کی ہدایت پر وہ عورت پکڑی جاتی ہے حضرت علیؓ اس کے بالوں سے وہ خط بر آمد کرتے ہیں اور حاطبؓ ابی بلتعہؓ کو کوئی سزا نہیں دی جاتی رسالت مآبؐ فرماتے ہیں یہ بدری صحابی ہیں انھیں کچھ نہ کہا جائے یہ پکے مومن ہیں جس ریاست میں لوگوں کے اتنے درجات ہوں ان کو اتنی مراعات ہوں اتنی اونچ نیچ ہو لوگوں کے مراتب میں اتنا فرق ہو مساوات نہ ہو وہ جمہوری ریاست کیسے کہلا سکتی ہے وہ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کی جمہوریہ کے دو خلفاء کرام رسالت مآبؐ کے داماد، دو خلفائے کرام رسالت مآبؐ کے سسر، پانچویں خلیفہ رسالت مآبؐ کے نواسے، چھٹے خلیفہ رسالت مآبؐ کے سالے، ساتویں خلیفہ رسالت مآبؐ کے سالے کے بیٹے ، آٹھویں خلیفہ سالے کے پوتے ، نویں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رسالت مآبؐ کے سسر حضرت عمرؓ کے نواسے تھے یہ کونسی جمہوریت تھی مغرب تو ایسی جمہوریت نہیں مانتا تو آ پ کیا جواب دیں گے؟ حقیقت یہی ہے کہ اسلامی علمیت کے ذخیرے پر اعتماد و یقین کے بغیر صرف عہد حاضر کے باطل نظریات کی اسلام کاری کرنے کے نتیجے میں ہم مستشرقین کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے اسی لیے ہر مسئلے پر اہل اسلام کو اصولی نقطۂ نظر اختیار کرنا چاہیے جدید مغربی نظریات سے متاثر ہو کر اسلام کو جمہوریت زدہ ثابت کرنا بد ترین علمی خیانت ہے جمہوریت کے ذریعے ایک گھر نہیں چل سکتا تو اتنی بڑی ریاست کیسے چل سکتی ہے۔رائے ہمیشہ صائب الرائے کی لی جاتی ہے ہر کہہ و مہہ سے رائے لی جائے تو یہ کوئی عالی کام نہیں ہے لیکن مغرب کی پیروی میں ہر ایک کو یہ عظیم طریقہ لگتا ہے مشورہ بغیر مانگے بھی دیا جاسکتا ہے یہ ہر شخص کی ذمہ دار ی ہے خصوصاً وہ شخص جو صاحب علم ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنا مشورہ متعلقہ فرد تک ضرور پہنچائے مگر مشورہ قبول کرنا یا رد کرنا اولی الامر کی ذمہ داری ہے عہد خلافت راشدہ میں کسی بڑھیا کے مشورہ دینے، کسی فرد کے روکنے ٹوکنے، کسی فرد کے کرتے کی لمبائی پرسوال کرنے اعتراض اٹھانے سے جمہوریت کہاں ثابت ہوگئی اس طرح تو جمہوریت فرعو ن کے دربار میں بھی تھی جو سب درباریوں سے مشورے کرتا تھا اس کے دربار میں حزب اختلاف بھی تھی کہ ایک سردار نے حضرت موسیٰ کے حق میں زور دار تقریر بھی کردی ملکہ بلقیس سباء نے بھی اپنے درباریوں سے مشورہ کیا شیطان نے اللہ رب العزت سے اختلاف کیا بات ماننے سے انکار کردیا توپہلی حزب اختلاف بھی ثابت ہوگئی اور اللہ میاں پر اعتراض کی آزادی بھی قرآن سے ثابت ہوگئی۔ اس آزادی کے طالب کے لیے قیامت تک چھوٹ بھی ثابت ہوگئی ان واقعات سے کیا جمہوریت ثابت ہوتی ہے؟ اگر کوئی چاہے تو جمہوریت کا تعلق دربار رب العزت سے جوڑسکتا ہے اس عمل کا نام ہے جزئیات سے کلیات اخذ کرنا جیسے تراویح میں سامع لقمہ دے تو آپ کہہ دیں یہ ہے تنقید کا حق سرعام ٹوک دیا روک دیا سوال یہ ہے کہ سامع کے بتانے کے باوجود حافظ غلط آیتیں پڑھے تو سامع نماز میں امام کی تقلید کرے گا یا الگ ہو جائے گا اپنی نماز الگ ادا کرے گا امام سجدہ سہو کرے یا نماز کو دہرائے تو کیا سامع امام کی تقلید سے انکار کردے کہ یہ غلطی میری نہیں تھی میں تو پہلے ہی متنبہ کرچکا تھا رسالت مآبؐ نے مال غنیمت تقسیم کیا کچھ لوگوں نے تقسیم پراعتراض کیااب قرآن کی اس آیت سے آپ پیغمبر پر تنقید کی آزادی ثابت کردیںیہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے سورہ احزاب میں حکم دیا گیا کہ آپ جس ام المومنین کو چاہیں اپنے ساتھ رکھیں جسے چاہے الگ رکھیں کوئی پابندی نہیں تاکہ کارِ رسالت میں آپ کو دشواری نہ ہو مگر آپ نے خود کو پابند کیا اور ہر ام المومنین کی باری مقرر کردی اور ان مقررہ ایام کی پابندی آپ مرض الموت تک کرتے رہے تو گویا نعوذ باللہ آپؐ نے قرآن کے نص کی خلاف ورزی کی حکم دیا گیا کہ ایک اور دس کا توازن ہو تواقدامی جہاد فرض ہے مگر اکثر جہاد میں یہ توازن طاقت نہیں تھا لہٰذا صحابہ کرام نے کم طاقت کے باوجود اقدامی جہاد کرکے قرآن کے نص کی خلاف ورزی کی ان کا فرض تھا کہ قرآن کے حکم پر عمل کرتے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شح نفس، سے بچنے کے لیے امت کو حکم دیا کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر اگر رشتہ دار آجائیں تو ان کو اس مال میں سے کچھ دو وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔۔۔ وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا [۴:۸،۹] دوسری جانب میراث میں اللہ تعالیٰ نے حصے مقررفرمادیے جب حصے طےشدہ ہیں یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا [۴:۱۱] تواللہ تعالیٰ کے اس حکم مشورے یا رائے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ اصل میں یہ حکم تو اللہ تعالیٰ کے طے کردہ حصوں والے حکم سے متضاد ہے لہٰذا یہ آیت ٹھیک نہیں ہے الحاق یا تحریف ہے حالانکہ انفاق کا حکم پہلے دیا گیا ہے اور میراث کے حصے بعد میں بتائے گئے ہیں جزئیات نگاری کا عادی ذہن اسی طرح کے کھیل تماشے کرتا ہے۔[۱۳۳] پاکستان اور دنیا بھر میں پولیس میں ایک اے ایس آئی کی بھی بھرتی ہوتی ہے تو پہلے اس کا امتحان ہوتا ہے پھر جسمانی امتحان پھر انٹر ویو پھر پولیس ٹریننگ سینٹر میں دو سال کی تربیت، سیکنڈ لیفٹننٹ آرمی میں بھرتی ہوتا ہے توپہلے ISSB کا امتحان ہوتا ہے پھر سخت جسمانی امتحان پھر انٹر ویو میں سخت ذہنی فکری نفسیاتی امتحان پھر دوسال پاکستان ملٹری اکیڈیمی کا کول میں نہایت سخت تربیت تعلیم۔ عدلیہ میں کسی کی تقرری ہوتی ہے تو اسے عدلیہ کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہوتی ہے پھر جوڈیشنل اکیڈیمی میں تربیت، آرمی میں میجر سے اوپر ترقی ہوتی ہے تو سلیکشن بورڈ ہوتا ہے اسٹاف کالج کوئٹہ سے کورسز کرنے ہوتے ہیں بیوروکریسی میں بھرتی ہوتی ہے تو CSS کا سخت امتحان انٹرویو سول سروس اکیڈیمی میں سخت تربیت۔ ان مراحل سے گزرے بغیر ہماری عدلیہ، فوج، بیوروکریسی ملک چلانے کے قابل نہیں ہوتی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ملک چلانے کے لیے اہلیت قابلیت اعلیٰ استعداد کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ان تمام اداروں میں داخلہ، بھرتی خالص قابلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن ان تمام اداروں کے سربراہوں کا تقرر کرنے والے صدر وزیر اعظم کے لیے کسی قسم کی کوئی قابلیت ضروری نہیں ہے وزیر اعظم چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کرتاہے جو بہت پڑھا لکھا اعلیٰ دماغ رکھنے والا آدمی ہے لیکن اس کی تقرری کرنے والا وزیر اعظم بالکل جاہل زیادہ سے زیادہ بی اے پاس ہے اگر اسے اسٹاف کالج کو ئٹہ کے کسی چھوٹے سے کورس میں بھیج دیا جائے تو ساری زندگی کامیاب نہیں ہوسکے گا لیکن یہ جاہل مطلق عدلیہ، انتظامیہ، فوج، بیوروکریسی ، ٹیکنو کریسی میں تقرریاں بھی کرتا ہے اور عالمی اداروں سے بات چیت کرکے ملک کی قسمت کے فیصلے بھی کرتا ہے اگر جہالت کم علمی اعلیٰ سطح کے فیصلوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو پھر تمام شعبوں میں وہی طریقہ کیوں اختیار نہ کیا جائے جو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے یعنی الیکشن کے ذریعے عوام کی رائے پوچھ لی جائے کہ حضرات آپ بتائیں چیف جسٹس، کمانڈر انچیف، پبلک سروس کمیشن کا سربراہ، ایف آئی اے، I.B، MI کا سربراہ کون ہو ہر محکمے میں بھرتیوں کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے کہ عوام کس کو ملازمت دینا چاہتے ہیں اگر عوام بہت عقل مند ہیں بڑے ذہین عبقری عالم فاضل ہیں کہ وہ صدر وزیر اعظم منتخب کرسکتے ہیں جو اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے تو عوام کو ہی تمام تقرریوں کے اختیارات دے دیے جائیں کہ آپ ہی ریفرنڈم سے افسران کا انتخاب کرلیں مگر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ہے اصل سوال عوام ہی شور مچاتے ہیں کہ دھاندلی ہورہی ہے رشوت عام ہے میرٹ کا قتل عام ہورہا ہے تو عوام یہ شور کیوں نہیں مچاتے کہ MNA، MPA، Councilar کو بھی میرٹ پر بھرتی ہونا چاہیے ان کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے۔ اگر قوم کی ملک کی بڑے بڑے معاملات کی قسمت کا فیصلہ عوام کرتے ہیں کیونکہ عوام سب سے زیادہ با شعور ہوتے ہیں عوام کا کوئی فیصلہ غلط نہیں ہوتا زبان خلق کو نقارۂ خدا کہیے، تو اس اصول کے تحت ان ذہین دانش مند عقل مند عوام [Most Rational & wise people] کو SHO، وائس چانسلر، بیوروکریٹ، جج منتخب کرنے کی بھی آزادی دی جائے اگر یہ آزادی سلب کرکے سلیکشن بورڈ کو دی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام میں اتنی اہلیت بھی نہیں ہے کہ وہ ایک صحیح ASI، صحیح SHO، صحیح آرمی کیڈٹ کا انتخاب کرسکیں عوام پر اس سلسلے میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا جو عوام اتنے نا اہل اور جاہل ہیں ان عوام کے نمائندے کو چیف جسٹس کمانڈر انچیف اور عالمی معاہدوں کو طے کرنے کا اختیار دینا کونسی عقل مندی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں یہ جاہل ہیں یہ جاہلوں کو ہی منتخب کرتے ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اہم قومی اداروں میں سربراہوں افسروں کی تقرری کا کام ان جہلاء کو نہیں دیا جاسکتا ان جاہلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی عدلیہ، بیوروکریسی ، ٹیکنو کریسی، فوج، وغیرہ کو اہلیت کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ وہ جاہلوں کے نمائندوں کی جاہلیت سے ملک و قوم کی تقدیر کو محفوظ رکھیں۔فیڈرلسٹ پیپرز [Fedralist papers] جمہوری حکومت کے عناصر میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ جمہوریت میں اصل فیصلے، معاہدے تو بیوروکریسی ، عدلیہ، ٹیکنو کریسی، فوج، سرمایہ دارانہ اقلیت عالمی اداروں ایجنسیوں کے ذریعے ہوتے ہیں یہ تمام کے تمام غیر منتخب Non elected ہوتے ہیں لہٰذا ان غیر منتخب عقل مند لوگوں ادار وں کے فیصلوں پر ان جاہلوں کے ٹھپے لگا کر دستخط کراکے عوام کو یہ التباس دیا جاتا ہے کہ یہ سب فیصلے آپ کے کیوں ہیں کیوں کہ یہ آپ کے نمائندے ہیں وہ نمائندے جو بجٹ پڑھ تک نہیں سکتے وہ بجٹ کی تعریف میں زبردست تقریریں کرتے ہیں یعنی کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں مگر عوام اس جھوٹ سے خوش ہوتے ہیں بے چاروں میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ اس جھوٹ کو سمجھ سکیں یا جھوٹ کو پکڑ سکیں لہٰذا جمہوریت میں اصل اقتدار عوام کے پاس ہوتا ہی نہیں لہٰذا یہ کہنا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ایک جھوٹ ، دھوکہ ، التباس ہے طاقت کا سرچشمہ جمہوریت میں صرف اور صرف سرمایہ دارانہ اقلیت [Capitalist minority] ہوتی ہے کیونکہ جمہوری لبرل سرمایہ دارانہ نظام، آزادی، مساوات، ترقی،موجودہ معیار زندگی میں مسلسل اضافہ ،سرمایہ داری [Capitalism]کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔لوگ سرمایہ دار بننا چاہتے ہیں سرمایہ داری پسند کرتے ہیں سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی عیش و عشرت عیاشی AC، شاندار کاریں، ان سب چیزوں کو پسند کرتے ہیں مغربی جدیدیت نے لوگوں کے ذہنوں کو اس پسند پر آمادہ کرلیا ہے ان کا ایمان بدل دیا ہے فکر بدل دی ہے لہٰذا عدلیہ فوج انتظامیہ عالمی ادارے ٹیکنو کریسی عوام کی ان سرمایہ دارانہ خواہشات کو ممکن بنانے کے لیے کام کرتی ہے ان غیر فطری خواہشات کو غیر فطری طریقے استعمال کرکے فطری بنادیتی ہے ۔ وہ ہیومن رائٹس ڈسکورس کے ذریعے عوامی اکثریت سے سرمایہ دارانہ اقلیت کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے اس اقلیت کے مفادات کوعوامی اکثریت کے متوقع ممکنہ جبر تسلط سے بچاتی اور سرمایہ کاری کے مواقع ممکن بناتی ہے۔ہر شخص کو سرمایہ دار بننے، سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کے خواب دیکھنے کے راستے مہیا کرتی ہے John Rawls کی کتاب ’تھیوری آف جسٹس‘ کے مطابق جمہوری لبرل سرمایہ داری کا کام چار بنیادی امور خیر مہیا کرنا ہے [Four primary goods] آمدنی، دولت، طاقت، اختیار[Income, Wealth, Power, Authority] ان کے حصول کے نتیجے میں انسان کو ذاتی تکریم [Self Respect]حاصل ہوتی ہے، جمہوری ریاست میں ذاتی تکریم کا پیمانہ صرف مادی ہے اور یہ پیمانہ تاریخ میں کبھی دریافت نہیں ہوا۔ Power سے مراد طبعی علم [Physical Knowledge] ہے کیونکہ کانٹ کے فلسفے کے نتیجے میں مابعدالطبیعیات کا امکان ختم ہوگیا اور صرف طبعی دنیا کا علم و ادراک باقی رہ گیا لہٰذا علم سے مراد طبعی، سائنسی، مادی، علم ہے جس کے نتیجے میں طاقت حاصل ہوتی ہے اور اسی سے آمدنی اور دولت سرمایے کا عمل شروع ہوتا ہے لہٰذا حصول علم کا مقصد حصول طاقت ہے دنیا کے علم [Knowledge of the Physical world] کے حصول کا مقصد صرف اور صرف [Solely]، خواہشات نفس کو پورا کرنا [Gratification of Desires] ہے لہٰذا جمہوریت اور سرمایہ دارانہ حکومت کے نتیجے میں تجربی علوم، مادی علوم، مادی حسی علوم ہی اصل العلوم قرار پاتے ہیں ان علوم میں اضافہ ہی ریاست کا مقصد ہوتا ہے ریاست تمام پیسہ توجہ ان علوم کے حصول پر ہی صرف کرتی ہے لہٰذا یہ اسکول، کالج، یونیورسٹی، جن سے دنیا طلبی ممکن ہوتی ہے عام ہو جاتے ہیں۔ غیر لبرل و لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہر قسم کی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی آزادی ہوتی ہے خواہ ایک صوفی کی خواہشات ہوں یا ایک رقاصہ کی خواہشات دونوں میں لبرل ریاست کوئی فرق محسوس نہیں کرتی اس کی نظر میں ہر قسم کی خواہشات کی سطح ایک ہی ہے لہٰذا ایک جمہوری حکومت کا مقصد محض Authority - Power - Income اور [Capital] Wealth میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ اضافہ جاہل لوگ نہیں کرسکتے لہٰذا جہلاء صرف انگوٹھے لگاتے ہیں پارلیمنٹ سرمایہ دارانہ نظام کی ربر اسٹیمپ ہوتی ہے لہٰذا جمہوری ریاست حرص [Greed] اور شہوت [Lust] کو فروغ دیتی ہے جس کے نتیجے میں لوگ اچھے سرمایہ دار بن جاتے ہیں ان خصائل حسنہ سے محروم لوگ سرمایہ داری کے لیے بے کار کارندے ہیں ۔
John Rawls کے پرائمری گڈز ہی انسانیت کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کسی فرد کو جب یہ بنیادی خیر حاصل ہوتے ہیں تو اسے تکریم ذاتی [Self respect] حاصل ہوتی ہے اگر اسے یہ Primary Goods حاصل نہ ہوں تو اسے ذاتی تکریم حاصل نہیں ہوسکتی وہ عزت نہیں پاسکتا نہ اپنی نظروں میں نہ دوسروں میں یعنیانسان کی زندگی کا مقصد صرف مادی فتوحات ہے کیونکہ دنیا یہی ہے اس مادی ظاہری دنیا کے سوا کوئی اور دنیا لبرل ازم، سوشل ازم،سرمایہ دارانہ جمہوریت میں وجود ہی نہیں رکھتی لہٰذا مادی سائنسی فتوحات کے ذریعے اس دنیا کو جنت ارضی میں تبدیل کرنا ہی لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کا مقصد ہے یہی سوشل ازم، ماڈرن ازم، پوسٹ ماڈرن ازم، انارکزم، ویلفیئر ازم، ہیومن ازم، کمیونزم نیشنل ازم، فاشزم، مارکس ازم، ماوازم، کاستر و ازم کا مقصد ہے اور ٹیکنو سائنس اس جنت ارضی کو ممکن بنانے کے ذرائع ، مواقع، اسباب و وسائل طرائق مہیا کرتی ہے لہٰذا جدید سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنسی علوم پر تمام طاقت وسائل اسباب ذرائع اسی لیے جھونکے جاتے ہیں کہ دنیا میں جنت کے لطف حاصل کیے جائیں لہٰذا ان معاشروں میں زبردست مادی ترقی ہوتی ہے لیکن زبردست اخلاقی زوال کے ساتھجدید جمہوری آئینی دستوری ریاست صرف اور صرف اسی انسان، انہی مقاصد، انہی اہداف کے لیے کام کرتی ہے اب ان اہداف و مقاصد کو اسلام کے اہداف ثابت کرنا جمہوریت کی تاریخ، فلسفے، اس کی ما بعد الطبیعیاتی بنیادوں سے ہماری عدم واقفیت ہے ۔
جدید جمہوری ریاست نیو لبرل ازم[Neo Liberalism] کے تحت دو قسم کے حقوق مہیا کرتی ہے ذتی یا انسانی حقوق [Individual or Human Rights]اس میں جائیداد، زندگی، عقائد [Property life belief]اور فلاحی حقوق [Welfare Rights] مساوی مواقع اور بنیادی ضروریات کی فراہمی [Equality of apportuinity provision of basic necessities]کا حق شامل ہے John Stauart Mill کے خیال میں اگر یہ حقوق مہیا نہ کیے جائیں تو ان کے بغیر افادہ میں اضافہ محال ہے [Utility maximization was impossible]۔ جدید جمہوری ریاستیں Mill کے تصورات پر مبنی ہیں جو اس بات کا مدعی ہے کہ تمام کاموں کا اصل مقصد لذت میں اضافہ اور الم میں کمی ہے جدید سائیکالوجی بھی اسی اصول پر بیماریوں کا علاج کرتی ہے دنیا کی تاریخ میں جدید سائیکالوجی کا جدید سائنس کی طرح وجود نہیں ملتا اس سائیکالوجی میں خدا ، روح، گناہ سرے سے وجود نہیں رکھتے وہ صرف Guilt کو مانتی ہے Sin کو نہیں اس کے یہاں صرف نفس ہے وہ انسان کو صرف سائیکو کیمیکل آرگن سمجھتی ہے جدیدیت اور سرمایہ داری نے جو انسانی مسائل پیدا کیے ہیں ان کا حل سائیکالوجی مادیت کے تناظر میں ہی تلاش کرتی ہے لہٰذا وہ گناہ سے گریزاں انسان کو گناہ گار زندگی بخوشی بسر کرنے کے طریقے بتاتی ہے اور گناہ پر آمادہ کرتی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ بے معنویت میں معانی کے رنگ بھردیتی ہے۔
The purpose of all action is the maximization of pleasure and the minimization of pain [as conceived in main stream of psychology]
لیکن جرمی بینتھم Jeremy Bentham] جیسے افادہ پرست کے برعکس Mill J.S لوگوں کے حقوق کا بہت احترام کرتاہے کہ لذت پرستی کا تمام عمل تمام لوگوں کے لیے حقوق کی یکساں فراہمی کے سانچے میں ہونا چاہیے ایک کی لذت دوسرے کے الم کا باعث نہ بنے ایسی لذت حاصل کرو جس سے کسی دوسرے کی لذت کا حق متاثر نہ ہو ۔
جدیدعلم سیاست میں فلاحی ریاست وہ ریاست ہے جو خوراک، تعلیم، صحت ، مکان ، اور بڑھاپے میں سہارا مہیا کرے جو ریاست ان سہولتوں کو مہیا نہیں کرتی وہ غیر فلاحی ریاست ہے فلاحی ریاست رسمی حقوق [Formal Rights] کو جو انسانی حقوق کے منشور میں دیے گئے ہیں عملی طور پر ممکن بناتی ہے اس کو فرد کی آخرت و ایمان، کی فلاح سے کوئی تعلق نہیں یہ لایعنی اہداف ہیں بے معنیٰ اصطلاحات ہیں لہٰذا جدید فلاحی جمہوری غیر جمہوری ریاست مذہب دشمن ریاست ہوتی ہے جو صرف مادہ پرستی کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے اس کے برعکس ایک اسلامی ریاست کا ہدف روئے زمین پر ہر فرد کے لیے آخرت میں کامیابی کو ممکن بنانا ہے وہ ہر حالت میں فرد کے ایمان، اخلاق ، اور آخرت کو بہتربنانے کی کوشش کرتی ہے اس کی ترجیح دنیا نہیں آخرت ہوتی ہے اسی لیے فقہ میں خروج کے جواز کی شرط کفر و بواح کا ارتکاب ہے پانی، کھانا ،دانہ اور دوا نہ ملنے پر حکمران کے خلاف خروج نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اسلامی ریاست مادہ پرست ریاست نہیں ہوتی وہ ایسا ماحول اور آخرت کا ایسا خوف پیدا کرتی ہے کہ لوگ خود ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور اپنی آخرت بہتر بنانے کے لیے دوسرے کی دنیا بہتر بنانے میں مصروف عمل ہوتے ہیں مگر بظاہر دنیا کا یہ کام بھی وہ آخرت کے لیے کرتے ہیں۔اسلامی تہذیب اور دیگر روایتی تہدیبوں میں کبھی یہ مسئلہ ہی پیدا نہیں دہوا کہ بڑھاپے میں فرد کو کون سنبھالے گاہر تہذیب میں بوڑھے لوگ نہایت قابل عزت ہوتے تھے یہ جدیدیت کے بعد جدید معاشروں کا مسئلہ ہے تم نے اپنے بچے کو اپنی جوانی میں وقت دیا نہ محبت دی لہٰذا تم بڑھاپے میں اولڈ ہوم کے اندر رہوگے اور تمہاری ریاست اس کا انتظام کرے گی تم نے لذت آزادی کی خاطر خٖاندان ختم کیا اس کے نتائج بھی خود برداشت کرو۔
جمہوریت یونان میں بھی تھی جو [Athenian Democracy] کہلاتی ہے افلاطون اور ارسطو کو بھی اندازہ تھا کہ جمہوریت اخلاقی زوال کی خبر لاتی ہے افلاطون [Plato] نے اپنی کتاب "Republic" میں جمہوریت کو رَد کیا ہے اس کے خیال میں جمہوریت Lust & ambitiousness میں اضافہ کرتی ہے جو غیر مساویانہ تقسیم دولت اور طاقت کا سبب بن جاتا ہے جس کے باعث عوام اور اشرافیہ دونوں بد عنوان بد کردارہو جاتے ہیں۔
Democracy promotes lust and ambitiousness, leads to an unequal distribution of wealth and power and corrupts both the public and the elite.
ارسطو [Aristotal] سیاسیات اور اخلاقیات [Politic and Ethics] کے زیر عنوان جمہوریت کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نظام کا کوئی مقصد نہیں ہوتا یہ جمہوریت سرکے بل کھڑی ہوتی ہے اشرافیہ کے لیے جمہوریت کا مقصد صرف لا یعنیت [Nothingness] ہوتا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے آزادی جسے ایک مقید نفس حاصل کرسکتا ہے مگر اس کا حاصل بھی لا یعنیت ہی ہے۔اس ذریعے سے فرد جو مقصد بھی حاصل کرے وہ سب یکساں طور پر ناقابل وقعت ہوتے ہیں۔
Democracy has no telos [no overall aim] This is democracy stood on its head. For the elite which dominates democracy has the telos of nothingness_ it seeks over expanding nothingness, freedom in which the isolated individual can will and posses any end, all ends being equally worthless.
تاریخی طور پرجمہوریت کی اجتماعی ہیئتوں Comunitarian Democracies کی دو شکلیں ہیں [۱] قوم پرستی [Nationalism]،[۲] سوشل ازم[Socialism]۔دونوں جمہوریتوں میں فرد خود کو قوم [Nation] اور طبقے [Class] یا انسانیت کی کلیت [human totality] میں ضم کردیتا ہے اس انسانی کلیت کا اصل مقصد ہدف آزادی [Freedom] ہوتا ہے اس ما بعد الطبیعیاتی تناظر میں کسی فرد کے لیے محال ہو جاتا ہے کہ وہ حرص و ہوس [Accumlation] Avarice اور حسد ، مسابقت [Competition] Jealousyجیسے خبیث جذبات رذائل اخلاق سے ماوراء ہوسکے لبرل ازم بھی آزادی، حرص و حسد و ہوس اور حسدو مسابقت کے تمام خبیث جذبات کی تصدیق کرتا ہے وہ نظام زندگی فراہم کرتا ہے جس میں ان جذبات کی تسکین ہوسکے ۔ اس ایمان کے نتیجے میں ہر فرد اپنے ذاتی مفاد [Self intrest] کے لیے کام کرتا ہے یہ Selfishness سے مختلف جذبۂ مفاد ہے Self intrest ایسا مفاد جس سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچے لیکن اس مفاد پرستی کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی تمام انسانیت تمام افراد کے مفادات محفوظ رہیں ۔سب کے مفادات میں اضافہ ممکن ہوسکے ایک کا مفاد دوسرے کے مفاد کو محال نہ بناسکے۔
مثلاً سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست میں کسی شخص کو ذاتی مفاد کی خاطر چوری کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ چوری کا کام اصل میں صرف اپنا مفاد اور دوسرے کا نقصان یعنی [Selfishness] ہے یہ مفاد [Self intrest] کے دائرے میں نہیں آتا۔چوری کرنے والے کے افادہ[utility] میں چوری کے مال سے تو اضافہ ہو جائے گا یہ اس کا ایسا حق ہے جس سے بحیثیت مجموعی سب کو نقصان پہنچے گا لہٰذا اس حق کی آزادی اجتماعی مفاد میں نہیں ہو گی لیکن اگر ہر آدمی چوری شروع کردے اور اس عمل پر پابندی بھی نہ ہو تو سرمایہ دارانہ ملکیتی نظام ختم ہو جائے گا اور مجموعی افادہ پرستی [Total utility] بھی گر جائے گی لہٰذاسرمایہ داری میں فرد کے حقوق ذاتی جائیداد کو تحفظ دیا جائے گا تاکہ معاشرہ کے وسیع تر مفاد میں اور طویل عرصے تک افادہ پرستی کا عمل جاری و ساری رہے [In the intrest of the long run maximization of total social utility] اسی لیے سرمایہ دارانہ معاشرے میں میڈیا بد عنوانیوں [Corruption] کے خلاف جو جہاد کرتا ہے وہ اس لیے نہیں کرتا کہ وہ عوام کا خیر خواہ ہے بلکہ میڈیا سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے وہ سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں، کارپوریشن، سرمایہ دار ریاست کے پیسے سے چلتا ہے اگر بدعنوانیاں عام ہوں گی تو بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کمزور ہوگا اور سرمایہ داری کو نقصان پہنچے گا جس سے میڈیا کو بھی معاشی نفع حاصل ہوتاہے لہٰذا کرپشن کے خلاف میڈیا کا جہاد در اصل اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے ساتھ وسیع ترین سرمایہ دارانہ مفاد کے لیے ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہوگا تو میڈیا کو اچھا کاروبار منافع ملے گا میڈیا کی آزادی کا مطلب سرمایہ کی آزادی ہے آزادی میں اضافے کا مطلب سرمایہ میں اضافہ فرد کی آزادی میں اضافے کا مطلب بھی اس کی ارتکاز سرمایہ کی صلاحیت میں اضافہ ہے آزاد وہ ہے جس کے پاس سرمایہ ہے مارکیٹ میں ہوٹل میں سب جاسکتے ہیں مگر وہاں آزاد وہ ہے جو چیزیں خرید سکے جس کی قوت خرید زیادہ ہے وہ زیادہ آزا دہے ٹیکنو سائنس جو چیزیں پیدا کرتی ہے وہ سرمایے کے بغیر نہیں خریدی جاسکتی عیاشی سرمایہ کے بغیر نہیں ہوسکتی لہٰذا سرمایہ اور آزادی براہ راست متناسب ہیں معرفت رب کے حصول کے لیے سرمایہ کی ضرورت نہیں ہے۔ آزادی کی دو ہی مادی شکلیں ہیں ایک تجریدی [abstract] جو ووٹ ہے ایک ٹھوس [concrete] وہ سرمایہ [capital] ہے جس کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ اتنا ہی زیادہ آزاد ہے لہٰذا آزادی میں اضافہ سرمایہ میں اضافہ سے براہ راست متعلق ہے John Rawls جب یہ کہتا ہے کہ انکم اور ویلتھ پرائمری گڈز میں شامل ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ سرمایہ کے بغیر ویلفیئر رائٹس بے کار ہیں فارمل رائٹس اگر سرمایہ کے بغیر ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا سرمایہ کی بڑھوتری ہر فرد کے لیے ممکن بنانا سرمایہ دارانہ ریاست کا بنیادی کام ہے خواہ وہ قوم پرست سرمایہ دار ہو سوشلسٹ سرمایہ دار ریاست ہو اسلامی سرمایہ دار ریاست ہو یا پوسٹ ماڈرنسٹ سرمایہ دارانہ ریاست ہو۔ سب کا اصل مقصد سرمایہ میں اضافہ ہونا چاہیے معیار زندگی میں بھی اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے لہٰذا انسان ایک خراچ جانور [Consumer animal] ہے آمدنی میں اضافہ ہوگا تو لازماً طلب ضروریات میں بھی اضافہ ہوگا جدید اکنامکس یہی بتاتی ہے کہ آمدنی بڑھتی ہے تو طلب میں اضافہ لازماً ہوتا ہے ۔سرمایہ دارانہ ریاست میں پروڈکشن، کنزمشن، سرپلس اسی لیے بنیادی اسباب ہیں جن سے سرمایے کا چکر چلتا ہے اگر لوگ خراچ مزاج خراچ معیشت ترک کردیں تو سرمایہ داری کا پہیہ دس دن میں بند ہو جائے گا ۔ معیار زندگی کیا ہے اس کی کوئی تعریف نہ متعین ہے نہ متعین کی جاسکتی ہے لیکن انسان وہ ہے جو HDI ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس کے طے شدہ معیار پر پورا اترتا ہو وہ خط غربت [Poverty line] سے دور ہے اس پیمانے کی تمام روح مادی ہے مثلاً HDI آپ سے پوچھے گا کہ آپ روزانہ کتنا کھاتے ہیں [Calories intake] آپ کے پاس موبائل ، کار، ٹی وی، فون، کمپیوٹر، فریج ہے یا نہیں آپ کی آمدنی کتنی ہے اگر آپ کے پاس یہ اشیاء نہیں ہیں یا آپ کی خوراک کی کیلوریز بہت کم ہیں توHDI آپ کو ایک غریب آدمی شمار کرے گا جو غیر معیاری زندگی گزار کر اپنے انسان ہونے کی نفی کررہا ہے خواہ آپ ارب پتی ہوں مگر پیغمبر کی تقلید میں سادہ زندگی بسر کرتے ہوں سادہ رہتے ہوں کم کھاتے ہوںسرمایہ داری دنیا کے تمام لوگوں کو HDI کے معیار کے مطابق سرمایہ دارانہ شخصیت بننے کے مواقع مہیا کرنے کی کوشش کرتی رہے گی سبز خواب دکھاتی رہے گی لوگ خواب دیکھتے رہیں گے اور سرمایہ دار بننے کی کوشش کرتے رہیں گے پھر اسی کوشش میں مر جائیں گے۔Occupy wall street تحریک میں شامل ہر آدمی اصلاً سرمایہ داروں کی طرح پر تعیش طرزِ زندگی گزارنا چاہتا ہے اس کے حصول کے لیے وہ جلوس نکال رہا ہے سارا جھگڑا محض سرمایہ داری کے کیک میں حصے کا ہے ان کا نعرہ ہے کہ ہم ۹۹ فی صد ہیں وہ صرف ایک فی صد ہیں جو مزے وہ کررہے ہیں وہ ہمیں کیوں نہیں مل رہے ۔ لہٰذا یہ تحریک سرمایہ داری کے خلاف نہیں اس کو مضبوط کرنے اس کی خامیاں دور کرنے کی تحریک ہے تاکہ کم زور ہو کر گرنے والا سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو ان کا اعتراض ہے کہ امریکہ اور عالمی ادارے بینکوں کو اربوں ،کھربوں روپے کی مالی امداد کیوں دیتے ہیں عوام کو کیوں نہیں دیتے؟ یہ ان کی جہالت ہے امریکہ یورپ میں تمام معاشی نظام عام آدمی کی عیاشی بینکوں کے قرضوں کریڈٹ کارڈ سے چلتی ہے وہاں کوئی شخص hard cash پر چیزیں نہیں خریدتا ایسا کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے ہر چیز کریڈٹ پر خریدی جاتی ہے ہر شخص اپنا پیسہ سود سٹے یعنی اسٹاک مارکیٹ میں میوچل فنڈ میں بونڈز مارکیٹ میں لگاتا ہے کسی کے پاس بھاری نقد رقم نہیں ہوتی لہٰذا سب مقروض ہوتے ہیں لہٰذا اگر بینکوں کو مالی امداد نہ دی جاتی تو تمام مغرب کے لوگ بھوکے مرتے معاشی نظام تلپٹ ہو جاتا لہٰذا انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی اساس بینکوں کو مالی امداد دے کر اصلاً بینکوں کو اس قابل بنادیا کہ وہ عوام کو حسب معمول قرضے دیتے رہیں عوام کو کوئی تکلیف نہ ہو ان کا حساب کتاب آسانی سے چلتا رہے اس کام میں کوئی کمی نہ کریں مگر جاہل عوام اسے ظلم سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ ظلم نہیں سرمایہ دارانہ عدل[Capitalist Justice] ہے اور سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف وہ ہے جو سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی خراچ معیشت کی ثقافت کو تعیشات کی زندگی کو مستر د کردے جو معیار زندگی میں مسلسل اضافے کو آئیڈیل طرز زندگی سمجھتا ہے وہی اصل میں سرمایہ دار ہے خواہ وہ کنگلا ہو اور ایک کٹیا میں رہتا ہو اس کا دل سرمایہ داری کے جذبات اور ایمان سے آراستہ ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ’’ اصل غنا دل کا غنا ہے ‘‘سرمایہ دار کبھی دل کا غنی نہیں ہوسکتا خواہ وہ مزدور کی صورت میں ہو یا ساہوکار کی صورت میں وہ صرف حقوق کے نام پر ہمیشہ حرص و حسد و ہوس میں اضافہ کی دوڑ میں شریک رہتا ہے اسے کبھی نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہوتا۔جمہوریت اور جمہوری نظام خواہ انفرادی [Individual] ہو یا اجتماعی [Communitarian] لبرل ہو یا غیر لبرل،سوشلسٹ ہو، کمیونسٹ یا نیشنلسٹ، ماڈرنسٹ ہو یا پوسٹ ماڈرنسٹ یا انارکسٹ ان سب کا مقصد صرف اور صرف آزادی کے لیے سرمایہ میں اضافہ ،مسلسل لا متناہی لا محدود اضافہ، دوسرے معنو ں میں حرص و حسد و ہوس وارتکاز سرمایہ کے جذبات کی ادارتی صف بندی کرکے ان جذبات کو مادی پیکر عطا کرکے اور آزادی کو بے کراں کردیا جائے لہٰذا اسٹاک ایکسچینج ، بنک، زری مارکیٹ، اوپن کرنسی مارکیٹ، کموڈوٹی مارکیٹ، میوچل فنڈز ، بونڈز ، ترقی، پروگریس لا معنویت کے ہدف کو آزادی کے نام پر شیطان کی اطاعت اور عبادت کو ممکن بنانے کے طریقے ہیں۔
The democratic order / whether individual or communitarian can only institutionalize the morality of avaric [accumlation] and jealousy [competition] for its telos is nothingness _ the demon it worships is freedom.
جمہوری نظام کا مقصد صرف اور صرف آزادی کے شیطان کی عالمگیر عبادت کو ممکن بنانا ہے۔
Democratic structure facilitate a universalization of the worship of freedom.
جدید انسان جدید جمہوری ریاستوں میں یہ طرز زندگی یہ ایمان اور سرمایہ دارانہ عقلیت و عقیدہ اختیار کرکے اپنے آپ کو فراموش کردیتا ہے اپنے مقصد وجود کو جان بوجھ کر بھلا دیتا ہے ہائیڈیگر کے الفاظ میں
Forgetfulness of being is the defining characteristic of this age of vulgarity.
جمہوریت کا پیغام یہی ہے کہ خود کو بھول جاؤ اپنے جوہر حیات، روح، وجود، حقیقت کو فراموش کردو انسان کی نہ کوئی خصوصیات ہیں نہ کوئی کردار ہم صرف سرمایے کے خادم ہیں اسی لیے جمہوری معاشرے جذبات احساسات سے عاری ہوتے ہیں جو صرف بیوروکریسی کے زیر اثر ہوتے ہیں بیوروکریٹک اسٹرکچر کے تحت ان کے کام چلتے ہیں۔ اس سرکش گھوڑے پر عوام قابو نہیں پاسکتے۔
Michel نے سوسال پہلے جمہوریت کی اس شیطانی روحانیت کا اندازہ کرلیا تھا اور بتادیا تھا کہ
How and why democratic organizations are transformed into oligarchic bureaucracies dominated by a professional elite over which the masses have virtually no control.
اس میں کیا شبہ ہے کہ جاہل عوام اور ان کے جاہل منتخب نمائندے سرمایہ دارانہ نظام کے شاطر عیار اجزاء جن کا ذکر پہلے تفصیل سے آچکا ہے ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے منتخب جمہوری نمائندے جو علم اور عیاری سے مسلح چھ غیر جمہوری اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں نہ ان کی شیطانیت کا اندازہ کرسکتے ہیں نہ ان کی شیطانیت کا مقابلہ یہ منتخب ہونے کے بعد صرف سرمایہ دارانہ نظام کے آلہ کار کے طور پر [اپنے ضمیر کو دفن اور اپنی روح کو قتل کرنے کے بعد ] نہایت جاں فشانی سے کام کرتے رہتے ہیں اور سرمایہ داری کی ہر شیطانیت کو عوام کے لیے قابل قبول بناتے رہتے ہیں جمہوری معاشروں کا انسان acquisitive، lust ful, wrath، Jealous اور Self centered ہوتا ہے وہ اپنے نفس کو فراموش کرکے سرمایہ داری کے بتائے ہوئے مقاصد کو اختیار کرلیتا ہے سرمایہ داری جہاں جاتی ہے وہاں خاندان ٹوٹ جاتا ہے رشتوں کا زوال ہوتا ہے نکاح کا ادارہ ختم ہو جاتا ہے آبادی کی شرح منفی ہوتی ہے محبت اور ایثار کی روایات ختم ہو جاتی ہیں روایتی اجتماعیتیں، تعلقات کے تانے بانے، رشتے ناطے، سب ناپید ہوتے ہیں خواہشا ت کا صحراء ہوتا ہے جس میں ہر فرد اپنی انا کے حصار میں گم اپنے جذبات کا اسیر تنہا گم کردہ راہ کھڑا ہوتا ہے یا تو وہ خود کشی کرلیتا ہے یا نفسیاتی مریض بن جاتا ہے یا مجرم درندے کی شکل اختیار کرلیتا ہے یا گُھٹ گُھٹ کر قسطوں میں موت کشید کرتا ہے لہٰذا اس درندگی کو روکنے کے لیے گلی گلی سرمایہ داری کے روحانی معالج ماہرین نفسیات بیٹھے ہوتے ہیں جو اس کے دکھوں، غموں ، المیوں کا مداوا کرکے اسے تازہ دم کرکے اسی سرمایہ داری کے شیطان کی خدمت کے لیے تیار کردیتے ہیں لہٰذا جمہوری سرمایہ دار معاشرے اخلاق کے غارت گر ، شیطان صفت، لذت پسند، وحشی درندے، بد کردار، غلیظ اور خبیث روح میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
Democratic societics are barren, impotent, dead societies in which men "with head pieces filled with straw" seek only satisfication of their lust.
سرمایہ دار معاشروں میں خاندان نہیں ہوتا لہٰذا گھر میں چولہے نہیں جلتے لہٰذا تاریخ میں سب سے زیادہ ہوٹل ریسٹورنٹ انہی معاشروں میں ہوتے ہیں۔ چولہے اس لیے بھی نہیں جلتے کہ مرد عورت بوڑھے بچے سب کمانے نکل جاتے ہیں۔ کھانا کون پکائے ان معاشروں میں جیلیں، پاگل خانے، سب سے زیادہ ہوتے ہیں آخر کیوں؟ اس لیے کہ جمہوری معاشرے ایسے ہی ہوتے ہیں جہاں جمہوریت سرمایہ داری قوم پرستی جاتی ہے یہی بیماریاں جلد یا بدیر پیدا کردیتی ہے ۔ اسی لیے دنیا میں سب سے زیادہ خو د کشیاں سرمایہ دارانہ تہذیب کے فلسفی آرٹسٹ پروفیسر اداکار اور لوگ کرتے ہیں کیوں کہ سرمایہ داری زندگی کو معنویت عطا نہیں کرتی ایک ایسا خلاء پیدا کرتی ہے جو مادی آسائشوں کے باوجود پُر نہیں ہوتا وہ فرد کے ما بعد الطبیعیاتی سوالات کا کوئی جواب مہیا نہیں کرتی۔ سرمایہ داری سے سب سے زیادہ نفرت عورتیں کرتی ہیں اسی لیے سرمایہ دارانہ نظام میں خود کشی کی سب سے زیادہ کوششیں عورتیں کرتی ہیں مستند اعداد و شمار کے لیے [Abnormal Scychology کا مطالعہ کیجیے جو McGrahill نے شائع کی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے تاریخ انسانی میں ہوٹل، سیاحت، اشتہارات، ادویات کی صنعت نہیں ملتی اٹھارہویں صدی سے پہلے دنیا میں نہ پاگل خانے تھے نہ جیل خانے نہ ہوٹل نہ ریسٹورنٹ ، نہ اسکول، نہ یونیورسٹی مگر دنیا تب بھی چلتی تھی کیسے؟ اس کے لیے تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔
 
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز