عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, April 23,2024 | 1445, شَوّال 13
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Dawaat_Ka_Minhaj آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
اسلام کی جو پہلی اٹھان ہوئی اس میں ”تحریکی اُسوہ“ کہاں ہے؟- حصہ اول
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
اسلام کی جو پہلی اٹھان ہوئی اس میں
”تحریکی اُسوہ“ کہاں ہے؟- حصہ اول

 

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ طریق کار جو صحابہ کی تربیت کیلئے مکہ کے دور ابتداءمیں امت کے مناسب حال تھا وہ ہماری آج کی اس صورتحال پر فٹ نہیں ہوتا۔ لہٰذا مکی دعوت اور اس کے طریق کار کو ایک تاریخی دستاویز کے طور پر تو پڑھنا چاہئے البتہ ایک ایسے اسوہ و نمونہ کے طور پر نہیں جس سے آج بھی باقاعدہ عملی اسباق لئے جائیں اور جس کی روشنی میں ایک عملی طریق اپنایا جائے۔

یہ معاملہ بہت زیادہ وضاحت طلب ہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ اسلام کیلئے کام کرنے والے بہت سے موجود الوقت طبقوں کے راستے دراصل یہیں سے الگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب تک اس معاملے کی حقیقت بہت زیادہ واضح نہیں ہو جاتی اور اس کا پوری دقت سے جائزہ نہیں لے لیا جاتا تب تک یہی ہوتا رہے گا کہ اسلامی افکار باہم الجھتے رہیں اور کوئی مشترک اور ہمہ گیر طریقِ عمل اختیار نہ کیا جا سکے۔ جبکہ اس دین کے دشمن سب کے سب آج ایک مشترک اور یک جہت موقف اختیار کر چکے ہیں اور سب مل کر امت اسلام کو وجود سے ختم کر دینے کیلئے اس پر پل پڑے ہیں۔ ہم نہیں تو ہمارے دشمن باہم ایک دوسرے کی جتنی ہو سکے تعاون اور پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس کے مظاہر آپ بوسنیا میں دیکھ لیں، چاہے کشمیر میں، چاہے چیچنیا میں یا زمین کے کسی بھی اور خطے میں۔

طریق عمل کا واضح ہونا بے انتہا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔

کیا ہم مکی مرحلے میں ہیں.... جہاں کا معاشرہ بالکل واضح اور کھلم کھلا مشرک معاشرہ تھا اور جہاں اہل ایمان وہ مٹھی بھر لوگ تھے جو اس نئے دین کے ساتھ ایمان لے آئے تھے اور اس وجہ سے پورے معاشرے میں مظلوم اور اچھوت بن کر رہ گئے تھے؟ کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں ہیں جو ہے تو مسلمان مگر اسلام سے منحرف ہے اور ہمیں اس کا نقشہ تبدیل کرکے اسے واپس اسی صورت پر لے آنا ہے جو کہ اسلام کی حقیقی تصویر ہے؟ آخر ہم کس جگہ پر کھڑے ہیں او رکس قسم کی صورتحال سے ہمارا سامنا ہے؟

یہ معاملہ جس قدر نازک اور سنگین ہے، اور جتنی اس پر لے دے ہوئی ہے اور اس بحث وتمحیص نے جس قدر اختلافِ آراءاور تفرقہ کو جنم دیا ہے اس سب کے پیش نظر ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا ہر قسم کی جذباتیت اور جلد بازی سے دور رہتے ہوئے نہایت باریک بینی اور غور سے مطالعہ کیا جائے۔ اس سوال کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ایک ایسے واضح نتیجے تک پہنچا جائے کہ نہ جذبات اس کے آڑے آئیں اور نہ پہلے سے اختیار کردہ مواقف ہمیں اس نتیجے کو اختیار یا رد کر دینے پر مجبور کریں۔

پکی بات ہے کہ ہم مکی مرحلے میں نہیں! ظاہر بات ہے کہ ہم جو اس وقت دعوت کے میدان میں کام کرتے ہیں اور پورے اسلام پر عمل پیرا ہونے کی سعی کرنے والے لوگ ہیں.... ہم ظاہر ہے روزہ بھی رکھتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں روزہ اور حج مدینہ آکر ہی فرض ہوا تھا! سب محرمات کو محرمات ہی سمجھتے ہیں اور سب واجبات کو واجبات ہی.... صرف مکہ میں نازل ہونے والے حلال اور حرام ہی کے پابند رہنے کے ظاہر ہے کہ ہم قائل نہیں!

پکی بات ہے کہ ہم مدنی مرحلے میں بھی ہرگز نہیں! ظاہر ہے اسلام کی دعوت کو زمین میں کہیں بھی تمکین حاصل نہیں۔ عالم اسلام کے ایک بے انتہا بڑے حصے میں اللہ کی شریعت کو انسانی زندگی کے فیصلے کرنے کا کہیں حق حاصل نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اسلام کی اصل دعوت لے کر اٹھنے والوں کی تواضع کال کوٹھڑیوں سے ہوتی ہے اور یا پھر پھانسی کے تختوں پر۔ اور نہیں تو ان پر دائرۂ حیات تو بہرحال تنگ ہے ہی۔

تو پھر آج ہم کس جگہ کھڑے ہیں؟ کونسا منہج اور طریق کار ہمارے دور کے مناسب حال اور ہمارے معاشرے کے مناسب مقام ہے؟کیا وہ منہج جو رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں اختیار کرنے کا حکم ملا تھا؟ یا وہ منہج جو رسول اللہ ﷺ کو مدینہ میں اختیار کرنے کا حکم ملا تھا؟ یا پھر وہ اس سے مختلف کوئی طریق کار ہے جو بس ہمارے اپنے اجتہاد پر موقوف ہے نہ اس کے لئے کوئی قاعدہ ہے اور نہ ضابطہ!؟

یہ بہرحال ایک مسئلہ ہے اور بے انتہا اہم مسئلہ ہے جو ہم سے بہت ہی معین اور نشان زد جواب چاہتا ہے۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

ہماری صورتحال اور مکی معاشرے کی صورتحال میں بہت سے پہلوؤں سے کھلا کھلا فرق پایا جاتا ہے۔ اس فرق کی بنا پر بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری صورتحال کی مکی معاشرے سے یکسانیت کا مفروضہ درست نہیں۔

ظاہر ہے کہ مکہ میں لوگ اس بات کے سرے سے اورمطلق طور پر انکاری تھے کہ عبادت صرف اور صرف ایک ہی خدا کی کی جائے، حتی کہ قرآن نے ان لوگوں کا اس بات سے حیران ومتعجب ہونے کا ذکر کیا ہے کہ عبادت اور بندگی کیلئے ایک ہی خدا رہ جائے۔

کیا اس شخص نے سب خداؤں کا ایک ہی خدا کردیا۔ کتنی عجیب بات ہے یہ

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۔ (ص:5)

جبکہ ہماری صورتحال یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ اللہ کے ساتھ اور خدا بھی پوجے جائیں۔

ظاہر ہے مکہ میں لوگ موت کے بعد زندگی کا کھلا اور مطلق انکار کرتے تھے۔ حتی کہ قرآن نے عقیدۂ آخرت پر بھی مکہ والوں کا حیران ومتعجب ہونا ذکر کیا ہے:

منکرین لوگوں سے کہتے ہیں: ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیئے جاؤ گے؟ نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَى رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ۔ أَفْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ۔ (سبأ : 8،7)

جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بیشتر طور پر ہم زندگی بعد از موت، جزا وسزا، حساب، جنت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں، اگر یہاں کوئی تھوڑی تعداد ایسے ملحد لوگوں کی پائی جاتی ہے تو بہرحال وہ کوئی اتنے نہیں کہ جن کے پیش نظر پورے معاشرے کا حکم بدل جائے....

ظاہر ہے مکہ میں لوگ محمد ﷺ کی نبوت اور رسالت ہی کے سرے سے منکر تھے، جیسا کہ قرآن نے اس بات کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

یہ اس بات پر متعجب ہیں کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا، منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحر ہے سخت جھوٹا ہے

وَعَجِبُوا أَن جَاءهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ۔ (ص:4)

اور یہ بھی کہ:

کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کردیا گیا؟

أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا (ص:8)

جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ملحد لوگوں کی ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر.... ہم نبی ﷺ کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس نے اپنے رسول پر اتارا ہے، نہ کہ کسی بشر کا کلام اور نہ ہی گزرے بسرے لوگوں کی کہانیاں۔

کوئی شک نہیں کہ یہ سب کی سب باتیں بالکل حقیقت ہیں....

لیکن آئیے ذرا اس معاملے کو ایک اور جہت سے بھی دیکھتے چلیں۔

سوال یہ ہے کہ اسلام دراصل آیا کیوں تھا؟

اسلام آخر اسی لئے تو آیا تھا کہ بندے اور خدا کے درمیان سے سب واسطے ہٹا دیئے جائیں اور بندے اور خدا کے درمیان پرستش اور پکار وبندگی کا براہ راست تعلق قائم کر دیا جائے....

میرے بندے تم سے میرا پوچھیں تو بتاؤ میں قریب ہی ہوتا ہوں، کوئی پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ پس وہ بھی میری بات کو گلے لگائیں اور مجھ پر یقین رکھیں.... شاید کہ وہ راہ راست پا لیں

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔ (البقرہ: 186)

مگر صوفیت نے لوگوں کے عقائد کے ساتھ کیا کیا؟ مرید کے فکر واحساس کی دنیا میں ’شیخ‘ کا ایک مجسمہ کھڑا کر دیا جو بندے اور خدا کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت رکھتا ہے مرید اللہ کو اس کے اسماءحسنیٰ میں سے کسی نام کے ساتھ پکارنے تک کی اجازت نہیں رکھتا جب تک کہ اسے شیخ کا اذن نہ ہو! شیخ دلوں کے بھید تک جان لیتا ہے! ہر دل کی حالت دیکھ کر وہ اس کیلئے خدا کا کوئی ایسا نام تجویز کرے گا جو اس کیلئے مناسب ہو۔ یہ فیصلہ بھی شیخ کرے گا کہ اللہ کا کوئی نام جو مرید کو اس کی جانب سے عطا ہوا اللہ کو اس نام سے پکارنے کی میعاد کب ختم ہو جائے گی! شیخ کی بڑائی کا اقتدار دلوں پر قائم رہنا چاہئے چاہے اسے مرے ہوئے ہزار سال کیوں نہ گزر جائیں! دلوں پر شیخ کا اقتدار ایسا لازوال ہے کہ موت بھی اس میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس کی قبر اور درگاہ سے تبرک پانا، اس کے پاس جا جا کر دعائیں کرنا، مدد کی فریاد، حاجت روائی کی التجائیں.... یہ سب مرید کے دل میں شیخ کیلئے پائے جانے والے اخلاص کی محض علامات ہیں.... اور اللہ تک تقرب حاصل کرنے کے یقینی ذرائع بھی!

کیا یہ بات قرآن میں ذکر ہونے والی مشرکوں کی اس بات سے کوئی بہت زیادہ مختلف بات ہے؟

کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں“

مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى۔(الزمر:3)

پھر کیا یہ واضح شرک نہیں؟

اسلام دراصل آیا کیوں تھا؟

اسلام آخر اسی لئے تو آیا تھا کہ انسان کا بنایا ہوا ہر قانون اور ہر ضابطہ کالعدم کرکے ایک اللہ کا قانون اور اس کی شریعت قائم کر دی جائے۔ اور یہ بات ظاہر ہے عقیدہ کے اصل الاصول سے تعلق رکھتی ہے:

اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کی رو سے فیصلے نہ کریں وہی لوگ دراصل کافر ہیں

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔(المائدۃ:44)

اسلام نے تو نفاق کی بھی یہ علامت مقرر کر دی کہ کوئی شخص اللہ کے فیصلے سے روگردانی کرنے اور جان چھڑانے کی کوشش کرے:

یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں، جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آجاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑ گئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ دراصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے معاملات کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں

وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُوْلَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ۔ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ۔ وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ۔ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (النور: 47- 51)

اسلام نے تو صاف صاف یہ بھی ٹھہرا دیا تھا کہ اللہ کی شریعت کی بجائے کسی انسان کے بنائے ہوئے قانون ودستور پر چلنا دراصل اس انسان کو خدا تسلیم کرنا ہے۔ اس میں اور غیر اللہ کی پوجا پاٹ میں ذرہ بھر کوئی فرق نہیں۔

ان لوگوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیحؑ بن مریم کو بھی۔

حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ کہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔(التوبۃ:31)

مگر پھر سیکولرزم نے عالم اسلام میں قائم انسانی زندگی کے نظام اور قانون کے ساتھ کیا کیا؟ سرزمین اسلام میں کتنی حکومتیں اور کتنے نظام ایسے ہیں جو آج اپنے فیصلے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے کرواتے ہیں؟ سیکولر زبانیں اللہ کی شریعت کے بارے میں کیا کچھ کہتی ہیں؟ کیا یہ واضح شرک نہیں؟

دوبارہ اسی سوال پر آجاتے ہیں؟ اس صورتحال پر کیا حکم لگایا جائے؟

عالم اسلام کی آج جو صورتحال ہے اس پر حکم لگانے میں واقعی ایک بہت بڑا اشکال پایا جاتا ہے۔ یہ اشکال جہاں سے پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ لوگ اپنے جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں وہ وہ نہیں جس پر عملاً انکا معاشرہ قائم ہے۔ یہ دونوں چیزیں باہم متعارض ہیں اور یہ تعارض بھی ایک شدید تعارض ہے۔ اعلانیہ عقیدہ کچھ ہے تو معاشرہ بالکل کسی اور چیز پر قائم۔ اعلانیہ عقیدے اور عملی نظام کے مابین یہ جو تعارض ہے اس تعارض پر حکم لگانے میں بھی اختلاف آراءہے کہ کیا یہ کفر کی وہ قسم ہے جو انسان کو ملت سے خارج کر دینے والی ہے یا اس سے کمتر کفر کی کوئی صورت جو کہ دین سے انسان کو خارج نہیں کرتی؟

البتہ یہ بات طے ہے کہ یہ اشکال صرف اس معاملے میں ہے کہ لوگوں پر حکم کیا لگایا جائے؟

بہت برسوں سے میری یہی رائے رہی ہے کہ لوگوں پر حکم لگانے کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے جو ہم دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کو مصروف ِبحث رکھے۔ ہمیں اس مسئلے میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہئے۔ نہ ہی اس مسئلے پر اختلاف اور تفرقے کو ہوا دینی چاہئے۔ اس پر بحث ومناظرہ درست ہے اور نہ اس کی بنا پر گروہ بندی۔ دیانت داری سے کوئی فریق اس مسئلے میں جو رائے اپناتا ہے اسے اپنانے دی جائے اور ہر آدمی اس معاملے میں اپنی راہ چلے۔

ایک تھوڑی تعداد کو چھوڑ کر لوگوں کی ایک بڑی اکثریت شرک میں تو پڑی ہوئی ہے، اس میں تو خیر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، چاہے وہ اعتقاد کا شرک ہو، چاہے پوجا اور پرستش کا شرک ہو اور چاہے حاکمیت یعنی نظام اور قانون کا شرک۔ ہاں البتہ یہ بات کہ یہ اکثریت شرک میں پڑنے کی بنا پر مشرک بھی ہو گئی ہے، ایک اور مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہر وہ شخص جو شرک میں پڑ گیا ہو اس پر یہ حکم لگانا درست نہیں کہ وہ مشرک بھی ہو گیا ہے تاآنکہ کچھ متعین شروط اس شخص کی بابت پوری نہ ہو جائیں اور کچھ موانع جو کہ اس شخص پر حکم لگانے میں شرعاً رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں، ختم نہ ہو جائیں۔

اس ضمن میں امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

”میں ان پر یہ بات واضح کرتا رہا ہوں کہ سلف اور ائمہ دین سے اس بارے میں جو کچھ منقول ہے کہ جو آدمی ’فلاں بات کرے یا کہے وہ کافر ہو جاتا ہے‘، تو یہ بات بھی بالکل درست اور برحق ہے مگر اطلاق اور تعین میں فرق بھی ضروری ہے (1) یہ اطلاق اور تعیین بنیادی اور اصولی عقائدی مسائل میں سے وہ پہلا مسئلہ ہے جس میں اس امت کا اولین نزاع ہوا تھا۔ چنانچہ وعیدِ عذاب کی بابت قرآن کی نصوص مطلق ہیں مثلاً قرآن کی یہ آیت:

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا

”کہ وہ لوگ جو ظلم وزیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں“۔

چنانچہ سب معاملات میں جو کچھ منصوص یا منقول ہوا وہ مطلق طور پر ہی ہوا ہے کہ’ جو کوئی ایسا کام کرے گا وہ یہ کہلائے گا یا یہ سزا پائے گا‘۔ یعنی یہ سب کچھ ایک مطلق اور عمومی انداز سے ہی مروی ہوا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی معاملہ سلف سے منقول ان اقوال کا بھی ہے کہ’جو شخص ایسا کہے گا اس کا یہ حکم ہو گا‘ مگر جہاں تک کسی خاص متعین شخص کا معاملہ ہے تو اس کے حق میں وعید کا حکم کسی بنا پر ٹل بھی سکتا ہے خواہ وہ توبہ کرکے ہو، خواہ ایسا اس وجہ سے ہو کہ زندگی میں اس نے کچھ ایسی نیکیاں کر لی ہوں جو برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ خواہ ایسا ہو کہ اسے کچھ مصائب پہنچے ہوں، جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں، یا کسی ایسی شفاعت کی بنا پر جسے اللہ قبول کر لے، ایسا ہو.... اب تکفیر بھی در اصل وعید ہی کے باب سے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اگر کفر کی کوئی بات کرتا ہے تو اگرچہ اس کی وہ بات دراصل رسول ﷺ کی تکذیب ہے مگر ایسا کہنے والا شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو ابھی نیا نیا مسلمان ہوا ہو یا کہیں دور دراز کی ایسی بستی میں رہا ہو جہاں اسے علم نہ پہنچا ہو۔ سو ایسا شخص دین کی کسی ایسی بات کا انکار کر دے جس کے انکار سے آدمی ویسے تو کافر ہو جاتا ہے مگر یہ آدمی کافر قرار نہ دیا جائے گا کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی شخص نے دین کی کوئی نص سن ہی نہ رکھی ہو، یا سنی ہو مگر اس کے نزدیک وہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچتی ہو یا اس کے ہاں اس نص کا کسی اور نص سے تعارض لازم آتا ہو جس کی وجہ سے وہ اس نص کی تاویل کرنا ضروری سمجھتا ہو.... اگرچہ رہے گا پھر بھی وہ غلط ہی“۔ (2)

امام ابن تیمیہؒ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

”کتاب اور سنت میں مذکور وعید کی نصوص اورائمہ دین سے منقول تکفیر اور تفسیق وغیرہ سے متعلق نصوص کا کسی خاص متعین شخص کے حق میں ثابت ہو جانا بجائے خود لازم نہیں آجاتا تاآنکہ اس متعین شخص کے حق میں سب شروط پوری اور موانع ختم نہ ہو جائیں.... چاہے اصول کی بات ہو اور چاہے فروع کی“۔ (3)
ایک تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:

”ان کو کافر اور مخلد فی النار قرار دینے کے معاملے بھی علماءکے ہاں دو مذہب پائے جاتے ہیں، جو کہ دراصل امام احمد سے منسوب دو روایات ہیں۔ امام احمد کے یہ دونوں قول خوارج اور حروریہ و رافضہ وغیرہ کے بڑے بڑے بدعتیوں کے بارے میں ہیں۔ صحیح موقف یہی ہے کہ خوارج وغیرہ کے یہ اقوال جو کہ واضح ہے کہ رسول ﷺ کے لائے ہوئے دین کے صریح منافی ہیں اور اسی طرح ان کے وہ افعال جو کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں اور جو کہ اہلِ ایمان پر ظلم اور عدوان ڈھانے کی قبیل سے ہیں .... ان کے یہ سب اقوال اور افعال کفر ہی ہیں۔ اس بات کے دلائل میں نے کئی اور مقامات پر واضح کئے ہیں۔ مگر ان لوگوں میں سے کسی شخص کو متعین کرکے کافر کہنا اور اسے مخلد فی النار قرار دینا البتہ اس بات پر موقوف ہے کہ آیا اس خاص شخص کے بارے میں تکفیر (کافر قرار دیئے جانے) کی سب شروط پوری ہوتی ہیں اور آیا کوئی ایسی بات تو نہیں پائی جاتی جو اس کے کافر قرار پانے میں مانع ہو۔

”چنانچہ ہم یہی کریں گے کہ وعد و وعید اور تکفیر (کافر قرار پانے) اور تفسیق (فاسق قرار پانے) سے متعلق نصوص کو ہم مطلق ہی رکھیں گے اور اس مطلق اور عمومی حکم کو ایک متعین شخص پر اس وقت تک فٹ نہیں کریں گے جب تک اس کے بارے میں قانونِ شریعت کے سب تقاضے پورے نہ ہو جائیں اور ان تقاضوں سے متعارض کوئی بنیاد باقی نہ رہے۔ میں نے یہ اصول ’القاعدۃ فی التکفیر‘ میں مفصل انداز سے واضح کیا ہے“ (4)

چنانچہ آج دعوتی اور تحریکی لائحہ عمل میں ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے اس کی کنجی یہیں سے دستیاب ہو جاتی ہے۔

چنانچہ یہ تو واضح ہے کہ آج لوگوں کی ___ ایک چھوٹی تعداد کو چھوڑ کر ___ ایک بڑی اکثریت شرک میں تو پڑی ہوئی ہے اور یہ شرک اسی شرک جیسا (اکبر)ہے جو کہ جاہلیت کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان سب لوگوں کا جو شرک میں واقع ہوئے ہیں مشرک قرار پانا البتہ ضروری نہیں۔ ویسے بھی دعوتی عمل میں ہمیں جس بات سے غرض ہے وہ ہے حقیقت ایمان کا بیان، نواقض ایمان (وہ باتیں جن سے آدمی مسلمان نہیں رہتا) کا بیان اور لوگوں کو اس بات کی دعوت کہ وہ جس شرک میں پڑے ہوئے ہیں ___ قطع نظر اس سے کہ وہ حکم شرعی کی رو سے اس کے مرتکب ہو کر مشرک قرار پاتے ہیں یا غیر مشرک ___ اس شرک سے وہ بہرحال نکل آئیں۔ جس بات سے اس وقت ہمیں اس دعوتی عمل میں غرض ہونی چاہئے وہ ہے اس بات کی دعوت کہ لوگ صحیح اسلام پر آجائیں اور صحیح اسلام کی ہی دنیائے واقع میں ___ نہ کہ صرف دنیائے آرزو یا محض خواب وخیال کی دنیا میں ___ ترجمانی کریں اور صحیح اسلام پر ہی عمل پیرا ہوں۔

ہمیں اس بات سے کوئی غرض ہونی ہی نہیں چاہئے کہ ہم کسی شخص کو کہیں کہ تم مشرک ہو یا اس کے بارے میں لوگوں کو بتائیں کہ وہ مشرک ہے۔ ہمیں جس بات سے غرض ہے اور جو کہ ہمارا فرض منصبی ہے وہ یہ بتا دینا ہے کہ تم جو کر رہے ہو یہ شرک ہے اور حکمت ودانائی اور موعظہ حسنہ کے ذریعے اسے یہ دعوت دینا ہے کہ وہ اس شرک سے نکل آئے اور اسلام کی حقیقت کو اپنا لے۔

یہ تو ہوا اس صورتحال کے حوالے سے جس سے آج لوگوں کی اکثریت دوچار ہے اور ان فرائض کے حوالے سے جو ہم پر اس صورتحال کی بابت عائد ہوئے ہیں۔

مگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے تو عالم اسلام کی آج صورتحال جیسی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ تھوڑی بہت استثنا کے ساتھ، عالم اسلام کے بڑے حصے میں جتنے نظام قائم ہیں آج اسلام کی صحیح دعوت سے برسر جنگ ہیں اور حقیقت اسلام کے داعیوں کو ایمان اور نواقض ایمان (جن باتوں سے آدمی مسلمان نہیں رہتا) کے بیان کی اجازت نہیں دیتے۔ خاص طور پر نواقض اسلام کے بیان کی زد جہاں غیر اللہ کے قانون ونظام کو چلانے پر پڑتی ہو وہاں تو حقیقت اسلام کے بیان کی اجازت تک نہیں۔ حقیقت اسلام کے داعیوں کی راہ میں جگہ جگہ جیلیں، کال کوٹھڑیاں اور پھانسیوں کے تختے نصب ہیں جو ہر ایسے شخص کو اپنی زد میں لینے کیلئے بے چین ہیں جو لا الہ الا اﷲ کی اس حقیقت سے معاشرہ کو آگاہ کرنا چاہتا ہے جس حقیقت کے ساتھ لا الہ الا اﷲ دراصل پہلے پہل اترا تھا۔

تو پھر دعوت کیلئے مناسب لائحہ عمل کیا ہو؟ اور ہم کس چیز کی دعوت دیں؟ دعوت میں کس چیز پر زور دیں اور دعوت میں ہم جس ہدف تک پہنچنا چاہتے ہیں اس تک پہنچنے یا اس کے قریب ہونے کیلئے کونسے وسائل اختیار کئے جائیں؟

اگر ہم اپنے گردوپیش کی صورتحال کا صحیح تصور کر لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم ان اشکالات سے نکل آنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان اقوام پر حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے حجت قائم کرنے سے پہلے بعض شرعی احکام لگانے اور فتوے صادر کر دینے سے لازم آجاتے ہیں.... اگر ہم یہ دونوں کام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے آپکو اپنے دعوتی فرائض کے حوالے سے ایک ایسی صورتحال کے خاصا قریب پاتے ہیں جو دعوت اسلامی کو مکی مرحلے میں درپیش تھی۔ مکی مرحلے کے قریب نہ کہ مکمل طور پر اس کے مماثل۔ کیونکہ کئی سارے پہلوؤں سے ان دونوں میں بہت سے فرق بہر حال پائے جاتے ہیں۔

ہمارے واقع اور مکی مرحلے کے واقع میں عملی طور پر جو فرق سمجھا جائے گا ووہ یہ کہ لوگوں پر حکم لگانے اور ان کے خلاف کافر یا مشرک ہو جانے کا فتوی صادر کرنے میں ہمارے اور مکی واقع میں واضح فرق ہے البتہ خود وہ صورتحال جو آج ہمیں درپیش ہے اس کے شرک قرار پانے اور مکی مرحلے کی صورتحال کے شرک سمجھے جانے میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ فرق افراد کے مشرک قرار پانے میں ہے نہ کہ افراد کے فعل کو شرک سمجھا جانے میں، شرک کا پایا جانا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی تھا البتہ لوگوں کا مشرک قرار پانے کا معاملہ ضرور مختلف ہے۔ اب دعوت کے لئے کیا منہج اپنایا جائے، اس کا انحصار شرک کے کسی جگہ پائے جانے پر ہے نہ کہ اس بات پر کہ وہاں لوگوں کو پکارا کیا جائے۔ شرک معاشرے میں اگر بے انتہا پھیلا ہے تو دعوت کا منہج اور لائحہ عمل کی بابت خودبخود یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسے مکی دعوت سے کتنا قریب ہونا چاہیئے، کہ اسی کی روشنی میں دعوتی ہدف تک رسائی کیلئے موثر ترین وسائل اور ذرائع اختیار کئے جانے کی ضرورت بھی آشکار ہو جاتی ہے۔

چنانچہ یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دعوت کے معاملے میں اسلام کی نسل اول کی اقتدا اختیار کرنے کا معاملہ اس سے کہیں وسیع تر ہے جتنا کہ بادی النظر دکھائی دیتا ہے اور یہ کہ بہت سارے پہلوؤں سے فرق ہونے کے باوجود بہت سے بنیادی امور ایسے ہیں جن میں آج بھی اسی دور سے رجوع کرنا لازم آتا ہے۔ لہٰذا مکی دور کا بغور مطالعہ کرنا اور کھلی آنکھوں سے اس کا بار بار مشاہدہ کرنا اب بھی فرض ٹھہرتا ہے۔ اسی سے ہمیں دعوت کی راہ میں آَے بڑھنے کا راستہ ملے گااور یہیں سے اللہ کے فضل سے دین کے فہم اور بصیرت کی بند گرہیں کھلیں گی۔

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

آج اگر ہم امت اسلام کے احوال دیکھیں ___ جیسا کہ واقعی دیکھنے کا حق ہے ___ تو ہمیں ایسے بے شمار انحرافات نظر آئیں گے جو کہ پچھلے چودہ سو سال کے دوران پیدا ہوئے اور لوگوں کو رفتہ رفتہ حقیقتِ اسلام سے دور لے جانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آج دوسری بار اسی غربت و اجنبیت کا شکار ہو چکا ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی:

اسلام شروع میں تھا تو اجنبی تھا۔ عنقریب یہ پھر اسی طرح اجنبی ہو رہے گا جیسا کہ ابتداءمیں تھا

بد أ الاسلام غریبا و سیعود غریباً کما بد أ (اخرجہ مسلم)

اگر ہم ان انحرافات کا جائزہ لیں اور یہ جائزہ لینا ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ امت کے وجود کو لاحق مرض کی تشخیص کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اور ایک صحیح تشخیص ہوجانے پر ہی اس بات کا تمام تر انحصار ہے کہ اس کی درستی کیلئے علاج تجویز ہو تو کیا ہو.... سو اگر ان انحرافات کا جائزہ لیں تو یہ بات کھلے گی کہ یہ انحراف صرف کردار اور رویے ہی میں نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی مفہومات تک میں آچکا ہے۔ اور یہ کہ اسلام کے سب کے سب مفہومات آج انحراف کا شکار ہو چکے ہیں۔ حتی کہ لا الہ الا اﷲ کا مفہوم بھی۔ بلکہ تو یہ انحراف شروع ہی لا الہ الا اﷲ کا مفہوم غلط ہونے سے ہوا ہے۔ پھر عبادت کا مفہوم، تقدیر اور قضا وقدر کا مفہوم، دنیا اور آخرت کا مفہوم، تہذیب کا مفہوم، تربیت کا مفہوم، جہاد کا مفہوم (5) انحراف کا شکار ہونے سے کچھ بھی نہ بچا۔

اب جب ایسا ہے تو پھر ابتداءکہاں سے کی جائے؟ کیا لا الہ الا اﷲ کا مفہوم درست کئے بغیر اور لوگوں پر اس کی حقیقت واضح کئے بنا کوئی چارہ کار ہے؟ کیا کاروبار زندگی کو راست بنیاد پر اور اسلام کی اساس پر قائم کیا جا سکتا ہے جب تک کہ لوگوں کے قلب وذہن اور فکر وشعور میں لا الہ الا اﷲ کا فہم اور ادراک درست نہ کر لیا جائے؟ فکر وشعور میں حق کا ادر اک گہرا اترنا ہے اور پھر اس ادراک کو دلوں میں ایک وجدان اور ایک برقی رو کی صورت دھارنا ہے جو دنیائے واقع میں ہر جامد چیز کو متحرک کر دینے کیلئے کافی ہو اور عملی رویہ وسلوک کو مطلوبہ رخ اور جہت دے سکے.... اصلاح کا یہی طریق کار ہے۔

آئیے ذرا دیکھیں کہ شعور وادراک کی دنیا میں اس لا الہ الا اﷲ کا مفہوم کس خرابی کا شکار ہوا۔

لا الہ الا اﷲ کا مفہوم یوں سمجھئے سکیڑ کر رکھ دیا گیا۔ یہاں تک کہ اب یہ محض ایک کلمہ ہو کر رہ گیا جسے بس زبان سے ادا کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندوہناک اکثریت کی زندگی میں اس لا الہ الا اﷲ کو اب کچھ نہیں کرنا۔ حتی کہ اس کلمہ کو اب شرک کے راستے میں رکاوٹ تک نہیں بننا، چاہے وہ عقیدے کا شرک ہو، چاہے پوجا اور پرستش کا شرک اور چاہے حکم وقانون کا شرک۔

ہمارے آج کے اس واقع میں اور بعثت نبوی کے وقت کے جاہلی واقع میں اگر کوئی فرق ہے تو یہی کہ تب لوگ کھلا کھلا شرک کرتے اور یہ کہنے کیلئے بھی تیار نہ تھے لا الہ الا اﷲ کہ ’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘۔ مگر ہمارے آج کے اس واقع میں ایک تھوڑی تعداد کو چھوڑ دیں تواکثریت زبان سے کہتی ہے لا الہ الا اﷲ کہ ’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘ مگر بعینہ اسی وقت شرک کی کسی ایک قسم میں یا شرک کی سبھی اقسام میں بھی پڑ چکی ہوتی ہے۔

جب ایسا ہے تو آج ہم اس بات کے شدید ضرورتمند ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس منہج سے ملتا جلتا منہج اپنائیں جو آپ ﷺ نے مکہ میں اس وقت اپنایا تھا جب شرک عام تھا۔ کیونکہ اس بات کی جتنی ضرورت اس وقت تھی اتنی ہی ضرورت آج بھی ہے کہ لوگوں پر لا الہ الا اﷲ کی حقیقت واضح کی جائے اور اس کی حقیقت کو پھر سے لوگوں کی عملی اور معاشرتی زندگی میں ڈھال دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں یہ مہم کوئی آسان اور مختصر مہم بھی نہیں۔ اس مہم کی دشواری اور اس میں جان کھپانے کی ضرورت اس مہم سے کم نہیں جو دور اول میں اسلام کی غربت ختم کرنے کیلئے سر کی گئی تھی۔ بلکہ اسلام کی اس غربت ثانیہ کو ختم کرنے کا چیلنج اس لحاظ سے شاید اس سے بھی کہیں بڑا ہے کیونکہ اسلام کی غربت اولی کو ختم کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس موجود تھے جو کہ اسوہ بھی تھے اور ذریعۂ الہام بھی....

دور اول کی مشکل یہ تھی کہ تب ایک اڑیل قوم سے واسطہ تھا جو آباؤ اجداد کی راہ سے ایک انچ ہٹنے کیلئے تیار نہ تھی۔

پس اے محمد ہم نے اس کلام کو تمہاری زبان پر آسان کر دیا، تاکہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دو اور ضدی اڑیل لوگوں کو ڈرا دو

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا۔ (مریم: 97)

ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کئے چلے جائیں گے؟

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ۔ (البقرہ:170)

البتہ اس دوسری بار کی غربت اسلام کے خاتمہ کیلئے اصل چیلنج یہ نہیں ہو گا کہ ہم لوگوں سے لا الہ الا اﷲ کہلوا لینے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ تو وہ صبح شام کہتے ہیں! بلکہ اس مہم کی اصل مشکل یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لا الہ الا اﷲ صرف زبان سے ادا کر دینے سے وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور یہ کہ حقیقت اسلام بھی بس یہ لفظ کہہ دینے کے ساتھ ہی خودبخود ان پر چسپاں ہو گئی ہے اب ان کا عملی رویہ کچھ بھی ہو اور اس لا الہ الا اﷲ کو غیر معتبر کرکے رکھ دینے والے خواہ وہ کتنے ہی کام کریں اور عملی زندگی میں اس لا الہ الا اﷲ کے تقاضوں کو جتنا چاہے پائمال کریں بس اب وہ مسلمان ہیں۔ اور اگر آپ ان سے یہ کہیں کہ لا الہ الا اﷲ کے کچھ صاف اور واضح واضح تقاضے ہیں جنہیں پورا نہ کیا جائے تو انسان کا مسلمان ہونا معتبر نہیں ہوتا بلکہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی صورت میں خود لا الہ الا اﷲ کی زبان سے ادائیگی اس کو الٹا پھنسا دیتی ہے اور اسے مرتد تک قرار دلوا سکتی ہے تو وہ کبھی آپ کی بات پر یقین نہ کریں گے اور کہیں گے کہ یہ بات تو ہم نے کبھی سنی تک نہیں۔

لوگوں کی اکثریت آج فکر ارجاء(ایک گمراہ فرقہ کے افکار) کی آلودگی میں پڑ چکی ہے۔ فکر ارجاءجو کہ یہ کہتا ہے کہ جو شخص کلمہ گو ہے بس وہ مومن ہے چاہے اسلام کے اعمال میں سے کسی ایک عمل کی ادائیگی بھی وہ زندگی بھر نہ کر پایا ہو۔ فکر ارجاءجس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان بس نبی کی تصدیق کر دینے کا نام ہے یا یہ کہ بس یہ تصدیق اور اقرار سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور یہ کہ عمل ایمان کے معنی اور مفہوم میں ہی شامل نہیں اور یہ کہ دین کے منافی اعمال اور اقوال جتنے بھی ہوں اور جس قسم کے بھی ہوں بس وہ صرف ’گناہ‘ کہے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ : لا یضر مع الایمان معصیۃ ”ایمان ہے تو گناہ جیسا بھی ہو ہمارا کچھ نہ بگاڑ پائے گا“!

لوگوں کو فکر ارجاءکی اس آلودگی سے پاک اور ان کو ایمان کے اسی صحیح مفہوم پر واپس لے آنا جس پر سلف صالحین رہے ہیں اور جس کی رو سے ایمان قول بھی ہے ایمان اعتقاد کا نام بھی ہے اور ایمان عمل بھی ہے.... یہ کام ہی دراصل اس دور کے ’غرباء‘ کے کرنے کا اصل کام ہے.... وہ غرباءجن کو خود رسول اللہ ﷺ نے بے پناہ اجر کی خوش خبری دے رکھی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

خوش خبری ہو (آخر دور کے ان لوگوں کو جو) اجنبی اور عجیب وغریب (نظر آئیں گے)

طوبیٰ للغرباء

ایک روایت کے الفاظ میں، فرمایا:

خوش خبری ہو (اس دور کے ان لوگوں کو جو) اجنبی اور عجیب وغریب (نظر آئیں گے) کہ لوگوں نے میرے راستے کو جس طرح خراب کر دیا ہو گا یہ اس کو سنوارنے اور نکھارنے میں لگے ہونگے

فطوبیٰ للغرباءیصلحون ما أفسد الناس من سنتی

(رواہ الترمذی وقال حدیث حسن)

تربیت کے بارے میں ہم ایک علیحدہ فصل میں الگ سے بات کریں گے۔ یہاں ہم یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت دعوت کا نقطۂ آغاز دراصل یہ ہے کہ آج کے معاشروں پر لا الہ الا اﷲ کی حقیقت واضح کی جائے جس پر کہ اسلام کی غربت ثانیہ کے اس دور میں بے انتہا دھول پڑ چکی ہے، اسلام کی وہ حقیقت کہ جس سے جب پردہ اٹھایا جاتا ہے تو لوگ حیران اور متعجب ہونے لگتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ اس پر بھی اتفاق ہو جائے کہ لا الہ الا اﷲ کے تقاضوں کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت کرنا تو خیر اس سے بھی بڑی بات ہے صرف لا الہ الا اﷲ کی حقیقت لوگوں پر واضح کرنا ہی کوئی آسان اور مختصر مہم نہیں، یہ صرف اتنا کام نہیں کہ لوگوں کو کچھ ’معلومات‘ فراہم کر دی جائیں یہ ایک آدھ خطبے یا ایک آدھ درس اور تقریر یا ایک آدھ کتابچے کے ذریعے ہو جانے والا کام نہیں۔ یہ ایک مسلسل اور پر مشقت کام ہو گا۔ اس کو پورے زور سے بڑے صبر اور استقلال کے ساتھ کیا جاتا رہنا ہو گا۔ اس کو سوچ اور فکر میں گہرا اتارنے کیلئے انسانی نفس کے سبھی گوشوں کا احاطہ کرنا ہو گا۔ ذہن وفکر سے عقیدہ ارجاءکی آلودگی کو کھرچ کھرچ کر اتارنا ہو گا۔ لادین اور سیکولر افکار کی جو دبیز تہیں اسلام پر جم گئی ہیں اس سے اس کا دمکتا چہرہ صاف کرنا ہو گا۔ پرانے دور کا فکرِ ارجاءاور نئے دور کا سیکولرزم.... یہ دونوں فتنے محض دھول نہیں جو اسلام کے اصل چہرے کو ایک بڑی اکثریت کے فکر وذہن کی دنیا میں چھپا چکی ہے بلکہ یہ زنگ ہے جو فکر وعمل کی دنیا میں بھی بہت گہرا اتر چکا ہے۔ عقیدے کی دیواروں کو کھا چکا ہے۔ عقیدے کے مفہومات کے اندر بہت دور تک جا چکا ہے۔ یہ عقیدے کو اس کی اصل قوت اور فاعلیت سے محروم کر چکا ہے جو اس عقیدے کو معاشرے میں اس وقت حاصل تھی۔ جب یہ اللہ کے ہاں سے نازل ہوا تھا اور جب اس کی حقیقت اجلی اور نکھری نظر آتی تھی.... اس زنگ کو اتارنا محض کچھ گرد وغبار جھاڑنے والی بات نہیں۔ یہ واقعتا ایک پیچیدہ کام ہے اور ایک بہت بڑی اور زبردست مہم۔

پھر یہ بات طے ہو جانا بھی ضروری ہے کہ اس مہم میں کسی قسم کی جلد بازی.... چاہے وہ جلد بازی اس خیال سے ہو کہ اسلام کی حقیقت ایک بد یہی امر ہے اور خود ہی بہت واضح ہے جس پر کوئی لمبی چوڑی محنت کرنے کی ضرورت نہیں یا یہ جلد بازی یہ سوچ لینے سے آئے کہ اسلام کی حقیقت واضح کرنے پر جتنی کچھ محنت ہو چکی اور جتنا کچھ پڑھا پڑھایا گیا، بس وہ کافی ہے یا یہ جلد بازی اس وجہ سے ہو کہ ہمارے پاس کرنے کے اور بہت سے کام ہیں اور ہمیں اتنے بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں کہ اتنا وقت نہیں کہ لا الہ الا اﷲ کے بنیادی تقاضوں پر لوگوں کی تربیت تو کیا لا الہ الا اﷲ کی حقیقت پڑھانے کیلئے ہی سر جوڑ کر بیٹھ جایا جائے.... غرض یہ جلد بازی چاہے کسی وجہ سے ہو اس سے کچھ ہاتھ آنے کا نہیں.... یہ جلد بازی دعوت کی کوئی خدمت نہ کرے گی اور دعوت کا ثمر آور ہونا بھی اس راہ سے کبھی ممکن نہیں۔

اسلام کی نسل اول اور دور اول کی اقتداءکرنے کا جو مقدمہ ہم نے بیان کیا ہے اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ مرکزی اور اساسی بات کیا ہے جس کی ہمیں اقتداءکرنی ہے۔ یہ بات واضح ہو جانے کیلئے ایک بہترین ذریعہ خود قرآن ہی ہے۔ اسلام اور لا الہ الا اﷲ کی حقیقت کا بیان ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قرآن پورا زور صرف کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تمام تر توجہ کا محور یہی ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ آپ ﷺ کے پیش نظر اور خود قرآن کے پیش نظر بھی یہی بات نظر آتی ہے۔ اور پھر اس لا الہ الا اﷲ کی بنیاد پر انسانوں کی تربیت پایہ تکمیل تک پہنچانا تو اس سے بھی بڑی بات ہے۔ زمانۂ تنزیل اور خود رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے زیادہ سال یہی ایک مسئلہ لے گیا حتی کہ آپ ﷺ کی محنت اور جدوجہد پر بھی اسی ایک مسئلے کا حق سب سے بڑھ کر رہا۔

اگر ہمارا یہ خیال ہو کہ قرآن مجید کی مکی سورتوں کی تمام تر ترکیز کا محور اور بار بار تکرار کا موضوع لا الہ الا اﷲ کی حقیقت کا بیان اس وجہ سے تھا کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کے مخاطب جو لوگ تھے وہ مشرک تھے.... تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آج جو لوگ اس دعوت کے مخاطب ہیں وہ بھی سب کے سب مشرک نہیں تو ان کی اکثریت کسی نہ کسی انداز سے شرک میں پڑی ہوئی ضرور ہے اور یہ کہ یہ لوگ جس شرک میں پڑے ہیں اس کی نوعیت اس شرک سے بہت مختلف نہیں جس میں عرب کے مشرکین پڑے ہوئے تھے.... خواہ وہ اعتقاد کا شرک ہو، خواہ پوجا اور پرستش کا شرک ہو اور خواہ حاکمیت (حکم وقانون) کا شرک۔

لیکن اس سے بھی بڑھ کر جو چیز ہمیں یاد رکھنی چاہئے وہ یہ کہ اس مسئلے پر ہمیشہ اتنا زور دینے کی ضرورت بس اسی وجہ سے نہیں ہوا کرتی کہ دعوت کے مخاطب لوگ مشرک ہوں یا شرک میں پڑے ہوئے ہوں بلکہ خود مومن بھی اسی مسئلے کی مسلسل اور بار بار یاد دہانی کے ضرورت مند ہوا کرتے ہیں اور اسی کے تقاضوں کی بنیاد پر ہی ان کی تربیت ہونا ہوتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن اترنے کے دوران جب مسلم جماعت ایک بھرپور انداز سے وجود پا چکی تھی، اس جماعت کو زمین میں قوت اور تمکین بھی حاصل ہو چکی تھی، بلکہ اس لا الہ الا اﷲ کی خاطر وہ کئی جنگی معرکے بھی لڑ چکی تھی، تب بھی قرآن میں لا الہ الا اﷲ پر بات کی جاتی رہنا موقوف نہ ہوا تھا۔ یہ سورت ”نساء“ہے جس میں اللہ فرماتا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا۔ (النساء:136)

مدنی سورتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات بکثرت نازل کیں جو اسلام کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی ہدایات کو لا الہ الا اﷲ اور اس کے تقاضوں کے ساتھ جوڑنے کیلئے آتی رہیں:

کہو! خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکم واقتدار دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔ جسے چاہے، عزت وتمکنت بخشے اور جسے چاہے، ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے دست اختیار میں۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ جاندار میں سے بے جان کو نکال لاتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو۔ جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے اورمومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست نہ بنائیں

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ۔ لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ۔(آل عمران: 26، 28)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً۔ (النساء:59)

 قرآن میں اس کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ لا الہ الا اﷲ کوئی ایسا سبق نہیں جو ایک بار پڑھ لیا تو پھر اور اسباق کی جانب رخ کیا جائے ۔ بلکہ جیسا کہ اس سے پہلے میں اپنی کسی اور کتاب میں کہہ چکا ہوں لا الہ الا اﷲ ایک ایسا سبق ہے جسے پڑھا جائے تو پھر ہر نئے سبق کے ساتھ ہر بار پھر پڑھا جائے اور قیامت تک یہ امت بس اسی سبق کو دہراتی رہے.... کہ اس امت کا ہمیشہ یہی موضوع رہنا ہے

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

لوگوں پر لا الہ الا اﷲکی حقیقت

واضح کرنے کا طریق کار کیا ہو؟

وہی جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں متعین کر دیا ہے:

اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت (موعظہ حسنہ) کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔

ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۔ (النحل: 125)

یہ واضح ہو جانا ضروری ہے کہ حکمت اور موعظۂ حسنہ یہ نہیں کہ لوگوں کو ان کی غلطیاں اور ان کے انحرافات کی سنگینی کچھ کم کرکے بتائی جائے۔ یا لوگوں کے جذبات کو تھپکیاں دی جائیں تاکہ وہ ہم سے خوش ہو جائیں اور پھر ہماری بات تسلیم کرنے لگیں۔

حکمت اور موعظۂ حسنہ سے اللہ کی جو کوئی مراد ہو سکتی ہے اس سے سب سے زیادہ واقف خود اسی کے رسول کو ہونا چاہئے جسے کہ یہ حکمت اور موعظہ حسنہ کا حکم سب سے پہلے اور براہ راست ملا۔ تو پھر آپ نے یہ فرض کیسے ادا کیا؟ کیا آپ نے لوگوں سے شرک کے معاملے پر کسی گول مول رویے اور کسی لاگ لپیٹ سے کام لیا؟ کیا آپ نے اس بات سے کوئی اجتناب برتا کہ لوگوں کو، جس عقیدے اور جس راستے پر وہ ہیں، اس کی صاف صاف اور کھلی کھلی حقیقت نہ بتا دیں؟

رسول اللہ کو صرف حکمت اور موعظہءحسنہ ہی کا حکم تو نہ تھا۔ یہ آیت بھی تو آخر آپ پر ہی اتری تھی!

اے نبی جو تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ببانگ دہل بیان کر دو۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ۔ (الحجر: 94)

یہاں مشرکین رسول اللہ ﷺ کی شکایت لے کر آپ کے چچا ابوطالب کے پاس آتے ہیں اور آکر کہتے ہیں:

”اس نے ہماری عقل اور ہماری سمجھ بوجھ کا مذاق اُڑایا ہے۔ اس نے ہمارے خداؤں کی توہین کی ہے اور ہمارے باپ دادا کی تکفیر“۔

رسول اللہ ﷺ کا عرب جاہلیت کے ساتھ اس صریح انداز میں مڈ بھیڑ کرنا دراصل اس حکمت اور موعظۂ حسنہ ہی کا تقاضا تھا جس کا کہ آپ کو قرآن میں حکم ملا تھا۔

دعوت کے اس مرحلے میں حکمت سے ایک بڑی مراد دراصل یہ تھی کہ اس مرحلے میں وہ اپنے ہاتھ روکے رہیں۔ مشرکین کے ساتھ قبل از وقت کوئی معرکہ نہ چھیڑ لیں اور یوں مشرکوں کو طیش دلا کر تشدد اور زیادتی کیلئے خود سے کوئی وجہ جواز فراہم نہ کر دیں.... مگر حقائق کو بلاکم وکاست اور ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کا کام بہرحال ہونا چاہئے۔

یہیں سے ہم ایک اہم نقطے تک پہنچتے ہیں جس کا اپنے اس دور حاضر کے مسائل سے گہرا تعلق ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ اِسلام کے اِس دور اولین میں ہمارے لئے نمونہ کہاں پوشیدہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے لئے مناسب تھا یا ہے کہ موجودہ حالات میں برسراقتدار طبقوں کے ساتھ ہم کسی مسلح تصادم کی راہ اختیار کرلیں؟

رہی یہ بات کہ برسراقتدار طبقے جن کا اقتدار اللہ کی شریعت پر قائم نہیں.... یہ برسراقتدار طبقے، ہم کچھ نہ بھی کریں تو وہ ہم پر ظلم اور جارحیت پھر بھی اور ہر حال میں کریں گے، تو اِس بات کی تو ہمیشہ ہی توقع رکھنی چاہئے، کیونکہ یہ اللہ کی ایک ابدی سنت ہے۔ ایسا آج تک ہوا ہی نہیں کہ جاہلیت کا اقتدار کبھی لا الہ الا اﷲ کی دعوت سے راضی ہو گیا ہو یا حتی کہ اس سے عارضی متارکۂ جنگ پر ہی آمادہ ہوا ہو چاہے اس متارکۂ جنگ کا مطالبہ کسی وقت خود لا الہ الا اﷲکی دعوت کی جانب سے ہی کیوں نہ ہوا ہو!

جب شعیب ؑ نے اپنی قوم سے کہا:

اگر تم میں سے ایک گروہ اس دعوت پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لے آیا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُواْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يْؤْمِنُواْ فَاصْبِرُواْ حَتَّى يَحْكُمَ اللّهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ۔ (ال أعراف: 87)

تو قوم کے (ملأ) برسراقتدار طبقوں نے اس التوائے جنگ کی پیشکش کو بڑی لاپروائی سے ٹھکرا دیا اور اِسی بات پر مصر ہوئے کہ اہل ایمان کو یا تو بستی سے نکال دیا جائے اور یا پھر وہ اپنا دین چھوڑ دیں:

اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا: اے شعیب ، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی اس بستی سے نکال کر رہیں گے، یا پھر تم لوگوں کو ہماری ہی ملت میں واپس آنا ہوگا۔ شعیب نے جواب دیا: کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟

قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ ۔ (الاعراف: 88)

 

آج کی جدید جاہلیتوں میں، جو کہ اپنے آپ کو آزاد اور جمہوری کہتی ہیں، ہر طبقے اور ہر دعوت کو آزادی حاصل ہے سوائے اس ایک طقبے اور ایک دعوت کے جو کہ لا الہ الا لااللہ کی دعوت ہے۔ ہماری بات کو ثابت کرنے کیلئے، الجزائر میں جو ہوا وہی بہت کافی ہے، جہاں اسلام پسندوں نے، قطع نظر اس سے(6) کہ ان کا ایسا کرنا غلط تھا یا درست، جاہلیت کے دیے ہوئے قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی، جاہلیت کی لگائی ہوئی شرط کو پورا کرتے ہوئے بیلٹ باکس بھی بھر دیے اور اکثریت بھی لے کر دکھا دی.... مگر کیا دیکھتے ہیں جاہلیت اپنے ہی دیے ہوئے اصولوں کو پہچاننے سے انکار کردیتی ہے، جبکہ اس کے یہ اصول کہنے کیلئے سب طبقوں اور منشوروں کیلئے یکساں طور پر دستیاب ہیں اور جس کو بھی کچھ تبدیلی لانی ہے اس کو یہی راستہ اختیار کرنے کی ہدایت ہوتی ہے مگر بات اسلام پسندوں کی آتی ہے تو جاہلیت کا جواب ہوتا ہے: لنخرجنکم.... أو لتعودن ”ہم تمہیں نکال کر رہیں گے یا پھر تمہیں اپنی ملت چھوڑ کر آنا ہوگا“!

اس سوال کی کوئی گنجائش نہیں کہ آیا ایسا کوئی طریقہ ہے جسے اختیار کرنے سے جاہلی اقتدار اسلام کی دعوت پر غضبناک ہونا موقوف کر دے۔ اس پر سوچنا وقت کا ضیاع ہے۔ ہم نے جو سوال رکھا ہے بس وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے لئے مناسب تھا یا ہے کہ موجودہ حالات میں برسراقتدار طبقوں کے ساتھ ہم از خود کسی مسلح تصادم کی راہ اختیار کرلیں؟

اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اُمت کی نشأۃ اولیٰ یعنی اسلام کے دور اول سے اس معاملے میں ہمیں کیا سبق ملتا ہے اور جس پر کہ پچھلی فصل میں ہم کچھ گفتگو کر بھی آئے ہیں۔ ابتداءًً یہ سوال ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار کی جارحیت کا مسلح جواب دینے کی اجازت کب دی اور یہ کب کہا:

اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ۔ (الحج:39)

ہاتھ اُٹھانے کی اجازت اُس وقت ملی جب یہ کام تکمیل پا چکے تھے:

1) لا الہ الا اﷲ کے تنازعہ کا واضح کیا جانا....

2) اقتدار کا جواز رکھنے کا مسئلہ آشکار ہو جانا ....

3) دعوت کے حامل جتھے کی مضبوط معاشرتی بنیادوں پر تیاری ہوئی ہونا....

4) انصار کے آنے کے ساتھ اس جتھے کی توسیع ہونا....

5) اس جتھے کی نہایت اخلاص اور تجرد کی بنیاد پر تربیت ہونا....

اب ذرا دیکھ لیجئے اس وقت اِن امور میں سے کون کون سے کام اور کس حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچ پائے ہیں:

 

٭٭٭٭٭٭٭


 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز