عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Dawaat_Ka_Minhaj آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
معاصر تحریکوں میں عجلت پسندی آجانے کے اسباب اور عواقب۔ حصہ اول
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

معاصر تحریکوں میں

عجلت پسندی

آجانے کے اسباب اور عواقب۔ حصہ اول

 

بنیادی طور پر تین باتیں دور حاضر کی اسلامی تحریکوں میں جلد بازی کے آجانے کا سبب بنی ہیں:

1) اس بات کا دقیق جائزہ نہ لیا جانا کہ اس وقت مسلم اقوام کا حقیقتِ اسلام سے فاصلہ کس قدر ہے۔

2) عوام میں اسلام کی خاطر پائے جانے والے جوش وخروش سے دھوکہ کھا جانا اور یہ سمجھ بیٹھنا کہ یہ مہم پُر مشقت ضرور ہے مگر اس میں منزل کا آجانا بہت دور نہیں۔

3) اس بات کا ___کافی اور پیشگی___ اندازہ نہ ہونا کہ دشمن کاردعمل کیا ہو سکتا ہے اور اس کی جانب سے کیا کیا کچھ چال چلی جا سکتی ہے۔

جلد پسندی کے ان تینوں اسباب کی ہم کچھ وضاحت کریں گے۔

نصف صدی پیشتر جب اسلام کی دعوت عام ہونا شروع ہوئی تب مسلم اقوام کی صورتحال کے تمام پہلو ابھی کھل کر واضح نہ ہو پائے تھے۔ اسلام کے ظاہری اعمال کے کچھ بقایا جات ایک دیکھنے والے کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر سکتے تھے کہ مسلم اقوام میں اسلام کا ابھی بہت کچھ باقی ہے.... جبکہ معاملہ یہ تھا کہ استعمار کی فکری یلغار مسلم معاشروں میں اوپر کی سطح پر ابھی اس حد کو نہیں پہنچی تھی جتنی کہ اب دیکھی جا سکتی ہے۔ معاشرے میں دین کے ’روایتی مظاہر‘ دراصل اسلامی تہذیب کے بقایا جات تھے مگر یہ اس نقب پر ابھی پردہ کئے کھڑے تھے جو اس فکری یلغار کی صورت میں معاشرے کو اندر سے لگ چکا تھا۔ چنانچہ صورتحال اپنی اصل حقیقت کے ساتھ ابھی نظر نہ آرہی تھی۔

جہاں تک اس فکری یلغار کا تعلق ہے تو وہ تو اسی وقت سے شروع ہو چکی تھی جب عالم اسلام کے ممالک مغرب کے مقبوضہ جات بنے اور عالم اسلام میں لوگ مغرب کی مادی اور سائنسی ترقی کو دیکھ دیکھ کر مبہوت ہونے لگے کیونکہ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں حد درجہ پسماندہ تھے۔ پھر اصل کام اس تعلیمی اور ابلاغی نظام نے کیا جو اس یلغار کو دلوں اور دماغوں میں گہرا کر گیا اور جس کے نتیجے میں بڑی تدریج کے ساتھ ہر نئی نسل فکری اور عملی طور پر اسلام سے دور ہونے اور مغرب کے نئے ’دین‘ کو اپنانے میں پہلی نسل سے دو ہاتھ آگے ہوجاتی رہی.... مگر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب دعوت اسلامی کا ایک بڑی سطح پر آغاز ہوا تو ابھی صورتحال ایسی ہی تھی کہ مغرب زدگی کے اس عمل نے عوامی اور معاشرتی سطح پر ابھی یہ سب گل نہیں کھلائے تھے جو بعد میں دیکھنے میں آئے۔ یہ وہ دور تھا جب برہنہ ہونا ابھی صرف بڑے خاندانوں کی بیگمات تک محدود تھا۔ متوسط طبقے کی خواتین اس برہنگی سے ابھی بڑی شرم محسوس کرتی تھیں۔ گو اخبارات وجرائد میں تصویروں اور خبروں اور افسانوں کی صورت میں یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اور پڑھ پڑھ کر ان میں بھی بڑی خاموشی سے اس چیز کی خواہش کروٹ ضرور لینے لگی تھی۔ یہ تو تھی متوسط اور خاصی حد تک پڑھے لکھے طبقے کی بات۔ پھر جہاں تک عام گلی محلے کی بیٹیوں کا معاملہ تھا وہ تو اس برہنگی سے ہول کھاتی تھیں اور اس بات کو انتہائی لچر جانتی تھیں۔

یہ وہ دور تھا جب کسی لڑکے اور لڑکی میں محبت کا معاملہ اگر کبھی ہو جاتا تھا ___اور وہ بھی ایسی محبت جسے آج کے ادب میں ’معصوم‘ کہا جاتا ہے___ تو وہ حیا سے مر جانے کی بات ہوتی تھی۔ اپنے تعلق کو آخری حد تک چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کرنے والی لڑکی حد درجہ نیچ جانی جاتی تھی! یہ وہ دور تھا جب کتب اور جرائد میں مغربی فکر مغربی شخصیات کے نام سے ہی پھیلایا اور شائع کیا جاتا تھا اور فحش ادب لکھنے والے اگر مقامی ہوتے بھی تھے تو وہ اسے اپنے فرضی نام سے شائع کرنا مناسب سمجھتے تھے۔ تھیٹر، سینما، ریڈیو سب کچھ تھا، یہ سب کچھ اس فکری یلغار کو آگے بڑھانے میں مدد بھی دیتا تھا مگر اس صنعت نے مقامی سطح پر ابھی بہت زیادہ وہ ترقی نہیں کی تھی اور اس کی تاثیر بھی ابھی بالکل ابتدائی قسم کی تھی۔

مختصر یہ کہ معاشرے کے ظاہری بگاڑ میں ابھی وہ شدید تیزی نہیں آئی تھی جو اس سے کچھ دیر بعد دیکھنے میں آئی۔ پھر خاص طور پر اس نے جو آخری زقند بھری وہ تو سب کچھ ہوا ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد۔

یہ تو تھا اس بگاڑ کے بیرونی مظاہر کا معاملہ۔ دوسری جانب ہماری ’مشرقی روایات‘ ___کم از کم ظاہری حد تک___ ہنوز قائم تھیں اور دیکھنے والے کو یہ فریب دینے کیلئے کافی تھیں کہ ہماری یہ روایات اس فکری یلغار کے سامنے جس طرح اس سے نصف صدی پہلے کھڑی تھیں ویسے ہی نصف صدی بعد بھی کھڑی رہ جائیں گی۔ یہ فریب ہوتا بھی کیوں نہ لوگوں کی بڑی تعداد ابھی نمازی تھی۔ حتی کہ بڑے دارالحکومتوں میں بھی جو کہ اس فکری یلغار کا گڑھ ہوا کرتے تھے لوگ مسجدوں میں بڑی تعداد میں آتے تھے۔ رمضان میں چھوٹے بڑے سب روزے رکھتے۔ بے روزہ بھی کسی کے سامنے کھانے پینے کی جرات نہ کرتا۔ شادی ہمیشہ والدین کی جان پہچان سے بلکہ انہی کے ہاتھوں انجام پاتی۔ خاندانی روابط قابل رشک تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خاندان کے سربراہ کی سنی جاتی اور گھر کے بڑوں کی مانی جاتی تھی۔ بچے بچیاں جوان ہو کر بھی روایات سے نہیں نکلتے تھے۔ اگر کوئی اپنی خاندانی اور معاشرتی روایات سے پیر باہر رکھتا تو لوگ کم از کم بھی اس سے منہ پھیر لینے اور اس کو شدید برا جاننے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ابھی یہ شہروں کا حال تھا۔ دیہات میں تو جیسے ابھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ نسلوں سے جو طرز زندگی چلا آتا رہا دیہات میں ابھی وہ من وعن باقی تھا۔ دیہات کے لوگ ’شہروں کی بے راہ روی‘ سے گھن کھاتے تھے اور ’پرانا زمانہ‘ گزر جانے پر حسرت سے آہ بھرتے تھے۔

ایسے مظاہر کو بادی النظر دیکھنے والے سے بہت سے حقائق روپوش رہ سکتے تھے!

کوئی تھوڑی دیر سے نہیں، عرصہ دراز سے اسلام واقعی روایات کا ایک مجموعہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ روایات اسلام کی حقیقی روح سے خالی تھیں۔ یوں بھی قوموں کی زندگی میں ایک خاص مرحلے میں جا کر روایات سے وابستگی اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں یہ لگتا ہے کہ لوگ واقعی دین کی حقیقت پر قائم ہیں۔ لیکن روایات اگر کسی شعوری بنیاد پر قائم نہیں تو کچھ عرصے بعد یہ ایک ایسے درخت کی طرح سوکھنا اور سکڑنا شروع ہو جاتی ہیں جسے جڑوں سے غذا ملنا بند ہو گیا ہو۔ روایات اور مظاہر بھی ایک ایسا ہی درخت ہے جسے فکر اور شعور کی غذا کافی مقدار میں نہ ملے تو ایک طرف یہ سوکھنا اور سخت لکڑی بننا شروع ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اسے اپنا پورا پھیلاؤ برقرار رکھنے میں بھی شدید دشواری پیش آتی ہے۔ پھر بھی روایات کے اس درخت کا بھرم صدیوں تک رہ سکتا ہے اگر معاشرے میں نیچے کی سطح پر کوئی زوردار بھونچال یا فضا میں کوئی طوفان نہ آجائے۔ اب ایک ایسے درخت کا کھڑا رہنا یا کھڑا نہ رہنا بہت اہم سوال نہیں رہ جاتا جس کا ڈھ جانا بہرحال ٹھہر گیا ہو۔ اس درخت کو تو آخرکار مٹی خود کھا جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی اور فکر کی یلغار کی شدت اسے ’وقت‘ سے پہلے گرا دیتی ہے۔

عالم اسلام کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عالم اسلام پر مغرب کی فکری یلغار کے جو ہتھوڑے برسے اور جو کہ بڑی شدت اور بڑی بے رحمی سے برسائے گئے، ان کا ہدف ہماری یہاں کی روایات نہیں بلکہ ان کا اصل ہدف درحقیقت اسلام تھا۔ روایات کے پیچھے وہ دراصل اسلام کو ملیامیٹ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کے پیچھے واقعی اسلام اپنی روح کے ساتھ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی مگر خالی روایات ان ضربوں کا بھلا کہاں تک مقابلہ کرتیں جو بڑی منصوبہ بندی سے اور ایک لگاتار انداز میں اور بہت ہی بے دردی کے ساتھ سو سال تک برسائی جاتی رہیں۔

ساٹھ ستر سال میں یہ منظر نامہ حیران کن حد تک تبدیل ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ قوم جو ان شہروں اور ان دیہات میں ساٹھ ستر سال پہلے بستی تھی، گویا وہ سب کی سب کہیں کو سدھار گئی اور اس کی جگہ گویا یہاں کوئی اور قوم آبسی ہے جن کے آپس میں صرف نام ملتے ہیں۔ پرانے جسے ’بے راہ روی‘ کہتے تھے وہ یہاں ’ترقی پسندی‘ اور ’روشن خیالی‘ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔ زہریلے سانپ کا زہر جس طرح جسم میں پھیلتا ہے اسی تیزی سے یہ زہر معاشرے میں ہر طرف پھیل گیا۔ اب وہ وقت نہیں جب برہنگی بڑے خاندانوں کی بیگمات کا خاصہ سمجھا جائے۔ متوسط طبقے کی بیٹیاں بھی اب کسی سے پیچھے نہیں۔ حتی کہ رفتہ رفتہ یہ آفت اب دیہات کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہے!

لڑکوں اور لڑکیوں میں ’معصوم‘ ہی نہیں ’غیر معصوم‘ تعلقات بھی معمول کی چیز ہو چکے بلکہ کسی نوجوان کا اس ’معمول‘ سے بچ رہنا آج حیرانگی کا باعث جانا جاتا ہے! خاندان ٹوٹ پھوٹ چکا۔ خاندان کے سربراہ کا دورِ اقتدار ختم ہوا۔ بڑوں کی ماننا ماضی کا قصہ کہلایا۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنے معاملات اب خود بہتر جاننے لگے ہیں اور والدین کو ’دخل در معقولات‘ کی بہت کم اجازت ہے۔ ’دین‘ اور ’مذہب‘ عموماً جمود اور بند ذہنیت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ دیندار ہونا پسماندگی کا نشان اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا سبب جانا گیا۔ نقش کہن پہ اَڑنا آدمی کے ان پڑھ ہونے کی دلیل بنا اور کسی بھی اعلیٰ قدر پر جم جانا جمود اور کم عقلی جانا گیا اور کہا یہ گیا کہ یہ زمانہ جمود کا نہیں ارتقاءکا ہے۔

ساٹھ ستر سال میں یہ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ اس کو علم اور ارتقا کا نام دیا گیا۔ مہذب دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کا عنوان دیا گیا۔ اس کو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا انقلاب کہا گیا۔ روز بروز یہ عمل اب اور بھی ’ترقی‘ کی سمت گامزن ہے!

ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ انسانی دنیا میں اس نئی تبدیلی نے جو ایک کھلبلی مچا دی ہے عالمِ اسلام کو ان عالمی تبدیلیوں سے لاتعلق بہرحال نہیں رہنا تھا۔ مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ صورتحال اس سے یکسر مختلف ہوتی اگر اسلام ان مسلم معاشروں میں ایک زندہ حقیقت ہوتا نہ کہ محض روایات کا ایک مجموعہ جن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں۔

جہاں تک ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کا تعلق ہے تو وہ ایک مسلمان کیلئے کسی الجھن کا باعث ہونی ہی نہیں چاہئے۔ مسلمانوں نے پہلے بھی تو ایک مختصر ترین وقت میں دنیا بھر کی سائنسی ترقی کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ خود بھی پھر سائنس میں بے انتہا قیمتی بلکہ بنیادی اضافے کئے جن میں سے نمایاں ترین ’سائنسی تحقیق کا تجرباتی طریقہ کار‘ ہے جو مسلمانوں نے دنیا میں متعارف کرایا۔ اور وہ سب سائنسی انکشافات الگ ہیں جو سائنس کی موجودہ ترقی کی بنیاد میں پڑے ہیں۔ مگر بات یہ ہے مسلمان سائنس پڑھتا ہے تو اس سے اس کا عقیدہ متاثر نہیں ہوتا۔ اللہ پر اور یوم آخرت پر اس کا ایمان متزلزل نہیں ہوتا۔ کیونکہ مسلمان ایک مستقل ہستی کا مالک انسان ہے۔ ایک ایسی متوازن ہستی جس میں سائنس اور ایمان دونوں سما سکتے ہیں۔ نہ صرف سما سکتے ہیں بلکہ باہم متعاون ہو سکتے ہیں۔ یہاں سائنس اور ایمان کے مابین نہ کسی تعارض کا امکان ہے اور نہ کسی تضاد کا۔

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء (فاطر:28)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم وآگہی رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں

سائنس اور ایمان کا یہ تضاد تو دراصل یورپ میں وقوع پذیر ہوا جس کا سبب اُس ’دین‘ کا اپنا خلل تھا جس پر اس سے پہلے یورپ ایمان رکھے ہوئے تھا۔ یہ خلل اس تصور میں تھا جو یورپ کو اس کے دین نے بنا کر دیا تھا۔ اس لئے نہیں کہ ’دین‘ اپنی فطرت میں ’سائنس‘ سے متعارض ہے اور نہ ہی اس وجہ سے ’سائنس‘ اپنی طبیعت میں ’دین‘ کا کوئی متبادل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یورپ جسے ’دین‘ سمجھتا تھا خود اس میں ’سائنس‘ سے تعارض پایا جاتا تھا اور جس کی وجہ سے سائنس کو آخرکار اور مجبوراً ’دین‘ کا متبادل بننا پڑا۔

سو اگر اسلام ان مسلم معاشروں میں ایک زندہ حقیقت ہوتا نہ کہ محض روایات کا ایک ایسا مجموعہ جن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں، تو یہ امت ضرور اس پوزیشن میں ہوتی کہ یہ انسانیت کو عمرانی ارتقاءکا ایک بالکل منفرد نمونہ پیش کرکے دیتی۔ یہ تہذیبی ترقی کا ایک ایسا نمونہ ہوتا جو تمدن کے اس مغربی نقشے سے یکسر مختلف ہوتا جس میں ایک سے بڑھ کر ایک رخنہ پڑتا رہا ہے۔ مغرب کو کچھ ایسی کوتاہ نظری نصیب ہوئی ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کو انسان پورا نظر نہیں آسکا۔ کبھی یہ انسانی وجود کا صرف روحانی پہلو دیکھتا تھا اور اب کچھ صدیوں سے اسے اس کا صرف مادی پہلو نظر آتا ہے۔ مغرب کی تاریخ میں ہمیشہ یہ محدود نظری رہی ہے کہ آخرت کا تصور کرنے کیلئے دنیا نظر سے روپوش ہو جائے اور دنیا کو توجہ دینے کیلئے آخرت سے دامن کش ہونا پڑے۔ کسی بھی حالت میں انسانی وجود کو پورا لینا اس کیلئے ممکن نہیں رہا اور انسانی ضرورت کا ایک کلی تصور رکھنا کبھی مغرب کے بس کی بات نہیں رہی۔ انسان تو دراصل ایک مشتِ خاک اور ایک نفخۂ روح کا آمیزہ ہے۔ یہ دونوں عنصر آپس میں مل کر گتھم گتھا ہوں تو انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ بات ایک مسلمان پر بہت واضح ہے۔

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ ۔ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ۔ (ص : 71۔72)

جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ

امت کا اب اس بات سے عاجز رہنا کہ وہ اپنے زمانے میں ہونے والی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو ایک بہترین انداز میں اپنے اندر سمیٹ لے اور اس سے اپنے زمانے کے شایان شان عمرانی ارتقا کا ایک منفرد نمونہ پیش کر سکے.... ایک ایسی بات ہے جو اپنے اندر ایک واضح دلالت رکھتی ہے جسے اس دور کے داعیانِ اسلام کی نظر سے ہرگز روپوش نہیں رہنا چاہئے تھا۔ اس واقعے کی عمومی دلالت یہ تھی کہ مسلمانوں میں اس دین کی فاعلیت کا اصل شعلہ بجھ چکا ہے یا پھر اس حد تک سرد پڑ چکا ہے کہ اب یہ امت اپنے زمانے کے حالات سے اس زندہ انداز کا تفاعل کرنے سے عاجز آچکی ہے جس زندہ انداز سے تاریخ میں یہ اپنے زمانے کے ساتھ پورا اترتی آئی ہے۔ اُمت میں زندگی کے ساتھ تفاعل اختیار کرنے اور زندگی کے ساتھ پورا اترنے کے جذبے کا یوں سرد پڑجانا اور زندگی کے ہر میدان میں ایک سرد مہری کا آجانا ظاہر ہے واضح اسباب رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ اس ذہنیت کا اس دین کی طبیعت اور مزاج سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک زندہ اور زندگی سے بھرپور دین ہے۔ یہ تاریخ میں عجیب وغریب کمالات دکھا چکا ہے۔ جب بھی کسی معاشرے نے اس دین پر پوری سچائی اور پورے شعور کے ساتھ ایمان رکھا اور دنیائے واقع میں اسے حقیقت کا روپ دینے کیلئے اسے اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا دنیا نے ہمیشہ معجزات دیکھے۔ ضرور کچھ ایسے امراض ہونگے جن کا تعلق اس دین سے بہرحال نہیں۔ دلوں کی بیماریاں جسموں کو بھی مریض کرکے رہتی ہیں!

ألا ان فی الجسد مضغة اِذا صلحت صلح الجسد کلہ، و اِذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب ( أخرجہ البخاری)

خبردار جسم میں ایک ایسا لوتھڑا ہے جو اگر صحیح ہو تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اس میں خرابی آئے تو سارے جسم میں خرابی آجاتی ہے، یہ دل ہے

چنانچہ اسلام کے داعیوں پر اگر یہ امراض واضح ہو گئے ہوتے جو امت کے جسم کو کھا چکے تھے تو وہ ابتدائے کار میں ان امراض کے علاج کو ہی اولیت دیتے۔ اگر ان پر یہ واضح ہو گیا ہوتا کہ پسماندگی کے یہ سب مظاہر جو مسلمانوں کی زندگی میں بول بول کر اپنا آپ بتا رہے ہیں.... خواہ وہ علم اور سائنس میں پسماندگی ہو، خواہ مادی افلاس ہو، خواہ سیاسی محکومیت ہو، خواہ جنگی پسپائی ہو، خواہ عمرانی تنزل ہو اور خواہ تہذیبی اور ثقافتی افلاس.... یہ سب جس چیز کا شاخسانہ ہے وہ مسلمانوں کے عقیدے میں پسماندگی ہے جو مسلمانوں کے اس آخری دور میں بطور خاص مسلم ذہن اور مسلم معاشرے میں آئی ہے.... ان داعیوں پر اگر یہ واضح ہو گیا ہوتا تو وہ اپنی دعوت اور اپنی تحریک کیلئے اس سے کوئی مختلف منہج اپناتے جو کہ وہ اب تک اپنائے رہے۔ تب ان کا، اس مرض کا علاج کرنے کا، طریق کار بھی اس سے کہیں مختلف ہوتا۔

یہ حقیقت کہ یہ امت، اسلام کی جو اصل صورت ہے اس سے ابھی دور ہے.... ان داعیوں پر بھی ضرور واضح تھی۔ ہمارے اس دور کی تحریکوں کو بھی ان کا ضرور ادراک تھا۔ ہمیں شک اس بارے میں نہیں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے ہی اتنی واضح کہ اس کا روپوش رہنا کسی سے ممکن نہیں۔ البتہ یہ بات کہ یہ امت، اسلام کی اس اصل صورت سے، جس پر کہ اسے ہونا چاہئے، کتنی دور ہے اور اصل اسلام سے اس کے فاصلے کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے.... یہ بات البتہ ضرور ایسی تھی جو بہت سے داعیوں کی نگاہ سے چھپی رہی۔ اس کا سبب روایات کی وہ دبیزتہہ تھی جو سات عشرے پیشتر یہ فریب دے رہی تھی کہ یہ معاشرہ کسی نہ کسی حد تک اپنی اصل پر قائم ہے۔ اس سے داعیوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ عمارت کی بنیادیں تاحال سلامت ہیں اور ان میں کہیں کہیں تھوڑی بہت مرمت کی ضرورت ہے!

اسلامی تحریک کو اس وقت چاہئے یہ تھا کہ وہ مظاہر کا پردہ اٹھا کر ان بنیادوں کا جائزہ لیتی اور پھر یہ فیصلہ کرتی کہ یہ بنیادیں پوری طرح قائم ہیں یا تاریخ میں بار بار کے ان بھونچالوں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے.... تاآنکہ اس بات کا درست فیصلہ ہوتا کہ عمارت کہیں کہیں سے صرف مرمت کی ضرورت مند ہے یا بالکل ہی ایک تاسیس نو کی۔

امت میں اس بار جو خرابی آئی تھی وہ صرف عملی زندگی تک محدود نہ رہی تھی۔ اس کا دائرہ بنیادی مفہومات تک چلا گیا تھا۔ مفہومات اور تصورات میں آجانے والا انحراف اس انحراف سے کہیں سنگین ہوا کرتا ہے جو محض عملی زندگی تک محدود ہو۔ اس کا علاج بھی اتنا ہی دشوار ہوا کرتا ہے۔

خرابی اگر کسی فرد یا جماعت یا امت کی صرف عملی زندگی تک محدود ہو، مگر اس کے مفہومات اور تصورات اپنی جگہ صحیح شکل میں قائم ہوں، تو اس خرابی کی اصلاح چاہے جتنی بھی پرمشقت ہو اتنی مشکل بہرحال نہیں ہوتی جتنی کہ اس وقت، جب عمل کے پیچھے تصور اور مفہوم بھی بگڑ چکا ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں آپ کو دوہری محنت کرنا پڑتی ہے۔ مفہومات کی تصحیح پر محنت الگ ہوتی ہے جو کہ اس عمل کا اصل مشقت طلب پہلو ہے اور عمل کی تصحیح پر الگ محنت ہوتی ہے۔

ہمارے اس دور میں جب اسلامی دعوت اور اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو حقیقت میں اس وقت اسلام کے بنیادی مفہومات اور تصورات ہی بگاڑ اور انحراف کا شکار ہو چکے تھے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ لا الہ الا اللہ کا مفہوم بھی اس بگاڑ سے محفوظ نہ رہا تھا۔ بلکہ یوں کہیے اس بگاڑ کا آغاز ہی لا الہ الا اللہ کا مفہوم بگڑنے سے ہوا تھا۔ لا الہ الا اللہ محض اب ایک کلمہ بن کر رہ گیا تھا جسے زبان سے ادا کر دیا جانا ہو۔ اس کے ساتھ کچھ اور بچ گیا تھا تو وہ چند شعائرِ عبادت تھے اور وہ بھی کچھ لوگوں کے ہاں جن پر ایک روایتی سا انداز اس سے کہیں غالب تھا جتنا کہ ان مراسم بندگی کی ایک زندہ شعور کے ساتھ ادائیگی، جو کہ اگر پائی جائے تو انسان کو زندگی کے ایسے ہمہ گیر منہج کے ساتھ جوڑ دیتی ہے جو اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرلے۔ یہاں نماز روزہ کا بھی وہ تصور بڑی حد تک روپوش تھا جو انسان کو مراسمِ بندگی سے لے کر عملی زندگی، سیاست، معیشت، سماجی روابط اور فکری رحجانات میں بیک وقت ایک مستحکم اور باہم مربوط روش پر چلا سکے۔

بے شمار عوامل ایسے تھے جو لوگوں کے ذہن وفکر کے اندر اسلام کے بنیادی مفہومات میں بگاڑ لے آنے کا سبب بنے۔ جس کے نتیجے میں اسلام کے یہ بنیادی تصورات اپنی اس شکل میں کہ جیسے یہ اللہ کے ہاں سے نازل ہوئے تھے اور جن کو اسلام کی نسل نو نے سب سے پہلے اپنے قلب وذہن میں بٹھایا تھا اور اپنی زندگی میں ان کو ایک زندہ اور چلتی پھرتی حقیقت بنا دیا تھا.... اور پھر ان کے بعد کی نسلیں بھی انہی تصورات کو اپنے قلب وذہن میں بٹھاتی اور اپنی زندگی کی حقیقت بناتی رہی تھیں.... اسلام کے یہ بنیادی تصورات اب کے لوگوں کے قلب وذہن میں رہے تھے اور نہ عملی زندگی میں۔

ارجائی فکر اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو چکا تھا کہ ’ایمان‘ کے مفہوم سے ’عمل‘ کو خارج کر دے اور لوگوں کو یہ باور کرا دے کہ ایمان بس تصدیق کر دینے کا نام ہے یا زبان سے اقرار کر لینے کا! اور یہ کہ جو زبان سے لا الہ الا اللہ کہہ دے بس وہ مومن ہے چاہے اسلام کے اعمال میں سے کسی ایک پر بھی کاربند نہ ہو!

صوفی فکر اسلام کو بس روح کی ریاضتوں میں تبدیل کر چکا تھا۔ یوں اسلام کا مطلب کچھ خاص ورد کرنا تھا۔ کچھ خاص اذکار اسلام کی پہچان بن گئے۔ وجد اور عشق اسلام کے بنیادی فرائض بنے جو دنیائے واقع میں تبدیلی لانے کیلئے ایک پتہ تک نہ ہلا سکیں۔ نہ امر بالمعروف کیلئے کوئی تکلیف کرے اور نہ نہی عن المنکر کا دردسر مول لے اور نہ جہاد کی کوئی سبیل.... یہ سب کچھ اصل خلل کے علاوہ تھا جو عقیدہ میں اولیاءاور درگاہوں کی پوجا پاٹ کے سبب آچکا تھا اور جس کی رو سے غیر اللہ کیلئے عبادت کے ایسے افعال روا کر لئے گئے تھے جو صرف اللہ تعالیٰ کیلئے سزاوار ہیں۔

پھر رہی سہی کسر اس سیاسی استبداد نے نکال دی جو یہاں بنو امیہ کے دور سے شروع ہوا تو پھر بنو عباس اور پھر ممالیک اور پھر عثمانیوں کے دور تک آتے آتے ہر دور میں اور اپنے ہر مرحلے میں اور سے اور بڑھتا رہا۔ اس سیاسی استبداد نے لوگوں میں ایک ایسی ذہنیت پروان چڑھائی کہ آدمی بس اپنے کام سے کام رکھے اور معاشرے کو درست کرنے سے بہت کم سروکار۔ یہاں کا سیاسی استبداد بھی اس بات کا سبب بنا کہ عبادت کا تصور بس چند مراسم دین تک محدود ہو جائے اور اگر نیکی اور فضیلت کے کاموں کی طرف کسی کی توجہ ہو بھی تو وہ ایسے کام ہوں جو اجتماعی اور سماجی معاملات میں آدمی کے دخل دینے کا باعث نہ بنیں۔

توکل ایک زبردست عقیدہ تھا مگر اب اس سے مراد یہ لی جانے لگی کہ اسباب اختیار کرنا موقوف اور معاملہ بس خدا پر ڈال دیا جائے۔

عقیدہءتقدیر کم ہمتی اور نامردی کیلئے ’شرعی عذر‘ ٹھہرا۔ حالانکہ یہی تقدیر کا عقیدہ مسلمانوں کو جری وبہادر بناتا تھا اور ایک دنیا سے ٹکر لے لینے پر آمادہ کر دیتا تھا۔ قضا وقدر کا عقیدہ کبھی مسلمان کو بتایا کرتا تھا:

قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللّهُ لَنَا هُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ۔قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ ۔ (التوبۃ: 51۔ 52)

ان سے کہو: ”ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے۔ اور اہل ایمان کو ایک اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے“۔ ان سے کہو: ”تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے (یعنی فتح یا شہادت) اور ہم تمہارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں

اب ایک ایسا وقت آگیا تھا کہ مسلمان کیلئے دنیا اور آخرت کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ حالانکہ اس سے پہلے دو جہان میں سرخرو ہونے کیلئے اس کو ایک ہی راہ چلنی ہوتی تھی۔ نہ دنیا کی راہ آخرت سے الگ تھی اور نہ آخرت کی، دنیا سے۔ اور ان دونوں میں تعارض ایک مسلمان کی سمجھ سے باہر ہوا کرتا تھا۔

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا (القصص: 77)

اللہ نے تجھے جو کچھ دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کراور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ۔ (الملک: 15)

وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو تابع کر رکھا ہے۔ پس چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے

چنانچہ دیندار مسلمانوں کی ایک بڑی کثرت ’دنیا‘ کے راستے کو چھوڑ چھڑا کر ___جس میں علم، سائنس، قوت کے اسباب، زمین پر قبضہ واقتدار مستحکم رکھنا، بستیاں بسانا اور معاشروں کی حالت سدھارنا سب کچھ آتا تھا___ اس ’دنیا‘ کے راستے کو چھوڑ کر اللہ سے ’اخروی‘ تقرب پانے کیلئے ہر چیز سے فراغت پانے کے طلبگار ہوئے۔ جس کا طریقہ ذکر وورد کی مجلسیں منعقد کرنا تھا اور عشق و وجد کی ریاضتیں، کاروبارِ دنیا کی جانب متوجہ ہونا اب ان لوگوں کا کام ٹھہرا جن کو آخرت سے سروکار نہیں۔ یوں دنیا ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جو دولت اور اقتدارکے پجاری تھے اور جن کو اللہ کے سامنے جواب دہی اور حساب کتاب کا شعور تک نہ تھا۔ یہ اُدھر دنیا میں فساد مچاتے رہے اور یہ اِدھر اپنی آخرت سنوارتے رہے!

یہ سب امراض جو اُمت کی ایک بڑی اکثریت کو لاحق ہوئیں اور جو کہ دین کو اس کی حقیقت سے فارغ کر چکی تھیں اور لا الہ الا اللہ کو، امت کی زندگی میں، اس کی اصل فاعلیت سے محروم کر چکی تھیں.... ان امراض کا تقاضا تھا کہ قبل اس کے کہ عوام کو ساتھ ملا کر چلایا جائے، کام کا آغاز امت میں لا الہ الا اللہ کا مفہوم درست کرنے اور معاشرے پر اثر انداز ہو سکنے والی ایک بھاری جمعیت کی تربیت وتیاری سے کیا جاتا!

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

ایک طرف اگر یہ معاملہ تھا کہ مسلم معاشروں میں پرانی روایات کا ___آج سے ساٹھ ستر سال پہلے___ اس حد تک بھرم قائم تھا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کام کرنے والے اس سے دھوکہ کھا کر اس اصل مرض سے غافل ہو جائیں جو کہ امت میں ___ایک بڑی سطح پر___ اس کے عقیدے اور اس کے تصور اسلام ہی کو لگ چکا تھا.... تو دوسری طرف عوام کا وہ جو ش وجذبہ، جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دیکھنے میں آتا رہا، اس فریب کو بڑھا دینے اور تحریکوں کو معاشرے کی اصل صورت حال سے غافل کر دینے میں اور بھی بڑا سبب بنا۔

لوگوں میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے کام کیلئے جو جوش وجذبہ پایا گیا وہ واقعی دیدنی تھا۔ مصر میں چند سال کے اندر امام حسن البنا شہیدؒ کے گرد جو لوگ اکٹھے ہوئے ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد نصف ملین (پانچ لاکھ) کو پہنچتی ہے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی شرح تھی خصوصاً جبکہ ہم یہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت مصر کی کل آبادی بیس ملین (دو کروڑ) کو ابھی نہیں پہنچی تھی۔ اس تعداد میں سے ہم عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ایسے لوگوں کو نکال دیں جو کسی بھی عوامی کام میں شریک نہیں ہو سکتے، یا جو ’ہر حال میں خوش رہنے‘ والے لوگ ہوتے ہیں اور ہر نئے آنے والے کو سلام کرتے ہیں! ان لوگوں کو نکال دیں تو امام حسن البنا کے گرد پانچ لاکھ کی تعداد ہرگز کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔

اس میں بھی شک نہیں کہ امام شہید (1) کو جو روحانی تاثیر کا قدرتی ملکہ حاصل تھا، اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر لینے کی جو خاص صلاحیت تھی وہ بھی اس بات کا سبب بنی کہ لوگ ان کی دعوت کیلئے شدید حد تک جوش وخروش محسوس کریں۔ ایک ایسا شخص جو ان کی طرح دلوں میں بسنا نہ جانتا ہو اور ان جیسی صلاحیتوں کا مالک نہ ہو، اتنے تھوڑے عرصے میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے چاروں طرف اکٹھا کبھی کر ہی نہیں سکتا تھا۔

لیکن ہمیں ایک نظر عوام پر ڈالنی ہے جن میں اخوان کی دعوت یوں دنوں میں مقبولیت حاصل کر گئی۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد علی وجہ التحدید آخر کس بنا پر امام کے ساتھ اکٹھی ہوئی؟

لوگوں کو ایک ایسا شخص مل گیا تھا جو ان میں پائی جانے والی روحانیت کی پیاس بجھا رہا تھا اور بڑے ہی پڑھے لکھے اور جدید تعلیم یافتہ انداز میں یہ پیاس بجھا رہا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے انہوں نے روحانیت کا درس ذکر کے ان خاص حلقات میں سنا تھا جو ان پڑھ عوام میں مقبول رہے ہیں اور جو کہ صوفیاءکے مشائخ طریقت کے ہاں چلتے ہیں اور جس سے کہ عام پڑھے لکھے الرجک ہوتے ہیں مگر وہ اس کا متبادل بھی کہیں نہیں پا رہے ہوتے.... اب ان کو یہ متبادل امام شہیدؒ کی شخصیت میں اور ان کی تاثیرِ کلام میں مل گیا جو روحانیت میں ان کی پیاس بجھا رہا تھا مگر بیک وقت ان کے ’پڑھا لکھا‘ ہونے پر حرف بھی نہ آنے دیتا تھا۔ یہ ’شیخ‘ روحانیت کا ایسا نشہ بھی نہ ہونے دیتا تھا جس سے انسان کی عقل وہوش سلب ہو جائے.... عوام کو ایک ایسا رہنما مل گیا تھا جو ان کی نظر میں ان کی، اسلام کی ان ملکوں پر پھر سے حکمرانی کروا دینے کی، آرزوئیں پوری کرنے جا رہا تھا.... وہ بھی عین اس وقت جب لوگ ابھی سقوطِ خلافت کے زخم چاٹ رہے تھے۔ اسلام پسند عوام کو ایک ایسا راہبر نظر آرہا تھا جو خباثت اور بے حیائی کے اس طوفان کو تھام دینا چاہتا تھا جس کا معاشرہ گرفتار ہو چکا تھا اور جس سے یہ لیڈر لوگوں کو اعلیٰ اخلاق اور تہذیبی اقدار کی جانب واپس لانا چاہ رہا تھا.... یہ پانچ لاکھ عوام حسن البنا سے اس سب کچھ کی توقع کر رہے تھے بغیر اس کے کہ یہ خود کوئی بڑا خطرہ مول لینے پر تیار ہوں اور اس نیک مقصد کیلئے امام کے پروگراموں میں بڑی پابندی کے ساتھ شریک ہونے اور ان کی باتوں کو بڑی عقیدت کے ساتھ سننے سے زیادہ کچھ اور کرنے پر آمادہ ہوں!

یہ عوام جس تیزی کے ساتھ امام کے گردا گرد اکٹھے ہوئے تھے، جب حالات مشکل اور دشوار ہوئے تو یہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ان کے گرد سے چھٹ گئے۔ ایسے گئے کہ یہ مجلسیں پھر نہ جم سکیں۔ ان کو یہ اندازہ تک نہ تھا کہ حالات کبھی ایسے بھی ہو جائیں گے کہ حسن البنا کی ایمان افروز تقریریں سننا اتنا مہنگا اور اتنا خطرناک ہو سکتا ہے.... نہ ہی وہ ابھی اس بات کیلئے تیار ہو پائے تھے کہ وہ ان خطرناک حالات کے ساتھ پورا اترلیں۔ ان کو اگر پہلے سے معلوم ہوتا یا کم از کم اندازہ ہی ہوتا کہ معاملہ یوں خطرناک موڑ بھی مڑ سکتا ہے تو وہ یا ان میں سے بہت سے شروع میں ہی امام کے ساتھ ہو لینے پر تیار نہ ہوتے!

اب امام شہید کے گرد ان نوجوانوں کے سوا جن کو انہوں نے اپنی خاص نگرانی میں تربیت دی تھی اور جن میں عمل کی جوت جگائی تھی، ان نوجوانوں کے سوا کوئی باقی نہ رہا....

عوام کے یہ غول جو امام کے گرد بہت شروع میں اکٹھے ہونے لگے تھے اور جو کہ امام کا بیشتر وقت اور توجہ لے رہے تھے اور جن کی وجہ سے امام کا ’کام‘ بہت ہی زیادہ بڑھ گیا تھا اور جو کہ وقت آنے پر پھر ان کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے.... ایسے عوام کا اتنے شروع میں یوں اکٹھے ہو جانا اور تحریک کی ساری توجہ لے لینا کیا واقعتا دعوت کو آگے بڑھانے کا سبب بنا یا پیچھے لے جانے اور راستے کا بوجھ بن جانے اور سفر کو مشکل کر دینے کا!؟

اس بات کا جائزہ ہم آگے چل کر دشمن کے ردعمل کے ضمن میں اپنی گفتگو کے دوران بھی لیں گے۔ مگر یہاں ہم ذرا دیر رک کر ایک اہم سوال پر غور کرنا چاہیں گے۔

آخر کس چیز نے تحریک کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اس بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی عوام کی جانب اس بڑی سطح پر متوجہ ہو جائے!؟ یہ ایک غلط فہمی تھی جو بنیادی طور پر حسنِ نیت پر قائم تھی۔ یہ عوام کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حسن ظن تھا۔ سمجھ یہ لیا گیا تھا کہ عوام میں بس ایک عملی بگاڑ آیا رہا ہے اس سے زیادہ کوئی خرابی نہیں پس اگر ان کو پرتاثیر انداز میں پند ونصیحت کر لی جائے جگہ جگہ درس دیئے جائیں اور پروگرام کئے جائیں تو معاملہ درست ہو جائیگا اور عوام کے یہ غول کے غول اسلام کی راہ پر چل پڑیں گے اور دعوت کیلئے مخلص سپاہی بن کر کام دیں گے یا کم از کم بھی تحریک میں بھرتی ہونے کیلئے تیار خام مواد کا کام دیں گے اور دعوت اسلام پسند عوام کی اس کثرت کو ساتھ لے کر منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہو جائیگی!

تحریک کی قیادت پر اس ابتدائی مرحلے میں یہ واضح نہ ہو پایا ___جس طرح کہ پھر بعد میں خودبخود واضح ہوگیا___ کہ یہ خلل جو اس بار امت میں نیچے کی سطح پر آیا صرف عملی بگاڑ تک محدود نہیں۔ یہ بگاڑ دراصل اسلام کے بنیادی مفہومات اور اسلام کے بنیادی تصورات تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے خاص طور پر یہ کہ اللہ کی شریعت کی تحکیم کا مسئلہ عوام کی سطح پر بالکل سمجھا نہیں گیا اور یہ کہ معاملہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ایک بڑی جدوجہد اسلام کے بنیادی حقائق کو ذہنوں میں اتارنے کیلئے کی جائے قبل اس سے کہ عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ یہ ضرورت بعد میں واضح ہوئی بھی (2) .... لیکن اس وقت جب تحریک کا عوام کی جانب رخ ہو جانے پر خاصا وقت اور محنت صرف ہو چکی تھی۔ اس سارے عرصے میں، عوام پر جو توجہ اور محنت کی گئی، وہ بس اس بنیاد پر تھی کہ لوگوں میں ایک ولولہ اور جوش وجذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اگر موثر پروگراموں کے ذریعے یہ کام کر لیا جائے تو وہ دعوت کیلئے مخلص سپاہی بن کر ساتھ چلیں گے اور نہیں تو کم از کم دعوت میں سپاہی بن کر بھرتی ہونے کیلئے خام مواد کا کام تو ضرور ہی دیں گے.... پھر جب عوام پر یہ شبانہ روز محنت کر لی گئی اور لوگ یوں دیوانہ وار اکٹھے ہو گئے، حسن البنا کی گونج پورے مصر میں سنائی دینے لگی اور اس عوامی مقبولیت کو سیاسی میدان میں آزمانے کی بھی تدبیر ہوئی .... تو لازمی بات تھی کہ اس سے دشمنوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اب دشمن کی جانب سے ایسے ایسے ردعمل سامنے آئے کہ جن میں سے بعض کی توقع بھی نہ کی جا سکتی تھی۔

جب کسی ملک میں عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہاں برسراقتدار مقامی طاقتیں اس سے پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن معاملہ اگر اسلامی تحریکوں کا ہو تو اس سے صرف وہاں کی مقامی طاقتیں ہی نہیں عالمی طاقتیں بھی بیک وقت کان کھڑے کرتی ہیں .... بلکہ ایسے واقعات سے عالمی طاقتوں کی پریشانی کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس امر کا پورا ادراک کر لینے کیلئے تاریخ کے بعض صفحات پڑھ لینا ضروری ہے۔

پچھلی دو صدیوں میں یہ بات بہت کھل کر سامنے آگئی تھی کہ عالم اسلام کا معاملہ ہر میدان میں روز بروز نیچے جا رہا ہے .... سلطنت عثمانیہ جس سے یورپ کئی صدیاں ہول کھاتا رہا تھا اب دو صدیوں سے ضعیفی کا شکار تھی اور روز بروز نحیف اور لاغر ہوتی جا رہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ بڑی تیزی سے سمٹ رہی تھی اور زار کاروس ایک کے بعد ایک کرکے اس کی سب املاک ہڑپ کئے جا رہا تھا مگر اس کو اسے روک دینے کی ہمت نہ ہوتی تھی اور نہ ہی خلافت عثمانی کے پاس اس کو کوئی سبیل تھی کہ یہ اپنے مقبوضہ خطے روس سے واگزار کرا سکے۔ خطہءبلقان کے ممالک یورپی ملکوں کی آشیرباد کے زیراثر خلافت سے باغی ہو چکے تھے۔ عالم اسلام کے اندر کی غیر مسلم اقلیتیں الگ سے علمِ بغاوت بلند کئے پھر رہی تھیں۔ دولت عثمانیہ کا ہاتھ حالات کی چکی میں آچکا تھا اور یہ اپنی مرضی سے حرکت کرنے کی بھی طاقت نہ رکھتی تھی۔ رہی مسلم امت تو اس کا حال بھی سلطنت عثمانیہ سے کم برا نہ تھا۔ یہ مدت سے پسماندگی کا شکار تھی۔ ہر طرف جہالت و ناخواندگی اور غربت وافلاس کا دور دورہ تھا۔ جمود کی حالت طاری تھی۔ بند ذہنیت پوری امت کی نفسیات میں بول رہی تھی۔ ماؤف ذہنیت حالات فہمی کی متحمل نہ رہی تھی .... معاملہ عین اس حالت کو پہنچ چکا تھا۔ جب یورپ نے دیکھا کہ موقعہ بڑی دیر اور انتظار کے بعد ہاتھ آیا ہے کہ اس ازلی دشمن کا کام اب تمام کر دیا جائے۔ یورپ کی طاقتوں نے مل کر پروگرام بنایا اور پورے عالم اسلام کو اپنے قبضے میں لے لینے کے منصوبے کے ساتھ یورپ آگے بڑھا۔ یوں عالم اسلام کو یورپ کی ’کالونیاں‘ بنانا ٹھہرا۔ صلیبی یورپ کے ساتھ اب کے ایک نیا عنصر بھی شامل تھا۔ یہ عالمی یہودیت تھی جو کہ اپنی ہی مار پر تھی اور یہ خود بھی اس موقعہ کیلئے بڑی دیر سے پر تول رہی تھی جو مسلمان ان سب کو آپ اپنے ہاتھ سے فراہم کر رہے تھے۔ صلیب اور صہیون دونوں مل کر ہماری جانب آگے بڑھے اور فلسطین میں ایک یہودی وطن کی بنیاد ڈالی۔

سلطان عبدالحمید کی جانب سے فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا مطالبہ رد ہو جانے کے بعد عالمی یہودیت اور عالمی صلیبیت میں عثمانی سلطنت کو گرا دینے پر آخری حد تک یکسوئی پائی جانے لگی۔ اب دونوں کا منصوبہ ایک تھا اگرچہ ہر فریق اس منصوبے پر عملدرآمد سے اپنا مطلب نکالنا چاہ رہا تھا۔ اس منصوبے میں کہیں کوئی رخنہ باقی نہ تھا اور اس پر عملدرآمد میں صلیبیت اور صہیونیت کو کہیں کسی مشکل کا سامنا نہ تھا کیونکہ امت اپنے دین اور دنیا کا شعور کھو بیٹھی تھی اور وہ عزم وہمت جس کی اللہ تعالیٰ نے اسے تاکید کی تھی کہیں روپوش ہو چکی تھی۔

وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ (آل عمران: 139)

دل شکتہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی بالاتر ہو اگر تم مومن ہو

عالم اسلام کو عسکری اور سیاسی میدان میں چاروں شانے چت کر لینے کے بعد اسلام سے جنگ آزمائی کیلئے جو خطرناک ترین اسلحہ استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا وہ ’فکری یلغار‘ تھی۔ اس کا مقصد صلیبی اور صہیونی اقتدار کے خلاف مسلمانوں کی قوت مزاحمت کو کچل دینا تھا اور اس کا طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ دلوں میں اس عقیدے کی کوئی جگہ باقی نہ رہنے دی جائے اور اس کی جگہ ایسی نسلیں تیار کی جائیں جو ذلت اور غلامی کو ذہنی طور پر قبول کر لینے پر راضی ہوں اگرچہ کوشش یہ کی جائے کہ ’رضا مندی‘ سے بھی بڑھ کر یہ نسلیں ذلت میں ’لطف ومسرت‘ کا بے حد سامان پائیں اور اپنی نجات کا راز بھی اپنی فکر وتہذیب کی موت میں پائیں!

صلیبی صہیونی منصوبہ ساز سے یہ بات اوجھل نہ تھی کہ یہاں کی مسلمان قومیں اس غفلت سے کبھی بھی اور کسی بھی وقت بیدار ہو سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے یہ قومیں یورپ کی ذلت آمیز غلامی کو مسترد کر دیں اور ’آزادی‘ کا مطالبہ کرنے لگیں۔ منصوبہ سازوں نے اس بات کا پہلے سے حساب رکھا ہوا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے شروع امر سے یہاں قومیت اور وطنیت کے بیچ بو دیئے تھے اور ایسی قیادتیں تیار کرنا شروع کر دی تھیں جن سے عوام راہنمائی پائیں اور ان کے گرد اکٹھا ہوں۔ یہ سب کچھ استعمار کی زیر نگرانی ہوا تھا اور اس عمل کو ظاہری یا مخفی انداز میں اسی کی مدد حاصل رہی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہاں استعمار کے خلاف کبھی بغاوت ہو، جس کا کہ استعمار کو ہمیشہ ہی خدشہ رہا ہے، تو اس کا نقصان استعمار کے حق میں اور اس کا فائدہ یہاں کی قوموں کے حق میں کم سے کم رہے۔ مثلاً یہ قومیں زیادہ سے زیادہ اگر کسی چیز کا تصور کریں تو وہ عسکری آزادی ہو، بشرطیکہ وہ اپنے اندر اس بات کی قوت پائیں یا پھر عسکری اور سیاسی انداز کی آزادی کا سوچیں، جو کہ کم از کم ظاہری آزادی ضرور ہو۔ مگر یہ اس بات کی جانب ہرگز نہ آئیں کہ ایک فکری، تہذیبی، اور ذہنی آزادی کی سوچ سوچیں اور جسم کے ساتھ روح کو بھی اس استعمار کی قید سے آزاد کرانے پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ استعمار ان اقوام کو کسی مجبوری کے تحت اگر سیاسی معنی میں آزادی دے بھی دیتا ہے تو بھی یہاں کے قومی اور وطنی نظاموں کی شکل میں اور ایک کے بعد ایک انقلاب آتے رہنے کی صورت میں، جس کیلئے عوام تالیاں بجانے اور داد ودہش دینے میں مسلسل مشغول رہیں گے.... یہاں کی اقوام عملاً مغرب ہی کی دست نگر رہیں گی۔

مختصر یہ کہ وہ اصل چیز جس سے یہ صلیبی صہیونی دشمن واقعی خوف کھاتا تھا اور جس کو ہر قیمت پر روک دینا چاہتا تھا وہ یہ کہ ان اقوام میں حقیقی اسلامی بیداری آجائے۔ اس کے ساتھ مفاہمت کی اس کے پاس کوئی صورت نہیں اور اس کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جانا ناممکن ہے.... امت میں حقیقی اسلامی بیداری (صحوہ اسلامیۃ) کا آجانا دشمنوں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب رہا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ ان کے مفادات کیلئے کس قدر خطرناک ہو سکتی ہے۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ  (البقرۃ : 146)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں

اب جب امام شہید کے ہاتھوں اسلامی تحریک پروان چڑھنے لگی تو عالمی صلیبی صہیونی دشمن بڑے غور سے اور ایک خوف کی حالت میں امام کی اس تحریک کو جانچ رہا تھا اور پوری باریکی کے ساتھ اس کا جائزہ لے رہا تھا کیونکہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ اپنی خطرناکی میں کس سطح کو پہنچ چکی ہے۔ مشہور برطانوی مستشرق جِب کی صرف ایک بات سے ہی آپ اس امر کا اندازہ کر سکتے ہیں اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ مستشرقین صلیبی صہیونی جاسوسی کا علمی اور ثقافتی شعبہ ہیں۔ جِب نے ”اسلام میں جدید رحجانات“ (Modern Trends in Islam) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس کی پہلی طباعت 1936ءمیں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں وہ جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے ظاہری طور پر اس کو بے حد سراہتا ہے مگر کتاب کے ایک حاشیے میں ایک جگہ اس پر یوں تعلیق لگاتا ہے۔

”اس (جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کی تحریک کے بعد) ابھی حال ہی میں ایک نئی جماعت منظر پر آئی ہے جس کا نام الاخوان المسلمون بتایا جاتا ہے۔ اس کا رہنما حسن البنا نام کا ایک شخص ہے۔ اس جماعت کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ اگرچہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اس کا خطرہ ایک خاص نوعیت کا ہے“۔

اس اتنی تعلیق سے ہی واضح ہے کہ تیس کے عشرے کی ابھی ابتدا تھی تو مغرب اس خطرے کو کس انداز سے دیکھ رہا تھا اور یہ کہ اس پانی کی گہرائی وہ بڑی دقت کے ساتھ ماپنا چاہتا تھا۔ چنانچہ مغرب میں اس نوخیز جماعت کے بننے کے ساتھ ہی خطرے کی گھنٹیاں بجا دی گئی تھیں!

لازمی بات ہے اس نئی دعوت کے گرد جوں جوں لوگ اکٹھے ہونے لگے توں توں مغرب کی نظر میں یہ خطرہ بڑا ہونے لگا تھا۔ یہ جماعت جو اسلام کو لے کر پوری زندگی میں ساتھ چلنا چاہتی تھی اور اسلام کی خاطر جگہ جگہ اب لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے تھے .... مغرب اس تحریک سے تاحال ایک سیاسی اور سماجی خطرہ ہی محسوس کر پایا تھا۔ اتنے تھوڑے عرصے میں وہ اس بات کا پورا اندازہ تو ابھی کر ہی نہ پایا تھا کہ اس جماعت کے اندر میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ عالمی دشمن کو پورے طور پر معلوم نہ تھا کہ اس جماعت کے اندر مجاہد سپاہ تیار ہو رہی ہے جو اسلام کی خاطر موت پانا زندگی کی سب سے بڑی آرزو سمجھتی ہے!

یہ بم 1948ءمیں پھٹا۔ بلکہ عین اس وقت اور اس موقع پر پھٹا جس سے زیادہ خطرناک وقت اور موقعہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ واقعہ فلسطین میں ہوا اور اس وقت ہوا جب فلسطین میں یہودی وطن قائم کیا گیا....

اس بم نے سب کے اوسان خطا کر دیئے۔ اس کے پھٹنے کی آواز تحریک کے قائدین کی توقع سے بھی بڑھ کر رہی!

یہ بات کہ اس تحریک کے رہنماؤں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ صلیبیت و صہیونیت اسلام کی دشمن ہیں اور یہ کہ صلیبی صہیونی دشمن کو اس تحریک سے بہت کچھ اندیشہ ہے اور یہ کہ یہ دشمن اس تحریک کو ختم کر دینا چاہتا ہے اور اسے لوگوں کا اس تحریک سے لگاؤ رکھنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تو یہ بات تو ظاہر ہے کسی بیان کی محتاج نہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عام مسلمان کو بھی آپ سے آپ معلوم ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان کو اس ضمن میں قرآن کی یہ آیات پڑھ لینا ہی کافی ہے۔

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (البقرہ: 120)

یہ یہودی اور عیسائی ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرنے لگو

إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَا (آل عمران: 120)

تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ (المائدۃ: 82)

تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ  (البقرۃ: 109)

اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے

ایک مسلمان کو قرآن میں یہ آیات پڑھ لینا ہی کفایت کرتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو کہ یہ دشمنی قائم ہے اور قائم رہے گی .... البتہ یہ بات کہ یہ دشمنی اس وقت کس حد کو پہنچی ہوئی ہے اور اس مکروہ سازش کی نوعیت اس وقت کیا ہے اور اس منصوبے کی عملی تفصیلات فی الوقت کیا ہیں تو اس بات سے آگاہ ہونا ایک اور بات ہے.... اور جو بات حالات کی ترتیب سے سامنے آئی، اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ تحریک کی قیادت کو اس بات کا اندازہ جس حد تک اور جس دقیق انداز سے ہونا چاہئے تھا وہ نہیں تھا....

یہودی منصوبہ سازوں نے عالم اسلام کے اس اہم ترین گوشے میں اپنا یہودی وطن بسانے کیلئے جو کچھ منصوبہ بندی کی تھی اس میں ہر اس چیز کا خیال رکھا گیا تھا جو کسی انسان کے ذہن میں آسکتی تھی۔ چنانچہ جب سے سلطان عبدالحمید نے فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کے بدلے میں یہودیوں کی بھاری پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں، جن میں کہ سلطان عبدالحمید کو ذاتی طور پر ایک بھاری رشوت کی پیشکش جو کہ سونے کے پانچ ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ (جو کہ اس وقت کے حساب سے بہت بڑی دولت سمجھی جا سکتی ہے) تک پہنچتی تھی، اور اس بات کی یقین دہانی کہ روس، برطانیہ اور فرانس کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ عثمانی قلمرو کے اندر اقلیتوں کو بغاوت پر اتر آنے سے باز رکھیں (جو کہ دولت عثمانیہ کا بہت بڑا سیاسی دردسر تھا) اور یہ یقین دہانی کہ عثمانی سلطنت کی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے لمبی مدت کے بھاری قرضے دیئے جائیں گے (جو کہ دولت عثمانیہ کا بہت بڑا معاشی دردسر تھا) .... جب سے سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کی ان بھاری دل لبھانے والی مگر زہرناک پیش کشوں کو ٹھکرا دیا تھا اسی وقت سے یہودیوں نے اپنے وطن کے قیام کیلئے ایک بہت لمبی مدت کی منصوبہ بندی کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ کافی تیاری کر لینے کے بعد اس منصوبہ پر عمل درآمد کیلئے جو میعاد مقرر کی گئی وہ پچاس سال تھی، جیسا کہ ہرٹزل نے 1897ءمیں سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں منعقدہ کانفرنس میں اعلان کیا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے عبدالحمید کو معزول کر دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی گئی تاکہ سارے کا سارا صلیبی یورپ عثمانی سلطنت پر ٹوٹ پڑے اور اس ’مرد بیمار‘ کا کام تمام کرکے اس کا ترکہ اپنے درمیان تقسیم کرلے۔ یہ ترکہ زیادہ تر برطانیہ اور فرانس کے حصے میں آیا۔ (یہ ترکہ اب تک جوں کا توں انہی کے پاس ہے سوائے اس ایک فرق کے کہ مرکز ثقل برطانیہ جو کہ اُس وقت کی ’آزاد‘ دنیا کا چودھری تھا، سے منتقل ہو کر امریکہ کے پاس چلا گیا جو کہ اِس وقت کی ’آزاد دنیا‘ کا رکھوالا ہے) برطانوی انتداب کے تحت آئندہ کیلئے اکھاڑا فلسطین کو بنایا گیا تاکہ بلفور ڈیکلریشن کے سائے میں یہودی وطن کی بنیاد رکھی جائے۔ اسی لئے اس ڈیکلریشن میں کہا گیا تھا کہ ”ملکہءمعظمہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھتی ہیں“!

یہ منصوبہ فلسطین یہود کو دے دینے پر ختم نہیں ہو جاتا تھا۔ بلکہ فلسطین کے گرد جو ممالک تھے ان کو بھی چھوٹے چھوٹے راجواڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ان راجواڑوں میں اکھاڑ پچھاڑ اور کھینچا تانی معمول کا واقعہ بنا رہے اوران سب ممالک کا کوئی وزن نہ تو جنگ کی دنیا میں رہے اور نہ سیاست کی دنیا میں اور نہ معیشت کی دنیا میں۔ پھر ان میں جگہ جگہ سرحدوں پر جھگڑے ہوں اور ان کے اندر قومی اور وطنی تحریکیں ہر ملک میں لوگوں کو نہ صرف ملکی مسائل میں مشغول رکھیں بلکہ مسلمانوں کی وحدت کو پھاڑ کر بھی رکھیں۔

پھر یہ مکر وفریب یہاں بھی نہیں رکا۔ کسی بھی امت کے نوجوان اپنے دشمن کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً جب وہ کسی بڑے کام پر سنجیدگی سے جت جائیں۔ لہٰذا کسی قوم کے نوجوانوں کو کسی بھی کام پر پوری سنجیدگی کے ساتھ لگ جانے سے ہر قیمت پر روک دینا اور اس مقصد کیلئے سب وسائل کو بروئے کار لانا، خصوصاً ایسے کاموں میں ان کو دل مار کر لگ جانے سے روک رکھنا جن سے دشمن کے منصوبوں کو خطرہ ہو .... بہت ضروری سمجھا گیا۔ امت کے نوجوانوں کو پامردی سے محروم اور بے راہ رو کر دینے کیلئے سب وسائل آزمائے گئے تاکہ یہ نوجوان نیچ کام کے سوا کسی چیز کا سوچیں تک نہیں اور کسی بلند کام کا تو خیال تک ذہن میں نہ لائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ان اللہ یحب معالی الأمور ویکرہ سفاسفھا (رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر) کہ ”اللہ تعالیٰ کو بلند اور عظیم کام پسند ہیں اور نیچ کام سخت ناپسند“۔

چنانچہ امت کے نوجوانوں کو سینما فراہم کیا گیا۔ ریڈیو کے ذریعے ’تفریح‘ فراہم کی گئی اور تھیٹر کی راہ دکھائی گئی (یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، وی سی آر اس کے بھی بعد کی بات ہے۔ نہ ہی یہود ابھی ہمارے نوجوانوں کو فٹ بال اور کرکٹ کے عالمی بخار میں مبتلا کر سکے تھے)۔ ہمارے پڑھے لکھے مگر دین سے لاعلم نوجوانوں کو ’آزادی نسواں‘ پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ ’آزاد خیالی‘ کی طرح ڈال کر لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کو ’سمجھنے‘ کی ترغیب دی گئی۔ یوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین ’معصوم تعلقات‘ کو شدومد کے ساتھ متعارف کرایا گیا کہ جانتے تھے یہ ’معصوم تعلقات‘ خود بخود ’غیر معصوم‘ ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو بہت کچی عمر میں سیاسی تعصبات کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا جو کہ ان کا قیمتی وقت بھی اور ان کی صلاحیتیں بھی برباد کر دیں اور ان کو کسی مثبت کام کی جانب توجہ تک نہ کرنے دیں اور اپنی زندگی کا قیمتی ترین دور لایعنی مصروفیت میں گزار دیں۔ ہمارے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان اس قسم کے موضوعات پر بہت طویل بحثیں اور مناظرے کر سکتے تھے کہ مغربی آرٹ یا موسیقی یا ادب میں کس سکول آف تھاٹ کو کس سکول آف تھاٹ پر کونسی اور کس قسم کی برتری حاصل ہے اور ہمارے عام نوجوان مقامی موسیقاروں پر ہی یہ شوق پورا کر لیتے تھے اور وہ یہاں کی مقامی گلوکاراؤں کی ایک دوسری پر فضیلت کے موضوع پر سیر حاصل بحث کر سکتے تھے! غرض اس طرح کی لایعنی مشغولیات کی کوئی حد نہ رہی تھی۔

عین پورے وقت پر، ہرٹزل کی دی ہوئی پچاس سال کی یہ میعاد جب پوری ہونے کو آئی (1897ءمیں اس نے پچاس سال کے اندر یہودی وطن کے قیام کا اعلان کیا تھا) یہودی وطن کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔عرب ملکوں کی فوجوں نے ڈرامے کی کارروائی پوری کرنے کیلئے جنگیں لڑیں۔ بہت ہی خوبصورت طریقے سے شکست ’حاصل‘ کی گئی۔ خوب خوب غداریاں اور خیانتیں ہوئیں۔ اسلحے کے ڈھیر ردی نکل آئے۔ فوجی پلٹنیں کچھ دیر تک ’دائیں بائیں‘ کرتی رہیں اور بالآخر اس لائن پر جا کر رک گئیں جو متارکۂ جنگ اور پھر تقسیمِ اراضی کیلئے طرفین میں پہلے سے طے کی جا چکی تھی!

یہاں اس موقعہ پر، جو کہ دشمن کے منصوبوں کے حساب سے نازک ترین موقعہ تھا، یہ بم پھٹا اور اس کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے شور نے ہر طرف ہلچل مچا دی ....

الاخوان المسلمون کے فدائی فلسطین کے معرکے میں جا اترے تھے! یہاں یہود کو پہلی بار الاخوان سے متعارف ہونے کا موقعہ ملا اور وہ تجسس جو ان کو پچھلے کچھ عرصے سے الاخوان المسلمون کی تحریک کے بارے میں تھا وہ عین اس نازک موقعہ پر دور ہوا۔ یہود کو معلوم ہوا، اور ان کے ساتھ عالمی صلیبیت کو بھی، کہ الاخوان المسلمون کیا ہیں!

یہ بہت ہی زوردار بم تھا اور اس سے اٹھنے والا شور پوری دنیا کو ورطہءحیرت میں ڈال چکا تھا! یہ واقعہ اس سے بہت زیادہ سنگین تھا جتنا کہ اخوان کی قیادت کبھی اندازہ کر سکتی تھی ....

یہودی جو عرب فوجوں کو شکست پر شکست دیتے جا رہے تھے جونہی اخوان کے فدائیوں سے بھڑے تو یہ محسوس کئے بغیر نہ رہے کہ یہ کسی اور معدن کے بنے ہوئے لوگ ہیں اور ان فوجوں سے بہت مختلف ہیں جو اس ڈرامہ نما جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے آئی تھیں.... یہ ایک عقیدے کیلئے جینے اور عقیدے کیلئے مرنے والے لوگ تھے اور اب وہ اپنے اس عقیدے کیلئے مرنے کی خاطر میدان میں اتر آئے تھے۔ الاخوان کے یہ فدائی جان ہتھیلی پہ لئے معرکہءفلسطین میں موت کا تعاقب کر رہے تھے۔ یہود کو اور انکے پیچھے صلیبیوں کو مسلمانوں کا عین وہی نمونہ نظر آگیا جس سے تاریخ کے ایک طویل عرصے تک ان کو پالا پڑا رہا تھا۔

اس نئے واقعے نے ان کو شدید پریشان اور ہراساں کر دیا تھا۔ اس بات کا تصور بھی ان کے بس سے باہر تھاکہ ایسے انسانوں سے ایک بار پھر ان کو پالا پڑ سکتا ہے جو تاریخ اسلام کی شروعات میں دیکھے گئے تھے.... اور پھر وہ بھی مصر سے جہاں استعمار کی فکری یلغار نے اپنا کام بہت پہلے سے اور فرانسیسی حملے کے وقت سے شروع کر دیا تھا تاکہ مصر کو سب سے پہلے اسلام بھلا دیں.... بلکہ اسلام ہی نہیں عرب قومیت بھی بھلا دیں اور عرب قومیت کی جگہ ان میں مصری قومیت کا شعور بیدار کریں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عرصہ دراز تک ”مصر مصریوں کا ہے“ کا نغمہ الاپا جاتا رہا تھا۔ اور اس نعرے سے مراد یہی تھی کہ مصر اسلام ہی نہیں عرب قومیت سے بھی بیگانہ ہو جائے.... مگر اب ان کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی تھی۔ اسی مصر سے اسلام کیلئے مرنے والے اللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد کرتے ہوئے دیوانہ وار موت کے پیچھے بھاگ رہے تھے جن کے ساتھ جنگ میں ڈٹے رہنا یہود کیلئے ممکن نہ تھا اور وہ اپنے مورچے اور اپنا اسلحہ اور سب سازو سامان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرر ہے تھے۔

اب ان پر یہ واضح ہوا کہ پڑوس میں یہ نوخیز اسلامی تحریک جب تک جیتی جاگتی ہے تب تک مستقبل میں اسرائیل کی توسیع کا خواب تو رہا ایک طرف خطے میں اسرائیل کا امن وبقا بھی ممکن نہیں۔ اور یہ کہ اسرائیل کو اگر زندہ رہنا ہے اور امن واستقرار حاصل کرنا اور خطے میں توسیع کرنی ہے تو پھر اس تحریک اسلامی کا کام تمام ہونا چاہئے۔ بہت تھوڑے عرصے میں جماعۃ الاخوان المسلمین کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے رہنما کو قاتلانہ حملے میں ختم کردیا گیا اور پھر ناقابل بیان واقعات کا ایک تانتا بندھ گیا۔

تحریک پر قبل از وقت ہاتھ ڈال دیا گیا اور وہ بھی بہت ہی بے رحم انداز کے ساتھ.... اس سے بھی کہیں بے رحم انداز کے ساتھ جس کی کہ توقع کی جا سکتی تھی۔

درست کہ تحریک کا کوئی راہنما خود بھی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ تحریک ہر اذیت سے محفوظ رہے گی کیونکہ خدائی سنت ہمیشہ یہی رہی ہے اور اس سنت کے ہوتے ہوئے ایسی امید رکھنا محال ہے۔ لیکن یہ توقع کوئی بھی نہ کر سکتا تھا کہ اخوان پر ظلم وتعدی اس وحشت ناک حد کو پہنچے گی۔ تحریک کے ہر دلعزیز راہنما کو بھرے بازار میں دن دہاڑے گولی مار دی جاتی ہے۔ ہسپتال حکومتی احکامات پر طبی امداد دینے سے انکار کر دیتے ہیں تاکہ خون کا آخری قطرہ تک جسم سے نچڑ جائے۔ ہزاروں نوجوان دھر لئے جاتے ہیں۔ ان کو جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے اور اس بے دردی سے اذیتیں دی جاتی ہیں جن سے درندے پناہ مانگیں.... یہ بات البتہ ضرور ایسی تھی جو کسی کے سان گمان میں نہیں تھی اور کوئی بھی اس کا پیشگی تصور نہیں کر سکا تھا۔

ان وحشی درندوں کی بربریت کا ظاہر ہے کوئی بھی وجہ جواز نہیں تھا، خواہ وہ کتنا ہی اپنے جرائم کو مختلف پردوں میں چھپائیں اور ان کو حفظ امن عامہ کا نام دیں یا بدامنی کو روکنے کا۔ اس پر نہ دنیا میں کوئی پردہ پڑ سکتا ہے اور نہ قیامت کے روز جب:

يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (النور: 25)

اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا

مگر ہم یہاں سوال یہ کرنا چاہتے ہیں کہ تحریکی مراحل طے کرنے میں تحریک نے اپنی طرف سے کیا درست حکمت عملی اختیار کی تھی یا کہیں جلد بازی ہوئی اور کچھ کام قبل از وقت کر لئے گئے؟

یہاں کوئی بھی یہ خیال ذہن میں نہ لائے کہ اس تحریک نے اگر کوئی اور حکمت عملی اپنا لی ہوتی تو اس کو جنگ کئے بغیر چھوڑ دیا جاتا .... پیچھے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے جب یہ تقاضا کیا تھا کہ وہ آپ ؑکے ساتھ جنگ وجدل سے ہاتھ کھینچ کر ذرا صبر سے کام لے لیں تاآنکہ خدا کی جانب سے جو ہونا ہے وہ ہو رہے تو قوم کے سرداروں کی طرف سے کیا جواب آیا تھا:

وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُواْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يْؤْمِنُواْ فَاصْبِرُواْ حَتَّى يَحْكُمَ اللّهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ۔ قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ۔ (الاعراف: 87۔ 88)

اگر تم میں سے ایک گروہ اس دعوت پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لے آیا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لایا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا: ”اے شعیب، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی اس بستی سے نکال کر رہیں گے، یا پھر تم لوگوں کو ہماری ہی ملت میں واپس آنا ہوگا“ ۔ شعیب نے جواب دیا: ”کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟

ناممکن! ہو نہیں سکتا کہ جاہلیت کبھی لا الہ الا اللہ کی دعوت کو دیکھنا برداشت کرلے۔ یا اس سے جنگ بندی پر آمادہ ہو یا اس کے معاملے میں صبر سے کام لے۔

ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ تحریک اگر صحیح منہج پر ہی ثابت قدم رہتی تو ہر اس اذیت سے محفوظ رہتی جو ظلم وتشد د اور قتل وغارت کی ہر اس آخری حد کو پہنچ سکتی تھی۔ اس اذیت سے تو اسلام کی وہ پہلی جماعت محفوظ نہ رہی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے زیر نگاہ تربیت دے کر تیار کیا تھا اور جو کہ اپنی دعوت کے ہر مرحلے میں اس صحیح ترین منہج پر چلتی رہی تھی جس پر چلنا کسی انسانی تحریک کے بس میں ہو سکتا ہے۔ یہ وہ جماعت تھی جسے ہر ہر قدم پر وحیِ ربانی خود لے کر چلتی اور راہ دکھاتی رہی تھی۔ ایسی بہترین جماعت بھی ظلم وتشدد، قتل وغارت، جلاوطنی اور بھوک سے مار دیئے جانے کی ظالمانہ کارروائیوں سے محفوظ نہ رہی تھی.... چنانچہ صحیح منہج پر چلنا اور صحیح حکمت عملی اپنانا دراصل اس لئے مقصود نہیں ہوتا کہ دعوت کو لے کر چلنے والے اشخاص کا بچاؤ کیا جائے.... ہاں البتہ یہ خود دعوت کے بچاؤ کیلئے ضرور مطلوب ہوتا ہے۔ اس بات کا انتظام بہرحال ضروری ہوتا ہے کہ دعوت سے پورے ثمرات لئے جائیں اور دعوت اپنا مشن پورے طریقے پر ادا کر پائے۔

اخوان کی تحریک پر بڑی بے دردی سے اور وقت سے پہلے ہاتھ ڈال لیا گیا، جبکہ یہ دعوت کسی مضبوط بنیاد پر ابھی معاشرے پر اثر اندا ہونے والی بنیادی جمعیت کی تیاری کا کام مکمل نہ کر سکی تھی۔ یقینا اس نے ایسے مخلص فدائی تیار کر لئے تھے جو اللہ کی راہ میں موت پانے کیلئے ہر دم مستعد اور دعوت الی اللہ کی خاطر جواں مردی کے ساتھ ہر اذیت سہ لینے پر تیار تھے.... یقینا اس نے ایسے افراد پیدا کر لئے تھے جن میں اخوت اور محبت صرف خدا کی خاطر تھی اور جو کہ خونی رشتوں کی محبت پر بھاری تھی.... یقینا اس نے ایسے پاک صاف لوگ تیار کر لئے تھے جو معاملے کے کھرے اور ہر بات میں اللہ سے ڈرنے والے تھے.... یقینا اس نے ایسے افراد بنائے تھے جو دین کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دینے پر تیار تھے اور دین کی راہ میں قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا جانتے تھے.... یہ سب صفات یقیناایسی ہیں جو اس بنیادی جتھے میں پائی جانا ضروری ہوں جسے معاشرے کی کایا پلٹنی ہو.... مگر یہی سب کچھ نہیں۔ ایک بنیادی جمعیت کیلئے یہ صفات بہرحال کافی نہیں۔ معاشرے پر اثر انداز ہونے والے افراد صرف پاک طینت، پاکباز اوردین کیلئے اپنا آپ لٹا دینے والے افراد نہیں ہوتے۔ اس کام کو اس سے کچھ زیادہ اوصاف بھی مطلوب ہوا کرتے ہیں۔

ان افراد کو مجسم دعوت ہونا ہے۔ جہالت کی تاریکی میں ڈوبی اور غلامی کی ذلت میں گرفتار اس پوری امت کیلئے یہی نجات دہندہ ہیں.... خدا سے دوری کے سب فاصلے جو اس امت کی زندگی میں آگئے تھے ان سب کو انہی لوگوں نے سمیٹنا تھا۔ یہ کام اخلاص اور فدائیت کے علاوہ اور بہت کچھ کا متقاضی ہے۔

وہ تربیت جو اس ابتدائی مرحلے میں مطلوب ہے اس پر ہم آئندہ فصل میں گفتگو کریں گے۔ چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو ہو جو اس بنیادی جمعیت کیلئے ضروری ہے جسے معاشرے کی قیادت کرنی ہے اور چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو ہو جو عوام کے اس طبقے کو دی جانا ہے جو تحریک کے ساتھ مل کر چلنے والے ہوں.... مگر یہاں ہم صرف ان اسباب کا جائزہ لیں گے جو تحریکی زندگی میں اس جلد بازی کا سبب بنے اور پھر ان آثار پر گفتگو کریں گے جو اس جلد بازی کا نتیجہ بن کر سامنے آئے۔

اخوان کی تحریک نے ، قبل اس سے کہ اس بنیادی جمعیت کی تیاری پختہ بنیادوں پر مکمل کر لے جو بعد میں معاشرے پر اثر انداز ہو سکے اور معاشرے کی قیادت کرے، ایک عوامی انداز اپنا لیا تھا اور اسی انداز میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتی گئی۔ معاملہ یہ ہے کہ عوام کو، انکا دینی فہم وشعور پختہ کئے بغیر، ساتھ لے کر چلنا اوران کے بل پر برسراقتدار طبقوں سے جا الجھنا اور ایسے معرکے چھیڑ لینا جن میں طرفین کے مابین طاقت کی کوئی نسبت ہی نہیں، تحریک کے وارے کا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے نتائج پھر خود دعوت ہی کے حق میں اچھے ثابت نہیں ہوئے....

اس جلد بازی کے نتیجے میں لا الہ الا اللہ کی حقیقت جو معاشرے میں بڑے عرصے سے دھندلاہٹ کا شکار تھی، اگر کچھ اور نہیں بڑھ گئی تو برقرار ضرور رہی۔ کیونکہ عقیدے کے اس بنیادی موضوع (لا الہ الا اللہ) کے ساتھ کچھ دوسرے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل آملے تھے اور لا الہ الا اللہ کے حوالے سے معاملہ ابھی لوگوں پر اور خود تحریک پر بھی پوری طرح واضح نہ ہو پایا تھا کہ مسئلہ خالصتاً اللہ کی بندگی کرنے کرانے کا ہے نہ کہ تحریک کا اصل سروکار ان مسائل سے ہے جو اس دعوت کے سیاسی، معاشی اور سماجی مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ بات پورے طور پر تحریکی نوجوانوں کے شعور میں پختہ ہو سکی تھی کہ یہ سب کے سب سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل ایک خاص ترتیب سے اور ایک خاص وقت آنے پر ہی لا الہ الا اللہ کی دعوت کے ساتھ جڑتے ہیں بلکہ خود لا الہ الا اللہ کے اندر سے پھوٹتے ہیں اور یہ کہ یہ سب مسائل ایک خاص ترتیب سے لا الہ الا اللہ کی ذیل میں آنے چاہئیں نہ کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ برابر میں ذکر ہونے چاہئیں اور یہ تو ہونا ہی نہیں چاہئے کہ یہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل لا الہ الا اللہ سے ہٹ کر ذکر ہوں اور تحریک کا ایک مستقل موضوع بنیں اور یہ تو کسی صورت ہونا ہی نہیں چاہئے کہ یہ مسائل لا الہ الا اللہ سے بھی پہلے ذکر ہونے لگیں۔

یہ بات بھی فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ عوامی انداز اختیار کرنے اور عوام کو قبل از وقت ساتھ لے کر چلنے میں جو جلد بازی کا مظاہرہ ہوا، جبکہ ابھی عوام کے اندر اسلامی فکر و شعور پختہ نہیں ہو پایا تھا بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ عوام میں اسلام کا جامع فہم ابھی وجود بھی نہ پا سکا تھا مگر چلئے ہم یہی کہہ لیتے ہیں کہ عوام میں ابھی شعور کی پختگی نہیں آئی تھی۔ اسلامی تحریک کی اس مقبولیت نے ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور بڑے بڑے سیاسی گرگوں کو الگ پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ یوں ان کو ایک بڑی سطح پر اپنے ’ووٹروں‘ کی فکر پڑ گئی جو اب بڑی تیزی کے ساتھ ان کے ہاتھ سے جا رہے تھے اور اس نئی اسلامی تحریک سے جا مل رہے تھے۔ یہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں بھی اخوان کی تحریک کو اس کے اصل اصلاحی مشن سے ہٹاکر سیاسی مناظرہ بازی میں الجھانے لگی تھیں۔ اخوان کو لاجواب کرنے کیلئے یہ ان سے تقاضا کر رہی تھیں کہ وہ اپنا سیاسی منشور اور تفصیلی پروگرام سامنے لائیں اور یہ واضح کریں کہ وہ اقتدار پا کر ملک کی حالت کیونکر سنوار دیں گے۔ اس سے اخوان کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے سیاسی منشور اور معاشی وسماجی پروگرام، جو اقتدار پانے کی صورت ہیں وہ ملک کے اندر لے کر آئیں گے، عوام کے سامنے اور ان پارٹیوں کے سامنے واضح کریں یوں اس سیاسی مناظرے اور جواب در جواب بحث میں اخوان کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اپنے اصل مسئلے ___یعنی لا الہ الا اللہ کی دعوت___ کو نہ چاہتے ہوئے بھی پس منظر میں چلا جانے دیں۔

یہ لا الہ الا اللہ کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ویسے تو عموماً بھی مگر اس مرحلے میں تو خاص طور پر جب ذہن وشعور کی تشکیل ہو رہی ہو اور تحریک وجود پا رہی ہو .... اس لا الہ الا اللہ کے مسئلہ کو ان نتائج سے بالکل کوئی سرکار نہیں ہونا چاہئے جو دنیوی زندگی میں اس سے مسلمانوں کو حاصل ہو سکتے ہیں، خواہ وہ اقتدار کا حصول ہو، خواہ سیاسی استقرار اور استحکام ہو، خواہ معاشی خوشحالی ہو اور خواہ سماجی امن وسکون ہو....

 کیونکہ عین ممکن ہے دنیا کی زندگی میں ان سب باتوں میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ عین ممکن ہے لا الہ الا اللہ کہنے کا انجام دینوی زندگی میں کسی وقت فرعون کے ان جادوگروں کا سا ہو جو ایمان لے آئے تھے اور پھر ان کو اس کی پاداش میں موت اور سولی کو گلے لگانا پڑا۔ یا پھر دنیا میں ان کا انجام اصحاب الاخدود جیسا ہو، جو سب کے سب آگ کے گڑھوں میں پھینک کر زندہ جلا دیئے گئے تھے.... مگر وہ اپنے بعد والوں کیلئے ایمان کی ایک خوبصورت اور زندہ مثال بن گئے اور ان کے نصیب میں وہ اعزاز آیا جو وہ اپنے لئے پسند کر چکے تھے، یعنی اللہ کو جی بھر کر راضی کر لینا اور اس کے ہاں جا کر خلد کے باغات میں جا بسنا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جہاں بہشت میں آبشاریں گرتی ہیں۔

عوام کو اکٹھا کرنے کی جلدی کرنا اور پھر ان عوام کو قافلے میں لے چلنے کی جلدی کر بیٹھنا، جبکہ ان کے شعور میں ابھی پختگی نہ لائی جا سکی ہو بلکہ ابھی تحریک خود اپنے نوجوانوں میں پختگی نہ لا سکی ہو، ایک ایسی غلطی تھی جس نے اسلام کے اس اساسی مسئلے (یعنی توحید) کے گرد پائی جانے والی دھندلاہٹ کو کچھ اور بھی بڑھا یا۔ اب اسلامی دعوت کی بنیاد یہ ٹھہر گئی تھی کہ’ اسلام نافذ ہو جانے سے وہ سب سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل ہو جائیں گے جو آج اس وقت لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے کا باعث بنے ہوئے ہیں‘۔ اس بنا پر خود بخود ضروری ٹھہرا کہ ایسے عملی اور تفصیلی پروگرام عوام کے سامنے لائے جائیں جن سے واضح ہو کہ اسلامی تحریک کو اقتدار مل جانے کے بعد فی الواقع ایسا ہو جائے گا تاکہ ان سیکولر جماعتوں کا منہ بند ہو سکے جو اسلامی جماعت کو بار بار اس بات کا چیلنج دیتی ہیں!

یہ بات کہ ہر بحران کا اسلام ہی اصل حل ہے، اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذمہ اٹھایا ہے اور اس کا وعدہ کر رکھا ہے: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ (الاعراف: 96) ”اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔ البتہ یہ بات کہ یہ حل جس کا اسلام وعدہ کرتا ہے، اسلام پسندوں کے برسراقتدار آتے ہی ظہور پذیر ہو جائے گا، اس پر بہرحال کتاب اللہ سے کوئی دلیل ملتی ہے اور نہ تاریخ کے وقائع سے۔ خود اسلام کے دور اول میں جب مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہوا اور وہ ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لانے میں کامیاب ہوئے جو اللہ کا قانون چلاتی تھی، مسلمان بہت برسوں تک تنگی اور ترشی کی شدید اور ناقابل بیان حالت میں گرفتار رہے تھے اور ایک لمبا عرصہ ان کو صبر کرنا پڑا تھا تاآنکہ حضرت عمرؓ کے دور میں جا کر کہیں خوش حالی کا دور آیا اور اس سارا عرصہ لوگ بڑے صبر کے ساتھ یہ سب سختی برداشت کرتے رہے کیونکہ وہ ایمان کی حقیقت جان چکے تھے اور ایمان کو دلوں میں اتار چکے تھے۔ پھر کیونکہ وہ اپنا آپ دعوت اسلام کی نذر کر چکے تھے اور پھر یہ کہ ان کی کل امید اور ان کا اصل مطمع نظر صرف اور صرف آخرت تھی اور دنیا کی خوشحالی کو کبھی انہوں نے اپنا نصب العین بنایا ہی نہ تھا اور نہ وہ اپنی دنیا سنور جانے کے کبھی منتظر رہے تھے۔ یہی وہ اصل اہلیت تھی جس نے اس دعوت کو اس لائق بنایا کہ وہ زمین میں تمکین پائے، معاشروں میں اپنے پیر گاڑے اور پھر انسانی افق پر ہر سمت کو پھیلتی جائے۔

اگر کہیں رسول اللہ ﷺ نے ___معاذ اللہ___عوام کو یہ لالچ دی ہوتی کہ آپ کے اقتدار پا لینے کی صورت میں ان کے سب دنیاوی مسئلے حل ہو جائیں گے اور خوش حالی کا دور دورہ ہو جائے گا تو لوگ کبھی بھی اس سختی اور تنگی کو برداشت نہ کر سکتے جو کہ اسلامی ریاست کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی اور پھر برسوں تک ان کے صبر کا امتحان لیتی رہی تھی، اور نہ ہی وہ اس صبر واستقامت کا مظاہرہ کر سکتے جس کی بنیاد پر انہوں نے اللہ کے فضل سے تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ اب جب ہم لوگوں کو ___جبکہ ان کے دل ابھی لا الہ الا اللہ کی حقیقت کیلئے دنیا ومافہیا سے بیگانہ نہیں ہوئے___ یہ باور کراتے ہیں کہ مسلمانوں کے اقتدار پانے کی صورت میں ان کی سب مشکلیں دنوں کے اندر جاتی رہیں گی اور پھر دوسری طرف اسلام پسند اگر کبھی اقتدار پا لیتے ہیں تو وہ دیکھیں کہ برسوں گزر جانے کے بعد بھی ان کی یہ مشکلات حل نہیں ہوتیں بلکہ یہ مشکلات ___صلیبی صہیونی دشمنی کے باعث___ کئی گنا اور بھی بڑھ جاتی ہیں تو کیا یہ لوگ صبر کریں گے جو کہ ہمارے ساتھ شامل ہی خالصتاً اللہ کی اطاعت وبندگی کے دروازے سے گزر کر نہیں ہوئے بلکہ دنیا سنور جانے کے شوق میں یہ ہمارے ساتھ آملے تھے!؟ کیا یہ تنگی کے ان دنوں میں اور دنیا کا بہت کچھ ہاتھ سے چلا جانے پر اور اس کٹھن جہاد کی راہ پر صابر وثابت قدم رہیں گے تاآنکہ اللہ کا وعدہ اپنے وقت پر جا کر پورا ہو جس کا کہ صرف اللہ کو علم ہے.... یا پھر یہ الٹا اسلامی حکومت پر ہی برس پڑیں گے جس نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے اور جس بات کا کہہ کر وہ ان کے ووٹ لیتی رہی اور جس مقصد کی خاطر وہ اقتدار میں آئی اسکا ان کو دور دور تک کوئی نام ونشان تک نظر نہیں آتا!!؟

دعوت کا کام تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے پہلے اور ہر چیز کو بھلا کر لوگوں پر بس یہی واضح کرے کہ بندوں پر خالق کا حق کیا ہے۔ بڑی دیر تک لوگوں کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی خالص بندگی کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے اور اللہ کے پاس سے جو ہدایت اور جو شریعت آئی ہے اس کی پابندی کس قدر ضروری ہے، بغیر اس بات کی پرواہ کئے کہ اللہ کیلئے بندگی اور عبادت کو خالص کر دینے کا دنیا کی زندگی میں کیا نتیجہ نکلتا ہے اور زمینی معیاروں کی رو سے اس سے کچھ ’حاصل‘ ہوتا ہے یا صرف گھاٹا پڑتا ہے۔ اللہ کی بندگی کا اصل بدلہ صرف آخرت ہے۔ ہاں یہ بھی ضرور ساتھ میں واضح کیا جائے کہ اللہ کا اس امت سے بطور خاص یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے دنیا کی زندگی میں بھی تمکین سے نوازے گا اور ان کی خوف وبدامنی کی حالت کو چین اور بے فکری سے بدل دے گا مگر اس بات کیلئے اللہ کی شرط بہت واضح ہے: یہ کہ وہ اللہ کی بلا شرکت غیرے بندگی کریں اور اس کیلئے اپنی اطاعت وفرمانبرداری اور اپنی عبادت کو خالص کر دیں نہ کہ اس کا یہ وعدہ اس بات سے مشروط ہے کہ وہ اسلام پسندوں کے حق میں بیلٹ بکس بھر دیں اور ان کو پارلیمان میں اکثریت دلا کر اقتدار پر فائز کر آئیں۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا (النور: 55)

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے۔ اور ان کی (موجودہ) حالتِ خو ف کو امن سے بدل دے گا۔ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں

بلاشبہ دعوت جب اس بنیاد پر اٹھائی جائے گی تو وہ بہت ہی آہستگی کے ساتھ بڑھے گی۔ بہت تھوڑی مدت میں عوام کی بہت بڑی تعداد ساتھ نہیں چلے گی۔ مگر اس صورت میں تمکین فی الارض پانے کا درست عمل بھی شروع ہو چکا ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک طرف خدائی منہج کا تقاضا ہے تو دوسری طرف اللہ کی سنت بھی ہمیشہ یہی رہی ہے اور یوں اللہ کا لکھا ہو کر رہتا ہے۔

وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (یوسف: 21)

اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز