عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, April 24,2024 | 1445, شَوّال 14
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
احیائے اُمت میں نظامِ تعلیم کا کوئی کردار ہے؟
:عنوان

اصول پسِ منظر میں چلے گئے اور فروع کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم شروع ہو گئی۔ عاشرہ، زندگی کے دیگر مسائل، کفر کے ساتھ علمی مبارزت یہ سب مدارس کے نصاب سے باہر ٹھہرا۔

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

احیائے اُمت میں نظامِ تعلیم کا کوئی کردار ہے؟

 

ضیغم المرتضیٰ

 

زوالِ امت یا امت کی نشاۃ ثانیہ یہ دو موضوعات ہر اس مجلس میں زیرِ بحث آتے ہیں جہاں چند مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں ۔

یقینا موجودہ صورتحال جس سے یہ امت دوچار ہے، ہر مخلص دل میں کڑھن اور بے چینی کا موجب ہے ۔ ایسی صورت میں جبکہ اسلام دشمن طاقتیں ہر ہر محاذ پر پورے وسائل اور تکنیک کے ساتھ مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے درپے ہیں ۔ صورتحال کو سمجھنا اور اس سے باہر نکلنا اپنی جگہ ایک مشکل کام ہے ۔ صلیبی جنگوں اور طویل ہزیمتوں کے بعد اسلام دشمنوں کے گمان میں شاید ان کی مراد بر آنے کو ہے ۔ اب وہ ننگی جارحیت کے ذریعے مسلمان آبادیوں کو براہِ راست اپنے حملوں کی زد پر لیے ہوئے ہیں ۔ مسلمان حکمران ان کے کاسہ لیس اور حاشیہ بردار ہیں ، امت من حیث المجموع اپنی توانائیوں کے منبع کو کھو چکی ہے ۔ دانش ور طبقہ پر عزم اور اسلامی اقدار کے حاملین کو دہشت گردی کا مصداق بنا کر ذرائع ابلاغ پر لتے لے رہا ہے ۔

اپنی بے پناہ جنگی استعداد اور وسائل کی بہتات کے سبب دشمن جیت کے بارے میں اتنے خوش فہم ہیں کہ منافقانہ رواداری کا لبادہ اتار کر وہ مسلمانوں کی سب سے عزیز ہستی محمدﷺ کے کھلم کھلا تمسخر او رتضحیک پر اتر آئے ہیں ۔ اس پر آواز بلند کرنا آزادیٔ اظہار کے علمبرداروں کے نزدیک مسلمانوں کی بدتہذیبی کی ایک اور مثال ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کے نزدیک مسلم دنیا ، دنیا کا فردِ بیمار ہے ، اور ان آلام کی جڑ اسلام اور اس سے وابستگی ہے ۔

یہ تو خارجی صورتحال ہے ، امت کی داخلی صورتحال کا نقشہ بھی اس سے کم ابتر نہیں ۔ کیونکہ اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتے ہیں ۔ استعمار جہاں جہاں حکمران رہا ، وہاں علاقوں کو تقسیم کر کے جغرافیائی حدود کو اس طور متعین کیا گیا کہ ہر ریاست اپنی پڑوسی اور دور ریاستوں کے ساتھ مستقل کسی نہ کسی بنیاد پر نزاع کا شکار رہے ۔ ملکوں کی تقسیم کے نتیجے میں بسنے والے مختلف سرحدی گروہ بزور کاٹ کر دوسرے ملکوں میں شامل کر دیے گئے تاکہ منافرت کی آگ کو اس طور بھی بھڑکایا جا سکے ۔ امت کے پچاس سے زائد ٹکڑوں پر مشتمل ریاستوں میں داخلی انتشارات حد درجہ بڑھا دیے گئے ۔ فرقہ ورانہ ، لسانی اور دیگر اختلافات کی موجودگی میں کسی ایک جگہ بھی اتفاق رائے ہونا یا پیدا کرنا امرِ محال معلوم ہوتا ہے ۔ حقیقی وجوہات اور ان کے حل کے بارے میں تفصیلاً گفتگو اس وقت تو ممکن نہیں ، سردست تعلیمی صورتحال کے متعلق ہی فوکس کرتے ہوئے اسی کے بارے میں قدرے تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں ۔

یہ بات تو کسی بھی فورم پر باعث نزاع نہیں کہ امت کی موجودہ صورتحال کا ایک بڑا اور حقیقی سبب موجودہ نظامِ تعلیم ہے ۔ موجودہ تعلیمی نظام ایک ایسی تجربہ گا ہ ہے جہاں نوجوان طلباءکے ذہنوں کو نئے نقشوں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور نامانوس سانچوں میں ڈھالا جاتاہے ۔

زوالِ امت کی گزشتہ تین صدیاں ہی مغربی استعمار کی ترقی کی تین صدیاں ہیں ۔ اسی دوران میں مسلم مزاحمت ایک انداز سے اٹھی اور اسی ہی عرصہ میں دشمنوں کی چالوں کا شکار بھی ہوئی ۔ مغرب کی مسلسل ترقی کے نتیجے میں مسلمانوں میں علم کے میدان میں تین طرح کے رویے سامنے آئے۔ کامل مغرب زدہ طبقہ، جزوی تبدیلی کے قائلین اور مسلم قدامت پرست۔

مسلمانوں میں بہتر مالی وسائل کے حامل اور استعمار سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے باعث پہلا طبقہ اپنی طرزِ زندگی کو ان کی مکمل نقالی کی طرف لے گیا ۔ تعلیم کے میدان میں ان کا انحصار مغربی تعلیمی اداروں پر ہی رہا ۔ اپنے اپنے ممالک میں بھی اگر ان کی نظر پڑی تو وہ یا غیر مسلم مشنری ادارے تھے یا ایسے ادارے جو اپنی ڈگری کے لیے مغربی اداروں کے ماتحت ۔ تعلیمی نظام میں ان کے اثرات مذہب کے بارے میں تشکیک پیدا کرنا ، تہذیبی اور سماجی رویوں میں مغرب کی ایک حد تک بھونڈی نقالی ، ترجیحات میں استعمار کی خوشنودی اور امت کے دین دار طبقوں سے بے زاری اور تنفر ۔ چنانچہ ان کے بارے میں ہمارے رائے وہی ہے جوان کے آقاؤں کے بارے میں ہے ۔

جزوی تبدیلی کے قائلین اگرچہ اسلام سے باغی نہیں تھے بلکہ ابتدائی طور پر قدرے ہمدردی ہی کے حامل تھے تاہم مغربی طریقۂ تعلیم سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانا ان کے پیش نظر تھا ۔ اس کے لیے انھوں نے اسلامیات ، تاریخ اور اس طرح کے دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ انگریزی اور دیگر سائنسی علوم کو بھی شامل نصاب کیا تاکہ ان کے تئیں دوطرفہ بہتری ان کے ہاتھ آسکے ۔

موجودہ مغربی تعلیمی نظام عیسائیت کے ساتھ ایک کامیاب جدال کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ مذہب دشمنی ، کلیسا مخالف رجحانات اور اخلاقیات وغیرہ کے خلاف اولاً یہ نظام صریح تھا مگر رفتہ رفتہ یہ چیزیں سرائیت تو کیے رہیں لیکن ظاہر سے ایک حد تک چھپی رہنے دی گئیں ۔ مغربی استعمار سے لیے گئے ان علوم کی پیوند کاری سے ہمارے اس طبقہ نے سمجھا کہ نظام تعلیم میں بہتری آئے گی اور مسلم فکر میں تجدید ۔ اس فکری تجدید میں اس مفروضہ سے کام لیا گیا کہ یہ علوم محض اپنے شعبہ سے متعلق معلومات پر مشتمل ہیں اور اپنی اصل میں بے ضرر ہیں اور شاید یہ امت مسلمہ کی ترقی کا باعث بنیں ۔ وہ ان کے ادبی ، معاشرتی اور فلسفیانہ علوم کا رشتہ ان سائنسی علوم سے نہ سمجھ پائے حالانکہ یہ زندگی ، کائنات اور تاریخ کے منضبط نظریے کے مختلف پہلو ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے قطعی بیگانہ بلکہ ایک حد تک مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں ۔ ان علوم کو منظم کرنے کا طریقۂ کار مغرب کا نظریۂ صداقت اور علم جو ان میں جاری و ساری ہے ، مسلمان اس کو سمجھ نہ پائے ۔ ان بنیادی خامیوں کی وجہ سے مسلمان محض مغرب کے مقلد ہی رہے۔ ان جدید علوم کا اضافہ انہیں مغرب کی حاصل کردہ عظمت میں سے کوئی حصہ نہ دلا سکا بلکہ توقع کے بالکل بر خلاف اس طرزِ فکر و عمل نے مسلمانوں کو اجنبی تحقیق اور ان کی فکری اور سیاسی قیادتوں کا محتاج ضرور بنا دیا۔

مغرب کی مذہبیت کی نفی جو کہ ان کی فکر میں سرائیت کئے ہوئے تھی کا لازمہ یہ نکلا کہ جدیدفکر نے مسلمانوں سے بھی ان کے عقائد کے منافی افکار اور اقدار کو تسلیم کراکے چھوڑا جو کہ ترقی پسندی کے علمبرداروں کے نزدیک رجعت پسندی اور قدامت پرستی کا دوسرا نام ہے۔

اس طرزِ تعلیم کے نتیجے میں جو نسلیں ان اداروں سے فارغ ہو کر نکلیں وہ اسلام کی حقیقت سے ناواقف تھیں اور اپنے اسلاف کے ورثہ سے کلی طور پر نابلد۔ یہ طبقہ غیر محسوس طریقے سے مغرب کے ہمنوا طبقے میں مدغم ہوتا رہا۔ ہماری درس گاہیں، کالج اور جامعات مغرب کی وکالت میں اب سے پہلے اس قدر جری اور بے باک کبھی نہ تھیں جتنی آج ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس سے پیشتر ان کو ہم خیال مسلم طلبا کی اتنی کثیر تعداد بھی میسر نہیں آئی تھی۔ اور اب یہ نظام مکمل یکسوئی کے ساتھ مسلم معاشروں کے زوال میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

قرونِ اولیٰ میں انتہائی عملی اور شاندار کامیابیوں کے بر عکس چھٹی اور ساتویں صدی میں صلیبیوں کے حملوں اور تاتاریوں کے تاخت و تاراج کے نتیجے میں اس وقت کے مسلمان قائدین نے یہ سوچ کر کہ شایدان کا اختتام اور زوال یقینی ہے حد سے زیادہ قدامت پرستی اختیار کی۔ ساری فکر ان کو اپنا تشخص بچانے اور اسلام کو محفوظ رکھنے کی ہو گئی۔ اس کا آسان طریقہ ان کو یہ نظر آیا کہ انہوں نے پہلے سے نیم وا اجتہاد کا دروازہ مکمل بند کر دیا۔ عافیت اسی میں سمجھی گئی کہ اجنبی افکار سے اپنے طرزِ تعلیم اور طلبا کو کلی طور پر بچا کر رکھا جائے۔ معاشروں کے فطری ارتقاءکو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے قدامت اور اسلام پسندی کو لازمی کر دیا گیا۔ اسلام کی حفاظت کے نام پر شریعت پر جمود طاری ہو گیا یا یوں کہیے کہ اسے ارادتاً منجمد کر دیا گیا۔ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک اسلام کی فتوحات اور پھیلاؤ کے باوجود قدامت پرستی کی یہ برف نہیں پگھلی۔ مذہبی طور پر اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ معاشروں میں طاری جمود اور ارتقاءمیں مزاحمت کی وجہ سے معاشروں کو تصوف ، اس کے مباحث اور ذرائع میں ذریعہ تخلیق نظر آیا۔ وہ اس کے اتنے خوگر ہوئے کہ شریعت پر تصوف کو فکری طور پر فائق قرار دیا گیا۔ عمومی مقبولیت کی وجہ سے تصوف سے وابستہ شخصیات مراجع قرار پائیں۔ اسلامی فکر و فلسفہ سے دوری کے نتیجے میں تزکیہ نفس کی بجائے تصوف گمراہی کے زیادہ قریب ہوتا چلا گیا۔ باطنی اور ملامتی گروہ مسلم معاشروں کے انحطاط میں اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ لیکن عوامی رحجانات کی وجہ سے مسلم اہلِ علم اپنی تمام تر مساعی کے باوجود معاشرے کے رویوں کو اسلامی روح میں ڈھالنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔

دوسری طرف اسلام کی حقیقت سے دور معاشرے مغربی یلغار کا مقابلہ بھی نہ کر سکے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انہوں نے مسلمانوں کو ہر جگہ ہزیمت سے دوچار کیا۔ مسلمان مدرسوں میں سمٹ گئے اور جامد مذہبیت کے نتیجے میں زندگی کے بنیادی دھارے سے دور۔ خانقاہی نظام بھی معاشرے کے ارتقاءکو نہ روک سکا اور لازمی نتیجہ کے طور پر خود ہی ٹوٹ پھوٹ کر اختتام کو پہنچ رہا۔ اس کے زوال کو بھی جدید طبقہ کے نزدیک اسلام کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ابتداً سلاطین اور بعد میں استعمار نے متصوفین کی شریعت سے تنفر کی بدولت ان کو علمائے حق کے مقابلے میں استعمال کیا اور یوں ایک نام نہاد مذہبی گروہ سامنے آیا جو استعمار کے ہاتھ کا کھلونا تھا۔ مذہبی اجارہ داری اور سیاسی اجارہ داری مشترک ہو گئی۔ آج بھی پاکستان کے بڑے جاگیر دار گھرانوں میں سیاست اور تصوف کا امتزاج خوب خوب آشکار ہے۔

اجتہاد سے تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے مختلف مستقل فقہی مسالک وجود میں آئے جن کے مابین اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ اصول پسِ منظر میں چلے گئے اور فروع کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم شروع ہو گئی۔اسلامی تعلیم سے مراد طالبِ علم کی ایک خاص فقہ میں استعداد اور دوسرے گروہوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ اختلافی نکات پر عبور ٹھہرا۔ اصولیاتِ اسلام بالخصوص توحید محض خانہ پری کی حد تک رہے۔ معاشرہ، زندگی کے دیگر مسائل، کفر کے ساتھ علمی مبارزت یہ سب مدارس کے نصاب سے باہر ٹھہرا۔ نصاب کی یہ فرسودگی نہ صرف اُن سے وابستہ افراد کو اپنے مفاد اور تشخص کے لیے پسندیدہ ہے بلکہ استعماری قوتوں کے لیے پسندیدہ تر۔ تاکہ معاشرتی سطح پر اسلام ان کے مقابل نہ آسکے۔ مختصراً یہ کہ اس جامد ذہنیت نے اسلامی اقدار، تہذیب و فنون کے تحفظ کی بجائے ایک حد تک نئے رخنے پیدا کر دیے جو نہ صرف امت کے زوال کا باعث بنے بلکہ تبدیلی اور بہتری کی ہر کوشش میں سدّراہ ثابت ہوئے۔

مسلمانوں کے دورِ بیدار میں دنیا بھر سے علوم عربی میں ترجمہ ہوئے۔ یونانی علوم کی منطقیت سے کچھ افراد متاثر ہوئے اور ان سے وہ مباحث سامنے آئے جن کی بازگشت ہمارے معاشروں میں آج تک سنائی دیتی ہے۔ عقلیت پسندی کے نام پر یونانی فکر و فلسفہ کو اختیار کیا گیا۔ اس دور کے علمی حلقوں میں اس کے ا ثرات کے پیشِ نظر اعتزال کے مقابلے میں علم الکلام ایجاد کیا گیا۔ ان گروہوں کے دلائل کو کسی نہ کسی طور ہمارے موجود گروہ ابھی تک قبول کرتے ہیں۔

مغرب نے یونانی فکر و فلسفہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔ عیسائیت جس نے اپنی مذہبیت میں ان نظریات کو شامل کیا تھا ، یہی نظریات اس کے زوال کا باعث بنے۔ مسلمانوں میں جہاں جہاں یونانی افکار کی نام نہاد صداقت کا احترام موجود تھا مغرب کی تنقید کے نتیجے میں انہی نظریات کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ اسلام سے بر گشتہ ہوا۔ حالانکہ یہ وہ پیوند کاری تھی جس کو نہ تو اہلِ سنت علما ءو مجتہدین نے قبول کیا تھا اور نہ ہی اس کا اسلام سے کوئی تعلق تھا۔ لیکن آج بھی اس طرزِ فکر اور اصولیات کے ماننے والے موجود ہیں اس لیے اس زد سے نہ بچا جا سکا۔

موازنے کے طور پر قرونِ اولیٰ کا نقشہ بھی نظر کے سامنے رہنا چاہئے تاکہ اُن طبقات پر ہماری نقد مزید واضح ہو سکے۔ آج کے معاشروں کو ترقی کیلئے ان حقیقی معاشروں میں بہترین مثالیں موجود ہیں جن کو اپنا کر ہی ہم اِس قعر مذلت سے باہر آ سکتے ہیں۔ اُس نظام کے نتائج سے تاریخ بخوبی آشنا ہے۔ تربیت کے حوالے سے جس طرح کا انسان پیدا کیا گیا اس کی نظیر آج کے ترقی یافتہ مغربی معاشرے کیلئے آج بھی چیلنج ہے۔ صدیوں کی ڈھلان کے باوجود اور اسلام دشمنی کی مسلسل کوششوں کے باوجود نحیف ونزار مسلم معاشرے اپنے اثرات میں کلیتاً اُن اصولوں سے آج بھی تہی دامن نہیں۔

مسلمان بحیثیت امت انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک نصب العین کے حامل ہیں اور وہ ہے رضائے الٰہی کا حصول۔ قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کے ہاں مقاصد کے حصول میں انفرادی اور اجتماعی کی تفریق موجود نہ تھی بلکہ انفرادی زندگی میں بھی جو مطلوب تھا اجتماعی معاملات میں بھی وہی نصب العین تھا۔ مسلمان معاشرہ عوام اور خواص میں بھی تقسیم نہ تھا نہ ہی علم کے حق کو کسی خاص گروہ تک محدود کر دیا گیا تھا۔ اسلامی علم بلا تخصیص تمام انسانوں کیلئے تھا۔ جس کسی نے بھی اِسے حاصل کیا اُس کو اِسی کی بدولت عزت و توقیر نصیب ہوئی۔ علم ہی کی بنیاد پر مسلمانوں میں ابتدائی دور میں آزاد کردہ غلام اور ان کی اولادوں نے علو حاصل کیا۔ یہاں تک کہ حضرتِ عمرؓ نے شہادت سے قبل فرمایا تھا کہ آج اگر سالم مولیٰ حذیفہؓ زندہ ہوتے تو میں اُنہیں مسلمانوں پر امیر مقرر کرتا ا ور مجھے کوئی اندیشہ نہ ہوتا۔ اسلامی معاشرہ کی یہی وہ خاصیت رہی جس کے باعث ہر فرد کی جاہلیت کے مقابلے میں قوت مدافعت مضبوط تر تھی اور بیمار نظریات امت کے صحت مند وجود میں جگہ بنانے میں اکثر ناکام ہوئے۔

مسلمانوں کے ابتدائی دور میں قیادت اور فکر میں یکتائی اور یگانگت تھی بلکہ قائد ہی مفکر ہوتا تھا اور مفکر، قائد۔ معاشروں کی اساس توحید پر تھی جس کے نتیجے میں معاشروں کی تشکیل غیر فطری وجوہات کی بنیاد پر نہیں تھی۔ اسلامی نظریے کے ذہنوں میں رسوخ کی وجہ سے ان کے فکرو عمل میں دوئی نہ ہوتی تھی۔ اسلامی عقیدے کی تعبیر ہی ان کی زندگی کے راستے متعین کرتی تھی۔ یہی مسلم اجتماعیت کا بھی مقصد وحید تھا۔ ہر باشعور مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ وہ حقائق کو کھنگالے اور اُن کو اسلامی قالب میں ڈھالے۔ علوم تمام تر معاشروں سے متعلق تھے۔ چنانچہ وہی فقیہ بھی ہوتا تھا، مجتہد بھی، قاری بھی، محدث بھی، استاد بھی، متکلم بھی، سیاسی قائد بھی، فوجی سپہ سالار بھی، کسان بھی، تاجر بھی اور پیشہ ور بھی۔ اگر کوئی کسی ایک پہلو سے کمزور بھی ہوتا تو اس کے چاروں طرف متعدد افراد ایسے موجود ہوتے تھے جو اس کمی کو آناً فاناً پورا کر دیتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ہر شخص حتی المقدور سب کچھ کر گزرنے کو تیار رہتا تھا۔ اس بامقصد اتحاد میں کوئی اپنے کو کمزور محسوس نہیں کرتا تھا۔ مسلمان آپس میں اس قدر متحد اور یکجان تھے کہ ان کی انفرادی کمزوریاں، اجتماعی خصوصیات، صلاحیتوں اور تجربوں سے دبی رہتی تھیں۔ اسلام کے نورِ بصیرت سے کائنات کو دیکھنا اور دیگر حقائق کا انکشاف اسی ہی روشنی میں کرنا اسلامی فکر کا ہدف تھا۔ فکر اور عمل کی اس یگانگت نے معاشروں کی تشکیل میں اپنا کردار خوب ادا کیا۔ اس نے اپنی ساری توجہ کو حقیقت کے ادراک اور معاشرے کی فلاح و بہبود پر پوری طرح مرکوز رکھا۔ مسلم مفکرین عوام کی صحت، خوشحالی ، ترقی اور پاکیزگی کو ہوائی قلعے تعمیر کرنے اور خیالی پلاؤ پکانے پر ترجیح دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دور میں مابعد الطبیعیاتی مسائل اور تصوفاتی فکر کو کوئی پزیرائی نہیں مل سکی۔

اجتماعی زندگی مسلم دانشوروں اور قائدین کی مسلسل فکر کا محور تھی اور عوام کو ان کے خیالات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کے نتائج سے بھی مستفید ہونے کا پورا موقع ملتا تھا۔ امت کے مسائل پر کافی توجہ دی جاتی تھی۔ موقع کی مناسبت، نزاکتوں اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ان کا حل نکالا جاتا تھا۔ نتیجتاً امت مسلمہ ہر اعتبار سے خوشحال اور مطمئن زندگی بسر کرنے لگی۔ کیونکہ اس کام میں امت کے بہترین دماغ مصروف رہتے تھے اور جو حل سوچے جاتے ان پر پوری طرح سے عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ جن دماغوں کی یہ حل پیداوار ہوتے تھے وہی دماغ ان کی تنقید بھی کیا کرتے تھے یا کم از کم تنقید کرنے والوں سے بہت قریب ہوتے تھے۔ علوم اپنی اصل یعنی وحی سے پھوٹتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ یعنی یہی ان کا منبع و ماخذ اور یہی ان کا مقصد حیات تھا۔ وحی سے وابستگی کا مطلب قرآن میں درک حاصل کرنا، اس پر غور و فکر کرنا، اس کو سمجھنا، قرآن جوہر اصلی حاصل کرنا اور بحیثیت مجموعی اسلام کا شعور حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اصول مجرد نہیں بلکہ زندہ معاشروں میں قابل عمل اور ان کی ضرورت تھے۔ ان کا ایسے علمی مباحث سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا جو انسانی زندگی سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں۔

یہ لازم رہا ہے کہ قرنِ اول کے فقہاءیعنی اصحابِ رسول ﷺ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور دیگر فقہاءمسلمانوں کی زندگی کے ہر مسئلہ سے نہ صرف بخوبی واقف ہوتے تھے بلکہ اس پر اپنی حتمی رائے بھی رکھتے تھے۔ یہ درحقیقت مخزنِ علم ہوا کرتے تھے جن کو ہر شعبۂ علم میں کاملیت کی حد تک ادارک تھا۔ یہ حضرات خود بھی عملی انسان تھے جن کے نزدیک اسلام محض قانون نہیں بلکہ نظریۂ حیات، ضابطۂ فکر اور عمل کی وجوہ بھی تھا۔ جس پر ان کے زمانے کے لاکھوں لوگ عمل پیرا تھے اور اس کے اصولوں کو اپنی زندگیوں میں برت بھی رہے تھے۔

اس تہذیب اور مدنیت میں مسلم مدارس کا کردار بھی نہایت قابل تعریف رہا ہے۔ مغرب کی سرایت کردہ مذہب دشمنی یا مذہب بیزاری کے بالکل برعکس یہ مدارس اسلامی بصیرت اور اسلامی مقصدیت سے مکمل سرشار تھے۔ اسلامی وژن نے ان مدارس کو اسلامی کاوش و جستجو کے ہر میدان کا راہنما بنا دیا تھا۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا جذبہ اور لگن محرک بنے اور انسانی شخصیت و کردار اسلامی سانچے میں ڈھلتے چلے گئے۔ جس کے پیدا شدہ نتائج اور کارناموں کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا جزو بنا دیا گیا۔

مدرسہ اسلامی نظم کی پابندی کیا کرتا تھا جس کا یوم العمل نمازِ فجر سے شروع ہو کر نمازِ عشاءپر ختم ہوا کرتا تھا۔ اس کا نظامِ تدریس ہمہ وقتی پروگرام تھا جس میں طلبہ اور اساتذہ ا یک ہی مقصد کے تحت اکٹھے تھے یہ مقصد تھا تخلیق میں سنۃ اللہ کا ادارک۔ تعلیم و تدریس استاد (شیخ) کے غیر متزلزل کردار پر منحصر تھی۔ طالبعلم سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ نہ صرف استاد کی ساری صلاحیتیں اپنے اند جذب کرے بلکہ اس سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرے۔ نصاب کی تکمیل پر شیخ دستار بندی کی تقریب میں اپنے شاگردوں کو سند امامت عطا کرتا تھا جو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ شاگرد کی بات بھی اب اتنی ہی مستند ہے جتنی استاد کی۔ اس کے علاوہ ایسے طلبہ اساتذہ کی نمائندگی کے بھی اہل سمجھے جاتے تھے۔ تعلیمی معیار اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتا تھا اس لئے کہ استاد کی عزت و توقیر کا معاملہ بہت سنجیدہ اور اہم تصور کیا جاتا تھا۔

تعلیمی میدان میں یہ نمایاں عظمت اسی سبب سے حاصل ہو سکی کہ نظمِ تعلیم کا دارومدار اسلامی فکر پر تھا جس کا لازمی تقاضا عزمِ صمیم کے ساتھ رضائے الہٰی کی خاطر حقیقت کی تلاش کرنا ہے ۔

حقائق سے نکل کر جب یہ علوم محض فکری تسکین اور علمی تفوق کے لیے استعمال کیے جانے لگے تو مسلم معاشرے ان ثمرات سے محروم ہوتے چلے گئے جو دورِ اول میں ان کو حاصل تھے ۔ فقہی موشگافیاں اور علمی پیچیدگیاں بڑھتی چلی گئیں اور اس عمل میں یونانی منطق نے صورتحال کو اور گمبھیر کر دیا ۔ علمی گفتگو کا معیار یونانی منطق کے اصول ٹھہرے ۔ پہلے پہل تو غیر مسلموں پر اسلامی اصول واضح کرنے کے لیے اس کا سہارا لیا جاتا رہا لیکن رفتہ رفتہ یہ بڑھ کر اس خاص رویے کی طرف چلے گئے جہاں تعقل پسندی کے زیر اثر وحی اور عقل کی خوفناک تفریق نے جنم لیا۔ منطق کے متاثرین نے ایک زاویے سے وحی اور عقل کی تفریق کو تسلیم کیا تو اہل تصوف نے دوسری جانب سے وحی اور عقل کو متصادم مانا اور یوں الہام اور عقل میں تفریق مسلم ہوتی چلی گئی ۔ دورِ زوال میں یہی طریق فکر علمی اور دانشورانہ مباحث میں حاوی رہا ، خصوصاً تصوف کے زیر اثر تو یہ ایک متعینہ اصول بن گیا کیونکہ تصوف مکمل طور پر وجدانی اور بعض اوقات پر اسرار یا منفی طریق فکر کی وکالت کرتا تھا ۔ یہی طرزِ فکر آگے چلتے ہوئے موجود اسلامی نظریہ تعلیم کی بنیاد بنا ۔ روایت پرست علماءکو الہام اور تعقل کے بعد میں سرے سے کوئی قباحت نظر ہی نہ آئی ۔

عقل پسندی اور عقل پرستی میں فرق ہے ۔ عقل بنیادی انسانی وصف ہے جو اس کو خیر وشر ، غلط اور صحیح میں تمیز اور شعور بخشتی ہے ۔ جو مذاہب اور افکار انسانی دانش پر اعتماد نہیں کرتے ، ان کا مقصود شاید یہ ہوتا ہے کہ معاشرے اور افراد ان کی خلافِ عقل اور بیہودہ باتوں پر بغیر کسی تحقیق کے بلا چون وچراں ایمان لے آئیں ۔ جبکہ اسلام اس کے برخلاف قدم قدم پر ہر معاملہ کو عقل کی میزان پر پرکھنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اور قرین عقل درمیانی راستہ اختیار کرنے پر اکساتا ہے ۔ اسلام کی دعوت سراسر تنقیدی اور عقلی ہے ۔ اسلام باطل نظریات کے ساتھ دلائل و براہین سے بات کرتا ہے ۔ اور اپنی دعوت کی صداقت پر بھی دلائل پیش کرتا ہے ، وہ صرف اسی پر نہیں اکتفا کرتا بلکہ ایک چیلنج سامنے لاتا ہے جو دعوتِ توحید ، رسالت اور قیامت پر اس کے برخلاف فکر وعمل کا راستہ اپنانے والوں کے لیے ہے ۔ اس سلسلے کے واضح احکامات اور دلائل قرآنِ مجید میں جا بجا ملتے ہیں ۔

حقیقت یہی ہے کہ وحی اور الہام کے حقائق عقل کے بغیر سمجھے ہی نہیں جاسکتے ۔ عقل کے استعمال اور تنقیدی شعور کے بغیر اصل الہامی حقائق کی شناخت اور تعین ممکن نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس میں شامل رطب و یابس علیحدہ کر دیا جائے ۔ اسلامی علوم کا حقیقی ہونا اور اس کے بعد ان کی تفہیم کرنا عقل کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں ۔ مسلمانوں کے عقل کی بجائے محض وجدان کو اہمیت دینے کے سبب بھی اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں میں فتور واقع ہوا اور خرافات و اوہام کا دروازہ کھل گیا ۔ بالکل اسی طور عقل پر حد سے زیادہ انحصار اور وجدان کو یکسر نظر انداز کرنا بھی خطرناک رجحانات کو جنم دیتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ساری تگ و دو صرف مادہ پرستی ، افادیت پرستی ، تکنیک پرستی اور لامعنویت کی نظر ہو جاتی ہے ۔ ضرورت ان امور میں آسمانی ہدایت کی اہمیت اور تفوق کو تسلیم کرتے ہوئے عقل و وجدان اور فکر و عمل میں ایک متوازن اور درست جادۂ اعتدال کی ہے ۔ اس کی مثالیں ہمیں قرونِ اولیٰ میں مسلمان معاشروں اور اہل فکر کے ہاں جابجا نظر آتی ہیں۔ آج بھی امت کے اہل دانش اور اثر انداز ہونے والے طبقات کو اس سلسلے میں مسلسل کاوشیں جاری رکھنے اور خاص طور پر تربیتی امور میں امت کو اس خاص سانچے میں ڈھالتے رہنے کی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

مسائل کے حل کے لیے ایسی تمام غیر فکری تفریقات کو تعلیمی نظام سے دور کرنا ہو گا اور صراطِ مستقیم حاصل کرنا ہو گا جس کا واحد ماخذ اسلامی نظریہ ہے جو انسانی سرگرمیوں اور رجحانات کو یکسو کر دیتا ہے اور اسلام کو ایک زندہ حقیقت بنانے کے عمل کی سمت جستجو بھی پیدا کرتا ہے ۔ یہی سیدھا مضبوط اور مستحکم راستہ ہے ۔

دورِ زوال میں یہ صراطِ مستقیم بھی دو شاخوں میں بٹ گیا ۔ ایک دنیاوی راستہ کہلایا اور دوسرا خدائی یا نیکی کا راستہ ۔ اسلامی نظامِ زندگی کے ان دو متضاد بلکہ منقسم راستوں میں تقسیم ہو جانے کے سبب مسلمانوں کے دونوں راستے تباہ و برباد ہوئے ۔ یعنی وہ پسندیدہ راستہ بھی جو تمام مذہبی اوراخلاقی اقدار سے مل کر بنا تھا اور وہ دوسرا مذموم اور قابل نفرین راستہ بھی جو دنیا اور اس کی اقدار کا راستہ تھا ۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں امت اپنی راہیں گنوا بیٹھی ۔ اول الذکر عیسائی اور بدھ رہبانیت کے نمونہ کے طور پر محض روحانی ڈھکوسلہ بن کر رہ گئی ۔ اس لیے کہ جو روحانیت اجتماعی بہتری اور مفادِ عامہ سے کوئی سروکار نہ رکھے ، جو دنیا کی بھیڑ بھاڑمیں انصاف کرانے کو نہ پہنچے ، وہ شخصی واردات کا درجہ تو رکھ سکتی ہے ، جس کا فائدہ محض عامل کو ہو ، مگر اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ ایسی روحانیت خالصتاً انانیت پرست ہوتی ہے ، خواہ وہ بے غرض رفاہِ عامہ کا نعرہ ہی کیوں نہ بلند کرتی ہو ۔ معاشرہ اور رفاہِ عامہ جیسی چیزیں ان کے نزدیک امتحانِ نفس ، تطہیر نفس اور تکریم نفس کے ذرائع و وسائل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہاں روحانیت باطنی عرفان اور مابعد الطبیعاتی تجربات میں گھر گئی اور توہمات و کشف و کرامات کا شکار ہو گئی ۔

صوفی طریقہ کے بانیوں اور اس نظام کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے والے دانشوروں نے ہرگز نہیں سوچا ہو گا کہ ان کا ٹولہ صراطِ مستقیم سے اس قدر دور نکل جائے گا کہ عملاً اپنا ایک الگ اخلاقی نظام اور مقصد بھی وضع کر لے گا جس کا رخ اسلام کی بالکل مخالف سمت میں ہو گا ۔

دوسری جانب دنیاوی طریقہ نے اپنا الگ غیر اخلاقی نظام قائم کر لیا کیونکہ یہ ان اخلاقی اقدار سے خود کو آزاد سمجھتا تھا جن کو ان معاشروں میں محض دین داروں سے وابستہ سمجھا جاتا تھا ۔ بادشاہوں اور سلاطین کو ایسے خوشہ چین اور حامی مل گئے جو ان کی خوشنودی اور مفاد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے ۔ اگرچہ اہل حق کا ایک طبقہ اس سارے عمل میں عزیمت و استقامت دکھاتا رہا لیکن وہ معاشروں کو اس فرق سے باہر نہ لا سکا ۔ اخلاقی حدود قیود سے آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ نظام زوا ل پذیر ہو گیا اور ہر کس و ناکس اس نظام پر باآسانی قابض ہونے لگ گیا ۔

حکومت ، سیاسی قیادتیں یا انتظامی دفاتر اور شخصی شان وشوکت ، اقتدار کے غیر منصفانہ اور ناجائز استعمال کا ذریعہ بن گئے ۔ ان کا مقصد لوگوں سے اخلاقی اور مادی فوائد کا حصول رہ گیا تھا۔ لہذا ماضی قریب میں جب استعماری قوتوں نے مسلمان ریاستوں پر حملہ کیا اور امراءو سلاطین کی زمینیں جاگیریں غصب کر لیں تو عوام نے برائے نام اس امر کی مخالفت کی ۔ عوام اور ریاستی و مذہبی قائدین کے درمیان اس پیدا ہونے والے خلا نے بھی زوالِ امت کے مراحل میں عوام کی عدم دلچسپی اور لاتعلقی کو بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا اور اسی تفریق نے تعلیم کے میدان میں بھی اپنے اثرات مرتب کیے ۔

ان تمام تفریقات جو بعض عوامل کا ناگزیر لازمہ بھی تھیں اور بعض صورتوں میں دشمنوں کی چالوں کا شکار ہونے کا نتیجہ کئی صدیوں سے جاری امت کا ڈھلان کا سفر یکدم نشیب پر منتج ہوا۔ عملی اور تہذیبی برتری کے اختتام کے ساتھ ہی سیاسی اقتدار بھی رخصت ہوا۔

معاندین اسلام اس وقت پوری کوشش میں ہیں کہ اس امت کا اپنے سلف سے علمی، فکری و عملی رابطہ بحال نہ ہو سکے، عقائد اور افکار سے اجنبیت برقرار رہے۔ معاشرے اس ڈھب کو پا ہی نہ سکیں جس کی وجہ سے یہ امت اپنی عظمت گم گشتہ کو جان سکے۔ تھکے ہوؤں کو بے جان کر دینے کی کوششیں پوری سرگرمی اور تن دہی سے جاری ہیں۔

اب مطلوب ہے مسائل کا حقیقت پسندانہ ادراک اور اس کے حل کی عملی پیش رفت جس کیلئے امت کے تمام طبقات کو اپنی مساعی منضبط اور بھر پور طریقے سے بروئے کار لانا ہوگی۔ نظام زندگی کو بدلنے کی ایک بڑی جہت نظام تعلیم ہی ہے۔ نظام تعلیم کی نظری جہتوں میں تبدیلی کا مختصر لائحۂ عمل درج ذیل ہے:

۱) نظامِ تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنا یعنی عقیدۂ توحید کو پورے پھیلاؤ اور عملیت کے ساتھ اس نظام کی روح بنانا۔

۲) اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنا یعنی معاشروں کو اسلامی خیرخواہی، فلاح اور کامرانی کی منازل طے کروانا اور اس ذریعے سے آخرت کی حقیقی کامیابی حاصل کرنا۔

عمل کے میدان میں فرد اور معاشرہ کو دو چیزیں مطلوب ہیں: موٹی ویشن اور جستجو۔

موٹی ویشن سے ہماری مراد وہ قوتِ تحرک ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلام مقاصد کی طرف بڑھنے اور انہیں حاصل کیلئے پیدا کرتا ہے۔

مغربی فکر وفلسفہ ما بعد الطبیعیاتی نصب العین سے انکار کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو محض اسی دنیا تک محدود رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی کل مساعی اسی سمت میں رہتی ہے۔ یہ مقاصد ان کے دانشوروں نے عامۃ الناس میں خوب خوب راسخ کئے ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں کے درمیان مغربی یونیورسٹیوں نے فلسفۂ قومیت کو مہمیز دی۔ اس لئے کہ رومانویت نے عیسائیت کے بے دخل خدا کی جگہ قوم“ کو حقیقت عظمیٰ کی جگہ لا بٹھایا۔ اس ذیل میں معاشروں کی تربیت کا خاص طور سے بندوبست کیا گیا۔ انسانی آزادی ان کے ہاں سب سے بڑی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ تیسری دنیا کے عوام اور مسلمان امت کیلئے ان کی اصطلاحات کے معانی کیسے بدلتے ہیں۔

اپنے معاشروں کے بنیادی مسائل بظاہر انہوں نے کافی حد تک حل کر دیے ہیں۔ صحت اور صفائی، تعلیم اور انصاف کی صورتحال مسلم معاشروں سے بدرجہا بہتر ہے۔ حاصل شدہ علمی تفوق اور اس میں مزید آگے بڑھنا اور اس کی بنیا د پر ذاتی زندگی میں خوشحالی لانا ان کے تعلیمی نظام کا بنیادی محرک ہے۔ مسلمان ملکوں میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آزادی تو درکنار، بنیادی انسانی حقوق نام کی کسی چیز سے عملاً ہم واقف نہیں۔ کیونکہ آئین میں درج ہونے کے باوجود یہ پاکستان کی کل عمر کا بیشتر عرصہ معطل رہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم اپنے نتائج کے اعتبار سے اکثریت کیلئے کوئی موٹی ویشن نہیں رکھتا۔ سرکاری اور دوسرے تیسرے درجے کے غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طالبعلم اول تو مہنگائی اور محدود وسائل کے باعث اعلیٰ تعلیمی مراحل طے ہی نہیں کر پاتے اور جو بدقسمت کسی نہ کسی طور یہ جوئے شیر نکال بھی لیں تو مقدر تیشۂ فرہاد سے سر پھوڑنا ہی ٹھہرتا ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ اکثر تعلیمی سالوں کے ضیاع کے بعد سروں سفیدی لئے جب یہ طالبعلم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو دم توڑتی صنعتی صورتحال اور میرٹ کی عدم موجودگی ان کو زندگی کی گاڑی کا گدھا ہی بنائے رکھتی ہے۔

دوسری چیز جس کی کمی ہمارے نظام ہائے زندگی بالخصوص نظامِ تعلیم میں ہے، وہ زندگی کی بے مقصدیت کے نتیجے میں جستجو کا فقدان ہے۔ جستجو کے بغیر علم کا حصول ممکن ہی نہیں۔ جستجو ایک ایسی شیءہے جو نہ کسی سے مستعار لی جا سکتی اور نہ ا س کی نقل کی جا سکتی ہے۔

کامل ابتری اور بے مقصدیت کاشکار معاشرے جہالت، کاہلی اور لا تعلقی کا شکار عوام الناس اس پر مستزاد افادیت پرست اور سطحیت کی حامل مسلم دنیا کی تعلیمی قیادتیں؛ اپنے حالات کا نہ تو پوری طر ح ادراک رکھتی ہیں اور نہ ہی اس کو بدلنے کی جستجو۔

کسی مسلم یونیورسٹی کے استاد کی اعلیٰ ترین مثال کو لیجئے یعنی ایسا پروفیسر جس نے کسی مغربی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہو۔ چونکہ اس کے مقصدِ تعلیم کا محرکِ اول اسلام نہیں تھا اس لئے اس نے وہ کچھ نہیں سیکھا جو کہ وہ سیکھ سکتا تھا۔ وہ اس مقصد کو لے کر روانہ ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اللہ کی رضا کیلئے تعلیم حاصل کرے گا۔ اس کا مقصد مادی تھا یا ذاتی تھا یا زیادہ سے زیادہ قومی۔ اس لئے وہ اپنے مطلب کی چیز حاصل کر کے آگیا۔ نہ تو اس نے اپنے مغربی اساتذہ کو اپنی صلاحیتوں اور علم میں اضافہ کر کے مات دینے کی کوشش کی، نہ ہی اپنے اسلاف کی طرح ان علوم میں دسترس حاصل کر کے ان علوم کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی کہ وہ اس علم کو اسلامی علم و صداقت کی روشنی میں صحیح رخ دینے کی فکر کرتا۔ اس کی آرزوؤں کی معراج بس سند کا حصول اور وہاں کی شہریت تھی۔ یا وطن واپس آ کر شہرت اور پیسے کے اعتبار سے اچھا مقام حاصل کر لینا۔ اس کے علم کی آخری رسائی صرف وہ درسی کتب ہیں جو اس کو عرصۂ طالبعلمی میں پڑھنا پڑیں۔ اس اب نہ اس کے پاس وقت ہے نہ قوت نہ تحریک کہ وہ اپنے علم کی حدود کو وسیع کرنے کی زحمت میں مبتلا ہو۔ نہ ایسی کوئی شمع فروزاں کرنے کی جستجو وہ اپنے طالبعلموں کیلئے رکھتا ہے۔ نتیجتاً اس کے طالبعلم اس سے بھی زیادہ کم ہمت اور زیادہ ناکارہ ہوتے چلے گئے۔ ان کیلئے تو مغربی معیارات ہی رسائی کی حد سے پرے ہو جاتے ہیں۔ گرتے ہوئے معیارات کے ساتھ موٹی ویشن اور جستجو کے بغیر مغربی تعلیم کا تجربہ بھی مغربی نمونہ کی محض بھدی نقالی سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔

مسلم درسگاہوں میں پڑھایا جانے والا مواد اور طریق تعلیم مغربی مواد اور طریقوں کی نقل ہے جو اس تخیل اور بصیرت سے عاری ہے جو مغربی دنیا میں موجود تھا۔ تخیل اور بصیرت کے فقدان کے سبب یہ چیزیں دوسرے درجہ کی پیداوار کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عالمی مذاہب یعنی مغربیت اور اشتراکیت نے دنیا کو یونہی نہیں اسیر کیا۔ ان کے نظریات ایسے ہی دنیا میں نہیں پھیل گئے بلکہ معاشروں میں ان کی قبولیت کی وجہ معاشروں کیلئے ان کے مخصوص پیغامات تھے جن میں معاشروں اور افراد کو اپنے لئے بہتر زندگی کا حصول ممکن نظر آتا تھا۔ اپنے ان نظریات کے پھیلاؤ کیلئے انہوں نے ابلاغ کا ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ ان نظریات سے وابستہ افراد کیلئے قوتِ محرکہ ان کے مقاصد کی روح تھی جس نے ان نظریات کے حاملین کے دماغوں کو مشتعل کر رکھا تھا۔ نظریے سے وابستگی کا مطلب اس نظریے کی تمام جہتوں سے بھرپور واقفیت اور اعتماد ہے پھر جن چیزوں کو مقاصد قرار دیا جاتا ان کے حصول میں ان نظریات کا افادہ اس پر ان کے تیقن کو اور مضبوط کرتا اور ہوتا یہ ہے کہ یہ پختگی بالآخر ان کی زندگیوں میں سرایت کرتی ہے اور وہ عملی زندگی میں اپنے نظریات کا مصداق بنتے ہیں۔ فطرت کے اصولوں کی روشنی میں مسلمانوں کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی مقصد کا تابع کرلیں وگرنہ تاریخ کا بابِ عبرت بننے سے انہیں کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اسلام دوسرے نظریات یا تحریکوں کی طرح کا نظریہ یا تحریک نہیں ہے ۔

نہ ہی اسلام اپنے آپ کو کسی خود ساختہ نظریے یا آزمائے ہوئے عقیدے کے طور پر پیش کرتا ہے ، جس کو اپنی مرضی سے اختیار یا ترک کیا جاسکے ۔ اساسی طور پر اس میں کسی نوع کی تحریف یا تبدیلی بھی ممکن نہیں ۔ اسلامی دعوت عقلی ، لازمی اورتنقیدی ہے جس کی بنیاد آفاقی صداقت پر ہے ۔ یہ اس کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے انسانوں کے لیے بھلائی اور خیر کا واحد سرچشمہ ہے ۔ یہ ایک ایسی دعوت ہے جسے انسانیت کو سمجھنا ، اس کی حقیقت کو سمجھنا اور اس سے کامل اتفاق کرنا چاہیے ۔ عقلی دعوت ہونے کے سبب اسلام کے مخالفین اس کو دلائل ہی بنیاد پر چیلنج کر سکتے ہیں ۔

ان مخالفانہ دلائل کا مسلمانوں کو خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے اور عقلی استدلال کی بنیاد پر ہی ان کا جواب دینا چاہیے ۔ اگرچہ اسلامی دعوت کے کسی جزو کو اور کسی بھی شعبۂ تعلیم سے اسلام کے تعلق کو قائل کن سند کے بغیر ہرگز قبول نہیں کیا جانا چاہیے ۔ یوں جب ایک مرتبہ اسلام اپنی دعوت کو دلائل اور استدلال کی بنیاد پر ثابت کر دے گا تب کسی کے لیے اس کی مخالفت کرنا یا رد کرنا ممکن نہیں رہے گا ۔ الا یہ کہ وہ عقل سے عاری یا کینہ سے پر ہو ۔ پہلی قسم کے لوگ ناواقفیت کا شکار ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے خوامخواہ کے بغض کا ۔ ان دونوں اقسام کو اسلام جاہلیت سے تعبیر کرتا ہے ۔

ضروری ہے کہ اسلامی علم کے تمام ورثہ کو جدید دور کی ضرورتوں کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دی جائے ۔ اس کی عملیت کو بغیر کسی ابہام کے واضح کیا جائے ۔ زندگی سے اس کے تعلق کو قرونِ اولیٰ کی طرح دوبارہ جوڑا جائے ۔ جدید علوم اور اسلامی علوم کی تفریق ختم کی جائے البتہ ان علوم میں جاری فکر و فلسفہ کا بگاڑ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دور کیاجائے ۔ اسلامی مقاصد کو ان میں جاری و ساری کیا جائے۔ جدید علوم کی مقصدیت کو حقائق سے ہم آہنگ کرتے ہوئے انھیں زیادہ سے زیادہ انسانوں کی فلاح اور دنیا میں موجود بے سکونی اور ابتری کے حل کی طرف لایا جائے ۔

تعلیم کے اسلامی اجزائے ترکیبی یعنی وحدت حقیقت ، وحدت علم ، وحدت انسانیت ، وحدت حیات(1)وغیرہ سے مغربی علوم کے اجزائے ترکیبی یعنی غیر فطری انسانی آزادی ، تشکیک ، مادیت وغیرہ کو بدل دینا چاہیے ۔ علوم کی حقیقت کے ساتھ ساتھ جستجو کا رخ بھی متعین ہونا چاہیے تا کہ اسلامی تہذیبی اور علمی اقدار کا احیاءہو ۔ علوم اسلامی کی بنیاد پر انسانی معاشروں کی بہبود اور خاص طور پر مسلم معاشروں کی فوز و فلاح اور تربیت کا کام ہونا چاہیے ۔ انسانی قابلیت سے اس کی استعداد کی حد تک فائد ہ اٹھانے کا موقع ملنا چاہیے ۔ سائنسی ترقی اور تخلیق کو اس طرح استعمال کرنا چاہیے کہ زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوتی ہوئی معلوم ہو ۔ تہذیب و ثقافت روبہ ترقی ہوں ۔ انسانی علم ، عقل ، بہادری ، نیکی ، پاکیزگی اور تقدس کے مزید نادر نمونے سامنے آئیں ۔ دنیا ایک بار پھر ان فوائد سے بہرہ ور ہو جس کی ایک جھلک خلافت راشدہ کے دور میں انسانیت دیکھ چکی ہے ۔

 

(1) توحید سے ہماری مراد کوئی مجرد نظریہ نہیں جو کہ معاشرے سے لاتعلق اور عملیت سے خالی ہو۔ بلکہ یہ ایک حی و قیوم الہ کا ایسا تعارف ہے جو کائنات کا اصل الاصول ہے ۔ تمام علوم اور زندگی کی تمام جہتوں میں اس کا جاری و ساری ہونا ایک ایسی نعمت ہے جس کی برکات ہم خیر القرون میں دیکھ چکے ہیں ۔ جامد مذہبیت اور گمراہ کن تصوف نے توحید کو محض الفاظ کا گورکھ دھندہ بنا دیا ہے ۔

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

اس کی عملی اور علمی اقدار یعنی وحدت خدا ، وحدت تخلیق (وحدت حقیقت) ، وحدت علم وغیرہ پر تفصیل سے گفتگو کسی اور جگہ کریں گے۔ 

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز