‘‘مفاھیم ینبغی أن تُصحَّح’’
محمد قطب
‘‘اپنے اسلامی مفہومات درست فرمالیجئے’’
حامد كمال الدين
مقدمہ
دنیائے اسلام آج اپنی تاریخ کا ایک تاریک عہد بِتا رہی ہے۔ بلکہ یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ اس کی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ درست ہے کہ ماضی میں بھی
اِس پر کڑے وقت آئے ہیں، پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اتنی بڑی بڑی آفتیں ایک ہی وقت
میں اِس کے تمام خطوں اور براعظموں پر حملہ آور ہوئی ہوں۔ یہ گھناؤنی صورتحال؛ یہ
خواری اور زیاں کاری جس سے امت کا کوئی ایک شعبہ محفوظ رہ گیا ہے اور نہ کوئی ایک خطہ،
بلاشبہ اس کے ہاں پہلی بار واقع ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر… اندلس کا سانحہ قرونِ ماضی میں ہم پر گزرنے والا ایک
بدترین سانحہ رہا ہے۔ پھر بھی فلسطین پر آج جو بیت رہی ہے، اُس سے بدتر ہے۔ اِس
لیے کہ مسلم اقتدار کا سورج جس وقت اندلس میں غروب ہو رہا تھا عین اُسی وقت وہ
عالم اسلام کے مشرقی افق پر طلوع بھی ہورہا تھا۔ یہ عثمانیوں کی نوخیز دولت تھی جس
نے تھوڑی ہی دیر میں سلطنتِ روما کا افسانوی پایۂ تخت ‘قسطنطنیہ’ ہی اس سے چھین
لیا اور اُس کو صدیوں تک کے لیے اسلام کا دارِخلافت بناڈالا، اور پھر وه قسطنطنیہ
پر ہی نہ رکی بلکہ یورپ میں اپنی کامیاب لشکرکشی کرتے ہوئے ویانا اور پٹرسبرگ تک
جاپہنچی۔ تاہم فلسطین کا حالیہ سانحہ پیش آیا تو مسلم اقتدار کا سایہ ہر طرف سے
سمٹ ہی رہا تھا۔ مسلم وجود زمین کے ہر ہر خطے میں چیرا پھاڑا ہی جا رہا تھا:
فلپائن، ایتھوپیا، ارٹریا، چاڈ، نائجیریا، انڈیا، افغانستان، اِس دور میں ہمارا
کونسا خطہ لہولہان ہونے سے بچارہا؟ اور اگر کمیونسٹ دنیا کو سامنے رکھیں جوکہ عالم
اسلام کا ایک وسیع و عریض خطہ تھا، تو وہاں تو مسلمانوں کے پاس چناؤ ہی ایک تھا:
اپنا دین چھوڑ کر کفر کا مذہب اختیار کرلیں یا موت کو گلے لگا ئیں۔ ابھی وہ
دیوہیکل منصوبے الگ ہیں جو ‘عالمی طاقتوں’ اور ‘بین الاقوامی اداروں’ کی سطح پر
مسلم دنیا کی تقدیر طے کرنے کے لیے برسرعمل رہے۔ عالم اسلام کی تقسیم درتقسیم در
تقسیم کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ سرزمینِ اسلام کے حصے کاٹ کاٹ کر
غیرمسلموں کے ‘‘گھر’’ بنانے کا عمل زوروں پر ہے؛ ابھی ایک خطے میں مسلمان اکثریت
میں ہوتے ہیں اور ابھی ایک ذلیل اقلیت بناکر رکھ دیے جاتے ہیں؛ جہاں مسلمانوں کی
‘جان بخشی’ کا مسئلہ ہی وقت کے سرفہرست مسائل میں جگہ پالیتا ہے! ادھر اسلام کے
داعی اپنے گھروں میں گردن زدنی اور بدترین ظلم اور تشدد کے سزاوار۔ یعنی اسلام کے ملکوں
میں اسلام ہی کی صدا بلند کرنا سب سے بڑا جرم۔ جیلیں، کال کوٹھڑیاں، تختۂ دار سب
انہی کے لیے؛ اور ان کا جرم صرف ایک: یہ ان حکومتوں کے وفادار نہیں جو دیارِ اسلام
سے شریعتِ اسلام کو بے دخل کررکھنے پر مصر ہیں!
یہ زیاں جس میں عالم اسلام آج جی رہا ہے، تاریخ میں اس سے پہلے بھلا
کب تھا؟
****
کیا یہ سب کچھ بےسبب ہوگیا؟ کونسی چیز ہے جو خدا کی اِس کائنات میں
بےسبب ہوجاتی ہے؟ حیاتِ انسانی میں ہر چیز خدا کے مقرر ٹھہرائے ہوئے قاعدے اور
قانون ہی کے تحت روپذیر ہوتی ہے۔ خدا کے یہ قاعدے اور قانون اٹل ہیں جو مخلوق میں
کسی کی رو رِعایت نہیں کرتے:
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ
اللَّهِ تَحْوِيلًا(سورة فاطر :43)
تو تم ہرگز اللہ کے دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے اور ہرگز اللہ کے قانون
کو ٹلتا نہ پاؤ گے
یہ خدا کا اپنا ہی دستور ہے کہ:
ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا
عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ
عَلِيمٌ(سورة الانفال: 53)
یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جو نعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک
وہ خود نہ بدل جائیں اور بیشک اللہ سنتا جانتا ہے
نیز خدا کایہ دستور کہ کسی کی رو رعایت محض اس وجہ سے نہیں کردی جائے
گی کہ وہ نیکوکاروں کی اولاد ہے:
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ
يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِين(۱)
وہ زمین میں ان کو تمکین دیتا ہے، اُس وقت جب وہ خود مومن اور صالح
ہوں:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم
مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا(۲)
ہاں وہ لوگ جو کتابِ اللہ کو موروثی انداز میں لیں؛ کتاب اللہ کو خاص
اپنے لیے نازل ہونے والی چیز نہ سمجھیں، اور اپنی بستیوں اور معاشروں کو اُس کا
پابند نہ جانیں، تو خدائی دستور کی رو سے یہ ناخلف ہیں، جن کی بنی اسرائیل کا قصہ
بیان کرتے وقت باقاعدہ نشاندہی ہوئی ؛ تاکہ یہ امت اس سے عبرت حاصل کرے:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ
عَرَضَ هَـذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ
سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مُّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم
مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لاَّ يِقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ وَدَرَسُواْ
مَا فِيهِ وَالدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ
تَعْقِلُونَ(سورة الاعراف: 169)
پھر ان کی جگہ ان کے بعد وہ ناخلف آئے کہ کتاب کے وارث ہوئے اس دنیا
کا مال لیتے ہیں اور کہتے اب ہماری بخشش ہوگی اور اگر ویسا ہی مال ان کے پاس اور
آئے تو لے لیں کیا ان پر کتاب میں عہد نہ لیا گیا کہ اللہ کی طرف نسبت نہ کریں مگر
حق اور انہوں نے اسے پڑھا اور بیشک پچھلا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کو تو کیا تمہیں
عقل نہیں؟
ایسا ہی سیاق ایک دوسری آیت کا ہے:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا
الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(سورة مریم: 59)
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور
نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا (ترجمہ
جوناگڑھی)
یہ سب خدائی دستور ہیں؛ حیاتِ انسانی کا پہیہ انہی کا چلایا چلتا ہے۔
یہ اٹل خدائی قاعدے کبھی کسی کی رعایت کرتے ہیں اور نہ کسی بشر کی خواہش کو دیکھ کر
اپنی جگہ سے ٹلتے ہیں۔
خدا نے اِس امتِ اسلام پر کمال نعمتیں فرمائی تھیں۔ تمکین، خلافت،
چین اور امن۔ آسمان اِس پر رزق برساتا تھا اور زمین اِس کے لیے سونا اگلتی تھی۔خدا
کے اُس وعدہ کا یہ بڑی صدیوں تک اپنی آنکھوں مشاہدہ کرتی رہی:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا
عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم
بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (سورة الاعراف: 96)
‘‘اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو
ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے’’
آخر یہ استخلاف، یہ تمکین، یہ چین و آرام، اور یہ رزق کی فراوانی…
ذلت، بیچارگی، ناتوانی، بے خانمائی، افلاس اور مرگِ مفاجات میں بدلی، جب ان کا
معاملہ عین اُس حالت کو پہنچا جس سے اِس امت کے نبیؐ نے اِس کو خبرادار کیا تھا:
يوشك أن تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. قالوا :
أمِنۡ قِلَّةٍ نحن يومئذ يا رسول
الله ؟ قال : أنتم يومئذ كثير ولكنكم غثاء كغثاء السيل .. ( أخرجه أحمد وأبو داود)
قریب ہے کہ قومیں تم پر یوں چڑھ دوڑیں جس طرح کھانے والے (بھوکے)
کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا یہ اس لیے کہ ہم تھوڑے ہوں
گے اے اللہ کے رسول؟ فرمایا: تم اُس روز تعداد میں بہت زیادہ ہوگے مگر اُس خس و
خاشاک کی طرح ہوگے جو سیلاب کی سطح پر اٹھ آتا ہے
*****
مسلمانوں کی اس طویل تاریخ میں بہت سے انحرافات واقع ہوئے ہیں…
ہر انحراف جو اِن کی زندگی میں وقوع پزیر ہوا، اُس کا نتیجہ جلد یا
بدیر نکل کر رہا؛ جیسا اور جس درجہ کا انحراف؛ ویسا اور اُسی درجہ کا نتیجہ۔ جس
سطح کا اُس کا پھیلاؤ؛ اُسی سطح کا اُس کا انجام۔ کسی فتنہ یا انحراف کے وقت امت
کے حکمرانوں کا کیا موقف رہا، علماء کا کیا کردار رہا، عوام کا کیا وتیرہ رہا،
‘‘اسباب’’ اور ‘‘نتائج’’ کا اٹوٹ رشتہ ہمیشہ ان اعتبارات کا پابند رہا۔ یہاں تک کہ
انحراف جب اپنی آخری حد کو پہنچا تو اُس کا انجام وہ ہوا جو آج ہم بچشم سر دیکھ
رہے ہیں۔ ذلت، بزدلی، خوف اور بے بسی کی ایک آخری حالت یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے..
ہمارے اِنہی شہروں اور اِنہی ملکوں میں جہاں صدیوں استخلاف، تمکین، فراوانیِ رزق
اور امن و چین کا دور دورہ رہا تھا…
یہ انحراف... جس کے ہاتھوں ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے اور جس کے باعث
ہمارا معاملہ اس خطرناک حالت کو پہنچا… ہماری اِس کتاب کا موضوع ہے۔
گو اِس کتاب میں ہم اِس پورے انحراف کی تہہ میں نہیں جائیں گے(۳) ۔ بلکہ انحراف کی اُس خاص
نوع کو ہی زیربحث لائیں گے جو زمانۂ حاضر میں مسلم معاشروں کا سب سے سنگین اور سب
سے خطرناک انحراف ہے۔یا یوں کہہ لیجئے، مسلم تاریخ میں جو جو انحراف آتا رہا وہ
سب، رفتہ رفتہ، انحراف کی اِس خاص شکل میں ڈھلتا چلا گیا جو آج ہمارے سامنے ہے؛
اور جوکہ انحراف کی سنگین ترین اور خطرناک ترین صورت ہے۔ یعنی وہ انحراف جو اَب
‘‘تصورات’’ کی دنیا میں ہی واقع ہوچکا ہے۔ اور یہی ہماری اِس کتاب کا موضوع۔
اسلام کے بہت سے مخلص داعی اِس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ امت کا اِس
حالتِ زار کو جاپہنچنا اُس انحراف کے باعث ہے جو ‘‘کردار’’ اور ‘‘عمل’’ کی دنیا
میں اِس کو درپیش ہے۔ یہ مخلص حضرات اِس بحران کی صرف اِس قدرتشخیص کرتے ہیں کہ
یہاں ‘‘کردار’’ اور ‘‘عمل’’ کی وہ تصویر مفقود ہے جو ہمارے یہ مسلم معاشرے کسی
زمانے میں پیش کیا کرتے تھے۔
‘‘کردار’’ اور ‘‘رویے’’ کا یہ انحراف بے شک جان لیوا ہے۔ بلکہ یہ
اس سے کہیں نمایاں تر ہے کہ اِس کی نشاندہی ہو؛ جھوٹ، بددیانتی، منافقت، جعلسازی،
نکھٹوپن، بزدلی، چاپلوسی، ذلت قبول کرنا، خدا کی نافرمانی کا چلن عام ہوجانا، نیز
نوجوانوں کا بے قابو اور بے راہرو ہوتے چلے جانا، لوگوں میں حس کا مادہ ختم ہوکر
رہ جانا؛ فسق و فجور کو سرعام دیکھ بھی ٹس سے مس نہ ہونا، بدعات کی کثرت، منکرات
کی بھرمار… غرض بیسیوں اوصاف اور اعمال ایسے ہیں جن کا اسلام سے دورنزدیک کا کوئی
رشتہ نہیں، جبکہ وہ سب اعمال اور وہ سب اوصاف مسلمانوں کے حق میں آج ‘طبعی حالت’
کا درجہ رکھتے ہیں!
بے شک یہ باتیں سچ ہیں… پھر بھی ‘‘کردار’’ کا انحراف وہ واحد انحراف
نہیں ہے جو مسلم زندگی کو اِس وقت درپیش ہے۔ نہ ہی یہ وہ انحراف ہے جس کو ہم
عصرحاضر کے مسلمان کے ہاں پایا جانے والا سنگین ترین انحراف قرار دیں۔ حق تو یہ ہے
کہ یہ انحراف اگر صرف ‘‘کردار’’ اور ‘‘رویے’’ کا ہی انحراف ہوتا تو اپنی تمام تر
سنگینی کے باوجود معاملہ کہیں آسان اور ہلکا ہوتا!
مسئلہ بڑی دیر سے ‘‘کردار’’ اور ‘‘رویے’’ سے گزر کر ‘‘تصورات’’ تک
چلا گیا ہوا ہے۔ یہاں ‘‘اعمال’’ نہیں ‘‘مفہومات’’ ہی بگڑ چکے ہیں؛ اور کوئی ایک دو
نہیں سب کے سب مفہومات، اور سب سے پہلے لا الٰہ الا اللہ کا مفہوم ہی!
ایک ایسا انسان جو اپنے رویے اور سلوک میں تو منحرف ہے مگر حقیقتِ
دین کی بابت اُس کا تصور سلامت رہ گیا ہے، اُس کا انحراف درست کرنے پر بھی ضرور آپ
کو محنت صرف کرنا ہوگی۔ لیکن جو شخص اپنے تصورات میں منحرف ہے اُس کے ساتھ تو آپ
کو بے اندازہ جان کھپانا ہوگی؛ یعنی پہلے آپ کو اُس کے تصورات درست کرنا ہوں گے
اور پھر اُس کے رویے اور سلوک کی جانب توجہ دینا ہوگی۔
عالم اسلام میں اصلاح کا عمل آج عین اِس نقطے پر کھڑا ہے۔
انحراف… آج ‘‘عمل’’ اور ‘‘سلوک’’ کے دائرے سے بہت آگے گزر چکا ہے،
اور اِس دین کے بنیادی ترین حقائق سے متعلقہ ‘‘مفہومات’’ اور ‘‘تصورات’’ تک
جاپہنچا ہے۔
یہ وجہ ہے کہ اسلام کو آج وہ غربت اور اجنبیت درپیش ہے، جس کی پیشین
گوئی حدیثِ رسول اللہﷺ میں بیان ہوئی ہے:
"
بدأ الإسلام غريبا ، وسيعود غريبا كما بدأ " (أخرجه
مسلم)
اسلام کی ابتدا تھی، تو یہ اجنبی تھا، عنقریب یہ پھر اجنبی ہورہے گا۔
اور آج… یہ بالفعل اجنبی ہے؛ خود اپنے لوگوں میں اجنبی؛ جو اس کو
پہچانتے تک نہیں! پھر رویے اور سلوک کا انحراف اس پر مستزاد! اسلام اپنے اصل حقیقی
روپ میں ان کے سامنے پیش ہو تو یہ اُس کو کسی عجوبے کی طرح دیکھتے ہیں! وہ اسلام
جو کتاب اللہ میں بیان ہوا ، جو رسول اللہ ﷺ کی سنت اور سیرت میں وارد ہوا، اور جو
زمانۂ اسلاف میں زمین پر ایک جیتی جاگتی چلتی پھرتی حقیقت کی مانند دیکھا جاتا
رہا، اُس اسلام کو آج یہ حیران پریشان ہوکر دیکھتے.. اور سنتے ہیں!
اصلاح کے میدان میں اترنا ہے… تو معاملے کو اُس کی اصل حقیقت اور حجم
میں دیکھے بغیر چارہ نہیں۔
آج… ساری محنت اگر ‘‘کردار’’ اور ‘‘عمل’’ کی اصلاح پر لگا دی جاتی
ہے، جبکہ تصورات کا انحراف جوں کا توں رہتا ہے، تو اِس محنت کا کوئی بہت اعلیٰ ثمر
سامنے آنے والا نہیں۔ صرف ‘‘سلوک’’ اور ‘‘اعمال’’ پر کرائی جانے والی محنت امت کو
اُس انحطاط سے اوپر اٹھانے کے لیے جس میں یہ جا گری ہے ہرگز کافی نہیں۔ یہ غربتِ
ثانیہ جس کا آج ہمیں سامنا ہے، اس کو دور کرنے کے لیے آج ایک ویسی ہی محنت درکار
ہے جو اسلام کی اُس جماعتِ اولیٰ نے اُس غربتِ اولیٰ کو دور کرنے کے لیے صرف کی
تھی۔
اور یہ ہے وہ گھاٹی جو ہماری ‘‘صحوہ اسلامیہ’’ کو آج چڑھ کر دکھانی
ہے۔
سب سے پہلا جو کام کرنے کا ہے وہ یہ کہ ہم اپنا دین لینے کا منہج
درست کریں…
اِس دین کا فہم اور اِس کے معانی ہم نے لینے کہاں سے ہیں؟ کتاب اللہ
سے؟ سنتِ رسول اللہؐ سے؟ سلف کے طرز عمل سے…؟ یا اِدھراُدھر کے اُن افکار سے، جو
تاریخ کی راہداریوں سے گزرنے کے دوران ہماری دینی لغت کا حصہ بنتے چلے گئے ؟
اگر ہم اپنے فہم اور تصور کا مصدر درست کرلیتے ہیں… اور اس سے کام لے
کر اپنے تصوراتِ دین کو درست کرلیتے ہیں، نیز اِن سے وہ جھاڑجھنکاڑ نکال دینے میں
کامیاب ہوجاتے ہیں جن سے اِن آخری زمانوں کا مسلمان ‘اسلام’ کے نام پر مانوس ہوچکا
ہے… تو اس کے بعد صرف ایک مہم رہ جاتی ہے اور جوکہ اپنی جگہ پر اُتنی ہی اہم ہے…
اور وہ ہے دین کے صحیح وخالص مفہومات پر تربیت اور تزکیہ پانے کا عمل۔
تربیت وہ اصل محنت ہے جس سے حقیقی ثمر کی امید رکھنی چاہئے۔ لیکن
تربیت کا یہ ثمر اپنے اصل شجر پر نمودار ہوسکتا ہے اور وہ ہے دین کے صحیح و مستند
مفاہیم۔ اِس ثمر کو کسی اور شجر پر تلاش کرنا وقت اور محنت کا ضیاع ہے۔
الغرض… اسلام کے کچھ بنیادی ترین تصورات آج ذہنوں کے اندر ہی درست
حالت میں نہیں رہ گئے ہیں۔یہ کتاب اِن بنیادی تصورات کو درست کرانے کی ایک کاوش
ہے۔ یہاں ہماری کوشش ہوئی ہے کہ اِن مفہومات کے اندر اپنی اُس پرانی تصویر کے نقش
اجاگر کیے جائیں جو ہمیں اپنے رب کی کتاب، اپنے نبیؐ کی سنت اور اپنے اسلاف کے
دستور وطرزِ عمل سے ملتی ہے، جبکہ وہ دھبے اِس سے ہٹادیے جائیں جو تاریخ کے مختلف
ادوار سے گزرتے ہوئے زمانے اور حالات کے ہاتھوں اِس پر لگ گئے ہیں اور جس کے باعث
ہماری یہ تصویر کچھ سے کچھ ہو گئی ہے۔
یہاں؛ میں نے اسلام کے پانچ بنیادی مفہومات کو موضوع بنایا ہے:
لاالٰہ الا اللہ کا مفہوم، عبادت کا مفہوم، قضاء وقدر کا مفہوم، دنیا اور آخرت کا
مفہوم۔ تمدن اور تعمیرِ ارض کا مفہوم۔
قاری محسوس کرے گا کہ کتاب کا ایک بڑا حصہ لاالٰہ الا اللہ کے مفہوم
نے لے لیا ہے اور دوسرا بڑا حصہ عبادت کے مفہوم نے۔ اِس میں تعجب کی کوئی بات
نہیں۔ لاالہٰ الا اللہ اسلام کا پہلا اور سب سے بڑا رکن ہے۔ جبکہ سب سے بڑا اور سب
سے سنگین انحراف بھی، جو مسلم معاشروں کے یہاں دَر آیا ہے، اِس لاالٰہ الا اللہ کے
مفہوم ہی میں واقع ہوا ہے۔ اِسی طرح ‘‘عبادت’’ کا مفہوم ہے، جس کی ہمارے بھلے
زمانوں میں کوئی حقیقت اور کوئی گونج ہوا کرتی تھی۔ اِس امت کے سب عظیم کارنامے
اِسی ‘‘عبادت’’ کے مفہوم سے پھوٹتے تھے۔ کرۂ ارض پر اِس کی سب سرگرمی و پیش قدمی
‘‘عبادت’’ ہی کا ایک مفہوم لیے ہوئے تھی۔ جبکہ آج یہ حال کہ ‘‘عبادت’’ کا وہ وسیع
اور عظیم الشان مفہوم چند مریل اعمال کے اندر سمٹ آیا ہے۔
ہ مفاہیم اگر درست ہوجاتے ہیں، اور مسلم نفوس میں اپنی اصل زندہ
حقیقت کے ساتھ عود کرآتے ہیں، اور یہاں اپنی وہ فاعلیت بحال کرلیتے ہیں جو بڑی حد
تک دم توڑ چکی ہے… تو یہ راستہ چلنا بفضلہٖ تعالیٰ آسان ہوجائے گا۔ اور اُن
انحرافات کا ازالہ ممکن ہوجائے گا جو ہمارے مسلم معاشروں پر اِس وقت حاوی ہیں۔ ان
انحرافات سے وجود میں آنے والی یہ دگرگوں صورتحال چھٹ جانے میں بھی تب ان شاء اللہ
دیر نہیں لگے گی۔
اپنی اِس ناچیز کوشش میں اگر میں کہیں پر کامیاب ہوا ہوں تو یہ محض
خدا کی مدد اور توفیق ہے، جس پر میں اُسی کا شکرگزار ہوں۔ وما توفیقی الا باللہ
محمد قطب
(۱) سورة البقرة [
124 ] ‘‘اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری
کردکھائیں فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ عرض کی: اور میری
اولاد سے؟ فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا’’
(۲) سورة النور [ 55
] . ‘‘جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان
کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین
کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو
امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔
اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں’’
(۳) اس کا جائزہ گو
ہماری کتاب ‘‘واقعنا المعاصر’’ میں لیا گیا ہے۔